Search This Blog

Wednesday, 20 February 2013

ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم

ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم
خُلق عظیم کا منصبِ جلیل

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اخلاقیات کے اس بلند ترین پر فائز تھے کہ آپؐ کے جانی دشمن جو ہر وقت آپؐ کو تکلیف دینے پر کمربستہ رہتے تھے،وہ بھی آپؐ کے اخلاق اعلیٰ کو نہ صرف تسلیم کرتے بلکہ آپؐ کے حسن کردار پر فدا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد آپؐ نے سلاطین و امراء کو بذریعہ خطوط دعوتِ دین پیش کی جب شاہِ روم ہرقلؔ کو آپؐ کا نامہ مبارک پہنچا تو انہوں نے مکہ کے اُن تاجروں کو دربار میں پیش کیا جو بغرضِ تجارت ان کے ملک آئے ہوئے تھے جن میں ابوسفیان جو ابھی اسلام دشمنوں کے صف میں ہی تھے، شاہِ روم نے آپؐ کے اخلاق کے بارے میں سوا کیا تو ابو سفیان کہنے پر مجبور ہوا کہ آپؐ کے اخلاق اتنے اعلیٰ و افضل ہیں کہ آج تک میں نے کوئی اتنا بلند اخلاق والا نہ ہی دیکھا اور نہ ہی ایسے کریمانہ اخلاق کے بارے میں سنا ہے۔ یہ آپؐ ہی کے اخلاق ہیں کہ آپؐ کے جانی دشمن جو ہر وقت آپؐ کے قتل کرنے کے درپے رہتے ہوئے بھی آپؐ کے حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہیں۔
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلیٰ اخلاق کے باے میں ایزدتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’بے شک آپ اخلاقیات کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں‘‘ چونکہ یہ آپؐ کے اخلاق ہی تھے جنہیں دیکھ کر آپؐ کے جانی دشمن بھی نادم ہوئے اور اسلام کے دائرے میں جوق در جوق داخل ہوتے رہے۔
غرض آپؐ کی حیات طیبہؐ کا ہر گوشہ خواہ وہ سفر کاہو یا حفرکا، بچپن ہو یا جوانی، دورِنبوت سے قبل کی پاک زندگی ہو یا بعثت کے بعد بعد والی حیات طیبہ ، مکی دور ہو یا مدنی، اپنوں کے ساتھ معاملات ہوں یا غیروں کے ساتھ لین دین ، آپؐ کی مبارک ترین زندگی کا ہر لمحہ آپؐ کے بلند ترین اخلاق کی ایک اعلیٰ مثال ہے، اس لئے اپنے تو اپنے غیر بھی خاموش نہ رہے، مغرب کے مشہور اسلام دشمن فلاسفر و ادیب تک بھی جب اعلیٰ ترین اخلاقیات کی مثال پیش کرتے ہیں تو وہ دشمن اسلام ہوتے ہوئے بھی آپؐ کے ہی بلند ترین اخلاقیات کی مثال دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
پورے جہاں میں آپؐ کے بلند اخلاق کا قطعاً کوئی ثانی بھی نہ آیا نہ آئے گا کیونکہ آپؐ اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ بھی ایسے پیغمبرانہ اخلاق سے پیش آئے کہ جس کے ادنیٰ درجے کی بھی مثال دنیا میں نہ کسی نے پیش کی نہ کر سکتا ہے،جب آپؐ نے مکہ فتح کیا تو اس وقت آپؐ کے وہ دشمن جنہوں نے قبل از ہجرت سے لے کر تا اس دم تک بے شمار تکلیفیں پہنچائیں تھیں، پریشا ن تھے، بھاگ رہے تھے کہ آج محمدؐ ہم پر غالب آیا ہے، اس حال میں کہ ہم ان کو ایذائیں پہنچاتی رہیں، آج وہ ہم سے ان ایذائوں کا بدلہ ضرور لیں گے مگر آپؐ کے کریمانہ اخلاق ہی تھے کہ آپؐ نے اعلان فرمایا :’’ آج عام معافی کا دن ہے، میں ان تمام لوگوں کو معاف کرتا ہوں جنہوں نے کوئی بھی تکلیف پہنچائی ہو۔ کیوںنہیں یہ ہمارے آقا حضرت محمدؐ ہیں، جن کے حسن خلق کی تعریف خود، خداوندتعالیٰ فرماتا ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ حضرت انس بن مالکؓ جو آپؐ کے خادم خاص ہیں، فرماتے ہیں کہ دس سال تک آپؐ کی خدمت میں رہا ہوں مگر کبھی بھی آپؐ نے نہیں فرمایا کہ ’’یہ کام درست نہیں کیا جب کہ خدمت میں حاضر ہونے کے باوجود دوعالم کے سردار اپنے کام خود ہی انجام دیتے اسی کا نام خلق عظیم ہے جس پردنیا کے وہ تمام نام نہاد اخلاقیات اورجمہوریت کے کے دعویدار گیرششدر و حیران ہیںجو اسلام کو ٹیریرزم کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور یہ جھوٹ پھیلاتے ہیںکہ اسلام بزور شمشیر پھیلا ہے۔
ان سے پوچھا جائے کہ شاہ حبش نجاشیؓ، دصعب بن عمیرؓ، حضرت عمر فاروقؓ،طفیل بن عمرودوسیؓ کے پاس کون تلوارلے کے گیا اسی طرح کے لاکھوں واقعات تاریخ کے صفات میں محفوظ ہیں ۔ کس تلوار نے ان نفوس قدسیہ کو اتنا عظیم فیصلہ لینے پرآمادہ کیا؟ ہاں وہ حسن خلق کی تلوار جو جسم کے بجائے دل و جگرکوچیرتی ہے، جس سے اخلاقیات کے تمام دعویدار، انقلابی قائدین اوربڑے سے بڑے فلاسفر تہی دامن ہیں، وہ آپؐ کی سیرت طیبہ اورآپ ؐعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسوۂ حسنہ ہے۔

No comments:

Post a Comment