رمضان معرفت رب کا مہینہ
جمعہ امین عبدالعزیز
ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی
رمضان
مکرم کی آمد پر مسلمانوں کا خوش ہونا برحق ہے، کیوں کہ یہ تمام بھلائیوں کو لے کر
آتا ہے۔ اس کا دن روزہ، اس کی رات قیام اور اس کے شب و روز نیکیوں اور بھلائیوں میں
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہیں۔ یہ بخشش کا موسم ہے۔ اس میں نیکیوں کے اجر و ثواب
میں اضافہ ہے۔ لہٰذا، اس کی نعمتوں، عطیّوں اور مہربانیوں سے مسرور ہونا ہر مسلمان
کا حق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تمھارے زمانے کے ایام میں تمھارے
رب کے تمھارے لیے عطیات ہوا کرتے ہیں، لہٰذا ان عطیات کو حاصل کرنے میں لگے رہو‘‘۔
یہ
نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مقدس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر
ہے۔ اس ماہ میں نفل کی ادایگی فرض کی مانند ہے اور اس میں فرض ادا کرنا غیر رمضان میں
۷۰فرضوں کی ادایگی کی طرح ہے۔ اس ماہ کی ان ہی
برکات کی خاطر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رجب ہی سے اس کے استقبال کی تیاری شروع
فرماتے تھے۔
رمضان
نفس و روح کی راحت کا مہینہ اور دل کی خوشی کا زمانہ ہے۔ اس میں ایمان کے مظاہر ہر
طرف نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت ہوتی ہے، خود غرضی نہیں بلکہ ایثار
ہوتا ہے۔ اس میں سختی و تشدد نہیں بلکہ کرم و مہربانی ہوتی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں مسلمان
کو خواہ کوئی کتنا ہی برانگیختہ کر دے یا اسے کوئی کتنا ہی غصے میں لے آئے، یااگرخدانخواستہ
اسے کوئی گالی بکے یا اس پر کوئی الزام تراشے، ان تمام صورتوں میں مسلمان بس یہ کہتا
ہے کہ: ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ مسلمان اپنے منہ سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکالتا
جو بے معنی ہو، جو نفس کی گہرائیوں میں ثبت نہ ہو، جو اس کے ایمان کی ترجمانی نہ کرتا
ہو، جس سے شیاطین جِنّ و انس پر اسے فتح و کامیابی نہ ملتی ہو۔ مسلمان ’’میں روزے سے
ہوں‘‘ کے الفاظ دہراتا ہے تو اس کا ظاہر و باطن ہم آہنگ ہوتا ہے۔ وہ ایک اخلاقی اسلامی
شخصیت کا مظہرِ کامل بن کر یہ الفاظ ادا کرتا ہے۔
رسالت
مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں کو
جکڑ دیا جاتا ہے، سرکش جنوں کو پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے، دوزخ کے دروازے بند کردیے
جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہنے دیا جاتا۔ بہشت کے دروازے کھول دیے
جاتے ہیں اوراس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہنے دیا جاتا۔ حق تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے
والا پکار کر کہتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ! اور اے شر کے طلب گار پیچھے
ہٹ!‘‘۔ اس نداے ربانی پر لبیک کہنے کے لیے کیا مسلمان نیکی کی چاہت میں آگے نہ بڑھے
گا؟ ضروربڑھے گا۔
اپنے
خالق کی معرفت حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ آپ اس ماہِ مبارک میں نازل ہونے والی
کتاب کی تلاوت کیجیے اور اس میں خوب تدبر کیجیے۔ آپ غور کیجیے تو آپ کی سماعت سے
مخاطب ہو کر کوئی کہہ رہا ہوگا: فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَo )الانفطار
۸۲:۸) ’’اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔
اللہ نے انسان کو پیدا کیا، پھر اس کی نوک پلک سنواری، اسے پیدا کیا اور اسے راہ نمائی
دی۔
دورانِ
تلاوت ہی کوئی آپ سے مخاطب ہو کر آپ کو ایک زندہِ جاوید حقیقت سے آگاہ کررہا ہوگا:
یٰٓاَیُّھَا
الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّک کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ) الانشقاق
۸۴:۶) ’’اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے ربّ کی طرف چلا
جا رہا ہے اور اُس سے ملنے والا ہے‘‘۔
لہٰذا،
توبہ کے لیے جلدی کیجیے، اپنے ربّ کی طرف رجوع کیجیے تاکہ آپ تروتازہ چہرے کے ساتھ
اس سے ملاقات کر سکیں۔ آپ جلدی قدم بڑھائیے اور اس کے جودو سخا، کرم و لطف اورمغفرت
و احسان کے عطیات کو سمیٹ لیجیے۔
آپ
اپنے حواس خمسہ پر غور کیجیے، اپنی پیدایش کے بارے میں تدبر کیجیے، اپنی ذات کے بارے
میں سوچیے۔ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے جسم کے ہر جز کو خالقِ ارض و سما
نے بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔ پھر اس نے ہر عضو کو جو کام کرنا ہے اس سے ہم آہنگ
کیا ہے۔ دیکھیے آنکھیں، زبان، ہونٹ اور جسم کے مختلف اعضا اور نظام اپنے اپنے افعال
کے ساتھ کیسی مطابقت رکھتے ہیں۔ وہ کون سی ہستی ہے جس نے انھیں اس کام کو کرنے کے ہدایت
کی ہے؟ کوئی عضو سننے کے لیے ہے، کوئی دیکھنے کے لیے ہے، کوئی چکھنے اور کوئی چھونے
کے لیے ہے، کوئی ہضم کرنے کے لیے ہے۔ انسان اگر اپنے تمام اعضا کو اپنے خالق کی مرضی
کے مطابق استعمال کرے تو وہ جنت کا حق دار ٹھیرتا ہے۔
اگر
اس ماہِ مبارک میں اترنے والی کتاب نہ اتری ہوتی تو یقینا انسان بھٹکتا رہتا، اور اپنے
آپ پر غور و فکر سے محروم رہتا۔ انسان کو کون بتاتا کہ وہ اپنی پیدایش میں، اپنے حواس
میں، اوراپنے جسم کے مختلف نظاموں میں ایک معجزہ ہے، قدرت کا شاہکار ہے۔ اس کا جسم
اور اس کے تمام اعضا اس کائنات کے ساتھ کس قدر ہم آہنگ ہیں جس میں وہ رہ رہا ہے۔ اگر
یہ ہم آہنگی سلب کر لی جائے تو انسان اورکائنات کے مابین رابطہ واتصال ختم ہو جائے۔
ایسی صورت میں انسان کسی آرزو کو پورا کرنے یا کسی چیز کو دیکھنے یا کسی معاملے میں
غور و فکر کرنے سے قاصر رہ جائے۔
بلاشبہہ
اللہ ہی خالق ہے ، قادر ہے، کائنات کا اور انسان کا پیدا فرمانے والا ہے۔ وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ
ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ)الذٰریٰت
۵۱:۲۱) ’’اور خود تمھارے اپنے وجود میں بہت سی نشانیاں
ہیں، کیا تم کو سوجھتا نہیں‘‘۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ
الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّط یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَھُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ
عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًا)الطلاق ۶۵:۱۲) ’’اللہ وہ
ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی اُنھی کے مانند۔ اُن کے درمیان
حکم نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمھیں اِس لیے بتائی جارہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ
ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے‘‘۔
روزے
کی حالت میں ان تمام امور پر غوروفکر سے آپ عبادت کے سا تھ ساتھ ایمان کی لذت سے بھی
آشنا ہوں گے۔ آپ کی عبادت محض رسم نہیں رہے گی۔
آپ
اپنے رب کو پہچانیے، اپنے آپ پر غور کیجیے، اس کائنات کو دیکھیے جس نے آپ کو چاروں
طرف سے گھیر رکھا ہے۔ آپ اپنے اور کائنات کے مابین موازنہ کیجیے، اور قرآن کے الفاظ
میں اپنے آپ سے دریافت کیجیے: ’’کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان
کی؟ اللہ نے اُس کو بنایا، اس کی چَھت خوب اونچی اٹھائی پھر اُس کا توازن قائم کیا،
اور اُس کی رات ڈھانکی اور اُس کا دن نکالا۔ اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا، اُس کے
اندر سے اس کا پانی اورچارہ نکالا، اور پہاڑ اس میں گاڑ دیے سامانِ زیست کے طور پر
تمھارے لیے اور تمھارے مویشیوں کے لیے‘‘۔ (النّٰزٰعت ۷۹: ۲۷-۳۳)۔
قرآن مجید میں غور کرنا چاہیے۔ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی
قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا)سورۃمحمد ۴۷:۲۴) ’’کیا اِن لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا
دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘
انسان
اپنے رب کی نافرمانی کرکے اپنے ساتھ خود زیادتی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان خیانت
کیوں کرتا ہے؟ اپنے پروردگار کی معصیت کیوں کرتا ہے؟ وہ تکبر کیوں کرتا ہے؟ اپنے آپ
کو بڑا کیوں سمجھتا ہے؟ کیا غور وفکر تجھے اللہ کے شایانِ شان قدر دانی کی دعوت نہیں
دیتا کہ تو اللہ کی رحمت کی امید رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرے؟ قرآن نے اس ماہِ مبارک
میں نازل ہو کر تجھے وہ کچھ بتا دیا جو تو نہیں جانتا تھا اور یوں اللہ نے تجھ پر فضلِ
عظیم کیا۔
امام
ابن قیمؒ فرماتے ہیں: ’’سب سے عجیب بات یہ ہے کہ تم اللہ کو جانتے ہو اور پھر اس سے
محبت نہیں کرتے۔ اس کے منادی کی پکار سنتے ہواور پھر جواب دینے اور لبیک کہنے میں تاخیر
سے کام لیتے ہو۔ تمھیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کرنے میں کتنا نفع ہے مگر تم
دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے پھرتے ہو۔ تم اس کے غضب کی جانتے بوجھتے مخالفت کرتے ہو۔
تمھیں معلوم ہے کہ اس کی نافرمانی کی سزا کتنی بھیانک ہے مگر پھر بھی تم اس کی اطاعت
کرکے اس کے طالب نہیں بنتے ہو‘‘۔
افسوس
کہ تم اس ماہ مبارک کے قیمتی لمحات ضائع کر دیتے ہو اور ان کے دوران اللہ کے قرب کو
تلاش نہیں کرتے۔ ابن قیمؒ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے: روزے دار اپنے معبود کی خاطر اپنی
لذتوں کو ترک کرتا ہے۔ وہ اللہ کی محبت اور اس کی رضا کو اپنے نفس کی لذات پر ترجیح
دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جو کوئی بندہ، اللہ کے راستے
میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے، تو اس دن کی وجہ سے اللہ جہنم کواس شخص کی ذات سے ۷۰ خریف دُور کر دیتا
ہے‘‘۔
امام
حسن البناؒ فرماتے ہیں: ’’لوگ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کوئی بھلائی کرتا ہے یا نیکی
کی بات کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا فوری معاوضہ ملے۔ اس کے بدلے میں مال ملے جسے
وہ جمع کرے، یا اسے شہرت و نیک نامی ملے، یا اسے کوئی مرتبہ و عہدہ ملے، یا اسے کوئی
لقب ملے کہ اس لقب کے ساتھ اس کا شہرہ ہر طرف ہو۔ دوسرا وہ ہے جس کا ہر قول و فعل محض
اس لیے ہوتا ہے کہ وہ خیر کو خیر ہونے کی وجہ سے چاہتا ہے۔ وہ حق کا احترام کرتا ہے
اور حق سے اس کے حق ہونے کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ دنیا کے معاملے کا
سدھار صرف اورصرف حق و خیر سے ہی ہے۔ انسان کی انسانیت دراصل یہ ہے کہ وہ اپنے آپ
کو حق و خیر کے لیے وقف کر دے‘‘۔
اے
میرے مسلمان بھائی! آپ ان دو قسموں میں سے کون سی قسم کے مسلمان بننا چاہتے ہیں؟ کتنا
اچھا ہو کہ آپ دوسری قسم میں داخل ہوں اور ایسے مسلمان بن جائیں جو حکم کو بجالاتا
ہے، جس سے منع کیا گیا ہے اسے ترک کر دیتا ہے، جو کچھ مل گیا ہے اس پر صبر کرتا ہے۔
انعام ملے تو شکر کرتا ہے، آزمایش آئے تو صبر کرتا ہے، گناہ کرے تو مغفرت طلب کرتا
ہے۔ آپ بھی ایسے ہی ہو جائیے۔ ایسے لوگوں میں شامل ہو جائیے جن کا دایاں ہاتھ صدقہ
دے تو بائیں کو خبر نہ ہو۔ آپ کم زور کی مدد کیجیے۔ صلہ رحمی کیجیے۔ لوگوں کے بوجھ
اٹھایئے، لوگوں کی حصولِ حق میں مدد کیجیے۔ ضرورت مند کا ساتھ دیجیے اور اس کی مدد
کے لیے تعاون کیجیے۔ یتیم کے سر پر دستِ شفقت رکھیے، بیوہ کی سرپرستی کیجیے۔
دنیا
میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی جان، مال، عزت و آبرو خطرے میں ہے ان کے لیے دعائیں
کیجیے۔ آپ اُن مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کیجیے، جن کے گھروں کو منہدم کیا گیا اور
انھیں ان کے علاقوں سے بے دخل کر دیا گیا۔
آپ
صلاح الدین ایوبی کا یہ قول یاد رکھیے: ’’میں کیسے ہنسوں، جب کہ اقصیٰ اسیر ہے؟‘‘
آپ
رات میں ضرور نوافل ادا کیجیے تاکہ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہو جن کے بارے میں اللہ
تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی
مانگتے تھے، اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے‘‘۔(الذٰریٰت ۵۱: ۱۷۔۱۹(
دعا
مومن کا ایک بڑا ہتھیار ہے۔ دعا کیجیے کہ اللہ ظالموں کے مقابلے میں اہلِ ایمان کی
مدد فرمائے۔ دعا میں الحاح دزاری ضرور کیجیے۔ اللہ ظالم سامراجیوں، ان کے آلۂ کاروں
کو برباد کرے۔
شیطان
کے پھندے سے بچنے کی کوشش کیجیے۔ یہ شیطان انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے۔ یہ شیطان،
آپ کے روزے کو بگاڑنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ وہ آپ کو تراویح اور تہجد سے ہٹا کر
فلمیں دیکھنے پر آمادہ کریں گے۔ وہ آپ کو موسیقی اور لغویات میں الجھائیں گے، اور
آپ ان کے چکّر میں آ کر روزوں کے مقاصد فراموش کر دیں گے اور پھر صیام و قیام کو
ہی نظر انداز کردیں گے۔ حالاںکہ رات کے قیام کے بارے میں رب العزت فرماتا ہے:
وَ
مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓـے اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ
مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
o(بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) اوررات کو تہجد پڑھو، یہ تمھارے لیے نفل ہے،
بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔
شیطان
کو اچھی طرح معلوم ہے کہ رمضان میں مومن ایک ایسی شخصیت بن جاتا ہے جس پر ایمان کا
غلبہ ہوتا ہے۔ یہی شخصیت شرعاً مطلوب ہے۔ اسی شخصیت کے ہاتھوں نصرت ملتی ہے۔ اس لیے
شیطان آپ کے اور اس شخصیت کی تشکیل کے مابین حائل ہو جائے گا، کیوں کہ ایسی شخصیت
کی تشکیل میں اس کی ہلاکت ہے۔ اگر بحمدللہ، رمضان کے اثرات سے اسلام کی مطلوب شخصیت
وجود میں آئے تو یہ انسانیت کی فتح ہے۔
رمضان
کے اس پیغام اور وقت کی اس آواز کو توجہ سے سنیے اور اس پر غور کیجیے۔ اس طرح آپ
کامران و کامیاب لوگوں میں شامل ہو جائیںگے اور ناکام و نامراد نہ ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment