اقبال اور دورِ ابلیسیت
اس دور ابلیسیت کے مظاہر میں سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ ابلیس نے پورے کرئہ ارض پر فرعونیت کو ایک نظام کی صورت میں غالب کردیا ہے۔ پہلے ابلیس عام طور پر افراد کو شکار کیا کرتا تھا ، لیکن اب چونکہ اجتماعیت کا دور ہے لہٰذا اجتماعی اعتبار سے ابلیس نے یہ غلبہ ’نیو ورلڈ آرڈر ‘ کی صورت میں حاصل کرلیا ہے جس کا نعرہ آج امریکا نے لگایا ہے جو ’سول سپریم پاور آن ارتھ ‘‘ ہے ۔اصل کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ نیو ورلڈ آرڈر، جیو ورلڈ آرڈر ہے۔ لیکن درحقیقت یہ سب سے بڑا ابلیسی نعرہ ہے ۔اللہ کے خلاف سب سے بڑی بغاوت ہے ۔نیوورلڈ آرڈر دراصل فرعونیت اور قارونیت کا مجموعہ ہے ۔یہ بدترین استحصالی نظام ہے۔ ایسے نظام میں ایک عام انسان کا اللہ کی توحید اور اللہ کی بندگی پر قائم رہ جانا انتہائی مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ اسی کا نام دجالیت ہے۔احادیث کی رو سے دجالی فتنے کے دور میں کسی شخص کا ایمان پر قائم رہنا اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا اپنی ہتھیلی پر انگارے رکھ کر اسے برداشت کرنا ۔ دوسرا کام جو ابلیس نے اس دور میں کیا ہے اور جس سے اس کی بالادستی ثابت ہوئی ہے ، وہ انسان کو شرف انسانیت سے محروم کرنا ہے۔ ان کے لیے اس دو طریقے اختیار کیے ہیں۔ایک سود، دوسرا مادر پدر آزادی۔سود کی حقیقت کو بھی اقبال نے خوب سمجھا ہے ۔فرماتے ہیں ؎از ربوٰاجان تیرہ دل چوںخشت و سنگ آدمی درندہ بے دندان و چنگ۔ یعنی سودخوری کے نتیجے میں انسان کا باطن تاریک اور اس کا دل اینٹ اور پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے اور سودخور شخص ایک ایسے درندے کی مانند ہے جس کے دانت اور پنجے نہ ہو۔ سود کے ذریعے سے معیشت میں تقسیم دولت کا نظام ایسی غلط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک طرف دولت کا ارتکاز جبکہ دوسری طرف محرومی جنم لیتی ہے۔اس کا سب سے بڑا مظہر آج ہمارا اپنا معاشرہ ہے کہ جس کا ایک بڑا حصہ نہایت تیزی کے ساتھ غربت کی لکیر سے نیچے جارہا ہے۔پاکستان میں رفتہ رفتہ مڈل کلاس ختم ہورہی ہے۔ ایک طرف محرومی بڑھ رہی ہے ، دوسری طرف ارتکاز دولت بڑھ رہا ہے۔ فقر کی ایک انتہا انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے جبکہ ارتکاز دولت کی صورت میں انسان کی حیوانیت اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اشرف المخلوقات کی صفات سے عاری ہوکر درندے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ابلیس نے انسان کو اس کے مقام سے گرانے کے لیے جو دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے ، وہ آزادی کے نام پر فحاشی اور عریانی کا فروغ ہے۔وہ اپنے اصل کام یعنی انسان کے جسم سے لباس اتروانے اور اسے شرم و حیا کے پاکیزہ جذبات سے محروم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج انسان اخلاقیات اور معاشرتی اقدار میں بالکل حیوان کی سطح پر آچکا ہے۔ چنانچہ اس طرح ابلیس نے آدمی کو اعلیٰ اور ارفع مقام سے گراکر اپنی فوقیت کو ثابت کیا ہے۔ ایک اور حقیقت جسے اقبال نے نوٹ کیا تھا وہ یہ کہ اس وقت ابلیس کے سب سے بڑے ایجنٹ اور آلۂ کار یہود ہیں جنہوں نے نہایت شاطرانہ انداز میں بینکنگ کے نظام کے ذریعے پورے یورپ کو اپنے معاشی چنگل میں جکڑ لیا ہے۔ فرماتے ہیں ایں بنوک ،ایں فکر چالاک یہود نور حق از سینۂ آدم ربود
چنانچہ پچھلی صدی کے اوائل ہی میں انہوں نے اس حقیقت کو بے نقاب کردیا تھا
؎ فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے
اور وہ چیز بالکل عیاں ہوکر سامنے آگئی ہے۔اس وقت تو ومشاہدے پر مبنی ایک خیا ل تھا ، لیکن وہ خیال اب واقعتا کھل کرایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ یہود اور ابلیس میں جو چیز قدرمشترک ہے ، اس کو اگر پہچان لیا جائے تو دور ابلیسیت کی اصلیت سمجھ میں آجائے گی۔ابلیس کا اصل مسئلہ کیا تھا؟ جب اسے حضرت آدم ؑ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیاتو اس نے کہا ’’میں اس سے بہتر ہوں ، تونے مجھے آگ سے پیدا کیا جبکہ اسے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘لہٰذامیں برتر ہوں اور اس کو سجدہ نہیں کرسکتا ۔اس تکبر کی بنا پر پر وہ اپنے مقام سے گرا اور مردود اور ملعون قرار پایا۔ اس کے سینے میں آدم ؑ کے خلاف حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی ۔تبھی اس نے کہا کہ میں انسانوں کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔جہنم میں خود تو جائوں گا ہی، اس کو انسانوں سے بھروں گا۔ یہ اس کا چیلنج تھا کہ انہیں بھی
ساتھ لے کر جائوں گا کہ جن کی وجہ سے میں اس مقام سے محروم کردیا گیا ہوں ؎ قصۂ آدم کو رنگیں کرگیا کس کا لہو۔ ’’جبرئیل و ابلیس‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مکالمے کے انداز میں اقبال نے بڑی خوبصورتی سے اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ ابلیس کے نزدیک جنت سے اسے نکالے جانے کا ذمہ دار آدم ہے لہٰذا اس کے خلاف ایک حسد اور جو ش انتقام ابلیس کے دل میں موجود ہے۔ بعینہٖ یہی مسئلہ یہود کا بھی ہے۔ آنحضور ﷺ کی بعثت کے بعد وہ بھی اسی قسم کی آزمائش سے دوچار ہوئے جس سے شیطان یا عزازیل حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کے حکم پر ہوا تھا۔ یہود نے آنحضرت ﷺ کو اچھی طرح پہچاننے اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہی وہ آخری نبی ہیں جن کے بارے میں پیشنگوئیاں ان کی الہامی کتابوں میں موجود ہیں، آنحضور ﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا مسئلہ بھی عصبیت ، تکبر اور نسلی برتری کا تھا۔ بنی اسرائیل کا کہنا تھا کہ جب گزشتہ دو ہزار سال کے دوران تمام انبیا ء و رسل ہمارے قبیلے اور اور ہماری نسل سے مبعوث ہوئے ،تمام آسمانی کتابوں کا نزول ہمارے ہاں ہوا تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آخری نبی کو مان کر بنو اسماعیل کی برتری کو تسلیم کرلیں۔ چنانچہ ان کا تکبر سد راہ بنا۔ پھر جب وہ ملعون قرار دیے گئے ، مغضوب علیہم قرار پائے اور بنو اسماعیل اس عظیم منصب پر فائز کردیے گئے جو اس سے قبل یہود کو حاصل تھا توحسد کی آگ ان کے سینوں میں بھڑک اٹھی۔مسلمانوں کے خلاف یہ آگ آج بھی دہک رہی ہے۔ چنانچہ جو آخری معرکہ ہے وہ اقبال کے نزدیک بھی اصل میں اسلام اور ابلیسیت کے مابین ہو گا۔ اس وقت پورے روئے ارضی پر ابلیس کے سب سے بڑے ایجنٹ یہود ہیں ۔اس امر میں کوئی شک نہیں ۔نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ اسی سلسے کی ایک کڑی ہے۔ آج امریکا پوری طرح یہودکی گرفت اور ان کے شکنجے میں ہے۔ اس طرح پوری دنیا میں سودی نظام کو بھی یہود نے رائج کیا ۔ مغرب میں فحاشی اور عریانی کے فروغ میں بھی یہود کا ہاتھ ہے۔ شیطان کے اصل ایجنٹ اس وقت یہی ہیں اور قیامت سے قبل حق وباطل کا جو آخری معرکہ ہونا ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویٰ سے شرار بولہبی
اس میں مسلمانوں کے مقابلے میں یہود اور ان کے وہ حلیف شریک ہوں گے جن کی رگ جان ان کے پنجے میں ہے ۔ وہ تمام قوتیں ایک طرف ہوںگی جبکہ دوسری طرف صرف مسلمان ہوں گے۔ اس آخری معرکہ کا وقت یقیناََبہت قریب ہے۔ اقبال نے اسے معرکہ روح وبدن قرار دیا ہے۔ اس آخری معرکے کے حوالے سے اقبال نے اُمت کو بہت امید افزا پیغام دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف ترجمان القرآن ہی بلکہ ترجمان حدیث بھی تھے ۔صحیح احادیث میں یہ واضح پیشن گوئی ہے کہ قیامت سے قبل آخری فتح اسلام کی ہو گی اور یہ دین پورے کرہ ارض پر اسی شان سے قائم وغالب ہو گا جیسے آنحضور ؐ کے دور میں جزیرہ نمائے عرب پر قائم تھا۔ چنانچہ ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ واقعتاََ اس اعتبار سے پڑھنے کے لائق ہے کہ اس کے ذریعے موجودہ دور کے اصل مسائل اور فتنہ انگیزیاں بھی نمایاں ہوتی ہیں اور اسلام کا اصل پیغام بھی سامنے آتا ہے۔ آج کے صوفی وملا کی غالب اکثریت اسلام کی روح اور اصل حقیقت سے بہت دور ہے۔ اصل اسلام جس سے ابلیس کو خطرہ ہے وہ اقبال نے اسی کی زبان سے کہلوایا ہے۔ ؎
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِآرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فینہ فردا نہیں اسلام ہے
یعنی ابلیس کے نزدیک اصل فتنہ وہ اشتراکیت نہیں جس کا اس دور میں بڑا چرچا تھابلکہ اسے حقیقی اندیشہ اسلام سے ہے۔
عصرِحاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکار ا شرعِ پیغمبر کہیں
شرعِ پیغمبر کی جو تفصیل اقبال نے’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بیان کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین کا صحیح اور اسیع تر فکر علامہ اقبال پر کس درجے منکشف تھا۔ چنانچہ اس پہلو سے ان کا آخری پیغام یہ ہے کہ فیصلہ کن غلبہ بالآخر ابلیس کو نہیں بلکہ حق کی قوتوں ہی کو ہو گا۔ ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
چنانچہ پچھلی صدی کے اوائل ہی میں انہوں نے اس حقیقت کو بے نقاب کردیا تھا
؎ فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے
اور وہ چیز بالکل عیاں ہوکر سامنے آگئی ہے۔اس وقت تو ومشاہدے پر مبنی ایک خیا ل تھا ، لیکن وہ خیال اب واقعتا کھل کرایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ یہود اور ابلیس میں جو چیز قدرمشترک ہے ، اس کو اگر پہچان لیا جائے تو دور ابلیسیت کی اصلیت سمجھ میں آجائے گی۔ابلیس کا اصل مسئلہ کیا تھا؟ جب اسے حضرت آدم ؑ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیاتو اس نے کہا ’’میں اس سے بہتر ہوں ، تونے مجھے آگ سے پیدا کیا جبکہ اسے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘لہٰذامیں برتر ہوں اور اس کو سجدہ نہیں کرسکتا ۔اس تکبر کی بنا پر پر وہ اپنے مقام سے گرا اور مردود اور ملعون قرار پایا۔ اس کے سینے میں آدم ؑ کے خلاف حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی ۔تبھی اس نے کہا کہ میں انسانوں کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔جہنم میں خود تو جائوں گا ہی، اس کو انسانوں سے بھروں گا۔ یہ اس کا چیلنج تھا کہ انہیں بھی
ساتھ لے کر جائوں گا کہ جن کی وجہ سے میں اس مقام سے محروم کردیا گیا ہوں ؎ قصۂ آدم کو رنگیں کرگیا کس کا لہو۔ ’’جبرئیل و ابلیس‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مکالمے کے انداز میں اقبال نے بڑی خوبصورتی سے اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ ابلیس کے نزدیک جنت سے اسے نکالے جانے کا ذمہ دار آدم ہے لہٰذا اس کے خلاف ایک حسد اور جو ش انتقام ابلیس کے دل میں موجود ہے۔ بعینہٖ یہی مسئلہ یہود کا بھی ہے۔ آنحضور ﷺ کی بعثت کے بعد وہ بھی اسی قسم کی آزمائش سے دوچار ہوئے جس سے شیطان یا عزازیل حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کے حکم پر ہوا تھا۔ یہود نے آنحضرت ﷺ کو اچھی طرح پہچاننے اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہی وہ آخری نبی ہیں جن کے بارے میں پیشنگوئیاں ان کی الہامی کتابوں میں موجود ہیں، آنحضور ﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا مسئلہ بھی عصبیت ، تکبر اور نسلی برتری کا تھا۔ بنی اسرائیل کا کہنا تھا کہ جب گزشتہ دو ہزار سال کے دوران تمام انبیا ء و رسل ہمارے قبیلے اور اور ہماری نسل سے مبعوث ہوئے ،تمام آسمانی کتابوں کا نزول ہمارے ہاں ہوا تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آخری نبی کو مان کر بنو اسماعیل کی برتری کو تسلیم کرلیں۔ چنانچہ ان کا تکبر سد راہ بنا۔ پھر جب وہ ملعون قرار دیے گئے ، مغضوب علیہم قرار پائے اور بنو اسماعیل اس عظیم منصب پر فائز کردیے گئے جو اس سے قبل یہود کو حاصل تھا توحسد کی آگ ان کے سینوں میں بھڑک اٹھی۔مسلمانوں کے خلاف یہ آگ آج بھی دہک رہی ہے۔ چنانچہ جو آخری معرکہ ہے وہ اقبال کے نزدیک بھی اصل میں اسلام اور ابلیسیت کے مابین ہو گا۔ اس وقت پورے روئے ارضی پر ابلیس کے سب سے بڑے ایجنٹ یہود ہیں ۔اس امر میں کوئی شک نہیں ۔نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ اسی سلسے کی ایک کڑی ہے۔ آج امریکا پوری طرح یہودکی گرفت اور ان کے شکنجے میں ہے۔ اس طرح پوری دنیا میں سودی نظام کو بھی یہود نے رائج کیا ۔ مغرب میں فحاشی اور عریانی کے فروغ میں بھی یہود کا ہاتھ ہے۔ شیطان کے اصل ایجنٹ اس وقت یہی ہیں اور قیامت سے قبل حق وباطل کا جو آخری معرکہ ہونا ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویٰ سے شرار بولہبی
اس میں مسلمانوں کے مقابلے میں یہود اور ان کے وہ حلیف شریک ہوں گے جن کی رگ جان ان کے پنجے میں ہے ۔ وہ تمام قوتیں ایک طرف ہوںگی جبکہ دوسری طرف صرف مسلمان ہوں گے۔ اس آخری معرکہ کا وقت یقیناََبہت قریب ہے۔ اقبال نے اسے معرکہ روح وبدن قرار دیا ہے۔ اس آخری معرکے کے حوالے سے اقبال نے اُمت کو بہت امید افزا پیغام دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف ترجمان القرآن ہی بلکہ ترجمان حدیث بھی تھے ۔صحیح احادیث میں یہ واضح پیشن گوئی ہے کہ قیامت سے قبل آخری فتح اسلام کی ہو گی اور یہ دین پورے کرہ ارض پر اسی شان سے قائم وغالب ہو گا جیسے آنحضور ؐ کے دور میں جزیرہ نمائے عرب پر قائم تھا۔ چنانچہ ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ واقعتاََ اس اعتبار سے پڑھنے کے لائق ہے کہ اس کے ذریعے موجودہ دور کے اصل مسائل اور فتنہ انگیزیاں بھی نمایاں ہوتی ہیں اور اسلام کا اصل پیغام بھی سامنے آتا ہے۔ آج کے صوفی وملا کی غالب اکثریت اسلام کی روح اور اصل حقیقت سے بہت دور ہے۔ اصل اسلام جس سے ابلیس کو خطرہ ہے وہ اقبال نے اسی کی زبان سے کہلوایا ہے۔ ؎
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِآرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فینہ فردا نہیں اسلام ہے
یعنی ابلیس کے نزدیک اصل فتنہ وہ اشتراکیت نہیں جس کا اس دور میں بڑا چرچا تھابلکہ اسے حقیقی اندیشہ اسلام سے ہے۔
عصرِحاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکار ا شرعِ پیغمبر کہیں
شرعِ پیغمبر کی جو تفصیل اقبال نے’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بیان کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین کا صحیح اور اسیع تر فکر علامہ اقبال پر کس درجے منکشف تھا۔ چنانچہ اس پہلو سے ان کا آخری پیغام یہ ہے کہ فیصلہ کن غلبہ بالآخر ابلیس کو نہیں بلکہ حق کی قوتوں ہی کو ہو گا۔ ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
No comments:
Post a Comment