Search This Blog

Wednesday 20 February 2013

رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم : دشمنوں سے حُسنِ سلوک

رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم : دشمنوں سے حُسنِ سلوک


مکہ میں غلہ یمامہ سے آتا تھا، یمامہ کے رئیس یہی ثمامہ بن اثال تھے، وہ مسلمان ہو کر جب مکہ گئے تو قریش نے تبدیلی ٔ مذہب پر ان کو طعنہ دیا، انھوں نے غصے سے کہا خدا کی قسم! اب رسول اللہ کی اجازت کے بغیر گیہوں کا ایک دانہ نہیں ملے گا، اس بندش سے مکہ میں اناج کا کال پڑگیا، آخر گھبرا کر قریش نے اس آستانے کی طرف رجوع کیا جس سے کوئی سائل کبھی محروم نہیں گیا، حضور B کو رحم آیا  اور کہلا بھیجا کہ بندش اٹھا لو، چناںچہ پھر حسب دستور غلہ جانے لگا۔
وحشی نے آپ کے عزیز ترین چچا حضرت حمزہؓ کو جنگ ِ احد میں قتل کیا، فتح مکہ کے بعد وہ طائف چلاگیا، جب طائف نے بھی سرِ اطاعت خم کیا تو وحشی کے لیے یہ جائے امن نہ رہا، لیکن اس نے سنا تھا کہ آپ سفراء سے کسی قسم کا تعرض نہیں کرتے، ناچار وہ خود وفد ِ طائف کے ساتھ بارگاہِ رحمت میں مدینہ منورہ مشرف باسلام ہونے کی غرض سے حاضر ہو، لوگوں نے ان کو دیکھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! یہ وحشی ہے، آپ کے عم محترم صلعم کا قاتل۔ آپ ؐنے فرمایا اس کو چھوڑ دو، ایک شخص کا مسلمان ہونا میرے نزدیک ہزاروں کافروں کے قتل سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔ بعد ازاں آپ نے وحشیؓ سے حضرت حمزہ ؓ کے قتل کا واقعہ دریافت فرمایا، وحشی نے نہایت خجالت و ندامت کے ساتھ تعمیل ارشاد کی غرض سے واقعہ عرض کیا۔انہوں نے اسلام قبول کیا، اور آپ نے ان سے صرف اس قدر فرمایا کہ اگر ہو سکے تو تم میرے سامنے نہ آنا، اس لیے کہ تم کو دیکھ کر چچا کا صدمہ تازہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ برابر اس فکر میں رہے کہ اس کاکوئی کفارہ ادا کروں، چناں چہ اس کے کفارے میں مسیلمہ کذاب کو اسی نیزے سے مار کر واصلِ جہنم کیا، اور جس طرح سیدالشہداء حضرت حمزہؓ کو ناف پر مار کر شہید کیا تھا، اسی طرح مسیلمہ کذاب کو بھی ناف ہی پر نیزہ مار کر قتل کیا، اس طرح ایک خیرالناس کے قتل کی مکافات ایک شرالناس کے قتل سے کی۔
صلح حدیبیہ کے بعد ابھی آپ حدیبیہ ہی میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ اسّی آدمی کو کوہِ تنعیم سے صبح کے وقت جب مسلمان نماز میں مصروف تھے، اس ارادے سے اترے کہ مسلمانوں کو نماز کے اندر قتل کردیں۔یہ سب لوگ گرفتار کرلیے گئے لیکن آپ B نے انہیں بلا کسی فدیہ و سزا کے آزاد کردیا، اس واقعہ پر قرآن کریم کی اس آیت ِشریفہ کا نزول ہوا: خدا وہ ہے جس نے وادیٔ مکہ میں تمہارے دشمنوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے اور تمہارے ہاتھ بھی ان پر قابو پانے کے بعد اُن سے روک دئیے-
صفوان ابن امیہ قریش کے رؤساء کفار میں سے اوراسلام کے شدید ترین دشمن تھے۔انہوں نے ہی عمیر ابن وہب کو انعام کے وعدے پر آپؐ کے قتل پر مامور کیا تھا، جب مکہ فتح ہوا تو اسلام کے ڈر سے جدہ بھاگ گئے اور قصد کیا کہ سمندر کے راستے سے یمن چلے جائیں۔ عمیر ابن وہب نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! صفوان بن امیہ اپنے قبیلے کے رئیس ہیں، وہ ڈر سے بھاگ گئے ہیں کہ اپنے کو سمندر میں ڈال دیں۔ ارشاد ہوا کہ اس کو امان ہے، مکرر عرض کیا یا رسول اللہؐ! امان کی کوئی نشانی مرحمت فرمائیے، جس کو دیکھ کر ان کو میرا اعتبار آئے۔ آپ ؐ نے ان کو اپنا عمامہ عنایت فرمایا جس کو لے کر وہ صفوان کے پاس پہنچے، صفوان نے کہا مجھ کو وہاں جانے میں اپنی جان کا ڈر ہے۔ عمیر نے جواب دیا صفوان! ابھی تمہیں محمد ؐ کے حلم و عفو کا حال معلوم نہیں۔ یہ سن کر وہ عمیر کے ساتھ دربارِ نبوی میں حاضر ہوئے اور سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ عمیر کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے امان دی ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا سچ ہے۔ صفوان نے کہا آپ مجھے دو مہینے کی مہلت دیجیے۔ ارشاد ہوا دو نہیں تم کو چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے مسلمان ہوگئے۔ (جاری)
(مرسلہ: منظور احمد قاسمی ،سری نگر)

No comments:

Post a Comment