Search This Blog

Thursday, 8 November 2012

AURAT KI AZMAT KO TARAZU MEIN NA TOL

عورت کی عظمت کو ترازو میں نہ تول


…..افشاں مراد

کائنات کے حسین رنگوں، کومل جذبوں، مہکتے احساسات کی صلیب کاندھے پر اٹھائے رب ذوالجلال کی ایک ایسی تخلیق جوہر روپ اور ہر رشتے میں اپنا آپ منوالیتی ہے وہ ایک عورت ہی ہے۔
ان نازک جذبات واحساسات کے ساتھ ساتھ آج کی عورت آہنی اعصاب بھی رکھتی ہے۔ آج بدلتے زمانے کے تغیّرات نے ہر کس وناکس کو حیران اور متحیّر کردیا ہے۔ ایسے میں زندگی کے نظم ونسق کو اس کی ترتیب سے چلانا، ایک عورت ہی کے بس کی بات ہے۔ عورت اپنے آہنی اعصاب کے ساتھ (ایک عورت کو ہم آہنی اعصاب کا فائد ہی کہیں گے کیونکہ اپنی پوری زندگی میں عورت اپنے ساتھ جتنے رویے، جتنے رشتے اور جتنے حالات و واقعات سے کامیابی سے گزرتی ہے وہ کم از کم مردوں کے بس کی بات تو نہیں) اپنے گھر بار کو جس طرح سنبھالتی ہے اور اگر وہ ایک ملازمت پیشہ عورت بھی ہے تو پھر تو وہ دوہرے امتحان سے گزر رہی ہوتی ہے۔ جس میں اسے گھر کے ساتھ ساتھ باہر والوں کو بھی برداشت کرنا ہوتا ہے۔
گھر میں اگر وہ اپنے علیحدہ گھر، اپنی راج دھانی کی بلاشرکت غیرے مالک ہے تو پھر بھی اس کی آزمائش میں اتنا تنوع نہیں ہوتا جتنا مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہنے والی خواتین کو گزرنا ہوتا ہے۔ ان سب رشتوں میں توازن رکھنا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے اور پھر ان کے اپنے ساتھ لے کر چلنا بھی ایک فن ہے۔ جو خواتین اپنے حالات ، اپنے رشتوں، اپنے رویوں میں توازن رکھ کر آگے بڑھتی رہتی ہیں وہ کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن جو ہمت ہار بیٹھی ہیں۔ وہ خودکشی، طلاق، خلع یا پاگل پن کی لپیٹ میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ آج مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی نے جہاں مردوں کو متاثر کیا ہے وہیں گھر بیٹھی عورت یا ملازمت پیشہ خواتین بھی اس کے اثر سے بچ نہیں سکیں۔ ان خوفناک عفریتوں سے متاثرہ مرد اپنی ساری جھنجلاہٹ، بیزاری باہر ملی ہوئی توہین اور غصہ، گھر آکر بیوی، بہن، ماں یا بیٹی پر انڈیل دیتا ہے۔ کتنے ہی گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں رہنے والی خواتین گھر والوں کے ناروا سلوک کی بناء پر نفسیاتی عوارض کاشکار ہوجاتی ہیں۔ بے خوابی تو آج کل ویسے ہی عام مرض ہے، بلڈ پریشر، ڈپریشن اور فرسٹریشن یہ سب بھی ان خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے جو بے چاری اپنے مردوں کی ساری ٹینشن اپنے اوپر طاری کرلیتی ہیں۔ ایسی خواتین اپنے گھر کو جنت بنانے کی خاطر ہر دکھ، ہر غم ہنس کر جھیلنے کی خواہش میں خود ادھ موئی جاتی ہیں اور جواب میں بعض اوقات انہیں دو جملے ستائش بھی سننے کو نہیں ملتی۔
آج عورت نے اپنا آپ زندگی کے ہر شعبے میں منوایا ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی شعبہ ہو، آج عورت کی کامیابیاں ان مردوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو عورت کو ناقص العقل کہتے ہیں۔ ان مردوں کے لیے باعث حیرت ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ عورت پیر کی جوتی ہے۔ آج وہی مرد اس پیر کی جوتی کو سر کا تاج بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کا آدھا معاشی بوجھ بانٹ لیتی ہے۔ آج کی عورت ایک ماں ، بہن، بیٹی، بیوی کے ساتھ ساتھ ایک بیوٹیشن، ایک اچھی استاد، ایک اچھی ایڈمنسٹریٹر، ایک اچھی وکیل، ایک اچھی اینکرپرسن وغیرہ بھی ہے۔ اس کی قابلیت میں کسی شک وشعبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آج اگر عورت کے مقام اور عورت کی عظمت پر مردوں سے کوئی بات کی جائے تو ان کے پاس الفاظ ختم ہوجاتے ہیں۔ انہیں یاد رہتا ہے تو اپنا ’’قوّام‘‘ ہونا۔ باقی عورت کی عزت وتکریم اور اسلام میں عورت کے احترام اور مقام پر کیا قرآن وحدیث میں آیا ہے۔ اس بارے میں ہمارے مردوں کو کوئی علم نہیں۔ اور نہ وہ جاننا چاہتے ہیں اور غالباً معاشرے میں بگاڑ کی ایک اہم وجہ بھی یہی ہے۔ یہ لاعلمی ہمارے گھروں کومنتشر کررہی ہے۔ نہ مرد عورت کو عزت واحترام کے لائق سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر والے، اور یہی ذلت عورت کو تباہ وبرباد کردیتی ہے اور ایسے لاعلم مرد جب گھر سے باہر جاتے ہیں تو بھی عورت کو اپنے سے کمتر کی حیثیت سے ہی ڈیل کرتے ہیں جس کی وجہ سے دفتروں کا ماحول بھی کشیدہ ہوجاتا ہے۔
اور ایسے مردوں کے سرپر اگر عورت باس بن جائے تو پھر…؟ ہم اور آپ ایسے لوگوں کی ذہنی کیفیت کو خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر دفتری کاموں میں بھی رکاوٹیں ڈالنا اور رخنہ ڈالنا اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں اور دفتر کا غصہ اور فرسٹریشن گھر آکر بیچاری بیوی پر نکالتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ آج اگر عورت اپنا گھر بنانے میں اپنا تن، من، دھن وار رہی ہے تو اس کی قدر کریں اور اس کوا پنی محبت سے جیتنے کی کوشش کریں نہ کہ اس کو قربانیاں دیتا دیکھ کر اس کو اور رگڑ ڈالیں۔ عورت کا ضمیر محبت سے گندھا ہے، اسے محبت ہی تسخیر کرتی ہے، ظلم، زیادتی، جبر، تشدد، عورت کو توڑ ضرور دیتا ہے اسے جھکا نہیں سکتا اور پھر اسے جب موقع ملتا ہے وہ ایسی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن محض محبت کے چند لمحے یا محبت سے کی گئی چھوٹی سی ستائش پر یہ پگلی اپنا آپ لٹانے پر تیار ہوجاتی ہے۔ گھر میں یا گھر سے باہر عورت کو دی گئی تھوڑی سی عزت، گھر اور معاشرے دونوں کو بہتر بنا سکتی ہے۔
یہ عورت ہی ہے جو ماں بن کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بیٹی بن کر خاندان کی عزت کا بوجھ اپنے نازک کندھے پر سہارتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بہن بن کر اپنے بھائیوں کے لیے مجسم دعا بن جاتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بیوی بن کر اپنے سائبان ، اپنے سرتاج، اپنے شوہر کی بہترین رفیق کار بن جاتی ہے۔ اس کی ہر مشکل، ہر پریشانی میں اس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوتی ہے۔
اس لیے عورت کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پیار، محبت اور عزت کے ہتھیار سے تسخیر کرنے کی کوشش کی جائے، محض، ذلت، رسوائی اور غلامی کا طوق اسے باغی کردیتا ہے اور عورت کی بغاوت معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا کرتی ہے جس کا خمیازہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment