رمضان المبارک
نیکیوں، رحمتوں، مغفرتوں کی بہار
لیاقت
ماہ رمضان
کی آمد نیکیوں کے موسم بہار کی آمد ہے۔ رمضان رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کا سرچشمہ
ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان غلطیاں کرتا ہے، گناہوں میں الجھ جاتا ہے لیکن اس کے
ضمیر پر بوجھ اور خلش قائم رہتی ہے اسی لیے تعلیم و تربیت فرد کی ناگزیر ضرورت ہے اور
ہمیشہ رہتی ہے۔ رحمتوں بھرا مہینہ ماہ رمضان شروع ہونے کو ہے۔ یہ اہل ایمان کے لیے
انفرادی، اجتماعی و ہمہ گیر تربیت کا بہترین موقع ہے۔ انسانی زندگی ہمیشہ کشمکش میں
مبتلا رہتی ہے ایسے ہی ماحول میں روزہ ایک مقدس عبادت اور روحانی، اخلاقی تربیت، طہارت
روح اور تقویٰ کی صفات پیدا کرنے کے لیے بہترین ذریعہ سامنے آتا ہے۔ قرآن کریم میں
ہی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں جیسے تم
سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو‘‘۔ البقرہ ۱۸۳۔
اللہ تعالیٰ
ہمیں اس عظیم مہینہ میں اس کی قدر اور اعمال صالحہ کے اہتمام کی توفیق عطا کرے۔ یہ
اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا، ایمان کی دولت عطا کی اور
ختم المرسلینؐ، خاتم النبیینؐ کی امت سے پیدا فرمایا ہے۔ یہ اس کی ہی قدرت ہے انسانوں
کی فلاح دارین کے لیے ہمیں قرآن کریم کی نعمت سے نوازا۔ رسول اللہ، صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمان ہے کہ ’’خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ کے لیے روزہ رکھتے ہیں، یہ لوگ قیامت
کے روز سیراب ہوں گے‘‘۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ کے حکم سے شیاطین جکڑ دیے جاتے
ہیں تاکہ کوئی وسوسوں کا شکار ہوکر برکتوں سے محروم نہ ہو جائے۔ اب اس بیش بہا آسانی
اور رحمت کے باوجود کوئی بندہ مومن اپنے اندر ضبط نفس نہ پیدا کر سکے اور مغفرت نہ
کراسکے تو اس سے بڑھ کر کیا بدقسمتی ہوسکتی ہے۔ یہ مہینہ ہمیں انفرادی اصلاح، تزکیہ
اور عبادات کا ماحول دیتا ہے اور ان صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ خلق خدا سے محبت،
ہمدردی، غم گساری پیدا ہو۔ سب سے بڑی خیر خواہی تو یہ ہے کہ مالک کائنات کے طریقہ زندگی
کو اختیار کیا جائے اور دوسروں کو بھی بندگی ٔ رب کی طرف بلایا جائے تاکہ اللہ اور
اس کے رسول ؐ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کا اجتماعی ماحول بن جائے۔
موت انسان
کے ساتھ سائے کی طرح موجود رہتی ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کس مرحلہ اور موڑ پر
زندگی کا اختتام آ جائے۔ موت یہی پیغام دیتی ہے کہ نیکی، بھلائی اور امانت، دیانت کے
کام کیے جائیں وگرنہ جب میں دبوچ لوں گی پھر مایوسی کے سوا کچھ نہیں بچے گا اس لیے
کہ یہ کیا یقین ہے کہ آئندہ سال ہمیں یہ سعادتیں اور برکتیں میسر آئیں کہ نہ آئیں تو
ان آنے والے حاصل قیمتی لمحات کو بار آور بنانے، اللہ کو منا لینے، اہل و عیال کو تباہی
و بربادی سے بچانے کی فکر کی جائے۔ ماہ رمضان صبر، عفوو درگزر، بخشش، رحمت اور جہنم
سے آزادی کا مہینہ ہے۔ جس طرح ہم خود اللہ کی بارگاہ میں معافی کے طلب گار ہوتے ہیں
اسی طرح کیا ہی خوب عمل ہو کہ ستانے والوں کو از خود معاف کردیا جائے۔ رسو ل اللہؐ
نے فرمایا کہ ’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے‘‘ نیت جتنی خالص اور پاکیزہ ہوگی، بندہ
مومن میں احساس و شعور اتنا ہی پاکیزگی والا ہوگا۔ نیت کا اخلاص اعمال کی اثر افرینی،
نیکی کی نشو و نما، نیکیوں کی بڑھوتری اور نتیجہ خیزی کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔ جب تمام
اعمال اللہ کی رضا کے لیے خالص کردیے جائیں تو رمضان المبارک کا ہر لمحہ مزید برکتوں
کا باعث بنتا ہے۔
ماہ رمضان
میں بندہ مومن بدلے ہوئے معمولات سحری، افطاری کے مطابق اپنی ترجیحات کا تعین کرے،
یہ ہمہ گیر تربیت کے ایام ہیں۔ تعصبات، نفرتوں، غیبتوں، مکر و فریب اور حلال و حرام
کی تمیز کے خاتمے نے فرد، اولاد، خاندان، معاشرہ، ریاست اور امت کو بری طرح متاثر کر
دیا ہے۔ یہ نادر موقع ہے کہ ہر ہر اعتبار سے اصلاح کی تدایبر اختیار کی جائیں کہ یہ
مبارک ساعتیں بخشش اور رحمتوں کا باعث بن جائیں۔
رسول اللہؐ
کے فرمان کے مطابق یہ مہینہ عظمت والا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں رحمت خدا وندی پورے جوش
اور جوبن پر ہوتی ہے اس میں ایک شب ہے جو لیلۃ القدر ہے جو ہزاروں مہینوں سے افضل ہے
جس میںفرض کی ادائیگی ستر گنا اور نوافل فرض کے برابر ہیں۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا
عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے رہائی کا ہے اس لیے اللہ کو راضی کرنے کے
لیے عبادت، ذکر و اذکار اور استغفار کثرت سے کیا جائے۔
روزہ کی
عبادت فرد میں ہمہ گیر تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے اس لیے اگر ضبط نفس انسان میں نہ
ہو تو اس کے اندر تقویٰ کی کیفیات پیدا نہیں ہوتیں۔ خواہشات نفس پر غلبہ پانے کے لیے
روزہ بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو محض اہل ایمان کو بھوکا اور پیاسا رکھنا ہی مطلوب
نہیں بلکہ روزہ اس چیز کا نام ہے کہ ہر چیز سے توجہ ختم کر کے کامل طور پر اللہ کی
طرف ہی متوجہ ہو جائیں۔ زبان، کان اور شرمگاہ کی حفاظت سے روزہ کی حفاظت کی جائے۔ روزہ
کی کیفیت میں انسان بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کر کے اپنی خواہشات پر قابو پانے
اور اللہ کے احکامات کا پابند بنانے کی کوشش کرتاہے۔ یہ تربیت اسی لیے تو ہے کہ انسان
صبر واستقامت کے ساتھ آگے بڑھ سکے اور اس راستہ میں درپیش تکالیف و مصائب کا پامردی
کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔ روزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جو انعامات مقرر فرمائے ہیں اس
حوالے سے رسول اللہؐ کا فرمان سیدنا ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے۔
’’ابن آدم ؑ کے ہر عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا بڑھایا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ اس سے مستثنا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس
کا جتنا چاہوں گا بدلہ دوں گا۔ انسان اپنی شہوت نفس اور اپنا کھانا میری ہی خاطر چھوڑ
دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں۔ ایک مسرت افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب
کی ملاقات کے وقت اور روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش باتیں کرے
اور نہ شورو شغب اور دنگا فساد کرے اور اگر اسے کوئی گالی دے یا اس سے لڑے تو کہہ دے
کہ میں روزہ سے ہوں‘‘۔ (بخاری، مسلم)
سیدنا ابو
ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’جو شخص رمضان کے روزے ایمان و احتساب
کے ساتھ رکھے اس کے سب پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور (اسی طرح) جو رمضان میں
ایمان و احتساب کے ساتھ (راتوں) میں کھڑا ہوگا اس کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کردیے
جائیں گے اور (اسی طرح) جو شب قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کرے گا، اس کے
بھی سب پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
اللہ تعالیٰ
نے روزہ دار کو اس ماہ کی رحمتوں، برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں کے لیے بے پناہ
ترغیبات دی ہیں تاکہ ہر برائی، خرابی اور گناہوں سے بچنے کے لیے بعد رمضان اس میں سکت
و ہمت قائم رہے۔ روزہ دار کو اللہ تعالیٰ نے ہر ہر پہلو سے ہمت دینے اور نیک اعمال
پر قائم رکھنے کے لیے نوید سنائی ہے تاکہ اچھے اعمال پھیلتے پھولتے رہیں۔ رسول اکرمؐ
کی یہ تعلیمات روزہ دار کے لیے بڑی استقامت کا باعث ہیں۔
روزے دار
کے لیے دو مسرتیں ہیں ایک مسرت اور خوشی اسے دنیا میں افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے۔ دن
بھر بھوک پیاس رکھنے کے بعد جب وہ شام کو روزہ افطار کرتا ہے تو اسے جو لذت اور راحت
حاصل ہوتی ہے، وہ عام حالات میں کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کی بھوک پیاس بھی دور ہو
جاتی ہے اور اسے یہ روحانی خوشی بھی حاصل ہوتی ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل
کی توفیق ملی۔ روز محشر خدا سے ملاقات کی جو خوشی حاصل ہوگی اس کا تو کہنا ہی کیا۔
روزے کی حالت میں منہ کی بو خراب ہو جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ مشک کی
خوشبو سے کہیں زیادہ قابل قدر ہے اس لیے کہ اس کے پیچھے خدا کے حکم کی تعمیل اور اس
کی رضا کی طلب کے سوا کوئی اور جذبہ کام نہیں کر رہا تھا۔ روزے کی حیثیت ڈھال کی ہوتی
ہے جس طرح ڈھال کے ذریعے آدمی دشمن کے وار سے اپنے کو بچاتا ہے اسی طرح روزہ شیطان
اور نفس کے حملوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے۔ روزے کے آداب کا آدمی لحاظ رکھے تو وہ روزے
کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے محفوظ ہوسکتا ہے اور آخرت میں آتش دوزخ سے نجات پاسکتا
ہے۔
ماہ رمضان
المبارک میں عبادات، نیک اعمال، فہم دین کے حصول کے لیے اپنی تربیت ضرور کی جائے تاکہ
وقت کا بہتر استعمال ہو۔ سحری افطاری، باجماعت نمازوں، تہجد و نوافل کی ادائیگی معمولات
میں ترجیح اول ہو۔ دینی علم و فہم دین کے حصول کے لیے قرآن کریم باترجمہ پڑھنے، قرآن
کا کچھ حصہ زبانی یاد کرنے، خصوصاً نماز تراویح کی ادائیگی کا اہتمام معمولات کا حصہ
بن جائیں۔ قرآن کریم کا فہم انسان میں تدبر، استحکام اور وقار پیدا کرتاہے۔ موجودہ
دور میں ذرائع ابلاغ، خصوصاً سوشل میڈیا نے بالعموم کتب اور بالخصوص دینی مطالعہ سے
دورکردیا ہے اس لیے جذبات، فکر اور اظہار خیال سطحی، جذباتی اور متلون مزاجی کا شکار
ہیں۔ دینی کتب کا مطالعہ سوچ اور فکر میں وسعت کا باعث بنتا ہے۔ رمضان المبارک کا آخری
عشرہ میں اعتکاف کا اہتمام، شب قدر کی تلاش، یہ رسول اکرمؐ کی سنت ہے۔ رمضان المبارک
آنے والے گیارہ مہینوں میں شیطانی، اسلام دشمنی، سیکولر، لبرل، مادہ پرست قوتوں، نظام
و ماحول کے مقابلہ کے لیے قوت و طاقت کا باعث بنتا ہے۔
اعتکاف
روحانی قوت کے حصول کا بڑا ذریعہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کو اس مبارک مہینہ سے خاص
نسبت ہے۔ نماز، عبادات کے ساتھ اللہ کے دیے مال میں سے زکوۃ، عشر، صدقات کا اہتمام
کرنا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بڑی عبادت ہے۔ رسول اکرم ؐ تمام انسانوں سے بڑھ کر
فیاض و سخی تھے۔ اس مہینہ میں سخاوت و فیاضی عروج پر آ جاتی تھی۔ صدقہ فطر عید سے پہلے
ہی ادا کیا جائے۔ انفاق فی سبیل غربا، مستحقین، ناداروں، مساکین کو عید کی خوشیوں میں
شریک کرنے کا اہتمام ہے۔ دعوت افطار کا اہتمام خصوصاً گھروں پر اولاد کے ساتھ، خاندان
کے افراد کے ساتھ، ہمسایوں، اہل آبادی کے ساتھ دعوت دین، بھائی چارے، تعصبات اور شدت
جذبات کو معمول پر رکھنے کا ذریعہ ہے۔
No comments:
Post a Comment