Search This Blog

Tuesday 11 December 2012

21 DECEMBER END OF THE WORLD????!!!!!!!!!

۲۱دسمبر۲۰۱۲:دُنیا کا اختتام؟
مفروضات؛نظریات اور حقائق


آج کل دنیا بھر میں 21دسمبر 2012 کے حوالے سے مباحث جاری ہیں اور یہ مباحث مشہور فلم ڈائریکٹر رونالڈ ایمرج کی فلم’’ 2012‘‘کے منظر عام پر آنے کے بعد عوامی محافل کی زینت بھی بن گئے ہیں۔حالانکہ اس سلسلے میںکئی دستاویزی فلمیں مثلاً ۔Where History Ends,Doomsday 2012 ,2012 Science or Supersitition, End of Days , Nostradamus effect,Apocalypseوغیرہ منظر عام پر آ چکی ہیں۔
  اضطراب کی لہر دوڑانے اور دہشت پھیلانے کیلئے بدنام بعض ٹی وی چینل بھی اس خبر کو سنسنی خیز انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیںجس سے بعض لوگوں میں گھبراہٹ اور بے چینی پھیل گئی ہے۔ بعض لوگ تو گھبراہٹ میں موت سے پہلے ہی مرتے دکھائی دینے لگے ہیں، ان کا دل ڈوبنے لگا ہے ، کسی کام میں جی نہیں لگتا، ہر وقت ان کو موت کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ قیامت کا یہ تصور تو عام ہے کہ وہ آئے گی تو بڑی تباہی آئے گی۔ دنیا کا نظام اْلٹ پلٹ ہوجائے گا اور دنیا تباہ ہوجائے گی۔ان چینلوں نے نجومیوں اور جھوٹے غیب دانوں کے حوالے سے انسانوں اور دنیا کی مہلت حیات دسمبر 2012ء طے کردی ہے۔
 سائنسدان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کیا زمین پر زندگی اپنے اختتام کے قریب ہوتی جارہی ہے؛ جبکہ کچھ مفروضات یہ بھی ہیں کہ انسان خود ہی اپنے ہاتھوں اپنے انجام سے دوچار ہو گا؛ مزید برآں کچھ مفروضات یہ ہیں کہ اختتام بھی مظاہر قدرت میں سے ایک مظہر ہے ؛ اور اسی طرح مذاہب کے گروہوں میں یہ سوچ ہے کہ اللہ ہی زمین پر دنیا کا نظام ختم کرنے کو ہے۔
ایک طویل عرصے سے یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ 21دسمبر 2012ء  کو قیامت برپا ہو جائے گی۔ یہ عقیدہ ایک قدیم تہذیب مایا کے ماننے والوں کا ہے۔ دنیا میں آباد ہر مذہب اور قوم کی اپنی ایک الگ تہذیب و ثقافت ہے۔ دنیا میں کئی قدیم تہذیبیں ہو گزری ہیں۔ ایسی ہی ایک تہذیب مایا کہلاتی ہے، یہ لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک کی سب سے قدیم تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ تہذیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے بہت پہلے اس دنیا میں زندہ تھی۔ زیادہ مضبوط شواہد چھ سو قبل مسیح کو مایا تہذیب کے عروج کا نقطہ آغاز بتاتے ہیں، جبکہ اس تہذیب کا دوسرا دور تیسری سے دسویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ جنوبی میکسیکو، گوئٹے مالا، ایل سلواڈور سے لے کر بے لائیز اور مغربی ہونڈراس تک کم و بیش ہزاروں کلو میٹر وسیع و عریض خطے پر اس تہذیب کا راج رہا۔ میکسیکو ایک ایسی پراسرار جگہ ہے، جہاں کئی ایسے راز ہیں جو ابھی تک دنیا پر کھل رہے ہیں۔میکسیکو کے کچھ باشندے اب بھی قدیم مایا زبانیں بول سکتے ہیں۔
مایا تہذیب زبان، حساب اور ستاروں کے علم میں بہت ترقی یافتہ تھی۔ اپنے دور میں ان کی تہذیبی اور ثقافتی برتری نے ارد گرد کی دیگر اقوام کو بھی متاثر کیا۔ اس تہذیب کے پیروکاروں نے امریکا میں لکھائی کی ابتداء کی، جبکہ اِن کے لکھنے کا طریقہ قدیم مصری زبان سے ملتا جلتا ہے۔ یہ لوگ الفاظ اور تصاویر کو ملا کر لکھنے کیلئے جانوروں کے بالوں یا پَروں سے بنا ہوا برش استعمال کرتے تھے۔ وہ درختوں کی چھالوں پر لکھتے تھے، جس کی چند کتابیں آج بھی محفوظ ہیں۔ مایا تہذیب کے کلینڈروں میں اٹھارہ مہینے اور ہر مہینے میں بیس دن ہوتے تھے، یعنی سال میں تین سو ساٹھ دن۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بنائے ہوئے کلینڈر آج کے عیسوی کلینڈرز سے بہت زیادہ درست ہیں۔ ان کا حساب اتنا درست ہے کہ فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ سورج کب نصف النہار پر ہوگا، سال کے کن حصوں میں دن رات برابر ہوں گے، ہمارے نظام شمسی میں دیگر سیاروں کے گزرنے کے راستے اور اوقات کیا ہوں گے، زہرہ اور مریخ کے مدار کون کون سے ہیں وغیرہ۔
اس تہذیب کا اپنا حساب کتاب کرنے کا نظام بھی تھا۔ اس نظام میں فقط تین نشانات لکیر، نقطہ اور سیپ استعمال ہوتے تھے۔ لکیر کے معنی پانچ، سیپ کے معنی صفر اور نقطے کے معنی ایک ہوتے تھے۔ ان تین نشانوں کے ذریعے بغیر پڑھے لکھے لوگ بھی بڑے سے بڑا حساب کتاب کر لیتے تھے۔ مایا تہذیب بظاہر صدیوں پہلے ہی زوال پذیر ہو چکی ہے مگر مایا قوم کی اولاد آج بھی میسو امریکن علاقوں میں موجود ہے۔ ان میں بہت سارے لوگ اب بھی مایا مذہب کی بہت سی رسومات پر عمل کرتے ہیں، مگر ان کے پیچیدہ رسم الخط کو بھول چکے ہیں۔ اس تہذیب کی سب سے قابل ذکر ایجاد ان کا کلینڈر مانا جاتا ہے۔
مایا کلینڈر کے مطابق 21 دسمبر 2012ء کو پانچ ہزار ایک سو چھبیس برس پر مشتمل ایک دور کا خاتمہ ہو رہا ہے، لہٰذا اس دن ایک بڑی قدرتی آفت کے ذریعے قیامت برپا ہو جائے گی، جبکہ مایا اقوام پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دنیا پانچ عہدوں میں بٹی ہوئی ہے اور مایا لوگ چوتھے عہد میں جی رہے ہیں۔ ان کے کلینڈر کے مطابق چوتھے عہد کو آج کے عیسوی کلینڈر کے حساب سے اکیس دسمبر میں ختم ہو جانا ہے اور پھر اس کے بعد دنیا کا آخری اور پانچواں عہد شروع ہو جائے گا۔
ماضی میں ایک عیسائی مبلغ کی طرف سے سن دو ہزارہ گیارہ میں دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی بھی غلط ثابت ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال اکیس اکتوبر کا دن خیریت اور سکون سے گزر گیا، حالانکہ امریکا سمیت کئی ملکوں میں بہت سے لوگ اس فکر میں تھے کہ اس دن دنیا ختم ہو سکتی ہے، کیوں کہ عیسائی مبلغ ہیرالڈ کیمپنگ نے پیش گوئی کی تھی کہ اس دن قیامت آ جائے گی۔ اس عیسائی مبلغ نے پہلے اکیس مئی کو قیامت آنے کی پیش گوئی کی تھی مگر جب مئی کا یہ دن خیریت سے گزر گیا تو پھر اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان سے جمع تفریق میں تھوڑی بہت گڑ بڑ ہو گئی تھی، جسے اب ٹھیک کرلیا گیا ہے، لہٰذا اب اکیس اکتوبر دو ہزار گیارہ کو قیامت آئے گی۔ کائنات کے خاتمے کے حوالے سے پیش گوئی کرنے والے وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ مغربی دنیا میں ان سے پہلے بھی کئی لوگ قیامت کی ناکام پیش گوئیاں کر چکے ہیں، حتیٰ کہ متعدد سائنس دان بھی مختلف موقعوں پر خلاء میں بھٹکتے ہوئے کئی بڑے اجرام فلکی کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں قیامت برپا ہونے کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں، مگر ہر بار کرہ ارض ایسے کسی ممکنہ حادثے سے بچتا رہا ہے۔
اس دنیا کی مثال ہماری زندگی کی طرح ہے، انسانی زندگی کی طرح دنیا بھی آہستہ آہستہ خاتمے کی طرف جا رہی ہے۔ قیامت کے حوالے سے مایا تہذیب کی لمبی مدت سے جاری اس پیش گوئی کی حمایت میں کوئی قابل یقین ثبوت موجود نہیں، تاہم تینوں آسمانی مذاہب میں اس کا عمومی تصور موجود ہونے کے باعث اس کی سحر انگیزی اجتماعی انسانی شعور میں سرایت کر چکی ہے۔ قیامت کے بارے میں اسلامی عقیدہ دیگر تمام مذاہب کے نظریات کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کے عقیدہ کے مطابق دنیا کے خاتمے کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے، البتہ قیامت سے قبل اس کی چند علامات ضرور ظہور پذیر ہوں گی۔ ان علامات میں سیدنا امام مہدی کا ظہور، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور زمین سے ایک جانور کا نکلنا جو بات کرے گا، یاجوج ماجوج کا ظہور اور اللہ کے غضب سے ان کی ہلاکت، سورج کا مغرب سے نکلنا اور آگ کا ظاہر ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ کائنات کے اختتام کے حوالے سے اسلامی عقیدہ قرآن و سنت سے ثابت ہے، البتہ اسلام نے اس سلسلے میں صدیوں پہلے جو نظریہ دیا، آج سائنس کے بیان کردہ اندازے اس کے قریب تر ہیں۔
 چنئی کے سائنسداں وکراوندی وی روی چندرن  مایا تہذیب کی اس پیشین گوئی کونہیں مانتے اور کہتے ہیں ’’ ماین تہذیب کا اب بذات خود وجود باقی نہیں رہا۔ تو کیا اس نے اپنے خاتمہ کی کبھی پیشین گوئی کی تھی؟ اگر اسے پتہ تھا کہ دنیا کب ختم ہوگی تو کیا اسے خود اپنی تہذیب کی موت کے بارے میںبھی پتہ نہیں ہونا چاہئے تھا‘‘؟روی چندرن 16 ویں صدی میں ناسٹراڈمس کے ذریعہ کی گئی ایک پیشین گوئی سمیت دیگر پیشین گوئیوں کا حوالہ دیتے ہیں جو کہ سب کی سب غلط اور بے بنیاد ثابت ہوئیں۔ان کا ماننا ہے کہ جو لوگ بھی قیامت کی پیشین گوئی کرتے ہیں وہ ایک دور دراز کی بات کرتے ہیں۔قیامت کی متعلق پیشین گوئیاں محض  فریب ہیں۔وہ کہتے ہیں ’’ (امریکی ماہر نفسیات) جیرن کرسویل ( وفات 1982) نے پیشین گوئی کی تھی کہ زمین کے میدان مقناطیس میںایک خلل کے نتیجہ میںدنیا کا خاتمہ 1999 میں ہو جائے گا۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔18 ویں صدی میں ایک برطانوی راہبہ نے پیشین گوئی کی تھی کہ زلزلے اور جنگیں الہامی ہوں گی اور 2000 بعد از مسیح تک دنیا تباہ وبرباد ہو جائے گی‘‘۔لیکن ایسا نہیں ہوا دنیا آج بھی ہمارے سامنے برقرار ہے۔محققین کے مطابق مندرجہ ذیل واقعات میں اسے ایک یا ایک سے زیادہ  بظاہر دنیا کے خاتمے کا سبب بن سکتے ہیں ۔
  عالمی پینڈمک
1918 میں جب کہ دنیا 4 سال کی جنگ سے ابھر رہی تھی تو اسی دوران اسپینش انفلوئنزا کا حملہ ہوا۔ محض 6 مہینے ہی میں اس جان لیوا وائرس نے 50 ملین لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ آج لوگ زیادہ ہی آبادی والے شہروں میں رہتے ہیں اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک کا سفر بھی بہت تیز رفتار ہو چکا ہے۔اگر اسپینش انفلوئنزا کی طرح کی کوئی بیماری ایک بار پھر پھیلی تو پوری دنیا اس کی چپیٹ میں آ جائے گی۔
  بلیک ہول کی تباہی
بلیک ہول، جس میں ماورائے تصورات کی سطح تک قوتِ کشش ہے وہ شمسی نظام کے قریب آ سکتاہے۔ اگر ایسا ہوا تو زمین تباہ و برباد ہو جائے گی۔ دھول بھرے بادل اور توانائی کے نظام کے قریب پائی جانے والی گیسوں کی وجہ سے الیکٹرو میگنٹک ریڈیشن کا اخراج ہوگا جس کی وجہ سے دنیا کو بھاری تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور دنیا کا وجود مٹ سکتا ہے۔
  پولر شفٹ
جس زمین پر ہم رہتے ہیں وہ اپنے آربٹ پر سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے اور کئی بار کسی دوسرے سیارے سے ٹکرانے سے بچ چکی ہے۔ زمین لگاتار حرکت کر رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ جس طرف وہ ابھی جھکی ہوئی ہے، اس کے برعکس دوسری طرف جھک جائے اور پھر اس کا خوفناک نتیجہ سامنے آئے۔ایسا ہوا تو پوری انسانیت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
 سورج کا خاتمہ
اگراینڈرومیڈا ہم سے نہیں ٹکرایا تو سورج ہم سے ٹکرا جائے گا اور وہ بھی اسی دورانیہ میں ٹکرائے گا۔ یعنی کہ 5000 ملین سالوں میں جب کہ سورج بہت بڑا ہو جائے گا اور بہت گرم ہو جائے گا تو یہ اپنی انرجی کو ختم کر دے گا جس سے سمندر میں پانی تیرتے ہیں اور جس سے زمین میں نباتات اْگتے ہیں اور جس سے انسان اور جانور زندہ ہیں۔
عالمی نیوکلیائی جنگ
سرد جنگ ہرچند کہ ختم ہو چکی ہے لیکن نیوکلیائی جنگ کا خدشہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ جیسے جیسے نئے نئے نیوکلیائی ممالک سامنے آ رہے ہیں بہت سارے لوگ ہیں جو نیوکلیائی اسلحے پر قبضہ چاہتے ہیں اور جس کے ذریعہ صرف انگلی دبا کر ہزاروں تباہ کاریاں مچائی جا سکتی ہیں۔ اگرایسا ہوا تو اچانک ہی لاکھوں لوگ مارے جائیں گے اور اربوں لوگ بری طرح سے مرض میں مبتلا ہو جائیں گے۔
انڈرومیڈا کا اثر
آسمان پر جو بھی بڑی کہکشائیں ہیں وہ سب ہم سے کافی دور ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن ایک کہکشاں وہ ہے جسے ایم 31 اینڈرومیڈا بھی کہا جاتا ہے، وہ جادہ شیر (ملکی وے) کی طرف آ رہا ہے۔ اس کی رفتار فی سیکنڈ 120 کلو میٹر ہے۔ انڈرومیڈا ایک اندازے کے مطابق 5000 ملین سال میں ہم سے ٹکرا سکتا ہے اور اگر یہ ہوا تو یہ دنیا کا خاتمہ ہوگا۔

No comments:

Post a Comment