Search This Blog

Sunday 23 December 2012

آنحضورؐ عالم انسانیت کے واحد معمار

آنحضورؐ عالم انسانیت کے واحد معمار
اخوت امن سر بلندی ترقی جو چا ہے یقیناً یہیں سے ملے گی



محسنِ انسانیت حضرت محمدرؐکا ظہور ایسے حالات میں ہوا جب پوری انسانیت تاریکیوں کے دلدل میں دھنس چکی تھی۔ خدافراموشا نہ حالاتِ زندگی ا س حد تک پہنچ چکے تھے کہ شرک وبدعت ، بت پرستی ، ظلم وزیا دتی ، لوٹ مار، جنگ وجدل ، حق تلفی ، اور دوسرے ناقابل بیا ن غیرا نسانی افعال اور جرائم کا دوردورہ تھا ۔ حتیٰ کہ مہمانوں کی تفریح اوریا دوستوں کی تواضع کے لئے غلاموں کو درندوں سے پھڑوادینا یا جانوروں کی طرح ذبح کر دینا ، یا ان کے زندہ جلنے کا تماشہ کر نا یورپ اور ایشاء کے اکثر ممالک میں کوئی معیوب کام نہیں تھا۔ شوہر کے لئے اپنی بیوی کا قتل با لکل ایسا تھا جیسے وہ اپنے کسی پالتو جانور کو لذیذ پکوان بنا نے کے لئے ذبح کرے۔ بچیوں کو زندہ درگور کرنا معمول بن گیا تھا،بیوہ کی زندگی جانور سے بھی گئی گذری ہو تی تھی۔ایک دوسرے کے حقوق پر زبردستی مسلط ہونا سماج کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ بادشاہ دوسروں کے خون پر پلتے تھے۔معمولی سی اَن بن ہونے پر صدیوں تک جنگ  و جدل کاوحشیانہ رواج تھا۔ایک دوسرے کے مقتولین کی کھوپڑیوں میں شراب پینا ، مفتوح قوم کی عورتوں کی بے حرمتی کرنا ، ان کی تحقیر و تذلیل کرنا فاتح کے لئے باعثِ فخر ہوتاتھا۔دُشمن فوج کے لشکر کو دیکھ کر وحشت سے حاملہ عورتوں کا حمل گر جاتا،اورجوان کنواری لڑکیاں اس کی ہیبت سے بو ڑھی ہو جاتی تھیں۔ رومی اور ایرانی تمدن کی ظاہری چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تھی مگر ان شیش محلوں کے اندر بد ترین مظالم کا بول با لا تھا ، زندگی کے زخموں سے تعفن اُٹھ رہا تھا،عام غریب لوگوں سے بھاری ٹیکس وصولنا ، رشوتیں ، خراج اور نذرانے وصول کر کے ان سے جانوروں کی طرح بیگار لیتے۔حد یہ ہے کہ افلاطون اور اُرسطو جیسے حکیم بھی اسے کوئی بڑی معصیت نہ سمجھتے تھے۔الغرض انسان بُری طرح پا مال ہو رہا تھا۔ وہ انتہائی مشقتیں کر کے بھی زندگی کی ادنیٰ ضرورتیں پوری کرنے پر قادر نہ تھا۔انسانیت کی روح چیخ اٹھتی تھی مگر پکار کا کوئی جواب کسی طرف سے نہ ملتاتھا۔ کوئی مذہب اس کی دستگیری کے لئے موجود نہ تھا کیونکہ انبیاء کرام ؑ کی تعلیمات تحریف و تاویل کے غبار میںگُم ہو چکی تھیں۔یونان کا فلسفہ سکتے میں تھا، کنفیوشس اور مانی کی تعلیم دم بخود تھی، ویدانیت اور بُدھ مت کے تصورات سر بگریباں تھے،جسٹنین کا ضابطہ اور سولن کا قانون بے بس تھااور کسی طرف کوئی روشنی نظر نہ آتی تھی۔ الغرض خوفناک ترین بحران کا عالمگیر دور تھا جس کے اندھیاروں میں محسن انسانیت حضرت محمد صلعم کی مشعل ِ ہدایت یکایک ابھرتی ہے اوروقت کے تمدنی بحران کی تاریکیوں کا سینہ چیر کر ہر طرف اُجالا پھیلادیتی ہے۔اس مقصد کے حصول کے لئے محسن انسانیت صلعم سب سے پہلا قدم انسان کے فکری اور عقیدے کے فساد کی اصلاح کے لئے اُٹھاتے ہیں اور آپ ؐ اپنے مخاطبین کے ذہن میں اقتضائے فطرت کے مطابق امن و سلامتی کا بیج بوتے ہیں۔ پھر اس کی ذہنی و اخلاقی تربیت کرتے ہیں اور امن و سلامتی سے متصادم اوصاف رذیلہ کو اس کے ذہن ، فکر اور ضمیر سے ایک ایک کو کھرچ کر صاف کرتے ہیں، اس کے بعد فرد کی عائلی زندگی کا رُخ کیا جاتا ہے اور زوجین کی اس طر ح ذہنی ، فکری اور عملی تربیت کرتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کیلئے امن و سکون کے ضامن بن جاتے ہیںاور ان کا گھر اور خاندان چمنستانِ امن بن جاتاہے۔اس کے بعد قیام امن و سلامتی کا دائرہ اور وسیع کیا جاتا ہے اور پورے معاشرے کو گہوارہ ٔامن و سلامتی یبناتاہے۔پھر یہیں پر بس نہیں کیا جاتابلکہ ملک و قوم کے دائرہ سے نکل کر پیغام امن و سلامتی تمام بنی نوع انسان تک پہنچانے کی تگ دو میں مصروف ہوجاتے ہیں۔امن و سلامتی کی فضا سے معاشرے کو معطر کرنے کے ضمن میںکبھی کبھار جنگوں کا سہارا اس لئے دفاعی اور اقدامی طور لیاگیا تاکہ اُس وحشیانہ جنگی طریقوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے جس نے انسان سے انسانیت کی زینت چھین کر انسان کو وحشی بنایاتھااور حقیقت جنگ کو بدل کر بالکل ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس سے اُس وقت دنیا نا آشنا تھی اور جنگ کو صرف خلق خدا کے امن و راحت میں خلل واقع کرنے والے شر پسند عناصر کو رفع کرنے کا مقصد بنایا گیا۔ جنگی وحشت کا حال یہ تھا کہ جنگ فیف ا لریح میں اپنے قبیلے کی فتح کا ذکر کرتے ہوئے ابن الطفیل کہتے ہیں کہ ہم نے فیف الریح میں نہد اور خشعم پر کاری ضرب لگا نے کے بعدحاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر ڈالے۔ برعکس اس کے حضورصلعم نے ایک مرتبہ میدانِ جنگ میں ایک عورت کی لاش پڑی دیکھ کر ناراضگی کا زبردست اظہار کر کے بنت حواکے قتل کو ممنوع فرمایا اور اعلان فرمایا کہ نہ کسی بوڑھے ضعیف کو ، نہ کسی چھوٹے بچے کو اور نہ کسی عورت کو قتل کرو۔وحشت کا حال یہ تھا کہ دشمن کو آگ میں زندہ جلادینے سے بھی تا مل نہ کیا جاتا۔یمن کے بادشاہ ذونواس نے اُن سب لوگوں کو جو اس کے دین سے پھر گئے تھے بھڑکتی ہوئی الائو میں ڈلوا دیا۔ عمر بن ُمنذِر نے بنی دارِم کے سو آدمیوں کو زندہ جلانے کی منت مان کر 100آدمیوں کو زندہ دہکتی ہوئی آگ میں جلا دیا۔برعکس اس کے حضورصلعم نے اس قبیح عمل کو وحشی پن قرار دے کر ممنوع فرمایااور فرمایاکہ آگ اللہ کا عذاب ہے ،اس سے بندوں کو عذاب نہ دو۔حال یہ تھا کہ مردہ لاشوں تک کو نہ چھوڑاجاتا ، ان کے کان ناک تک کاٹے جاتے تھے۔ جنگ اُحد کا مشہور واقعہ ہے کہ قریش کی عورتوں نے شہدائے اسلام کے ناک کان کاٹ کر ان کے ہار بنائے تھے ۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ( جب وہ ابھی مشرف بہ اسلام نہ ہو ئی تھیں ) سیدنا حمزہ ؓ کا کلیجہ نکال کر چبا گئی تھی۔یوم الحیامیم میں جب بنی جدیلہ کا سردار سبع بن عمرومارا گیا تو بنی سنبس کے کے ایک شخص نے اس کے دو کان کاٹ کر اپنے جوتے میں لگالئے اور اسی پر فخر کرتے ہوئے کہتا کہ ’’ ہم تمہارے کانوں کا پیوند اپنی جوتی میں لگاتے ہیں ‘‘۔ محسن انسانیت حضرت محمدرصلعم دشمن کی لاشوں کو بے حرمت کرنے اور ان کے اعضاء کی قطع و برید کرنے پر زبردست ممانعت کرتے ہیںاور فوجوں کوروانہ کرتے وقت یہ ہدایات دیا کرتے کہ بد عہدی نہ کرو ، غنیمت میں خیانت نہ کرو اور مثلہ ( قطع اعضائ) نہ کرو۔ تاریخ کے اوراق میں یہ لرزہ خیز واقعہ درج ہے کہ ’’ ایرانی شہنشاہ ( شا پور) نے بحرین کے عربوں کو جنگ میں شکست دے کر قیدی بنایا پھر ان کے شانوں میں سوراخ کراکے ان کے اندر رسی پروادی اور اس کو ایک جگہ باندھ دیا ۔ اتنا ہی نہیں جب خود قیصر روم والیریان قید کیا گیا تو اس کوزنجیروں سے باندھ کر شہر میں گشت کرایا گیااور عمر بھر اسے غلاموں کی طرح خدمت لی گئی اور مرنے کے بعد اس کی کھال کھینچواکر اس میں بُھس بھروادیا( الجہاد فی الاسلام ، صفحہ۲۱۵ ) ‘‘ ۔

عُکل اور عرینہ کا قصہ احادیث میں مذکور ہے کہ یہ لوگ نبیؐ کے چرواہوں کو پکڑ کر لے گئے ،ان کے ہاتھ پاوئں کاٹے ، ان کی آنکھیں پھوڑدیں اور انہیں تپتی ہوئی ریت پر ڈال دیا یہاں تک کہ وہ پیاس اور تکلیف سے تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ اس کے علی الرغم حضورؐ نے صرف اتنی ہی رعایت نہیں دی کہ وہ( قیدی )قتل نہ کئے جائیں بلکہ مزید بر آں ان کے ساتھ انتہا درجہ کی نرمی اور ملاطفت کا بھی حکم جاری فرمایا۔جنگ بدر میں وہ لوگ قیدی بنا کر پا بہ زنجیر ہوئے جنہوں نے ۱۳ برس تک آپؐ کو اور مسلمانوں کو تکلیفیں دے کر جلا وطنی پر مجبور کیا تھا مگر قیدیوں کی کراہیںگوشِ مبارک تک پہنچی تو آپ ؐ تب تک آرام سے نہ سو سکے جب تک ان کے بندھن ڈھیلے کرکے انہیں آرام نہ پہنچادیا گیا۔ اور صحابہؓ کو تاکید فرمائی کہ ان کے ساتھ فیاضی کا برتائو کرو اور اس حکم کی تعمیل میں صحابہؓ نے خود کھجوروں پر گذارا کیا مگر قیدیوں کو پیٹ بھر اچھا کھانا کھلایا۔ قیدیوں کے پاس کپڑے نہ رہے تو مُحسنِ انسانیت حضرت محمدؐ نے اپنے پاس کے کپڑے پہنائے، حالانکہ وہ وقت مسلمانوں پر سخت تنگی کا زما نہ تھا۔غزوہ بنو المصطلق میں 100سے زیادہ زن و مرد قید ہوئے تھے۔ وہ سب بلا کسی معائوضہ کے آزاد کردئے گئے۔ حدیبیہ کے میدان میں کوہِ تنعیم کے اسی (۸۰) حملہ آور قیدی ہوئے ، ان کو بھی بلا کسی جرمانہ کے آزاد کیا گیا۔جنگ حنین میں چھ ہزار( ۶۰۰۰) زن و مرد کو بلا کسی شرط و جرمانہ کے آزاد فرمایا۔بعض اسیروں کی آزادی کا معاوضہ آنحضرتؐ نیاپنی طرف سے اسیر کنندگان کو ادا کیااور اکثر اسیروں کو انعام دے کررخصت کیا گیا۔نبیؐ کی اس پاک تعلیم کا ہی اثر تھا کہ خلفائے راشدینؓ کے عہد میں اگر چہ عراق و شام، مصر و عرب ، ایران اور خراساں کے شہر فتح کئے گئے مگر کسی جگہ بھی حملہ آوروں نے دُشمن فوج کی رعایا میں سے کسی کو لونڈی یا غلام بنانے کا ذکر نہیں ملتا۔مغلوب دشمن سے تاوان جنگ لینے کا بھی کہیں تاریخ میں شہادت یاثبوت نہیں ملتا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمدصلعم نے جو صالح انقلاب برپا کیا اس کی روح تشدد وتنفر سے عاری تھی بلکہ الٹا یہ خیر محبت و خیر خواہی اور حسن سلوک سے عبارت تھی۔ اسلامی نظام کے قیام میں دونوں جانب کا جانی نقصان چند ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ اس کے برعکس قیصر جسٹنین کے زمانہ میں جب ونڈالوں پر چڑھائی کی گئی تو پچاس لاکھ کی عظیم ا لشان آبادی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔(History of the Decline & Fall of the Roman Empire : Gibbon ; Vol. 4, PP 134))۔ ۷۰ عیسوی میں ٹٹیوس رومی نے جب بیت مقدس فتح کیا تو دوران جنگ میں ۹۷ ہزار آدمی گرفتار کئے گئے جن میں ۱۱ ہزار صرف بھوک کی شدت سے مر گئے اور ان کے علاوہ جنگ اور قتل عام میں جو لوگ ہلاک ہوئے ان کی مجموعی تعداد 1,33,490بتائی جاتی ہے اور 1,01,700افراد کو قیدی بنایا گیا۔تمام درختوں کوصفحہ ہستی سے اس طرح مٹا دیا گیا جیسے کہ وہاں پر کچھ تھا ہی نہیں۔ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں اورانسانی لہو پانی کی طرح بہ رہا تھا (Early Days of Christianity : F.W. Farrar : pp 488-489)۔  بدقسمتی سے انیسویں ، بیسویں اور اکیسویںصدی میں بھی وحشیانہ اور انسانیت سوز جنگوں کے ذریعے انسانیت اور انسانی شرافت کی تمام خصوصیات کو ایک ایک کرکے تباہ و برباد کیا گیا۔صحرائے عر ب میں بیس لاکھ لوگوں کو ابدی نیند سلادیا گیا۔ قیدیوں کو لوہے کے پنجروں میںڈال کر ننگے آسمان تلے گرمی کی شدت میں تڑپ تڑپ کر ابدی نیند سلادیا گیا۔دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگوں کی ہلاکت واقع ہوئی ۔ ویتنام کے لاکھوں بے گناہ کے قتل اور اپاہج بنا دینے اور کلسٹر بموں کی مار سہنے پر مجبور کیا گیا۔ہندوستان کی جنگ آزادی میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔کشمیر میں اب تک لاکھوں لوگوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ابھی پتہ نہیںاور کتنے معصوم جانوں کے لہو سے کشمیر کی وادی کو رنگ لیا جائے گا۔تیس ہزار لوگوں کا کوئی اَتہ پتہ ہی نہیں۔پچاس ہزار کے قریب عورتوںکو بیوہ بنا دیا گیا ۔ سینکڑوں کی تعداد میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ عورتوں کی عصمت کو ہمیشہ کے لئے داغدار بنا لیا گیا۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کشمیری نوجوانوں کو نشیلی ادویات کا عادی بنا کر ان کے مستقبل کو ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد کیا گیا۔اس کے علاوہ نئی نسل کے لئے فحاشی ، عریانی اور بے حیائی کو دلکش انداز میں پیش کرکے ان کے اخلاقیات کا بے دردانہ طریقے سے قتل کیاجارہا ہے۔افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ ان کے گھر بار کھنڈرات میں تبدیل کئے گئے۔ پاکستان میں عید کے دن لوگوں پر ڈرون میزائیل کے حملے کرکے ان کاوحشیانہ طریقے سے قتل کیا جارہا ہے۔فلسطین کے عوام پر ظالمانہ اقدام کر نا جائز کراکے ان کو ہر دن تشد کا نشانہ بنا یا جارہا ہے۔ معصوم  بچوں کے اوپرسے ٹینک چلانا ،ان کے معصوم سینے گولیوں سے چھلنی کر انااسرائیل کی جا نب سے تفریح کے کام کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ مہینوں مہینوں تک اندھیرے میں رکھ کر اہل فلسطین کو بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھا جارہا ہے۔ عراق میں بے شمار لوگوں کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔عورتیں بچے ، بوڑھے ، بیمار، زخمی ، کوئی بھی ہمہ گیر دست درازی سے مستثنیٰ نہ رہا۔ حال ہی میں میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کو اذیت ناک طریقے سے قتل کیا گیا۔ بچوں ، بزرگوں اور عورتوں تک کو وحشیانہ پن کا شکار ہونا پڑا۔گوانتا ناموبے میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم افراد اسیری کی زندگی بسرکر رہے ہیں اور ان کے ساتھ جانور سے بھی گیا گزرا سلوک کیا جارہا ہے۔ کُتے عیش کر رہے ہیں اور قیدی دانہ کو ترس رہا ہے۔
الغرض آج کا طاقتور انسان بھی ، انسان کی شکل میں وہ وحشی درندہ بن گیا ہے۔ آج کا انسان مہذب اور انسانیت پسند لبادے مین دراصل انساینت سوز حرکات سے انسانی شرافت کی تمام خصوصیات کو ایک ایک کرکے تباہ و بربا د کررہا ہے۔ ہر طرف دولت و اقتدار کے لئے معصوم جانوں کے لہو کو پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔انسانی ذہن و کردار میں ایسا بنیادی فساد آگیا ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اس کے منحوس پرچھائیوں سے محفوظ نہیں ۔ سیاست میں جذبۂ خدمت کی جگہ اغراض پرستی گُھس گئی ہے۔معیشت کے میدان میں ظالم اور مظلوم طبقے پیدا ہو گئے ہیں۔ چیتے اور بھیڑیئے کا سا معاملہ ہے۔  جوہری توانائی نے تباہ کارئیوں کے لشکر انسان کے سامنے مسخرکر کے کھڑے کر دئے ہیں۔ معاملہ صرف ایک قوم کی آزادی اور ایک قوم کی ترقی کا نہیں بلکہ معاملہ پوری انسانیت کو موت اور زندگی کا ہے۔ سوال کسی ایک خرابی کا نہیںبلکہ انسانیت کا بدن داغ داغ ہے۔ مریض مریض کا علاج کس طرح کرے؟جو خود پیاسا ہو ، دوسرے کی پیاس کس طرح بجھائے؟ اضطراب کے اس لمحے میں جب چاروں طرف نظر پڑتی ہے تو تاریکی کا ایک ٹھا ٹھیں ما رتا ہوا سمندر عالم انسانیت  کامحاصرہ کئے ہوئے دکھائی دیتا ہے اور اس سمندر میں دور ۱۵ صدی کی دوری پر ایک نقطہ نور دکھائی دیتا ہے۔ یہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن حضرت محمدصلعم کے پیغام کی مشعل ہے جس نے پورے اجتماعی زندگی کو اندر سے بدل دیااور صبغتہ اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک ، مدرسہ سے عدالت تک اور گھر سے لے کر میدان جنگ تک چھا گیا ۔اپنی زندگی اور اپنے خاندان کی زندگی خطرے میں ڈال کر ، اپنا سب کچھ قربان کرکے،بادشاہی کا تاج ٹھکرا دیا ،محبوب وطن کو چھوڑا، پیٹ پر پتھر باند ھااور ہر فائدہ اور ہر لذت سے دور رہے۔ دُشمن کے ساتھ انصاف کا برتائو کیا، حق کے معاملے میں اپنی اولاد کی پرواہ نہ کی ، رات کے عبادت گذار اور دن کے شہسوار تھے ۔تیئس(23) برس میں دینا کا رُخ بدل کے رکھ دیا کہ آج بھی انسان عش عش کر رہا ہیا ور اس بات کا تمنا ئی ہے کہ کب یہ نور پھر سے انسانی دنیا کا مقدار بن جا ئے ۔ انسان کیا بدلاکہ جہاں بدل گیا۔کسی کونے میں شر نہیں اور کسی کونے میں فساد نہیں ۔ ہر طرف بنائو ہی بنائو اور ارتقاء ہی ارتقاء ہے  اور اگر دنیا حقیقی معنوں میں اضطراب و بے چینی سے نجات پا نے کی آ رزومند اور امن و سلامتی کی متمنی ہے تو ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی اسوہ رسول صلعم کے تابع گذارے ۔ 

No comments:

Post a Comment