صدقہ ٔ فطر
صدقہ کا مفہوم
صدقہ اردو زبان میں تو بہت برے معنوں میں بولا جاتا ہے، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطیے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے، جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو، کسی پر احسان نہ جتایا جائے، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے۔ یہ لفظ صدق سے ماخوذ ہے، اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے۔ کوئی عطیہ اور کوئی صرف مال اُس وقت تک صدقہ نہیں ہوسکتا جب تک اس کی تہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بے کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو۔
(تفہیم القرآن، پنجم، ص 315، سورۃ الحدید، حاشیہ 31)
صدقۂ فطر کا صحیح مصرف
صدقۂ فطر کا تعلق خاص طور پر عید سے ہے۔ اس کا مقصد عید کے موقع پر معاشرے کے نادار لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ [مثلاً ] آپ کسی کو سلائی مشین دینا چاہیں تو اس کے لیے صدقات اور اعانت کی دوسری صورتیں موجود ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ کام صدقۂ فطر سے لینا چاہتے ہیں تو اندازہ کرلیں کہ کتنے لوگوں کے حصے کا فطرانہ جمع کرکے ایک مشین خرید سکیں گے۔ اس طرح فطرانے کی بڑی رقم ایک جگہ صرف ہونے سے بہت سے مستحق افراد کی حق تلفی ہوسکتی ہے۔ صدقۂ فطر تو اس لیے ہے کہ غریب لوگ بھی عید مناسکیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔
(-5 اے ذیلدار پارک، اول، اپریل 1978ء، ص 35-34)
صدقۂ فطر کی مقدار
فطرے کی مقدار میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں جو اوزان اور پیمانے اُس وقت رائج تھے ان کو موجودہ زمانے کے اوزان اور پیمانوں کے مطابق بنانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ مختلف اہلِ علم نے اپنی تحقیق سے جو کچھ اوزان بیان کیے ہیں، عام لوگ ان میں سے جس کے مطابق بھی فطرہ دیں گے، سبکدوش ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں زیادہ تشدد کی ضرورت نہیں ہے۔ فطرہ ہر اُس شخص کو دینا چاہیے جو عید کے روز اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد فطرہ نکالنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور بیوی مستطیع ہو تو وہ بیوی ہی پر واجب ہوگا، کیوں کہ اس کے شوہر کا نفقہ اس کے ذمہ نہیں ہے۔ لیکن میرے خیال میں اسے اولاد کا فطرہ نکالنا چاہیے۔
(رسائل و مسائل، چہارم، اپریل 1981ء، صفحہ 350)
صدقہ اردو زبان میں تو بہت برے معنوں میں بولا جاتا ہے، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطیے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے، جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو، کسی پر احسان نہ جتایا جائے، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے۔ یہ لفظ صدق سے ماخوذ ہے، اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے۔ کوئی عطیہ اور کوئی صرف مال اُس وقت تک صدقہ نہیں ہوسکتا جب تک اس کی تہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بے کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو۔
(تفہیم القرآن، پنجم، ص 315، سورۃ الحدید، حاشیہ 31)
صدقۂ فطر کا صحیح مصرف
صدقۂ فطر کا تعلق خاص طور پر عید سے ہے۔ اس کا مقصد عید کے موقع پر معاشرے کے نادار لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ [مثلاً ] آپ کسی کو سلائی مشین دینا چاہیں تو اس کے لیے صدقات اور اعانت کی دوسری صورتیں موجود ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ کام صدقۂ فطر سے لینا چاہتے ہیں تو اندازہ کرلیں کہ کتنے لوگوں کے حصے کا فطرانہ جمع کرکے ایک مشین خرید سکیں گے۔ اس طرح فطرانے کی بڑی رقم ایک جگہ صرف ہونے سے بہت سے مستحق افراد کی حق تلفی ہوسکتی ہے۔ صدقۂ فطر تو اس لیے ہے کہ غریب لوگ بھی عید مناسکیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔
(-5 اے ذیلدار پارک، اول، اپریل 1978ء، ص 35-34)
صدقۂ فطر کی مقدار
فطرے کی مقدار میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں جو اوزان اور پیمانے اُس وقت رائج تھے ان کو موجودہ زمانے کے اوزان اور پیمانوں کے مطابق بنانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ مختلف اہلِ علم نے اپنی تحقیق سے جو کچھ اوزان بیان کیے ہیں، عام لوگ ان میں سے جس کے مطابق بھی فطرہ دیں گے، سبکدوش ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں زیادہ تشدد کی ضرورت نہیں ہے۔ فطرہ ہر اُس شخص کو دینا چاہیے جو عید کے روز اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد فطرہ نکالنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور بیوی مستطیع ہو تو وہ بیوی ہی پر واجب ہوگا، کیوں کہ اس کے شوہر کا نفقہ اس کے ذمہ نہیں ہے۔ لیکن میرے خیال میں اسے اولاد کا فطرہ نکالنا چاہیے۔
(رسائل و مسائل، چہارم، اپریل 1981ء، صفحہ 350)
No comments:
Post a Comment