حیاء مندی ہے اللہ کی رضامندی ڈاکٹر عنایت اللہ وانی ندوی
حیا انسان کا فطری وصف ہے۔با حیا قومیں زندگی اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ ہوتی ہیں۔حیا انسان کو بہت سے بُرے اخلاق اور گناہوں سے دور رکھنے کا ذریعہ ہے،باحیا معاشرہ امن وامان کا گہوارہ ہوتا ہے۔حیا انسان کی فطری پسند ہے،اور سب سے بڑی بات یہ کہ حیا ایمان کا ایک اہم ترین شعبہ ہے۔اس کے برعکس بے حیائی وبے شرمی شیطانی وحیوانی صفت ہے۔بے حیا اقوام کے ہاں حقیقی زندگی اور اخلاق عنقا ہوتے ہیں۔بے حیائی کے نتیجہ میں انسان بدخلق اور گناہوں میں ملوث ہوتا ہے۔بے حیا معاشرہ میں کسی کی عزت وناموس محفوظ نہیں ہوتی ہے۔بے حیائی سے انسانی فطرت اِبا کرتی ہے۔
اسی لئے دینِ اسلام نے حیا سے آراستہ ہونے کی تعلیم دی ہے۔اس کے فضائل وفوائد بیان کئے ہیں اور بے حیائی کے مہلک اثرات سے ڈرایا ہے۔رسول رحمتؐکا فرمان ہے کہ ’’ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے اوراسلام کا بنیادی وصف حیا ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ)آپؐ کا ارشاد ہے کہ’’ایمان کے ترسٹھ سے زائد شعبے ہیں اورحیا ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے‘‘۔(بخاری ومسلم)آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ حیا اور پردہ کو پسند کرتا ہے‘‘۔(سنن أبوداؤد)قرآن وحدیث میں حیا سے متعلق بے شمار نصوص ہیں کیونکہ حیا کا ایک وسیع دائرہ ہے۔باتوں۔نگاہوں اور کانوں کی حفاظت سے لے کر عام معاشرتی مسائل اور انسان کی عملی زندگی سے اس کا گہرا تعلق ہے۔اسی لئے حیا اور پردہ سے متعلق نہایت باریک اور جزئی مسائل کو بھی بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ نماز،روزہ اور دیگر اعمال وارکان کے بارے میں قرآن میں عمومی احکام بیان کئے گئے ہیں اور جزئیات کی تعیین وتفصیل احادیث میں بیان کی گئی ہے لیکن پردہ اور دیگر معاشرتی مسائل کی جزئیات تک کو بڑی اہمیت اور تفصیل ہے بیان کیا گیا ہے۔سورہ احزاب۔سورہ نور اور سورہ نساء کے مطالعہ سے از خود یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔
اسلام نے بے حیائی سے روکنے کے لئے بے حیائی کے ذرائع اور مداخل پر بھی قدغن لگا دی ہے تاکہ کہیں سے بھی معاشرہ میں بے حیائی اثر انداز نہ ہو سکے۔گھر میں باہر کے لوگوں کے لئے اجازت لینے کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے غیر محرم خاتون کو نرم آواز سے جواب دینے تک کو منع کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ:’’نرم لہجہ میں جواب مت دینا کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کے دل میں مرض ہوگناہ پر آمادہ ہوجائے‘‘۔(سورہ أحزاب۔ آیت:۳۲)ازواج مطہرات اور تمام مؤمن خواتین کوسورہ احزاب(آیت:۵۹) میں پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔مردوں اور عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا(سورہ نور۔آیت:۳۰)۔چلتے ہوئے عورتیں پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ کہیں ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے(سورہ نور۔آیت:۳۱)بدکاری سے روکتے ہوئے حکم دیا گیا کہ:’’بدکاری(زنا) کے قریب بھی مت جانا‘‘۔ (سورہ الاسرائ۔آیت:۳۲) اوراسی طرح کے کئی مسائل تاکہ کہیں شیطان کے داخل ہونے کا موقعہ نہ ملے کیونکہ شیطان کا سب سے خطرناک ہتھیار یہی ہے کہ انسان کو بے حیا وبے شرم بنادے۔اسی لئے جنت میں بھی سب سے پہلے اس نے حضرت آدمؑ اور حضرت حوا کے پردہ کو تار تار کرکے ان کو جنت کے پتوں سے اپناجسم ڈھانکنے پر مجبور کردیا تھا(دیکھئے سورہ أعراف۔ آیت:۲۷) ے حیائی شیطانی وحیوانی اور ابلیسی صفت ہے۔ابلیس لعین کا بنیادی ہدف بے حیا بنانا ہے تاکہ اس کے بعد اس کو مزید اور کچھ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔رسول رحمتؐ کا ارشاد ہے کہ:’’جب تم سے حیا رخصت ہو جائے تو پھر جو جی میں آئے کر لو‘‘۔(صحیح بخاری)
بے حیائی کو عام کرنا شیطانی مشن ہے۔جس کے لئے وہ انتھک کوشش کرتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’شیطان تم کو فقر وفاقہ سے ڈراتا ہے اور فحش کاموں کا حکم دیتا ہے‘‘(سورہ بقرۃ۔آیت:۲۶۸) اور اس کے لئے وہ مختلف ومتنوع ذرائع کا استعمال کرتا ہے۔دور جدید و قدیم میں بہت سے انسان نما شیطانوں نے ابلیس کا آلۂ کار بن کر بے حیائی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ادا کاروں،ادا کاراؤں،فلم انڈسٹریوں،ٹی وی،انٹرنیٹ،فحش لٹریچر اور دیگر ذرائع کو محض بے حیائی عام کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ننگے پن کو تہذیبِ جدید کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ بنانے میں ہر ممکن حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسی اخلاق باختہ کلچر کی تعلیم دی جارہی ہے۔کروڑوں روپے روزانہ محض بے حیائی کو فروغ دینے کے لئے صرف کئے جاتے ہیں۔عورت کو برہنہ کرکے اس کو خرید وفروخت کا سستا سامان بنالیا گیا ہے۔اس کو اس کے حقیقی مقام سے گرا کر بے عزت بنادیا گیا ہے۔معمولی چیزوں کی تشہیر کے لئے اس کو استعمال کیا جارہا ہے۔پوری دنیا میں اسی کلچر کو عام کیا جارہا ہے۔اسلامی دنیا کو منظم طریقہ سے اس کی طرف راغب کیا جارہا ہے اور بے حیائی کو امپورٹ کرنے میں ہر ممکن طریقے اختیار کئے جارہے ہیں۔تاکہ انسانوں کو حیوان نما جانور بنا کر جیسے چاہے ان پر حکمرانی کی جائے۔ان کے مقدسات اور عزت وناموس کو پامال کیا جائے۔ان کو دین سے دور کر کے لادین بنادیا جائے۔اخلاقی اعتبار سے کھوکھلا کر کے انسان کو اس کے حقیقی مقام سے گرا دیا جائے۔
بے حیائی میں انسانیت کی توہین ہے کیونکہ اس کے ذریعہ انسان کو اس کے حقیقی مقام سے گرا کر حیوان کے مقام پر لا کھڑا کیا جاتا ہے۔بے حیائی انحطاط وزوال اور پسماندگی کا راستہ ہے۔بے حیائی امراض ووباؤں کا ذریعہ ہے۔ارشاد نبویؐ ہے: ’’جس قوم میں بھی بدکاری ظاہر ہوتی ہے اس میں طاعون اور ایسے امراض عام ہوجاتے ہیں جو ان سے پہلے نہیں ہوتے تھے‘‘(سنن ابن ماجہ)۔بے حیائی اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کا سبب ہے ۔ارشاد نبویؐ ہے: ’’اخیر زمانہ میں میری امت میں ایسی عورتیں ہوں گی جو برہنہ اور بے پردہ ہوں گی۔ان کے سروں پر اونٹ کے کوہان کی طرح چوٹیاں ہوں گی۔ان پر لعنت کرنا کیونکہ وہ لعنت زدہ ہیں‘‘۔(مسند أحمد۔مستدرک حاکم)حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس ایک مرتبہ بنو تمیم کی بعض عورتیں آئیں جن کے جسموں پر باریک کپڑے تھے تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا:اگر تم ایمان والی عورتیں ہو تو یہ مومن عورتوں کا لباس نہیں ہے۔اور اگر تم ایمان والی نہیں ہو تو پھر اس کو پہن کر خوب مزے کر لو‘‘۔
بے حیائی کے نتیجہ میں پورا معاشرہ اخلاقی دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ذلت وپستی اور محکومی وتنزلی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔حیوانی صفات سے مغلوب ہوجاتاہے۔دینی ودنیاوی اعتبار سے ہر خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔اگرچہ بظاہر ترقی یافتہ ہی کیوں نہ نظر آتا ہولیکن اندر سے کھوکھلا اور اس ورم زدہ جسم کی طرح ہوتا ہے جس کے اندر امراض پوشیدہ ہوتے ہیں۔اس وقت کی بظاہر ترقی یافتہ اقوام کی اندرونی صورتحال اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے جن کی ٹپ ٹاپ کو دیکھ کر مسلم دنیا متاثر ہے اور ان کی تقلید کو باعث فخر سمجھتی ہے۔
اس وقت بے حیائی کے جس کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے اور جس طرح نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو متاثر کر کے استعمال کیا جارہا ہے۔اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور اسلامی تعلیمات اور مغربی کلچر کے مابین منصفانہ موازنہ کرنے کی ضرورت ہے اورمسلم معاشرہ کی تو ایمانی واسلامی ذمہ داری ہے کہ اسلامی اور باحیاکلچر کو اپنائیں۔اسی کو فروغ دیں اور بے حیائی کے کلچر کو اپنے لئے اور نوخیز نسل کے لئے سم قاتل سمجھیں۔جب حیا ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے بلکہ ایک حدیث میں تو یہاں تک آپؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:’’ایمان اور حیا لازم وملزوم ہیں جب ان میں سے ایک رخصت ہوتا ہے تو دوسرا بھی ازخود رخصت ہو جاتا ہے‘‘۔(مستدرک حاکم۔مصنف ابن أبی شیبہ)تو ایسی صورت میں صاحبِ ایمان کے لئے حیاکی حفاظت اور اس سے آراستگی عین ایمان قرار پاتی ہے۔
کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو بے حیائی کے طوفانِ بلاخیز کے مقابلہ میں حیا کی تہذیب کو عام کرنے میں کوشاں ہیں اور اس کو اپنا مشن بنا کر حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔جموں وکشمیر جس کی اپنی ایک مخصوص شناخت اور پہچان ہے۔جس کی اپنی خاص اسلامی وکشمیری تہذیب اور نمایاں اقدارہیں۔جہاں حیا عین تہذیب ہے لیکن انسانیت کے دشمن اس تہذیب اور شناخت کو تار تار کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔اور نوجوانوں کی غیرت کو بار بار للکار رہے ہیں۔کیا ہی بہتر ہو کہ معاشرہ کے تمام افراد اور بطور خاص نوجوان اس کو اپنے لئے ایک چیلنج سمجھیں اور اس طوفانی بے حیائی کو بے دخل کر کے حیاکے حسین گلشن کو سجائیں۔ضرورت ہے کہ معاشرہ کا ہر فرد معاشرہ کو بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے حیا کی ایمانی واسلامی تہذیب کو عام کرنے کا عزم کر لے اور حیا کے ہر خیر سے لطف اندوز ہوتا رہے کیونکہ بنی رحمتؐ کا فرمان ہے کہ:’’حیا اپنے ساتھ خیر ہی خیر لاتا ہے‘‘(صحیح بخاری ومسلم)۔
یقیناً حیا عفت وپاکیزگی بھی ہے اور ایمان و تقویٰ بھی،امن وامان بھی اورمعاشرہ کو عزت ووقار اور عروج تک پہچانے کا ذریعہ بھی۔فطرت کا تقاضہ بھی اور شریعت کی تعمیل بھی اور جنت تک پہنچنے کی آسان راہ بھی ہے تو آئیے اسی راہ کو اختیار کر کے معاشرہ میں اسلامی اقدار کو پروان چڑھائیں۔
|
Search This Blog
Wednesday, 20 February 2013
حیاء مندی ہے اللہ کی رضامندی
Labels:
SOCIOLOGY
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment