Search This Blog

Sunday 2 December 2012

ISLAM KA ZABTAE JANG اسلام کا ضابطۂ جنگ

اسلام کا ضابطۂ جنگ


جنگ وجدال کی طرف رُجحان انسان کی فطرت میں ملا ہواہے جس کو علمِ نفسیات یعنیPsychology میں Instinct of gregariousness یا ’’جبلت جنگجوئی‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس لئے حضرت آدم علیہ السلام کا پانچ نفوس پر مشتمل کنبہ بھی اس کے اثر ونفوذ میں آہی گیا۔ آدم ؑ کے بیٹے قابیلؔ نے اپنے بھائی ہابیلؔ کو قتل کردیا اور زمین کی سطح پہلی بار خونِ آدم سے داغدار ہوئی ۔قتل کیوں اور کس لئے ہوا۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن اُس وقت سے آج تک یہ سلسلہ مسلسل چلا آرہاہے اور یقینی طور سے اس کااختتام ظہورِ قیامت کے ساتھ ہی ہوگا۔ معلوم تاریخ میں اس صفحۂ ہستی پر بہت سی جنگیں لڑی گئیں اور لڑی جارہی ہیں ۔ کہیں دو آدمیوں کے درمیان ، کہیں دو ملکوں یا قوموں کے درمیان لیکن جنگ عظیم اوّل ودوم کے علاوہ ویٹ نام ، کوریا ، بوسنیا ، عراق ، افغانستان اور ہندوپاک کی جنگیں اس کی بدترین مثال ہیں ۔لیکن جو بھی جنگ لڑی گئی یا لڑی جارہی ہے ، اُس میں راست طور سے زر ، زمین ، زَن کا ہاتھ رہاہے ۔اب حرص وہوس اور چودھراہٹ کا عنصر بھی اِس میں شامل ہوگیا ہے ۔ دیکھئے ! میں عالمی چودھری انکل سام سے کہوں گا : ’’سام جی ؔ اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تمہارے پاس ہے ۔تم گلوب کے بعید ترین سروں سے دوڑے دوڑے کیوں آرہے ہواور عراق ، شام،ایران ، لیبیا ، یمن ، سوڈان ،مصر، پاکستان ، افغانستان وغیرہ کے معاملات میں اپنی گندی ٹانگ اَڑاتے ہو ؟اگر اُن کے پاس نیوکلیائی ہتھیار میں تو کیا ہوا ؟ کیا خود تمہارے پاس یہ ہتھیار نہیں ہیں ؟ اگر تم رکھ سکتے ہوتو کوئی دوسرا کیوں نہیں رکھ سکتا بلکہ تم ہی تو اس ہتھیار کے بنانے والے اور سب سے پہلے جاپان پر آزمانے والے ہو ۔ اگرتم اس حقیقت کو مانوگے تو تمہارا دھاریوں ستاروں والا پرچم بھی سلامت رہے گااور تمہارا اونچا ٹوپ بھی ! نہ مانوگے تو تمہیںجس طرح آج عراقیوں افغانوں نے کس کے بھینچ لیا ہے اور تم پر ’’بلّی کے منہ میں چھچھوندر، نہ اُگلا جائے نہ نگلا جائے ‘‘ والی مثال صادق آرہی ہے ، اسی طرح اور جگہوں پر تمہارا دامن کانٹوں میں اُلجھ جائے گا اور تم انہیں کانٹوں سے چھُڑانے کی کوشش میں اپنے فطری لباس میں نظر آئوگے ۔ یعنی الف ننگا!!
بہرحال! میں عرض یہ کر رہا تھاکہ جنگ کا چھوٹے یا بڑے پیمانے پر بپا ہونا فطری ہے ! اس پس منظر میں اسلام نے ایک بہترین اور قابل عمل ضابطۂ جنگ پیش کیا ہے ۔ اگر اس پر عمل کیا جائے ،تو جنگ ، جنگ نہیں لگے گی بلکہ اپنی تمام کراہتوں کے باوجود دوستوں کے درمیان ہاتھا پائی کی حدود کے اندر رہے گی اور ظاہرہے کہ ہاتھا پائی میں چند خراشیں تو لگ سکتی ہیں جن سے خون بھی بہہ سکتاہے لیکن  قومیں ،ممالک ،تہذیبیں اور انسانی اقدار تلف نہیں ہوں گی اور خونِ آدم اتنا سستا ہرگز نہیں بنے گا جتنا آج ہے ۔اسلام کا پیش کردہ ضابطۂ جنگ یہ ہے :-
۱-دُشمن کو ہلاک یا زخمی کرنے میں بے رحمی اور اذیت دہی کے طریقوں سے کام نہ لیا جائے ۔
۲-غیر نبردآزما لوگوں کے قتل سے پرہیز کیا جائے ۔خصوصیت کے ساتھ عورتوں ، بچوں ، نابینائوں ، درویشوں ، راہبوں ، بوڑھوں ، اپاہجوں او رفاتر العقل لوگوں کو ہرگز قتل نہ کیا جائے ۔
۳کسی انسان کی شکل وصورت کو بگاڑنے کی کوشش نہ کی جائے ۔یہاں تک کہ حیوانوں کی بھی شکل نہ بگاڑی جائے ۔
۴قتلِ عام سے پرہیز کیا جائے ۔
۵خوراک کے لئے جس قدر جانور درکارہوں ،اُس سے زیادہ ذبح نہ کئے جائیں ۔
۶-سرسبز کھیتوں کو برباد نہ کیا جائے اور آگ لگانے سے پرہیز کیا جائے ۔
۷-دشمن سے جو عہد کیا جائے ،اُسے پورا کیا جائے ۔ عہدشکنی کسی بھی حالت میں نہ کی جائے ۔
۸-گرفتار شدہ عورتوں سے دُور رہا جائے ۔خلاف ورزی کرنے والے سپاہی کو عبرت انگیز سزا دی جائے ۔
۹کسی ایک شخص کے جرم میں اس کی اولاد کو سزا نہ دی جائے ۔
۱۰-تاجروں ،سوداگروں ،ٹھیکیداروں ،ڈاکٹروں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے والے لوگوں کو قتل نہ کیا جائے ۔
۱۱-کسی انسان یا حیوان کو زندہ نہ جلایا جائے ۔ نیز دشمن کا سر قلم نہ کیا جائے ۔
۱۲-جنگی قیدیوں پر زیادتی نہ کی جائے ۔اُن کو وہی غذا کھانے کو دی جائے جو فاتح لشکر کے مسلمان سپاہی کھاتے  ہوں ۔
اس ضابطۂ جنگ کا اظہار حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اُس وقت بھی تفصیل سے کیا تھا جب وہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو روانہ کرنے کے لئے اُن کے ساتھ مدینہ کے باہر تک اس حالت میں چل کے گئے تھے کہ حضرت اسامہؓ ، جو کہ ایک ’’غلام‘‘ نوجوان سالار تھے اور انہیں خود سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس سالارِ لشکر مقرر کیا تھا ، وہ گھوڑے پر سوار تھے اور خلیفہ وقت ؓ گھوڑے کی رکابیں تھامے انہیں یہ ہدایات دے رہے تھے ۔
افسوس ! آج ہر طرف ہر کوئی اس ضابطۂ جنگ کے خلاف جارہاہے ۔ جنگ تباہی اور بربادی کی پیغام بر ہوتی ہے لیکن اگر اس ضابطے کوملحوظِ نظر رکھا جائے تو ہمہ گیر تباہی اور غیر انسانی طرزِ عمل سے بڑی حد تک بچا جاسکتاہے ۔ آج انسانیت ہر کوچہ وبازار میں اپنے بال نوچ نوچ کر نوحہ کررہی ہے اورانسان سر سے پائوں تک خاک وخون میں لتھڑا ہواہے ۔کاش ،   سب انسان ’’بنیاد پرست‘‘ بن کر ان اصولوں کی پیروی کریں تو دنیا جنگ وجدال کے درمیان بھی گل و گلزار لگے گی ۔لیکن نہ جانے آج کے انسان کو انسانی خون پینے کی لت کیوں پڑی ہوئی ہے حالانکہ خون نجس اور حرام ہے۔ خونِ ناحق بہانا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر مبغوض اور ناپسند ہے ،اس کا واشگاف اظہار قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر موجود ہے لیکن ہماری نظر اُن فرامین پر جاتی ہی نہیں اوراگر جاتی بھی ہے تو سرسری طور سے ، جیسے طائرانہ نظر جو زمین کی چیزوں کو دیکھتی تو ہے لیکن اُن کی اصل کو محسوس نہیں کرسکتی !
بہت سال پہلے ہفتہ روزہ اخبار ’’کریسنٹ‘‘ میں کرشن چیتنیہ نامی شخص نے لکھا تھا : ’’…اسلام کے مطابق جارحیت کے ہاتھوں پامال ہونا اور جوابی کارروئی نہ کرنا ایک ناقابلِ عمل اصول ہے ۔ اسلام رحم اورمعافی کی تلقین کرتاہے ۔ وہ یہ بھی کہتاہے کہ بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دو مگر یہ نصب العین صرف افراد کے لئے ہے ۔ ایک حکومت مجرموں کومعاف کرکے سماجی نظام کو درہم برہم نہیں کرسکتی ۔ اسی طرح دوسری مخالف طاقت کی جارحیت کے ہاتھوں خاموشی سے پامال ہونا خودکشی کے مترادف ہے۔ گیتا کی طرح قرآن بھی اس کی تعلیم دیتاہے کہ تشدد وجارحیت کا مقابلہ نہ کرنا فرضِ منصبی سے منہ موڑناہے ۔جس نے ظلم پر اپنی مدافعت کی ، وہ مجرم نہیں ہے ۔مگر جنگ کے موقعہ پر اخلاقی ضابطوں کوہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے ۔ جنگ دفاع کے لئے ہونی چاہئے ، جارحیت کے لئے نہیں۔دُشمنوں کی جارحیت کا مقابلہ کرو مگر حملہ کرنے میں پہل مت کرو۔ خدا جارحیت کوناپسند کرتاہے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہترین سپہ سالار تھے اور اُنہوں نے میدانِ جنگ میں اچھے برتائو کی بہت سی مثالیں قائم کی ہیں …!‘‘
رابطہ:-سیر جاگیر سوپور (کشمیر)
 ای میل :- armukhlis1@gmail.comموبائل:- 9797219497

No comments:

Post a Comment