Search This Blog

Monday 28 May 2018

اسراف اور ضیاع ، رزق کی ناقدری

اسراف اور ضیاع ، رزق کی ناقدری
ایاز الشیخ

حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے پاس سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ کھجور کا یہ دانہ صدقے والی کھجوروں میں سے ہے، تو میں اسے کھا لیتا۔(متفق علیہ)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گھر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھایا، صاف کیا پھر کھالیا، اور فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمہاری پڑوسی بن جائیں، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئو (حسنِ سلوک سے پیش نہ آئو گے تو بھاگ جائیں گی) اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں، ان کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں۔ (ابن ماجہ(
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ شیطان تمہارے پاس ہر کام کے وقت آجاتا ہے۔ یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھالے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگ گئی ہو اسے دور کردے، پھر اسے کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ جب فارغ ہوجائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے، پتا نہیں کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔ (مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالے، پلیٹ کو صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: تم نہیں جانتے کہ برکت کس حصے میں ہے۔ (مسلم)
آج صبح، دوپہر، شام کے معمول کے ناشتوں اور کھانوں، دعوتوں اور ضیافتوںم شادیوں اور ولیموں میں رزق کی جو ناقدری، اسراف اور ضیاع ہوتا ہے، اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جی چاہتا تو کھالیتے، چاہت نہ ہوتی تو واپس کردیتے، لیکن کھانے کی کبھی برائی بیان نہ کی۔ آج اگر ہم اپنے گھروں، ہوٹلوں، دعوتوں اور تقریبات میں کھانے کو ضائع کرنا چھوڑ دیں، ضرورت کے مطابق کھانا پکائیں اور ضرورت کے مطابق پلیٹ میں ڈال کر کھائیں تو ہر گھر اور کھانے کی ہر تقریب میں رزق کی اتنی بچت ہوجائے کہ ایک ایک گھر سے دو، دو اور تین تین آدمیوں کو کھانا دیا جاسکے۔ کھانا ضائع ہونے کے بجائے کسی بھوکے کے کام آجائے گا۔ گھروں میں بھی احتیاط نہیں ہوتی، پلیٹوں میں کھانا بچ جاتا ہے جسے کوئی دوسرا آدمی کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے گٹر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ روٹیاں بھی ضرورت سے زائد ہوتی ہیں، انہیں بھی ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے، اور تقریبات میں تو بعض اوقات سو آدمیوں کے لیے اتنا کھانا پکایا جاتا ہے جو دو سو، تین سو کے لیے کافی ہو۔ نتیجتاً بہت سارا کھانا بچ جاتا ہے اور ضائع کردیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نامعقول عمل پر نکیر فرمائی۔ زمین پر کھجور کے ایک دانے، روٹی کے ایک معمولی ٹکڑے، پلیٹ میں بچے ہوئے تھوڑے سے سالن کو چھوڑ کر ضائع کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، اسے نعمت کی ناقدری اور ناشکری قرار دیتے ہوئے، اس سے محرومی کا سبب قرار دیا۔
آج معاشرہ کا دولت مند اور نو دولتمند طبقہ دولت کا جو ضیاع کرتا ہے، انکی نقالی میں متوسط طبقہ بھی اسی روش پر گامزن ہے۔ ان کے ہاں کھانے اور اللہ کی دیگر نعمتوں کی جس طرح اسراف و تبذیر ہوتی ہے، وہ عذابِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ایک طرف لوگوں کا یہ حال ہے کہ انہیں اتنی روٹی نہیں ملتی کہ اپنا پیٹ بھر سکیں، اناج  کے حصول کے لیے راشن کی دکانوں پر پر لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں، اور دوسری طرف ایک ایک آدمی کے کھانے پر ہزاروں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی اس دولت کے ضیاع کو روکنا چاہیے۔ جو لوگ اسلامی تعلیمات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ناآشنا ہیں، ان کو تو اس کا ہوش نہیں ہے، لیکن اسلام کو سینے سے لگانے والوں کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔ اپنے گھروں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں، اپنی معیشت میں رزقِ حلال کی قدر اور اسے ضیاع سے بچانے کا ضروری اہتمام کرنا چاہیے، کہ یہ شکر گزاری کا تقاضا ہے۔  اللہ کی نعمتوں کی ناقدری ہمیں جہنم تک پہنچا سکتی ہے۔اللہ ہمیں  اسراف و تبذیر اور نعمتوں کی ناقدری سے بچائے اور شکر گذار بندہ بنائے۔ آمین
(استفادہ تحریر مولانا عبدالمالک، کلام نبوی ﷺ کی کرنیں)


No comments:

Post a Comment