Search This Blog

Tuesday, 7 May 2019

Hilale Ramzan ka Paigham ہلال رمضان کا پیغام

ہلال رمضان کا پیغام
مولانا ابوالحسن علی ندوی
لیجیے پورے ایک سال کے بعد آپ حضرات کے لیے رمضان کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ وہ پیغام ہے تقویٰ کا اورصبر کا، رحمت کا اور مغفرت کا، تلاوت کا، عبادت کا اور رضائے الٰہی کا۔ میں ایک ماہ آپ حضرات کی مہمانی میں رہوں گا اور دیکھوں گا کہ آپ کے روزے کیسے گزرتے ہیں۔ آپ کی عبادت و تلاوت کا کیا حال ہے۔ آپ کتنا وقت عبادت میں صرف کرتے اور اپنے مالک کی یاد میں گزارتے ہیں۔ پھر میں آپ سے اجازت لے کر رخصت ہوں گا اور دوسرا چاند میری جگہ لے گا۔ عید کا مبارک چاند اور نیا چاند… اور عید تو خود رمضان کا انعام ہے۔ اگر رمضان نہ ہوتا تو عید نہ آتی۔ اگر مشقت نہ ہوتی تو راحت کا بھی لطف نہ آتا۔ شب بیداری نہ ہوتی تو نیند کا بھی پورا مزہ نہ آسکتا۔ اگر بھوک نہ ہوتی تو کھانا بھی اچھا نہ معلوم ہوتا۔ اس لیے عید اپنی تمام مسرتوں اور لذتوں کے باوجود رمضان کی رہین منت ہے اور اس طرح رمضان ہی کا سفیر نہیں بلکہ عید کا بھی سفیر ہوں۔ ہاں تو میں آپ کے لیے زہد، مجاہدہ اور صبر کا پیغام لایا ہوں۔ میں بھوک اور پیاس اور شب بیداری کا سفیر ہوں اور کھانے پینے اور دوسری دنیاوی لذتوں سے آپ کا ہاتھ روکنے کے لیے آیا ہوں۔ اس لیے اگر میری آمد سے آپ حضرات کو گرانی ہو اور آپ ''واپس جاو'' کے نعروں کے ساتھ میرا استقبال کریں اور مجھ کو بھوک اور پیاس کا پیامبر اور مشقت و تکلیف کا قاصد کے ناموں سے نوازیں گے تو مجھ کو مطلق تعجب نہ ہوگا۔ لیکن آپ نے میرا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ بہت سے آدمی مسجدوں اور اپنے مکانوں کی چھتوں پر کھڑے میری ایک جھلک دیکھ لینے کے لیے بے قرار تھے۔ گویا انہوں نے اس بیکراں نیلے آسمان میں مجھ کو شکارکرنے کے لیے اپنی نگاہوں کا ایک جال سا بچھا دیا تھا۔ جب انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو ان کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے اور مسرت و خوشی کے الفاظ ان کی زبانوں سے بے ساختہ نکلنے لگے۔ یوں معلوم ہوا جیسے وہ تھوڑی دیر کے لیے بھول گئے ہوں کہ میں کس ذمہ داری اور کن مطالبات کو لے کر آیا ہوں۔ میرے خیال میں تو ایسے آدمی کا اس زندہ دلی اور گرم جوشی سے استقبال کرنا جو ایک پْرمشقت اور ایک تلخ کام لے کر آیا ہو، بہت بڑی بات ہی، اور حقیقت میں یہ تو ایمان کا کرشمہ ہے اور ایمان ہی کی طاقت ہے کہ جو ایک شاق چیز کو آسان کردیتی ہے اور دشمن کو دوست بنادیتی ہے۔ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی یا پڑھی ہوگی کہ انسان کے ہر اچھے عمل میں دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ کیا جاتا ہے سوائے روزے کے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہی، قیامت کے دن اس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گی، اور جب وہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا اور پھر اس میں کوئی داخل نہ ہوگا۔ اور فرمایا کہ جس نے ایمان کے ساتھ اور طلب ِاجر کی نیت سے روزہ رکھا اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ اگر یہ حدیثیں نہ ہوتیں جن کی طمع آپ اپنے اندر پاتے ہیں، یا مختصر الفاظ میں اگر ایمان آپ کے قلب میں پیوست نہ ہوتا تو بخدا یہ روزہ کبھی آپ کے لیے آسان نہ ہوتا۔ اس لیے کہ انسان چھوٹی لذت بڑی لذت کی امید میں ہی چھوڑ سکتا ہے اور مختصر راحت کسی بڑے یا طویل آرام کے یقین کی وجہ سے ہی ترک کرسکتا ہے۔ اور حقیقت میں روزہ دار کو جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ روزہ خور کو کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ روزہ دار کے لیے دو ایسی راحتیں رکھی گئی ہیں کہ کسی دوسرے کے لیے نہیں ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، جب وہ افطار کرے گا اْس وقت اس کو خوشی حاصل ہوگی اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے پر خوش ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نماز، زکوٰة کوئی بڑی چیز نہیں اور ان کا زندگی پر کوئی اثر نہیں۔ میں اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ محسن کی ناشکری کروں اور صاحب ِفضل کے فضل سے انکار کروں، جب کہ آپ جانتے ہیں کہ میرے اور ان احکام وغیرہ میں کتنا برادرانہ اور مخلصانہ رشتہ ہے۔ لیکن اگر اجازت دیجیے تو میں یہ کہوں گا کہ میں دین کے ایک شعبے کی زیادہ واضح اور طاقت ور نمائندگی کرتا ہوں اور وہ ہے اطاعت اور قربانی کا شعبہ۔ میں جس کو بھی دیکھتا ہوں یہی نظر آتا ہے کہ لوگوں نے اپنے منہ پر تالے لگالیے ہیں اورگویا طلوع فجر سے لے کر آفتاب ڈوبنے تک انہوں نے کھانے پینے کی چیزوں تک کو ہاتھ نہ لگانے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ طرح طرح کے لذیذ کھانے ان کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں اور گویا ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے منہ میں پانی آنے لگتا ہے اور ہونٹ ان کے مزے کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جو آپ کے اور ان لذیذ کھانوں کے درمیان حائل ہوتی ہے اور آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔ پانی آپ کے سامنے موجود ہوتا ہے اور آپ اس کی طرف ہاتھ بڑھا نہیں سکتے اور اپنی پیاس بجھا نہیں سکتے۔ خدا کا حکم ہی تو ہے کہ جو آپ کو اس سے باز رکھتا ہے۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ یہ اطاعت و قربانی کتنی بڑی ہے اور یہ فدائیت کا کیسا نمونہ ہے۔ میں نے اقتدار و جلال کے بہت سے نمونے دیکھے ہیں اور اطاعت و فرمانبرداری کے بہت سے مناظر کا مشاہدہ کیا ہی، لیکن میں آپ سے کہتا ہوں کہ میں نے بہت سے ایسے آدمیوں کو دیکھا جو دن کو جرائم سے دست کش ہوجاتے ہیں اور رات کو دوبارہ اس میں مشغول رہتے ہیں اور ظاہری طور پر اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ حقیقت میں نافرمان ہوتے ہیں، ایسے لوگ جو حاکموں کو دھوکا دیتے ہیں اور پولیس کی آنکھ میں خاک ڈالتے ہیں، بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ لوگ خود اپنے ساتھ خیانت کرتے ہیں، لیکن اس موقع پر جس اطاعت، فرمانبرداری اور وفاداری و جاں نثاری، جس اخلاص، صبر اور ثابت قدمی کے نمونے دیکھے وہ میں نے کسی دنیاوی اقتدار و عزت کی وجہ سے نہیں دیکھے۔ ایک آدمی ہے جس کو پیاس نے بے تاب کر رکھا ہے۔ پانی کے بھرے ہوئے گلاس سامنے رکھے ہیں لیکن مجال نہیںکہ وہ ان کو ہونٹوں سے لگالے۔ ایک مسلمان باورچی ہے جو روزہ رکھے ہوئے دن بھر طرح طرح کے کھانے تیار کرتا ہے اور گرمی و تپش برداشت کرتا ہی، وہ چاہتا تو اس میں سے کچھ لے کر کھا سکتا تھا۔ لیکن محض ایمان اس کو اس چیز سے باز رکھتا ہے کہ تھوڑے سے چٹخارے کے لیے اپنے رب کو ناراض کربیٹھے۔ جب سورج ڈوب جاتا ہے اور روزے دار خدا کا نام لے کر روزہ افطار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ''پیاس دور ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں، اور انشاء اللہ اجر ثابت ہوگیا''۔ اس سوسائٹی کا اصل مرض یہی کھانے کا حد سے بڑھا ہوا شوق ہی تو ہے جس نے بہت سے مادی، اخلاقی امراض آپ کی سوسائٹی میں پیدا کردیئے۔ یہ سب بے صبری، حرص اور لالچ کا نتیجہ ہے۔ میں ہر سال اسی مقصد کے لیے تو آتا ہوں کہ اس شدت اور بے صبری میں کچھ تخفیف کرسکوں اور لوگوں میں کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں اعتدال کا ذوق پیدا ہو۔ اس لیے کہ یہی وہ چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ میری آمد کے ساتھ آپ لوگوں پر فرض کرتا ہے۔ جس نے ایک مہینے کے روزے رکھ لیے اس کی خواہشات میں اور اس کی ذہنی بھوک میں ضرور تھوڑی بہت کمی آنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف کھانے پینے ہی سے نہیں روکا گیا بلکہ ہر قسم کے فسق و فجور سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ غیبت، جھوٹ، چغل خوری، لڑائی، فساد اور تمام بری باتوں سے روکا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ''اگر کوئی روزہ سے ہو تو وہ نہ بری بات کہے نہ لڑے جھگڑے۔ اگر کوئی اس کو گالی دے یا اس سے لڑائی کرنے پر آمادہ ہو تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔'' آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ''جس نے جھوٹ اور بری بات کہی اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی بھی کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے''۔ میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا اور اپنی بات ختم کرلی۔ اب رخصت ہونا چاہتا ہوں۔ اجازت دیجیے خدا حافظ۔


No comments:

Post a Comment