غیر متشکل خلیہ:انسانی جسم کی ’مرمت‘ کا دریچہ محمدوسیم
کسی جسم میں موجود زیادہ تر بالغ خلیوں کا ایک مخصوص مقصد ہوتا ہے جسے تبدیل نہیں کیا سکتا۔ مثلاً جگر کا ایک خلیہ مخصوص کام کرنے کے لیے بنتا ہے اور اسے فوری طور پر دل کے خلئے کا کام نہیں لیا جا سکتا۔سٹیم سیلز ان سے مختلف خلئے ہوتے ہیں۔ وہ افزائش کے ابتدائی مرحلے میں ہوتے ہیں اور ان میں مختلف قسم کے خلیوں کی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔جب ایک سٹیم سیل تقسیم ہوتا ہے تو ہر نئے خلئے میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یا تو وہ سٹیم سیل کی شکل میں قائم رہے یا ایک ایسا خلیہ بن جائے جو کوئی مخصوص کام سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس صلاحیت پر قابو پا کر سٹیم سیلز یا بنیادی خلیوں کو انسانی جسم کی ’مرمت کے سازوسامان‘ کی شکل دی جا سکتی ہے۔ان کے مطابق ان سٹیم سیلز کو ایسی تندرست بافتیں تیار کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے جو ایسی بافتوں کی جگہ لیں گی جو بیماری سے متاثر ہوئی ہوں۔سائنسدانوں کے مطابق وہ بیماریاں جن کا علاج سٹیم سیل کی مدد سے ہو سکتا ہے ان میں پارکنسن، الزائمر، دل کی بیماری، آرتھرائٹس اور ریڑھ کی ہڈیوں کی تکالیف شامل ہیں۔سٹیم سیلز کو تجرباتی ادویات کے نتائج جاننے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر تحقیق سے یہ بھی پتہ چل سکتا ہے کہ انسانی جسم میں ٹشوز یا بافتیں کیسے بنتے ہیں اور کیسے بیماریاں انسانی جسم پر غلبہ حاصل کرتی ہیں۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ سب سے کارآمد سٹیم سیل ایمبریوز کی بافتوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا کثیر بارآور ہونا ہے۔ ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ انسانی جسم کے کسی بھی خلئے کا روپ دھار سکتے ہیں۔سٹیم سیل انسانی اعضاء میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ایسے خلئے ہوتے ہیں جن کا کوئی مخصوص کام نہیں ہوتا اور انہیں اسی عضو میں کسی اور مخصوص کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ان کا کام اس عضو میں پیدا ہونے والی خرابی کو صحیح کر کے اسے تندرست رکھنا ہوتا ہے۔لیکنان کے استعمال کی بڑے پیمانے پر مخالفت ہوئی ہے۔یہ سیل تجربہ گاہ میں تیار کیے جانے والے ایسے ایمبریوز سے لیے جاتے ہیں جن کی عمر چار سے پانچ دن ہوتی ہے۔ ان کے استعمال کے مخالفین کے مطابق تمام ایمبریوز چاہے وہ قدرتی طریقے سے بنیں یا انہیں تجربہ گاہ میں تیار کیا جائے، ان میں انسانی شکل میں ڈھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے اس لیے ان پر تجربات کرنا اخلاقی طور پر صحیح نہیں۔یہ گروپ بالغ بافتوں سے لیے گئے سٹیم سیلز کے استعمال کے حامی ہیں۔ کچھ محققین کو خدشہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ سٹیم سیل کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں جبکہ کچھ کے خیال میں ان میں موجود بیماریاں علاج کروانے والے شخص کو منتقل ہو سکتی ہیں۔ حالیہ تحقیق کے دوران برطانوی سائنسدانوں نے ایک مریض کے اپنے ہی خون سے اس کے ذاتی استعمال کے لیے سٹیم سیل بنایا ہے۔ڈاکٹروں کو امید ہے کہ بالاخر اس سے مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج میں مدد ملے گی۔کیمبرج یونیورسٹی کی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ سٹیم سیل حاصل کرنے کے آسان ترین اور محفوظ ترین طریقوں میں سے ایک ہوگا۔عالمی طبی جریدے ’سٹیم سیل: ٹرانسلیشنل میڈیسن‘ میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سٹیم سیل کا استعمال شریان بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔طبی تحقیق کے میدان میں سٹیم سیل سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ یہ کسی بھی قسم کے خلیوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں جن سے جسم کی تعمیر ہوئی ہے اس لیے اس کے ذریعے دل سے لے کر دماغ تک اور آنکھوں سے لے کر ہڈیوں تک کسی بھی عضو کی مرمت کی جا سکتی ہے۔طبی محققین کا کہنا ہے کہ کسی بالغ کی جلد سے لیے گئے سیل کو سٹیم سیل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جسے جسم اپنے حصے کے طور پر قبول کرے اور اسے باہری عنصر سمجھ کر رد نہ کرے۔کیمبرج کی ٹیم نے خون کے نمونوں کو سیل کی مرمت کے لیے منتخب کیا اور اسے خون کے دوران کے ساتھ شریانوں میں دوڑایا تاکہ شریانوں کی دیوار کی مرمت ہو سکے۔ اس کے بعد انہیں سٹیم سیل میں تبدیل کر لیا گیا۔ ادھرایک امریکی بایو ٹیکنالوجی کمپنی بارہ نابینا افراد کی بینائی واپس لانے کے لیے ان کی آنکھ میں انسانی سٹیم سیل یعنی بنیادی خلئے داخل کرنے کے تجربے کا آغاز کرنے والی ہے۔چوہوں پر کامیاب آزمائش کے بعد انسانوں پر اس تجربے کی منظوری امریکہ کے خوراک و ادویات کے منتظم ادارے نے دی ہے۔تجربہ کرنے والی کمپنی ایڈوانس سیل ٹیکنالوجی کے سینئر ایگزیکٹو نے بتایا ہے کہ چوہوں پر کی گئی آزمائش کے دوران ان کی بصارت میں سو فیصد اضافہ ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ سٹیم سیل تحقیق میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ابتدائی طور پر جن بارہ مریضوں پر تجربہ کیا جائے گا ان کی بصارت بحال ہونے کا امکان نہیں ہے بلکہ اس تجربے کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ یہ علاج کتنا محفوظ ہے۔تجربے کی کامیابی کی صورت میں سٹیم سیل کا یہ علاج نوجوان مریضوں پر آزمایا جائے گا تاکہ ان کی بینائی مکمل طور پر ختم ہونے سے بچائی جا سکے۔سٹم سیلز میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کسی دوسری قسم کے خلیوں میں ڈھل سکتے ہیں اور کئی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سٹم سیلز کی اس صلاحیت کی بنیاد پر یہ ممکن ہے کہ انہیں مختلف ٹشوز میں ڈھال کر جسم کے اندر متاثرہ اعضاء کی مرمت اور بیماری کا علاج کیا جا سکے۔سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد جسم میں کسی بھی طرح کے خلئے میں تبدیل ہوسکتے ہیں اور حال ہی میں ایک اور امریکی کمپنی نے ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ کا شکار افراد کے علاج کے لیے انسانی بنیادی خلیوں کے استعمال کے تجربات بھی شروع کیے ہیں۔سائنسدانوں کا موقف ہے کہ سٹیم سیل پر مزید تحقیق سے انسانی جسم کے لیے ’سپیر پارٹس‘ حاصل کیے جا سکیں گے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ سٹیم سیل پر مزید تحقیق سے کئی ناقابل علاج بیماریوں جیسے ذیابیطس، رعشہ اور الزائمر کے علاج میں بھی مدد مل سکتی ہے۔سٹیم سیل ریسرچ کے دو بانی سائنسدانوں کو اس سال مشترکہ طور پر طب کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا ہے۔برطانیہ کے جان گرڈن اور جاپان کے شنیایمنا کو یہ انعام بالغ خلیوں کو سٹیم سیلز میں بدلنے کی تحقیق پر دیا گیا۔ یہ سٹیم سیلز بعد ازاں جسم میں کسی بھی قسم کے خلئے کی شکل اپنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
موبائل نمبر:-8803003787
courtesy: Kashmir Uzma Srinagar
|
Search This Blog
Friday, 7 December 2012
غیر متشکل خلیہ:انسانی جسم کی ’مرمت‘ کا دریچہ
Labels:
SCIENCE
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment