Search This Blog

Wednesday 20 February 2013

پروفیسر جگن ناتھ آزاد۔۔۔۔ ’’نسیم حِجاز‘‘ کا مدّاح

پروفیسر جگن ناتھ آزاد۔۔۔۔ ’’نسیم حِجاز‘‘ کا مدّاح



گذشتہ چار عشروں سے مجھے برِ صغیر کے سرکردہ ادیبوں ، عالموں ، شاعروں اور مسلم و غیر مسلم دانشوروں کو سرینگر دوردرشن ، کشمیر یونیورسٹی اورملک کے متعدد شہروں میں دوران سفر قریب سے دیکھنے ، سننے اور ان کے بلند افکار و نظریات سے بلواسطہ اور بلاواسطہ فیضاب ہونے کا موقعہ فراہم ہواہے۔ معروف اردو شاعر، عالمی شہرت یافتہ ماہر اقبالیات، مدّاح رسالت مآب ؐ اور ایک نہایت ہی سلیم الفطرت انسان پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ کے ساتھ میرے مراسم ان ایام سے جڑے ہوئے تھے جب وہ سرینگر میں مرکزی محکمہ اطلاعات میں بحیثیت پبلسٹی آفیسر کام کررہے تھے ۔ ادبیات، اسلامیات اور اقبالیات ان کے پسندیدہ موضوعات تھے ۔ ان کے حریف و حلیف دونوں انہیں اقبال کی چلتی پھرتی ڈکشنری تصور کرتے تھے ، سوائے چند اُدباء کے جنہیں خواہ مخواہ ان سے عناد اور الرجی تھی ، لیکن آزادؔ کی یہ عالی حوصلگی تھی کہ اپنے حریفوں یا معاصرانہ چشمک رکھنے والوں کے متعلق ایک جملہ بھی کبھی زبان پر نہیں لایا جس میں بدگوئی کا پہلو موجود ہوتا ۔ ہندوستان میں انتہائی نامساعد حالات میں آزادؔ نے جہاں ترجمان الحقیقت علامہ محمد اقبال کے فکر و فن پر کتابین لکھیں اور توسیعی خطبات دیئے وہاں اپنے نظام شعر میں حضرت سرورِ کائنات ؐ کے انسانی دنیا پر احسانات و عطیات کا تذکرہ اپنے مختلف شعری مجموعوں میں متفرق مقامات پر ادب و تعظیم کے سارے لوازمات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے بعد مین ’’نسیم حجاز ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر لایا ہے۔ ویسے بھی کئی ہنود شعراء نے کشادہ دلی اور رواداری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بارگاہ رحمۃ العالمینی ؐ میں شعر و سخن اور مدح و ثناء کے عطر بار گلدستے پیش کئے ہیں ۔ آزادؔ نے لاہور ، دہلی اور جموں میں وقتاًفوقتاً سیرتی اور نعتیہ محافل میں شمولیت کرکے اقبال کے زیر اثر کمال درجے کے مدحیہ اشعار پڑھے ہیں۔ طُوطئی ہندحضرت امیر خسروؒ نے دربارِ نبویؐ کی منظر نگاری’’خُدا خود میرِ محفل بود شب جائے کہ من بودم ‘‘ کی الہامی کیفیت کے حامل لفظوں میںکی تھی اور ادھر آزادؔ اپنے دلکشا مجموعہ شعر ’’نسیم حِجاز ‘‘ میں اس عظیم ادب گاہ کا نقشہ ’’محفل نعت میں ایک رات‘‘ والی نظم میں یوں پیش کرچکے ہیں۔   ؎
وہاں کل رات جنّت کا نظارا تھا جہاں میںتھا
عجب اک کیفِ پیہم آشکارا تھا جہاں میں تھا
زمیں سے عرش تک تھا ایک کیف ِبے خودی طاری
کہ اک نام مقدّس ؐ جلوہ آرا تھا جہاں میں تھا
یہ تھی وہ سرمدی محفل کہ اس محفل کا ہر لمحہ
عقیدت نے محبت سے سنوارا تھا جہاں میں تھا
وہ دانائے سبل ، ختم الرسلؐ کا ذکر تھا جس کا
میسّر اہل ِ باطن کو سہاراتھا جہاں میں تھا
دراصل ماحول ، تربیت ، تعلیم اور صحبت وہ عناصر اربعہ ہیں ، جو ایک شخصیت کی ساخت و پر داخت میںکلیدی حصّہ ادا کرتے ہیں۔ آزادؔ تلوک چندمحروم ؔ جیسے بلند قامت شاعر کے نورِ نظر تھے اور لاہور، جو عروس البلاد کہلاتا تھا ، علامہ تاجو رؔ نجیب آبادی ،سید عابد علی عابد ؔ اور عبد المجید سالکؔ جیسے ادیب بقید حیات تھے۔ ان کی مصاحبت اور پھر 1947 ؁ء کے بعد آزادؔ کا دہلی اور جموں میں قیام اور ہر طرح کی علمی سرگرمیوں میں بھر پور حصّہ انکی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے میں معاون ثابت ہوا۔ ’’نسیم حجاز ‘‘ کے مضامین آزادؔ کی شاعری کے انسانی ، اخلاقی اور عربی رنگ کی عکاسی کرتے ہیں۔ حمد و نعمت ، دعا، ولادت، باسعادت ِمیلاد النبی ؐ، سلام ،دہلی کی جامع مسجد ، بھارت کے مسلمان ، قرطبہ سے ویلنشیا تک ، مرثیہ ، بابری مسجد اور اقبال جیسے عنوانات مقرر کرکے جگن ناتھ آزادؔ بحیثیت ایک غیر مسلم کے ان شاندار خدمات اور تعلیمات کا احاطہ کرتا ہے جو ملّت اسلامیہ کے جلیل المرتبت اشخاص نے اور مسلمانان ِہندنے تاریخ کا شاندار تسلسل قائم رکھنے کے لئے دنیا کے سامنے پیش کی ہیں ۔ آزادؔ نے اپنی ایک طویل نظم ’’جمہور نامہ‘‘ میں ولادت باسعادت کا ذکر کرتے ہوئے یقینا نعت نگاری کا حق ادا کیا ہے ۔ چند اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں تاکہ قارئیں اس امر کا انداز ہ لگا سکیں کہ ایک غیر متعصب اور پاکیزہ سرشت انسان کن حسین الفاظ کا استعمال کرکے پیغمبر اکرم ؐ کا ذکر خیر کرتا ہے ۔    ؎
پلادے معرفت کی جس قدر بھی ہے مئے باقی
کہ میرے لب پہ ذکرِ فخرِ موجودات ہے ساقی
جہان ِ شاعری میں آج رہ جائے بھرم میرا
سخن سنجوں کی صف میں ہو نہ شرمندہ قلم میرا
مجھے اک محسنِ انسانیت ؐ کا ذکر کرنا ہے
مجھے رنگِ عقیدت فکر کے سانچے میں بھر نا ہے
بتانا ہے کہ جب انسان سچیّ راہ بھولا تھا
یہ جب نازاں تھا کج بینی پہ گمراہی پہ پھولاتھا
تو کیوں کر غیب سے انسانیت کا رہنما آیا
شفاعت کا لئے ساماں بشر کا آسرا آیا
چنانچہ منظوم اور تاریخی انداز میں آزادؔ نے سرزمین عرب کی وہ غمناک صورت سامنے لائی ہے جو حضورؐ کی بعثت سے پہلے اور پھر انکی حیات ِ طیبہ میں نمایاں تھی ۔ آپ ؐ کی تشریف آوری نے کیسا صالح انقلاب برپا کردیا ، رنگ ونسل کی تفریق کیسے مٹادی ، انسانی اخوت کے عالمگیر نظریے کو عملاً کیسے اپنا یا اور عدل و رحمدلی کا لافانی درس نسل انسانی کے لئے کس کس انداز میں پیش کیا، آزادؔ صاحب نے بڑے موثر پیرایہ بیان میں نہایت عاجزی کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔
وہ آیا فقر فخری رتبہ ہے جسکی قناعت کا
وہ آیا جو معلّم ہے جہاں میںدینِ فطرت کا
وہ آیا جس کو کہیے فخرِ آدم ہادیِ اکرم
وہ آیا جس کو کہیے زندگی کا محسن ِ اعظم
سراپا علم بن کر صاحب ِ امّ الکتاب آیا
زمین تشنہ لب کی زندگی بن کر سحاب آیا
آقائے کونین ؐ کے حضور مین اُردو کے کئی شعراء نے نعت وسلام کی نہایت ہی اعلیٰ عقیدتی و توصیفی نظمیں تحریر کی ہیں۔ آزادؔ بھی ظفر علی خان ، ماہرالقادری ، کوثرنیازی ، ابوالمجاہد زاہد ، اور محسن کاکوروی کے اسلوب میں اپنا ہدیہ سلام نذر کرتے ہوئے یوں رطبُ اللسان ہیں۔
 سلام اے آسمانِ قدس کے مہرِ جہاں آراء
سلام اے کیف و رنگ ِ نَوبہار اے گلستاں آرا
سلام اے بیکسوں کو ارجمندی بخشنے والے
سلام اے پست حالوں کو بلندی بخشنے والے
سلام اے دیوِ باطل کی کلائی موڑنے والے
سلام اے آدمی کا حق سے رشتہ جوڑنے والے
متذکرہ اشعار کی فکری اور فنّی خوبیوں سے محظوظ ہو کر معروف اسلامی اسکالر اور محقّق ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے جگن ناتھ آزادؔ کی پوری نعتیہ نظم کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیاہے۔
جگن ناتھ آزادؔ کے تقریباً ایک درجن شعری مجموعے راقم الحروف نے بارہا پڑھے ہیں اور ہر بار انکی  پاکیزگی فکر کا اندازہ اور علامہ اقبال سے فرطِ عقیدت کا احساس ہوتا ہے۔ ’’وطن میں اجنبی ‘‘ سے لیکر ’’نسمِ حِجاز ‘‘ تک ہر مقام پر آزادؔ اعلیٰ انسانی اقتدار اور عالمی میراث کی مشترکہ قدروں کے ترجمان نظر آئے ہیں۔ قرطبہ ، مرسیہ ، غرناطہ ، اجمیراوردہلی میں آزاد ؔکو شاندار اسلامی تاریخ و تہذیب کے انمٹ نقوش نظر آئے ہیں۔ وہ دہلی کی مسجد جامع کو عالم فانی میںایک نقش دوامی خیال کرتے ہیں۔ انہیں اس عظیم سلطنت کے ذرّے ذرّے میں روح ِاسلامی اور عظمت ِ انسانی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔
اے جذب ِ طہارت کی امیں مسجد جامع
روشن دل و تابندہ جبیں مسجدِ جامع
اے جلوائہ انوار ِ یقیں مسجد جامع
اے خاتم ِ دہلی کی نگیں مسجد ِ جامع
ہے آج بھی تسکینِ نظر تیرا نظارا
تو آج بھی ہے روح کی دنیا کا سہارا
اُردو شعر و ادب کی دنیا آئے دن سونی سونی سی نظر آرہی ہے اور آزاد ؔجیسے نکتہ رس، سخن سبخ ، کشادہ ذہن اور شعر اقبال کے باکمال ترجمان ڈھونڈے سے بھی نہیں مل پائیں گے ۔ میں نے بارہا گاندھی نگر جموں میں آزادؔ کو فکر وفن کی دنیا میں غرق اپنی لائبریری تو لگائے دیکھا ہے اور بعد میں اپنی وصیت کے مطابق کتابوں کی ایک بڑی تعداد علامہ اقبال لائبریری کشمیر یونیورسٹی کو تحفتاً مرحمت فرمائی۔ کہاں گئے ایسے آزادؔ منش اور سادھومزاج لوگ؟
رابطہ
اقبال انسٹچوٹ کشمیر یونیورسٹی
خطرناک اور تیزبارشوں سے پھل والے درختوں کو بھی نقصان پہنچا اور بھوکے لوگوں نے سیب اور ناشپاتی کے شگوفے اور توت کے کچے پھل کھائے۔ اُسی پر بس نہیں ہوا۔ اُس کے بعد انہوں نے جھاڑیوں، دلدلوں اور درختوں کی جڑوں سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانا شروع کی جس سے طرح طرح کی بیماریوں کے شکار ہوکر وہ مرنے لگے۔ کتنا دلدوز منظر رہا ہوگا جب بے گور و کفن لاشیں کونوں، کھدروں، جو ہڑوں اور کنوئوں میں پڑی سڑتی رہیں اور آوارہ کتوں کی خوب خوب ضیامت کا سامان مہیا ہوتا رہا۔ شہروں میں شال باف حد سے زیادہ اس وبا کا شکار ہوئے اور یہاں یہ بات بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اہل ہنود فاقوں کے کم ہی شکار ہوگئے تھے۔‘‘ ویلیؔ از ڈبلیو ایچ لارنس)
آج سے بتیس چونتیس سال قبل پروفیسر نیپالؔ سنگھ سابق سیکریٹری، مسٹر جے مزیراؔ سابق اکیڈمک آفیسر اور مسٹرکے شرماؔ سابق چیف اکائوٹنٹ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن بھوپالؔ مدھیہؔ پردیش کے ساتھ میری ملاقات گلمرگ میں ہوئی۔ جب ذرا بے تکلفی ہوئی تو مذکورہ پروفیسر صاحب نے بڑے بے تکلفانہ انداز میں ایک چبھتا ہوا سال جھاڑدیا، کہ کشمیریوں کو جھوٹا، دروغ گو سجھا جاتا رہا ہے یہ کس حد تک صحیح ہے اور اس بارے میں میری کیا رائے ہے۔ آئیں بائیں شائیں کے بغیر میں نے سپاٹ لہجے میں کہا کہ ایسا سو فی صد دُرست ہے۔ یہ دو ٹوک، برجستہ اور خلاف توقع جواب سُن کر موصوف حیران رہ گیا اور میری طرف غور سے دیکھنے لگاکہ کہیں میں مذاق تو نہیں کر رہا ہوں اور پھر میں نے اپنے جواب کی تو ضیح کی۔ میں نے لارنس کی کتاب ویلیؔ (جس کا تذکرہ آگے ہی کرچکا ہوں) سے ایک حوالہ دیا جس میں مورخ یوں رقم طراز ہے:۔
’’ایک کشمیری کو ضصیف الاعتقادی نے ڈرپوک جبرو استبدار نے جھوٹا، دروغ گوجبکہ آفاتِ سماوی نے خود غرض اور شقی القلب بنادیا ہے۔‘‘
دوسری ایک اور جگہ فرماتے ہیں:۔
’’کشمیری وہی کچھ ہے جو اُسے اُس کے حکمرانوں نے بنادیا ہے۔‘‘
یقینا ساری بات، ساری تاریخ، سارے مفروضات اور سارے اعتراضات و الزامات کی تفسیر اسی ایک جملے میں ہے۔ یہ فقط ایک جملہ ہی نہیں ایک پوری ایک داستان ہے۔ ایک پوری تاریخ ہے۔ عزبت وبے چارگی کی، افلاس و درماندگی کی، ظلم و استحصال کی، ٹیس اور رستے ناسوروں کی، آہ و بکا اور آنسوئوں کی، کسک و کراہ کی، کرب و بلا کی اور اُس کشمیری مسلمان کی جو اِس زمانے میں بھی لالٹین اور شمع جلا کر اپنے بچوں کے اُترے چہرے دیکھتا ہے کہ وہ ہوم ورک کرنے کی سراسیمگی میں ہیں جب کہ چاند پرجانے کیلئے ٹکٹوں کی بکنگ شروع ہونے والی ہے۔
مندرجہ بالا سطور سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت جس کی بھی رہی ہو مگر ہر دور میں یہی کشمیری مسلمان دستِ تطاول کا شکار رہا ہے۔ اُس کے برعکس کشمیر پر مہابھارت کے زمانے سے ہندئوں کی حکومت رہی، بڈشاہ کے دور حکومت میں انہوں نے فارسی پڑھی تو نہ صرف حکومت کے کارکن کہلائے بلکہ اُمرا ٔاور وزرأبھی ہوگئے۔ سکھوں کے دور حکومت میں اُن کی بہت بہتر پوزیشن تھی اور حکومت میں رسائی تھی اور ڈوگرہ دور حکومت کے ایک سو سال میں ڈوگرہ برائے نام حکومت کرتے تھے جبکہ اصلی حکمران کشمیری پنڈت ہی تھے۔ سرکاری عہدوں کے علاوہ اُن کے پاس زمینیں اور جاگیریں تھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب ایک خط پڑھوانے کا معاوضہ ایک کشمیری پنڈت مسلمان سے ایک دن کی مزدوری لیتا تھا اور خط لکھوانے کی صورت میں خط پوسٹ بکس میں مسلمان ہی ڈالتا تھا مگر وہ خط کس کے نام ہوتا تھا یہ معلوم نہیں اور لکھوانے والے پر کمال امروہی والا معاملہ ہی پیش آتا تھا کہ      ؎
برسوں جواب یار کا
دیکھا کئے ہم راستہ
بات کو یوں بھی ایک چھوٹی سی مثال سے واضح کیا جاسکتا ہے کہ جب 1877ء کے قحط عظیم میں چھ لاکھ مسلمان لقمہ اجل بن گئے (بلکہ اجل کے بعد لقمہ سگ بھی بن گئے) تو دو سال کے بعد مہاراجہ رنبیر سنگھ نے عظیم جانی نقصان کے بارے میں کم و بیش سُناتو اُسے صدمہ ہوا ورنہ اُسے قحط سالی سے ہوئے اموات کے بارے میں کانوں میں بھنک تک پڑنے نہیں دی گئی تھی، علی الرغم اُسے بتایا گیا تھا کہ بھوک سے رعایا میں کوئی ہلاک نہیں ہوا تھا۔
جاری ہے
رابطہ :- پوسٹ باکس نمبر :691
جی پی او سرینگر -190001، کشمیر
موبائل نمبر: 9419475995

بہ شکرءیہ کشمیر عظمی

No comments:

Post a Comment