Search This Blog

Wednesday 20 February 2013

آپ پریشان ہیں۔۔۔۔لیکن کیوں؟

آپ پریشان ہیں۔۔۔۔لیکن کیوں؟


لٹریچر میں اٹھارہویں صدی کو ’’ایجادات کی صدی‘‘ انیسویں صدی کو ترقی کی صدی اور بیسویں صدی کو’’پریشانی کی صدی‘‘ گردانا گیا ہے۔ روز مرہ کے زندگی کے مسائل و مشکلات کا مقابلہ کرتے وقت، عجیب و غریب حوادث سے دوچار ہو کر، ذہنی دبائو، کھچائو اورتنائو کے شعوری احساس سے ’’پریشانی‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔یہ احساس جذباتی، جسمانی، نفسیاتی یا تینوں کے ایک ساتھ مل جانے سے پیدا ہوسکتا ہے۔ اس طرح احساسات ناخوشگواری سے جب جسمانی علائم شروع ہوتے ہیں تو انسان پریشان ہو جاتا ہے۔ بنی نوع انسان کا پریشان ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ آغازِ زندگی ہی سے پریشانیوں میں مبتلا رہا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آج کے مادی دور اورتیز رفتار زندگی میں ’’پریشانی‘‘ ہر انسان کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ سکول جانے والے بچے نصابی کتابوں کے بوجھ سے پریشان ہیں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء مشکوک مستقبل کی بناء پر پریشان ہیں،سند یافتہ بے کار نوجوان تلاش روزگار سرگردانی میں پریشان ہیں ۔عام لوگ اور ملازمت پیشہ افراد نامساعد حالات اور اپنے کام کاج سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔تجارت پیشہ افراد مادیات کی دوڑ میں شامل ہو کر پریشانی میں مبتلا ہیں، عمر رسیدہ لوگ زندگی سے بیزار ہو کر احساس تنہائی اورگمشدگی عمر سے پریشان ہیں’’ جو پریشان نہیں وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ وہ کیوں پریشان نہیں ہیں‘‘۔ غرض ہر انسان زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے پریشانی کو اپنے ہمراہ سائے کی طرح ساتھ لئے چل رہا ہے اور اگر کوئی پریشان نہیں ہے تو شاید آج کی اصطلاح میں وہ ’’نارمل انسان‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں ہے یعنی پریشانی اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ پریشان ہونے کے باوجود اگر انسان اپنے روز مرہ کے معمولات بخود احسن انجام دے پارہا ہے تو کوئی بات نہیں مگر جب پریشانی زندگی کے روز مرہ معمولات میں دخل اندازی کرنے لگے تو یہ ایک بیماری یا نفسیاتی مسئلہ بن جاتی ہے۔ مثلاً اگر ایک ڈاکٹر پریشانی کی وجہ سے مریضوں کا مناسب و موزوں علاج نہیں کرسکتا ہے تو وہ بیمار ہے۔ ایک اکاونٹنٹ پریشان رہتا ہے اور حساب و کتاب کا کام صحیح ڈھنگ سے نہیں کرپاتا تو وہ بیمار ہے۔ ایک طالب علم پریشان رہنے کے باعث اپنا ہوم ورک نہیں کرسکتا تو پریشانی اس کے لئے ایک مسئلہ یا مرض بن چکی ہے اور اس کا بروقت ، مناسب اور موزوں علاج بے حد ضروری ہے۔’’ڈاکٹر صاحب پچھلے تین برسوںسے مجھے نیند نہیں آتی ہے، میرے سارے بدن میں درد رہتا ہے، میرا سر بھاری بھاری سا رہتا ہے،سینے پر ایک عجیب سا دبائو محسوس کرتی ہوں، مجھے بھوک نہیں لگتی، میں بے قرار رہتی ہوں، میری سانس پھولتی ہے، کمزوری محسوس ہوتی ہے، اکثر بے ہوش ہو جاتی ہوں، جی چاہتا ہے چیخوں،چلائوں اور پھر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لوں۔ مجھے گھر میں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ہر وقت ایک ڈر سا لگتا ہے……‘‘
یہ تیس سالہ فاطمہ بانو کا بیان ہے، جو پچھلے تین برسوں میں چھ بار ہسپتال میں علاج و معالجہ کے لئے بستری کی گئی ہے۔ ہسپتال جانے سے پہلے وہ بے قرار ہو جاتی، اس کے سینے میں عجیب سا شدید درد جاگ اٹھتا اور وہ چیخنے چلانے لگتی اور پھر بے ہوش ہو جاتی، گھر والے اسے فوری ہسپتال پہنچا دیتے جہاں اسے’’مریض قلب‘‘ سمجھ کر اس کا علاج کیا جاتا۔ ہسپتال میں سبھی Test انجام دیئے جاتے جو بالکل نارمل ہوتے تھے، اسے ہسپتال سے مریض کیا جاتا تو وہ پرائیویٹ ڈاکٹروں کے پاس جاکر علاج کرواتی۔ مختلف ڈاکٹروں نے مختلف دوائیاں دے کر کوشش کی تھی مگر’’بیماری‘‘ دور نہیں ہوسکی۔ ڈاکٹروں کے علاوہ تجارتی پیروں فقیروں نے اس کا علاج کیا مگر وہ کبھی صحت یاب نہ ہو سکی کیونکہ کسی بھی معالج نے مریض کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی، اس کے ساتھ تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد بیماری کی ’’اصلی وجہ‘‘جاننے کی کوشش نہیں کی۔ مریض کے ساتھ تفصیلی گفتگو کے بعد یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی کہ وہ زبردست پریشانی میں مبتلا تھی، اس کے ذہن میں ایک تضاد تھا جو برسوں سے اسے پریشان کر رہا تھا’’پریشانی‘‘ اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں جمع ہوتی رہی اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پیمانہ صبر لبریز ہوا اور پریشانی جسمانی علائم اور درد کی صورت میں چھلکنے لگی۔ اُس کی پریشانی کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنا ایک الگ گھر بسانا چاہتی تھی مگر وہ ساس سسر سے ڈرتی تھی کہ کہیں وہ اس کی تجویز سے ناراض نہ ہوں۔ ایک طرف چاہت اور دوسری طرف ڈر ان دو احساسات نے اس کے ذہن میں ایک تضاد (Conflict) پیدا کیا تھا جو اس کی پریشانی کا باعث بنا تھا(تضاد ہی پریشانی کا اصل سبب ہے جو انسان کسی تضاد میں مبتلا ہوتے ہیں پریشانی ان کو گھیر لیتی ہے)اس کے شوہر اور ساس سسر کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد مسئلہ حل ہوگیا۔ اسے اپنا ایک الگ گھر بسانے کی اجازت ملی اور اس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک الگ دنیا بسالی اور وہ اس نئی دنیا میں پریشانی سے آزاد ایک خوشحال زندگی گذارنے لگی۔ اسے کسی دوائی کی ضرورت نہیں پڑی، اس کے سارے جسمانی علائم دور ہوگئے۔ اسے کبھی ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی۔اب وہ ایک صحت مند زندگی گذار رہی ہے‘‘۔
آج کل اکثر مریض جسمانی علائم کا معالجہ کروانے کیلئے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں مگر معائینہ کے بعد کوئی بھی ایسی نشانی نہیں ملتی جس سے یہ واضح ہو کہ مذکورہ مریض کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہو، سارے Testsنارمل ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مریض کسی جسمانی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتا ہے لیکن پھر بھی ڈاکٹر صاحبان ڈھیر ساری دوائیاں تجویز کر کے مریض کی خواہش پوری کر کے اسے راضی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان وقت اورقوت برداشت کی کمی کے سبب اس کی بیماری کے اسباب میں دلچسپی نہیں لیتے، اس کی بکھری ہوئی شخصیت کے اندر جھانکنے کی بجائے اس سے کہتے ہیں’’تم ایک عجیب ذہنی مریض ہو،تمہیں کوئی بیماری نہیں ہے، تمہیں صرف ٹینشن ہے۔تم میرا وقت ضایع کرتے ہو تم بہانے بازی سے کام لے رہے ہو‘‘۔ اور مریض ایسے غیر موزوں الفاظ سن کر بددل ہو کر، ڈاکٹروں سے بیزار ہو جاتا ہے اور دوسری’’ڈاکٹری دکانوں‘‘ کا رُخ کر لیتا ہے دراصل ’’پریشانی‘‘ کی وجہ سے ظاہر ہونے والے جسمانی علائم ایسے عجیب و غریب اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ مریض ان کو بیان کرنے اور ڈاکٹر سمجھنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں ہمارے سماج میں مشترکہ کنبہ (Joint Family) ایک اہم رول نبھاتا تھا۔ مشترکہ کنبے میں زندگی گذارنے سے پریشان فرد کو گھر کے بزرگوں کا سہارا ملتا تھا اور وہ اس سے آزاد ہو جاتا تھا مگر آج کل جبکہ ہر ایک اپنا اپنا ڈیڑھ اینٹ کا گھر بسانے کارواج یا فیشن شروع ہوا ہے تو نوجوان مردوں اور عورتوں کو پریشان صورتحال میں بزرگوں کا سہارا نہیں ملتا اس لئے وہ ہر وقت پریشانی کے سمندر میں ڈولتے رہتے ہیں اور بالآخر وہ ذہنی بیماریوں کے علاوہ جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات مریض کی اصلی کہانی سنے بغیر، جلد بازی میں آٹھ دس دوائیاں لکھ کر مریض کو وقتی طور سکون کی وادی میں دھکیلتے ہیں مگر دوائیوں کا استعمال ترک کرنے کے بعد مریض پھر سے ’’پریشانی‘‘ کے جسمانی علائم میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ وقتی طور دوائیاں کھانے سے کسی خاص مدت کیلئے علائم غائب ہو جاتے ہیں مگر پریشانی کی ’’اصل وجہ‘‘ اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔
موجودہ دور میں ماہرین نفسیات و روحانیات’’ پریشانی‘‘ کو ایک ایسی کیفیت سے تعبیر کرتے ہیں جس میں مبتلا فرد خوف اور غیر یقینیت محسوس کرتا ہے جس پر قابو پانے میں وہ ناکام ہوتا ہے اور جب کوئی انسان کسی اندرونی تضاد کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے تو وہ بے چینی، اضطراب، بے قراری، خوف، احساس زودخستگی، بے خوابی، بے اشتہائی، جنسی کمزوری، احساس کمتری، بے توجہی، مایوسی وغیرہ جیسے علائم کا اظہار کرتا ہے۔ اسے زندگی گذارنے میں کوئی لطف نہیں آتا، وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے وہ ہر وقت دوسروں سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، کوئی اسے چھیڑے تو وہ غصہ سے بے قابو ہو کر چیخنے چلانے لگتا ہے اسے ہر وقت عجیب سا ڈر اور خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ نہ ہو، وہ نہ ہو، ایسا نہ ہو، ویسا نہ ہو اور وہ روزمرہ کے معمولات کو انجام دینے میں بالکل ناکام رہتا ہے۔
پریشانی اور پریشان رہنا کوئی بیماری نہیں بلکہ کسی ذہنی،نفسیاتی، جسمانی،سماجی، روحانی مسئلہ کی ایک اہم علامت ہے اس لئے اُس ’’وجہ‘‘ کا پتہ لگانا مریض اور معالج دونوں کیلئے بے حد ضروری ہے۔ وجہ جانے بغیر ذہنی پریشانی کے لئے کوئی بھی دوائی استعمال کرنا نہ صرف غیر موزوں و نامناسب ہے بلکہ خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ضد پریشانی دوائیاں کھانے سے پریشانی میں کمی ہونے کے بجائے اس میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے اور فرد ان کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر ان کے اثرات جانبی سے مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لئے پریشانی کی حالت میں کوئی بھی دوائی لینے سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ کرنا ضروری ہے اور اگر معالج سے اطمینان قلب حاصل نہ ہو تو کسی مذہبی یا روحانی پیشوا سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے جو کوئی ایسا مشورہ دے کہ دوائیوں کی ضرورت نہ پڑے۔ پریشانی سے بچنے کیلئے، دوائیوں کے استعمال کے بجائے سکون کے ساتھ دبائو اور کھنچائو کا مقابلہ کیجئے۔’’کہنا آسان ہے مگر کرنا ممکن نہیں‘‘ ہو سکتا ہے کہ یہ کوشش بہت ہی مشکل ہو اوربعض اوقات بے سود ثابت ہومگر بار بار کوشش کرنے سے کامیابی کسی نہ کسی دن قدم چوم لے گی۔ کوئی اگر یہ پوچھے تو بے جا نہ ہوگا کہ کیا صرف یہ کہنے سے کہ میں فکر نہیں کروں گا تفکرات دور ہو جائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ اس شخص کے لئے جو پریشانیوں میں مبتلا ہو یہ مشکل ہو لیکن جو اس خیال کا حامل ہو کہ بیمار پڑنا حماقت کی بات ہے اور صحت مند ہونے کی فکر میں بیمار رہتا ہو اس کے لئے ذہنی پریشانیوں سے بچنا ممکن ہوسکتا ہے۔ لیکن آخرالذکر بھی ایک عملی امکان کی بات ہے۔یہاں ایمائی نفسیات کی وجہ سے ممکن ہے کہ اکثر بیماریوں سے جو بظاہر جسمانی نوعیت کی ہیں نجات مل جائے…کسی بھی ڈاکٹر سے سوال کیجئے وہ درجواب کہے گا’’سرکاری ہسپتالوں، پرائیویٹ کلینکوں،نرسنگ ہوموں میں علاج و معالجہ کے لئے رجوع کرنے والے مریضوں میں ستر فیصد مریض ایسے ہیں جو پریشانیوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جسمانی بیماریوں کے شکار ہوئے ہوتے ہیں۔ ان مریضوں کا علاج دوائیوں سے نہیں بلکہ مثبت ایمائی نفسیات سے کیا جاسکتا ہے ایسے بیماروں کو کوئی غور سے سننے والا اور سمجھانے والا ہمدرد چاہئے، وہ محض قرص سکون آور یا خواب آور سے اپنی پریشانیوں پر قابو نہیں پاسکتے طبیعت کا سکون حاصل کرنے کیلئے ان کو کچھ ایسے مشورے دیئے جاسکتے ہیں جو قوتِ ارادی سے بالاتر ہوں۔ اچھا ہے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ لوگ مصائب میں مبتلا ہونے کے باوجود عام طور پر زندگی کا لطف اٹھاتے رہیں…اگر ہر انسان’’ یہ وقت بھی گذر جائے گا‘‘ ذہن نشین کر ے تو بے شمار پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے۔
٭مذہبی اقدار کو ذہنی پریشانی دور کرنے کیلئے اسعتمال کیجئے انسان کی شخصیت کے چار پہلو ہیں: جسمانی، ذہنی، جذباتی اور روحانی۔ ذہٓنی حفظانِ صحت کے بڑے بڑے ماہرین اور ماہرین امراض نفسیات فرد کی متوازن اور ذہنی طور پر صحت مند نشو و نما میں مذہب کو ایک اہم مقام دیتے ہیں صدیوں سے مذہب کی پابندی ذہنی پریشانی سے چھٹکارا پانے کا وسیلہ رہا ہے جس طرح ہم اپنے پیشے میں کام کے بغیر حسن کارکردگی پیدا نہیں کرسکتے اسی طرح بغیر عمل کے مذہبی اقدار بھی حاصل نہیں کرسکتے ہیں اس سلسلے میں عبادت گاہوں میں مشارکت پہلا اور بنیادی قدم ہے اس بات کی ضرورت ہے کہ روحانی فرائض کا معیاری طور پر اعادہ کرایا جائے عبادت گاہوں میں جانے سے اس تغیر پذیر دنیا میں استحکام اور دوام کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ عبادت گاہوں میں فعال مشارکت کے ذریعہ اپنے لوگوں سے رابطہ پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے اور اپنی پریشانیاں بانٹنے کا صحیح ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔
٭          خلاصہ یہ کہ اگر آپ پریشان ہیں تو ’’اس کی وجہ‘‘تلاش کرنے کی بھرپور سعی کریں اور اس کا حل ڈھونڈیں۔ عارضی سہاروں(مسکن اور سکون و خوب آور دوائیاں،سگریٹ ، چرس،شراب)کا سہارا نہ لیں اگر کوئی حل نہ ملے تو کسی ماہر معالج سے مشورہ کریں یا کسی مذہبی، روحانی پیشواسے صلاح لیں۔
٭اپنا طرز زندگی بدل لیں۔ مذہب کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہیں۔
٭چند منتخب اور بالغ نظر اشخاص سے رازدارانہ تعلقات پیدا کریں۔
٭ورزش کو اپنا معمول بنالیں۔
٭ناگزیر دبائو، کھنچائو اور شدت جذبات سے دوچار ہونے کی عادت ڈالیں۔اس بات پر بھی متوجہ ہونا چاہئے کہ ان عناصر سے جو زندگی کے جزولاینفک میں خود کو ہم آہنگ کریں کسی شخص کو معمولی قابلیت کے اصول پر کاربند نہیں ہونا چاہئے اور نہ اکملیت کے تصور کے پیش نظر مایوس ہونا چاہئے بلکہ بس بھر خوب سے خوب تر کی کوشش کرنی چاہئے۔بہت سے لوگوں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ زندگی کے روحانی پہلو سے مکمل زندگی گذارنے میں مدد ملتی ہے اور کوئی پریشانی لاحق نہیں رہتی ہے۔ آخر میں پریشانی سے بچنے کیلئے عمر خیام کی اس رباعی پر عمل کر کے دیکھ لیں   ؎
از دی کہ گذشت ہیچ از و یاد مکن
فردا کہ نیامدہ ست فریاد مکن
برماندہ و گذشتہ را بنیاد مکن
حالی خوش باش عمر را برباد مکن

No comments:

Post a Comment