Search This Blog
Sunday, 23 December 2012
آنحضورؐ عالم انسانیت کے واحد معمار
آنحضورؐ عالم انسانیت کے واحد معمار اخوت امن سر بلندی ترقی جو چا ہے یقیناً یہیں سے ملے گی عبد البصیر توحیدی
محسنِ
انسانیت حضرت محمدرؐکا ظہور ایسے حالات میں ہوا جب پوری انسانیت تاریکیوں
کے دلدل میں دھنس چکی تھی۔ خدافراموشا نہ حالاتِ زندگی ا س حد تک پہنچ چکے
تھے کہ شرک وبدعت ، بت پرستی ، ظلم وزیا دتی ، لوٹ مار، جنگ وجدل ، حق تلفی
، اور دوسرے ناقابل بیا ن غیرا نسانی افعال اور جرائم کا دوردورہ تھا ۔
حتیٰ کہ مہمانوں کی تفریح اوریا دوستوں کی تواضع کے لئے غلاموں کو درندوں
سے پھڑوادینا یا جانوروں کی طرح ذبح کر دینا ، یا ان کے زندہ جلنے کا تماشہ
کر نا یورپ اور ایشاء کے اکثر ممالک میں کوئی معیوب کام نہیں تھا۔ شوہر کے
لئے اپنی بیوی کا قتل با لکل ایسا تھا جیسے وہ اپنے کسی پالتو جانور کو
لذیذ پکوان بنا نے کے لئے ذبح کرے۔ بچیوں کو زندہ درگور کرنا معمول بن گیا
تھا،بیوہ کی زندگی جانور سے بھی گئی گذری ہو تی تھی۔ایک دوسرے کے حقوق پر
زبردستی مسلط ہونا سماج کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ بادشاہ دوسروں کے خون پر
پلتے تھے۔معمولی سی اَن بن ہونے پر صدیوں تک جنگ و
جدل کاوحشیانہ رواج تھا۔ایک دوسرے کے مقتولین کی کھوپڑیوں میں شراب پینا ،
مفتوح قوم کی عورتوں کی بے حرمتی کرنا ، ان کی تحقیر و تذلیل کرنا فاتح کے
لئے باعثِ فخر ہوتاتھا۔دُشمن فوج کے لشکر کو دیکھ کر وحشت سے حاملہ عورتوں
کا حمل گر جاتا،اورجوان کنواری لڑکیاں اس کی ہیبت سے بو ڑھی ہو جاتی تھیں۔
رومی اور ایرانی تمدن کی ظاہری چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تھی
مگر ان شیش محلوں کے اندر بد ترین مظالم کا بول با لا تھا ، زندگی کے زخموں
سے تعفن اُٹھ رہا تھا،عام غریب لوگوں سے بھاری ٹیکس وصولنا ، رشوتیں ،
خراج اور نذرانے وصول کر کے ان سے جانوروں کی طرح بیگار لیتے۔حد یہ ہے کہ
افلاطون اور اُرسطو جیسے حکیم بھی اسے کوئی بڑی معصیت نہ سمجھتے تھے۔الغرض
انسان بُری طرح پا مال ہو رہا تھا۔ وہ انتہائی مشقتیں کر کے بھی زندگی کی
ادنیٰ ضرورتیں پوری کرنے پر قادر نہ تھا۔انسانیت کی روح چیخ اٹھتی تھی مگر
پکار کا کوئی جواب کسی طرف سے نہ ملتاتھا۔ کوئی مذہب اس کی دستگیری کے لئے
موجود نہ تھا کیونکہ انبیاء کرام ؑ کی تعلیمات تحریف و تاویل کے غبار
میںگُم ہو چکی تھیں۔یونان کا فلسفہ سکتے میں تھا، کنفیوشس اور مانی کی
تعلیم دم بخود تھی، ویدانیت اور بُدھ مت کے تصورات سر بگریباں تھے،جسٹنین
کا ضابطہ اور سولن کا قانون بے بس تھااور کسی طرف کوئی روشنی نظر نہ آتی
تھی۔ الغرض خوفناک ترین بحران کا عالمگیر دور تھا جس کے اندھیاروں میں محسن
انسانیت حضرت محمد صلعم کی مشعل ِ ہدایت یکایک ابھرتی ہے اوروقت کے تمدنی
بحران کی تاریکیوں کا سینہ چیر کر ہر طرف اُجالا پھیلادیتی ہے۔اس مقصد کے
حصول کے لئے محسن انسانیت صلعم سب سے پہلا قدم انسان کے فکری اور عقیدے کے
فساد کی اصلاح کے لئے اُٹھاتے ہیں اور آپ ؐ اپنے مخاطبین کے ذہن میں
اقتضائے فطرت کے مطابق امن و سلامتی کا بیج بوتے ہیں۔ پھر اس کی ذہنی و
اخلاقی تربیت کرتے ہیں اور امن و سلامتی سے متصادم اوصاف رذیلہ کو اس کے
ذہن ، فکر اور ضمیر سے ایک ایک کو کھرچ کر صاف کرتے ہیں، اس کے بعد فرد کی
عائلی زندگی کا رُخ کیا جاتا ہے اور زوجین کی اس طر ح ذہنی ، فکری اور عملی
تربیت کرتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کیلئے امن و سکون کے ضامن بن جاتے
ہیںاور ان کا گھر اور خاندان چمنستانِ امن بن جاتاہے۔اس کے بعد قیام امن و
سلامتی کا دائرہ اور وسیع کیا جاتا ہے اور پورے معاشرے کو گہوارہ ٔامن و
سلامتی یبناتاہے۔پھر یہیں پر بس نہیں کیا جاتابلکہ ملک و قوم کے دائرہ سے
نکل کر پیغام امن و سلامتی تمام بنی نوع انسان تک پہنچانے کی تگ دو میں
مصروف ہوجاتے ہیں۔امن و سلامتی کی فضا سے معاشرے کو معطر کرنے کے ضمن
میںکبھی کبھار جنگوں کا سہارا اس لئے دفاعی اور اقدامی طور لیاگیا تاکہ اُس
وحشیانہ جنگی طریقوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے جس نے انسان سے انسانیت
کی زینت چھین کر انسان کو وحشی بنایاتھااور حقیقت جنگ کو بدل کر بالکل ایک
ایسا نظریہ پیش کیا جس سے اُس وقت دنیا نا آشنا تھی اور جنگ کو صرف خلق
خدا کے امن و راحت میں خلل واقع کرنے والے شر پسند عناصر کو رفع کرنے کا
مقصد بنایا گیا۔ جنگی وحشت کا حال یہ تھا کہ جنگ فیف ا لریح میں اپنے قبیلے
کی فتح کا ذکر کرتے ہوئے ابن الطفیل کہتے ہیں کہ ہم نے فیف الریح میں نہد
اور خشعم پر کاری ضرب لگا نے کے بعدحاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر ڈالے۔ برعکس
اس کے حضورصلعم نے ایک مرتبہ میدانِ جنگ میں ایک عورت کی لاش پڑی دیکھ کر
ناراضگی کا زبردست اظہار کر کے بنت حواکے قتل کو ممنوع فرمایا اور اعلان
فرمایا کہ نہ کسی بوڑھے ضعیف کو ، نہ کسی چھوٹے بچے کو اور نہ کسی عورت کو
قتل کرو۔وحشت کا حال یہ تھا کہ دشمن کو آگ میں زندہ جلادینے سے بھی تا مل
نہ کیا جاتا۔یمن کے بادشاہ ذونواس نے اُن سب لوگوں کو جو اس کے دین سے پھر
گئے تھے بھڑکتی ہوئی الائو میں ڈلوا دیا۔ عمر بن ُمنذِر نے بنی دارِم کے سو
آدمیوں کو زندہ جلانے کی منت مان کر 100آدمیوں کو زندہ دہکتی ہوئی آگ
میں جلا دیا۔برعکس اس کے حضورصلعم نے اس قبیح عمل کو وحشی پن قرار دے کر
ممنوع فرمایااور فرمایاکہ آگ اللہ کا عذاب ہے ،اس سے بندوں کو عذاب نہ
دو۔حال یہ تھا کہ مردہ لاشوں تک کو نہ چھوڑاجاتا ، ان کے کان ناک تک کاٹے
جاتے تھے۔ جنگ اُحد کا مشہور واقعہ ہے کہ قریش کی عورتوں نے شہدائے اسلام
کے ناک کان کاٹ کر ان کے ہار بنائے تھے ۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ( جب وہ
ابھی مشرف بہ اسلام نہ ہو ئی تھیں ) سیدنا حمزہ ؓ کا کلیجہ نکال کر چبا گئی
تھی۔یوم الحیامیم میں جب بنی جدیلہ کا سردار سبع بن عمرومارا گیا تو بنی
سنبس کے کے ایک شخص نے اس کے دو کان کاٹ کر اپنے جوتے میں لگالئے اور اسی
پر فخر کرتے ہوئے کہتا کہ ’’ ہم تمہارے کانوں کا پیوند اپنی جوتی میں لگاتے
ہیں ‘‘۔ محسن انسانیت حضرت محمدرصلعم دشمن کی لاشوں کو بے حرمت کرنے اور
ان کے اعضاء کی قطع و برید کرنے پر زبردست ممانعت کرتے ہیںاور فوجوں
کوروانہ کرتے وقت یہ ہدایات دیا کرتے کہ بد عہدی نہ کرو ، غنیمت میں خیانت
نہ کرو اور مثلہ ( قطع اعضائ) نہ کرو۔ تاریخ کے اوراق میں یہ لرزہ خیز
واقعہ درج ہے کہ ’’ ایرانی شہنشاہ ( شا پور) نے بحرین کے عربوں کو جنگ میں
شکست دے کر قیدی بنایا پھر ان کے شانوں میں سوراخ کراکے ان کے اندر رسی
پروادی اور اس کو ایک جگہ باندھ دیا ۔ اتنا ہی نہیں جب خود قیصر روم
والیریان قید کیا گیا تو اس کوزنجیروں سے باندھ کر شہر میں گشت کرایا
گیااور عمر بھر اسے غلاموں کی طرح خدمت لی گئی اور مرنے کے بعد اس کی کھال
کھینچواکر اس میں بُھس بھروادیا( الجہاد فی الاسلام ، صفحہ۲۱۵ ) ‘‘ ۔
عُکل
اور عرینہ کا قصہ احادیث میں مذکور ہے کہ یہ لوگ نبیؐ کے چرواہوں کو پکڑ
کر لے گئے ،ان کے ہاتھ پاوئں کاٹے ، ان کی آنکھیں پھوڑدیں اور انہیں تپتی
ہوئی ریت پر ڈال دیا یہاں تک کہ وہ پیاس اور تکلیف سے تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ اس
کے علی الرغم حضورؐ نے صرف اتنی ہی رعایت نہیں دی کہ وہ( قیدی )قتل نہ کئے
جائیں بلکہ مزید بر آں ان کے ساتھ انتہا درجہ کی نرمی اور ملاطفت کا بھی
حکم جاری فرمایا۔جنگ بدر میں وہ لوگ قیدی بنا کر پا بہ زنجیر ہوئے جنہوں نے
۱۳ برس
تک آپؐ کو اور مسلمانوں کو تکلیفیں دے کر جلا وطنی پر مجبور کیا تھا مگر
قیدیوں کی کراہیںگوشِ مبارک تک پہنچی تو آپ ؐ تب تک آرام سے نہ سو سکے جب
تک ان کے بندھن ڈھیلے کرکے انہیں آرام نہ پہنچادیا گیا۔ اور صحابہؓ کو
تاکید فرمائی کہ ان کے ساتھ فیاضی کا برتائو کرو اور اس حکم کی تعمیل میں
صحابہؓ نے خود کھجوروں پر گذارا کیا مگر قیدیوں کو پیٹ بھر اچھا کھانا
کھلایا۔ قیدیوں کے پاس کپڑے نہ رہے تو مُحسنِ انسانیت حضرت محمدؐ نے اپنے
پاس کے کپڑے پہنائے، حالانکہ وہ وقت مسلمانوں پر سخت تنگی کا زما نہ
تھا۔غزوہ بنو المصطلق میں 100سے زیادہ زن و مرد قید ہوئے تھے۔ وہ سب بلا
کسی معائوضہ کے آزاد کردئے گئے۔ حدیبیہ کے میدان میں کوہِ تنعیم کے اسی (۸۰) حملہ آور قیدی ہوئے ، ان کو بھی بلا کسی جرمانہ کے آزاد کیا گیا۔جنگ حنین میں چھ ہزار( ۶۰۰۰) زن
و مرد کو بلا کسی شرط و جرمانہ کے آزاد فرمایا۔بعض اسیروں کی آزادی کا
معاوضہ آنحضرتؐ نیاپنی طرف سے اسیر کنندگان کو ادا کیااور اکثر اسیروں کو
انعام دے کررخصت کیا گیا۔نبیؐ کی اس پاک تعلیم کا ہی اثر تھا کہ خلفائے
راشدینؓ کے عہد میں اگر چہ عراق و شام، مصر و عرب ، ایران اور خراساں کے
شہر فتح کئے گئے مگر کسی جگہ بھی حملہ آوروں نے دُشمن فوج کی رعایا میں سے
کسی کو لونڈی یا غلام بنانے کا ذکر نہیں ملتا۔مغلوب دشمن سے تاوان جنگ
لینے کا بھی کہیں تاریخ میں شہادت یاثبوت نہیں ملتا۔
اصل
حقیقت یہ ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمدصلعم نے جو صالح انقلاب برپا کیا اس
کی روح تشدد وتنفر سے عاری تھی بلکہ الٹا یہ خیر محبت و خیر خواہی اور حسن
سلوک سے عبارت تھی۔ اسلامی نظام کے قیام میں دونوں جانب کا جانی نقصان چند
ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ اس کے برعکس قیصر جسٹنین کے زمانہ میں جب ونڈالوں
پر چڑھائی کی گئی تو پچاس لاکھ کی عظیم ا لشان آبادی کو صفحۂ ہستی سے
مٹا دیا گیا۔(History of the Decline & Fall of the Roman Empire : Gibbon ; Vol. 4, PP 134))۔ ۷۰ عیسوی میں ٹٹیوس رومی نے جب بیت مقدس فتح کیا تو دوران جنگ میں ۹۷ ہزار آدمی گرفتار کئے گئے جن میں ۱۱ ہزار
صرف بھوک کی شدت سے مر گئے اور ان کے علاوہ جنگ اور قتل عام میں جو لوگ
ہلاک ہوئے ان کی مجموعی تعداد 1,33,490بتائی جاتی ہے اور 1,01,700افراد کو
قیدی بنایا گیا۔تمام درختوں کوصفحہ ہستی سے اس طرح مٹا دیا گیا جیسے کہ
وہاں پر کچھ تھا ہی نہیں۔ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں اورانسانی لہو پانی
کی طرح بہ رہا تھا (Early Days of Christianity : F.W. Farrar : pp 488-489)۔ بدقسمتی
سے انیسویں ، بیسویں اور اکیسویںصدی میں بھی وحشیانہ اور انسانیت سوز
جنگوں کے ذریعے انسانیت اور انسانی شرافت کی تمام خصوصیات کو ایک ایک کرکے
تباہ و برباد کیا گیا۔صحرائے عر ب میں بیس لاکھ لوگوں کو ابدی نیند سلادیا
گیا۔ قیدیوں کو لوہے کے پنجروں میںڈال کر ننگے آسمان تلے گرمی کی شدت میں
تڑپ تڑپ کر ابدی نیند سلادیا گیا۔دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگوں کی ہلاکت
واقع ہوئی ۔ ویتنام کے لاکھوں بے گناہ کے قتل اور اپاہج بنا دینے اور
کلسٹر بموں کی مار سہنے پر مجبور کیا گیا۔ہندوستان کی جنگ آزادی میں
لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔کشمیر میں اب تک لاکھوں لوگوں کے
خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ابھی پتہ نہیںاور کتنے معصوم جانوں کے لہو سے کشمیر
کی وادی کو رنگ لیا جائے گا۔تیس ہزار لوگوں کا کوئی اَتہ پتہ ہی نہیں۔پچاس
ہزار کے قریب عورتوںکو بیوہ بنا دیا گیا ۔ سینکڑوں کی تعداد میں شادی شدہ
اور غیر شادی شدہ عورتوں کی عصمت کو ہمیشہ کے لئے داغدار بنا لیا گیا۔ ایک
سوچی سمجھی سازش کے تحت کشمیری نوجوانوں کو نشیلی ادویات کا عادی بنا کر ان
کے مستقبل کو ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد کیا گیا۔اس کے علاوہ نئی نسل کے
لئے فحاشی ، عریانی اور بے حیائی کو دلکش انداز میں پیش کرکے ان کے
اخلاقیات کا بے دردانہ طریقے سے قتل کیاجارہا ہے۔افغانستان میں لاکھوں
لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ ان کے گھر بار کھنڈرات میں تبدیل کئے گئے۔ پاکستان
میں عید کے دن لوگوں پر ڈرون میزائیل کے حملے کرکے ان کاوحشیانہ طریقے سے
قتل کیا جارہا ہے۔فلسطین کے عوام پر ظالمانہ اقدام کر نا جائز کراکے ان کو
ہر دن تشد کا نشانہ بنا یا جارہا ہے۔ معصوم بچوں
کے اوپرسے ٹینک چلانا ،ان کے معصوم سینے گولیوں سے چھلنی کر انااسرائیل کی
جا نب سے تفریح کے کام کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ مہینوں مہینوں تک اندھیرے
میں رکھ کر اہل فلسطین کو بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھا جارہا ہے۔ عراق
میں بے شمار لوگوں کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔عورتیں بچے ، بوڑھے ،
بیمار، زخمی ، کوئی بھی ہمہ گیر دست درازی سے مستثنیٰ نہ رہا۔ حال ہی میں
میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کو اذیت ناک طریقے سے قتل کیا گیا۔ بچوں ،
بزرگوں اور عورتوں تک کو وحشیانہ پن کا شکار ہونا پڑا۔گوانتا ناموبے میں
ہزاروں کی تعداد میں معصوم افراد اسیری کی زندگی بسرکر رہے ہیں اور ان کے
ساتھ جانور سے بھی گیا گزرا سلوک کیا جارہا ہے۔ کُتے عیش کر رہے ہیں اور
قیدی دانہ کو ترس رہا ہے۔
الغرض
آج کا طاقتور انسان بھی ، انسان کی شکل میں وہ وحشی درندہ بن گیا ہے۔ آج
کا انسان مہذب اور انسانیت پسند لبادے مین دراصل انساینت سوز حرکات سے
انسانی شرافت کی تمام خصوصیات کو ایک ایک کرکے تباہ و بربا د کررہا ہے۔ ہر
طرف دولت و اقتدار کے لئے معصوم جانوں کے لہو کو پانی کی طرح بہایا جارہا
ہے۔انسانی ذہن و کردار میں ایسا بنیادی فساد آگیا ہے کہ زندگی کا کوئی
گوشہ اس کے منحوس پرچھائیوں سے محفوظ نہیں ۔ سیاست میں جذبۂ خدمت کی جگہ
اغراض پرستی گُھس گئی ہے۔معیشت کے میدان میں ظالم اور مظلوم طبقے پیدا ہو
گئے ہیں۔ چیتے اور بھیڑیئے کا سا معاملہ ہے۔ جوہری
توانائی نے تباہ کارئیوں کے لشکر انسان کے سامنے مسخرکر کے کھڑے کر دئے
ہیں۔ معاملہ صرف ایک قوم کی آزادی اور ایک قوم کی ترقی کا نہیں بلکہ
معاملہ پوری انسانیت کو موت اور زندگی کا ہے۔ سوال کسی ایک خرابی کا
نہیںبلکہ انسانیت کا بدن داغ داغ ہے۔ مریض مریض کا علاج کس طرح کرے؟جو خود
پیاسا ہو ، دوسرے کی پیاس کس طرح بجھائے؟ اضطراب کے اس لمحے میں جب چاروں
طرف نظر پڑتی ہے تو تاریکی کا ایک ٹھا ٹھیں ما رتا ہوا سمندر عالم انسانیت کامحاصرہ کئے ہوئے دکھائی دیتا ہے اور اس سمندر میں دور ۱۵ صدی
کی دوری پر ایک نقطہ نور دکھائی دیتا ہے۔ یہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن
حضرت محمدصلعم کے پیغام کی مشعل ہے جس نے پورے اجتماعی زندگی کو اندر سے
بدل دیااور صبغتہ اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک ، مدرسہ سے
عدالت تک اور گھر سے لے کر میدان جنگ تک چھا گیا ۔اپنی زندگی اور اپنے
خاندان کی زندگی خطرے میں ڈال کر ، اپنا سب کچھ قربان کرکے،بادشاہی کا تاج
ٹھکرا دیا ،محبوب وطن کو چھوڑا، پیٹ پر پتھر باند ھااور ہر فائدہ اور ہر
لذت سے دور رہے۔ دُشمن کے ساتھ انصاف کا برتائو کیا، حق کے معاملے میں اپنی
اولاد کی پرواہ نہ کی ، رات کے عبادت گذار اور دن کے شہسوار تھے ۔تیئس(23)
برس میں دینا کا رُخ بدل کے رکھ دیا کہ آج بھی انسان عش عش کر رہا ہیا ور
اس بات کا تمنا ئی ہے کہ کب یہ نور پھر سے انسانی دنیا کا مقدار بن جا ئے ۔
انسان کیا بدلاکہ جہاں بدل گیا۔کسی کونے میں شر نہیں اور کسی کونے میں
فساد نہیں ۔ ہر طرف بنائو ہی بنائو اور ارتقاء ہی ارتقاء ہے اور
اگر دنیا حقیقی معنوں میں اضطراب و بے چینی سے نجات پا نے کی آ رزومند
اور امن و سلامتی کی متمنی ہے تو ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ
نہیں کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی اسوہ رسول صلعم کے تابع گذارے ۔
|
Saturday, 15 December 2012
Tuesday, 11 December 2012
21 DECEMBER END OF THE WORLD????!!!!!!!!!
۲۱دسمبر۲۰۱۲:دُنیا کا اختتام؟ مفروضات؛نظریات اور حقائق بلال احمد خان
آج
کل دنیا بھر میں 21دسمبر 2012 کے حوالے سے مباحث جاری ہیں اور یہ مباحث
مشہور فلم ڈائریکٹر رونالڈ ایمرج کی فلم’’ 2012‘‘کے منظر عام پر آنے کے
بعد عوامی محافل کی زینت بھی بن گئے ہیں۔حالانکہ اس سلسلے میںکئی دستاویزی
فلمیں مثلاً ۔Where History Ends,Doomsday 2012 ,2012 Science or Supersitition, End of Days , Nostradamus effect,Apocalypseوغیرہ منظر عام پر آ چکی ہیں۔
اضطراب
کی لہر دوڑانے اور دہشت پھیلانے کیلئے بدنام بعض ٹی وی چینل بھی اس خبر کو
سنسنی خیز انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیںجس سے بعض لوگوں میں
گھبراہٹ اور بے چینی پھیل گئی ہے۔ بعض لوگ تو گھبراہٹ میں موت سے پہلے ہی
مرتے دکھائی دینے لگے ہیں، ان کا دل ڈوبنے لگا ہے ، کسی کام میں جی نہیں
لگتا، ہر وقت ان کو موت کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ قیامت کا یہ تصور تو عام ہے
کہ وہ آئے گی تو بڑی تباہی آئے گی۔ دنیا کا نظام اْلٹ پلٹ ہوجائے گا اور
دنیا تباہ ہوجائے گی۔ان چینلوں نے نجومیوں اور جھوٹے غیب دانوں کے حوالے
سے انسانوں اور دنیا کی مہلت حیات دسمبر 2012ء طے کردی ہے۔
سائنسدان
اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کیا زمین پر زندگی اپنے اختتام کے قریب ہوتی
جارہی ہے؛ جبکہ کچھ مفروضات یہ بھی ہیں کہ انسان خود ہی اپنے ہاتھوں اپنے
انجام سے دوچار ہو گا؛ مزید برآں کچھ مفروضات یہ ہیں کہ اختتام بھی مظاہر
قدرت میں سے ایک مظہر ہے ؛ اور اسی طرح مذاہب کے گروہوں میں یہ سوچ ہے کہ
اللہ ہی زمین پر دنیا کا نظام ختم کرنے کو ہے۔
ایک طویل عرصے سے یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ 21دسمبر 2012ء کو
قیامت برپا ہو جائے گی۔ یہ عقیدہ ایک قدیم تہذیب مایا کے ماننے والوں کا
ہے۔ دنیا میں آباد ہر مذہب اور قوم کی اپنی ایک الگ تہذیب و ثقافت ہے۔
دنیا میں کئی قدیم تہذیبیں ہو گزری ہیں۔ ایسی ہی ایک تہذیب مایا کہلاتی ہے،
یہ لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک کی سب سے قدیم تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔
یہ تہذیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے بہت پہلے اس دنیا میں زندہ
تھی۔ زیادہ مضبوط شواہد چھ سو قبل مسیح کو مایا تہذیب کے عروج کا نقطہ
آغاز بتاتے ہیں، جبکہ اس تہذیب کا دوسرا دور تیسری سے دسویں صدی عیسوی تک
پھیلا ہوا ہے۔ جنوبی میکسیکو، گوئٹے مالا، ایل سلواڈور سے لے کر بے لائیز
اور مغربی ہونڈراس تک کم و بیش ہزاروں کلو میٹر وسیع و عریض خطے پر اس
تہذیب کا راج رہا۔ میکسیکو ایک ایسی پراسرار جگہ ہے، جہاں کئی ایسے راز ہیں
جو ابھی تک دنیا پر کھل رہے ہیں۔میکسیکو کے کچھ باشندے اب بھی قدیم مایا
زبانیں بول سکتے ہیں۔
مایا
تہذیب زبان، حساب اور ستاروں کے علم میں بہت ترقی یافتہ تھی۔ اپنے دور میں
ان کی تہذیبی اور ثقافتی برتری نے ارد گرد کی دیگر اقوام کو بھی متاثر
کیا۔ اس تہذیب کے پیروکاروں نے امریکا میں لکھائی کی ابتداء کی، جبکہ اِن
کے لکھنے کا طریقہ قدیم مصری زبان سے ملتا جلتا ہے۔ یہ لوگ الفاظ اور
تصاویر کو ملا کر لکھنے کیلئے جانوروں کے بالوں یا پَروں سے بنا ہوا برش
استعمال کرتے تھے۔ وہ درختوں کی چھالوں پر لکھتے تھے، جس کی چند کتابیں آج
بھی محفوظ ہیں۔ مایا تہذیب کے کلینڈروں میں اٹھارہ مہینے اور ہر مہینے میں
بیس دن ہوتے تھے، یعنی سال میں تین سو ساٹھ دن۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے
بنائے ہوئے کلینڈر آج کے عیسوی کلینڈرز سے بہت زیادہ درست ہیں۔ ان کا حساب
اتنا درست ہے کہ فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ سورج کب نصف النہار پر ہوگا،
سال کے کن حصوں میں دن رات برابر ہوں گے، ہمارے نظام شمسی میں دیگر سیاروں
کے گزرنے کے راستے اور اوقات کیا ہوں گے، زہرہ اور مریخ کے مدار کون کون سے
ہیں وغیرہ۔
اس
تہذیب کا اپنا حساب کتاب کرنے کا نظام بھی تھا۔ اس نظام میں فقط تین
نشانات لکیر، نقطہ اور سیپ استعمال ہوتے تھے۔ لکیر کے معنی پانچ، سیپ کے
معنی صفر اور نقطے کے معنی ایک ہوتے تھے۔ ان تین نشانوں کے ذریعے بغیر پڑھے
لکھے لوگ بھی بڑے سے بڑا حساب کتاب کر لیتے تھے۔ مایا تہذیب بظاہر صدیوں
پہلے ہی زوال پذیر ہو چکی ہے مگر مایا قوم کی اولاد آج بھی میسو امریکن
علاقوں میں موجود ہے۔ ان میں بہت سارے لوگ اب بھی مایا مذہب کی بہت سی
رسومات پر عمل کرتے ہیں، مگر ان کے پیچیدہ رسم الخط کو بھول چکے ہیں۔ اس
تہذیب کی سب سے قابل ذکر ایجاد ان کا کلینڈر مانا جاتا ہے۔
مایا
کلینڈر کے مطابق 21 دسمبر 2012ء کو پانچ ہزار ایک سو چھبیس برس پر مشتمل
ایک دور کا خاتمہ ہو رہا ہے، لہٰذا اس دن ایک بڑی قدرتی آفت کے ذریعے
قیامت برپا ہو جائے گی، جبکہ مایا اقوام پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا
ہے کہ یہ دنیا پانچ عہدوں میں بٹی ہوئی ہے اور مایا لوگ چوتھے عہد میں جی
رہے ہیں۔ ان کے کلینڈر کے مطابق چوتھے عہد کو آج کے عیسوی کلینڈر کے حساب
سے اکیس دسمبر میں ختم ہو جانا ہے اور پھر اس کے بعد دنیا کا آخری اور
پانچواں عہد شروع ہو جائے گا۔
ماضی
میں ایک عیسائی مبلغ کی طرف سے سن دو ہزارہ گیارہ میں دنیا کے خاتمے کی
پیش گوئی بھی غلط ثابت ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال اکیس اکتوبر کا دن خیریت اور
سکون سے گزر گیا، حالانکہ امریکا سمیت کئی ملکوں میں بہت سے لوگ اس فکر میں
تھے کہ اس دن دنیا ختم ہو سکتی ہے، کیوں کہ عیسائی مبلغ ہیرالڈ کیمپنگ نے
پیش گوئی کی تھی کہ اس دن قیامت آ جائے گی۔ اس عیسائی مبلغ نے پہلے اکیس
مئی کو قیامت آنے کی پیش گوئی کی تھی مگر جب مئی کا یہ دن خیریت سے گزر
گیا تو پھر اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان سے جمع تفریق میں تھوڑی بہت گڑ
بڑ ہو گئی تھی، جسے اب ٹھیک کرلیا گیا ہے، لہٰذا اب اکیس اکتوبر دو ہزار
گیارہ کو قیامت آئے گی۔ کائنات کے خاتمے کے حوالے سے پیش گوئی کرنے والے
وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ مغربی دنیا میں ان سے پہلے بھی کئی لوگ قیامت کی
ناکام پیش گوئیاں کر چکے ہیں، حتیٰ کہ متعدد سائنس دان بھی مختلف موقعوں پر
خلاء میں بھٹکتے ہوئے کئی بڑے اجرام فلکی کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں
قیامت برپا ہونے کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں، مگر ہر بار کرہ ارض ایسے کسی
ممکنہ حادثے سے بچتا رہا ہے۔
اس
دنیا کی مثال ہماری زندگی کی طرح ہے، انسانی زندگی کی طرح دنیا بھی آہستہ
آہستہ خاتمے کی طرف جا رہی ہے۔ قیامت کے حوالے سے مایا تہذیب کی لمبی مدت
سے جاری اس پیش گوئی کی حمایت میں کوئی قابل یقین ثبوت موجود نہیں، تاہم
تینوں آسمانی مذاہب میں اس کا عمومی تصور موجود ہونے کے باعث اس کی سحر
انگیزی اجتماعی انسانی شعور میں سرایت کر چکی ہے۔ قیامت کے بارے میں اسلامی
عقیدہ دیگر تمام مذاہب کے نظریات کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کے عقیدہ کے مطابق
دنیا کے خاتمے کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے،
البتہ قیامت سے قبل اس کی چند علامات ضرور ظہور پذیر ہوں گی۔ ان علامات میں
سیدنا امام مہدی کا ظہور، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور
زمین سے ایک جانور کا نکلنا جو بات کرے گا، یاجوج ماجوج کا ظہور اور اللہ
کے غضب سے ان کی ہلاکت، سورج کا مغرب سے نکلنا اور آگ کا ظاہر ہونا وغیرہ
شامل ہیں۔ کائنات کے اختتام کے حوالے سے اسلامی عقیدہ قرآن و سنت سے ثابت
ہے، البتہ اسلام نے اس سلسلے میں صدیوں پہلے جو نظریہ دیا، آج سائنس کے
بیان کردہ اندازے اس کے قریب تر ہیں۔
چنئی کے سائنسداں وکراوندی وی روی چندرن مایا
تہذیب کی اس پیشین گوئی کونہیں مانتے اور کہتے ہیں ’’ ماین تہذیب کا اب
بذات خود وجود باقی نہیں رہا۔ تو کیا اس نے اپنے خاتمہ کی کبھی پیشین گوئی
کی تھی؟ اگر اسے پتہ تھا کہ دنیا کب ختم ہوگی تو کیا اسے خود اپنی تہذیب کی
موت کے بارے میںبھی پتہ نہیں ہونا چاہئے تھا‘‘؟روی چندرن 16 ویں صدی میں
ناسٹراڈمس کے ذریعہ کی گئی ایک پیشین گوئی سمیت دیگر پیشین گوئیوں کا حوالہ
دیتے ہیں جو کہ سب کی سب غلط اور بے بنیاد ثابت ہوئیں۔ان کا ماننا ہے کہ
جو لوگ بھی قیامت کی پیشین گوئی کرتے ہیں وہ ایک دور دراز کی بات کرتے
ہیں۔قیامت کی متعلق پیشین گوئیاں محض فریب
ہیں۔وہ کہتے ہیں ’’ (امریکی ماہر نفسیات) جیرن کرسویل ( وفات 1982) نے
پیشین گوئی کی تھی کہ زمین کے میدان مقناطیس میںایک خلل کے نتیجہ میںدنیا
کا خاتمہ 1999 میں ہو جائے گا۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔18 ویں صدی میں ایک
برطانوی راہبہ نے پیشین گوئی کی تھی کہ زلزلے اور جنگیں الہامی ہوں گی اور
2000 بعد از مسیح تک دنیا تباہ وبرباد ہو جائے گی‘‘۔لیکن ایسا نہیں ہوا
دنیا آج بھی ہمارے سامنے برقرار ہے۔محققین کے مطابق مندرجہ ذیل واقعات میں
اسے ایک یا ایک سے زیادہ بظاہر دنیا کے خاتمے کا سبب بن سکتے ہیں ۔
عالمی پینڈمک
1918 میں
جب کہ دنیا 4 سال کی جنگ سے ابھر رہی تھی تو اسی دوران اسپینش انفلوئنزا
کا حملہ ہوا۔ محض 6 مہینے ہی میں اس جان لیوا وائرس نے 50 ملین لوگوں کو
ہلاک کر دیا۔ آج لوگ زیادہ ہی آبادی والے شہروں میں رہتے ہیں اور ایک
براعظم سے دوسرے براعظم تک کا سفر بھی بہت تیز رفتار ہو چکا ہے۔اگر اسپینش
انفلوئنزا کی طرح کی کوئی بیماری ایک بار پھر پھیلی تو پوری دنیا اس کی
چپیٹ میں آ جائے گی۔
بلیک ہول کی تباہی
بلیک
ہول، جس میں ماورائے تصورات کی سطح تک قوتِ کشش ہے وہ شمسی نظام کے قریب
آ سکتاہے۔ اگر ایسا ہوا تو زمین تباہ و برباد ہو جائے گی۔ دھول بھرے بادل
اور توانائی کے نظام کے قریب پائی جانے والی گیسوں کی وجہ سے الیکٹرو
میگنٹک ریڈیشن کا اخراج ہوگا جس کی وجہ سے دنیا کو بھاری تباہی کا سامنا
کرنا پڑ سکتا ہے اور دنیا کا وجود مٹ سکتا ہے۔
پولر شفٹ
جس
زمین پر ہم رہتے ہیں وہ اپنے آربٹ پر سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے اور کئی
بار کسی دوسرے سیارے سے ٹکرانے سے بچ چکی ہے۔ زمین لگاتار حرکت کر رہی ہے
اور ہو سکتا ہے کہ جس طرف وہ ابھی جھکی ہوئی ہے، اس کے برعکس دوسری طرف جھک
جائے اور پھر اس کا خوفناک نتیجہ سامنے آئے۔ایسا ہوا تو پوری انسانیت کو
خطرہ ہو سکتا ہے۔
سورج کا خاتمہ
اگراینڈرومیڈا
ہم سے نہیں ٹکرایا تو سورج ہم سے ٹکرا جائے گا اور وہ بھی اسی دورانیہ میں
ٹکرائے گا۔ یعنی کہ 5000 ملین سالوں میں جب کہ سورج بہت بڑا ہو جائے گا
اور بہت گرم ہو جائے گا تو یہ اپنی انرجی کو ختم کر دے گا جس سے سمندر میں
پانی تیرتے ہیں اور جس سے زمین میں نباتات اْگتے ہیں اور جس سے انسان اور
جانور زندہ ہیں۔
عالمی نیوکلیائی جنگ
سرد
جنگ ہرچند کہ ختم ہو چکی ہے لیکن نیوکلیائی جنگ کا خدشہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔
جیسے جیسے نئے نئے نیوکلیائی ممالک سامنے آ رہے ہیں بہت سارے لوگ ہیں جو
نیوکلیائی اسلحے پر قبضہ چاہتے ہیں اور جس کے ذریعہ صرف انگلی دبا کر
ہزاروں تباہ کاریاں مچائی جا سکتی ہیں۔ اگرایسا ہوا تو اچانک ہی لاکھوں لوگ
مارے جائیں گے اور اربوں لوگ بری طرح سے مرض میں مبتلا ہو جائیں گے۔
انڈرومیڈا کا اثر
آسمان
پر جو بھی بڑی کہکشائیں ہیں وہ سب ہم سے کافی دور ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن
ایک کہکشاں وہ ہے جسے ایم 31 اینڈرومیڈا بھی کہا جاتا ہے، وہ جادہ شیر
(ملکی وے) کی طرف آ رہا ہے۔ اس کی رفتار فی سیکنڈ 120 کلو میٹر ہے۔
انڈرومیڈا ایک اندازے کے مطابق 5000 ملین سال میں ہم سے ٹکرا سکتا ہے اور
اگر یہ ہوا تو یہ دنیا کا خاتمہ ہوگا۔
|
Friday, 7 December 2012
غیر متشکل خلیہ:انسانی جسم کی ’مرمت‘ کا دریچہ
غیر متشکل خلیہ:انسانی جسم کی ’مرمت‘ کا دریچہ محمدوسیم
کسی جسم میں موجود زیادہ تر بالغ خلیوں کا ایک مخصوص مقصد ہوتا ہے جسے تبدیل نہیں کیا سکتا۔ مثلاً جگر کا ایک خلیہ مخصوص کام کرنے کے لیے بنتا ہے اور اسے فوری طور پر دل کے خلئے کا کام نہیں لیا جا سکتا۔سٹیم سیلز ان سے مختلف خلئے ہوتے ہیں۔ وہ افزائش کے ابتدائی مرحلے میں ہوتے ہیں اور ان میں مختلف قسم کے خلیوں کی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔جب ایک سٹیم سیل تقسیم ہوتا ہے تو ہر نئے خلئے میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یا تو وہ سٹیم سیل کی شکل میں قائم رہے یا ایک ایسا خلیہ بن جائے جو کوئی مخصوص کام سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس صلاحیت پر قابو پا کر سٹیم سیلز یا بنیادی خلیوں کو انسانی جسم کی ’مرمت کے سازوسامان‘ کی شکل دی جا سکتی ہے۔ان کے مطابق ان سٹیم سیلز کو ایسی تندرست بافتیں تیار کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے جو ایسی بافتوں کی جگہ لیں گی جو بیماری سے متاثر ہوئی ہوں۔سائنسدانوں کے مطابق وہ بیماریاں جن کا علاج سٹیم سیل کی مدد سے ہو سکتا ہے ان میں پارکنسن، الزائمر، دل کی بیماری، آرتھرائٹس اور ریڑھ کی ہڈیوں کی تکالیف شامل ہیں۔سٹیم سیلز کو تجرباتی ادویات کے نتائج جاننے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر تحقیق سے یہ بھی پتہ چل سکتا ہے کہ انسانی جسم میں ٹشوز یا بافتیں کیسے بنتے ہیں اور کیسے بیماریاں انسانی جسم پر غلبہ حاصل کرتی ہیں۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ سب سے کارآمد سٹیم سیل ایمبریوز کی بافتوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا کثیر بارآور ہونا ہے۔ ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ انسانی جسم کے کسی بھی خلئے کا روپ دھار سکتے ہیں۔سٹیم سیل انسانی اعضاء میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ایسے خلئے ہوتے ہیں جن کا کوئی مخصوص کام نہیں ہوتا اور انہیں اسی عضو میں کسی اور مخصوص کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ان کا کام اس عضو میں پیدا ہونے والی خرابی کو صحیح کر کے اسے تندرست رکھنا ہوتا ہے۔لیکنان کے استعمال کی بڑے پیمانے پر مخالفت ہوئی ہے۔یہ سیل تجربہ گاہ میں تیار کیے جانے والے ایسے ایمبریوز سے لیے جاتے ہیں جن کی عمر چار سے پانچ دن ہوتی ہے۔ ان کے استعمال کے مخالفین کے مطابق تمام ایمبریوز چاہے وہ قدرتی طریقے سے بنیں یا انہیں تجربہ گاہ میں تیار کیا جائے، ان میں انسانی شکل میں ڈھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے اس لیے ان پر تجربات کرنا اخلاقی طور پر صحیح نہیں۔یہ گروپ بالغ بافتوں سے لیے گئے سٹیم سیلز کے استعمال کے حامی ہیں۔ کچھ محققین کو خدشہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ سٹیم سیل کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں جبکہ کچھ کے خیال میں ان میں موجود بیماریاں علاج کروانے والے شخص کو منتقل ہو سکتی ہیں۔ حالیہ تحقیق کے دوران برطانوی سائنسدانوں نے ایک مریض کے اپنے ہی خون سے اس کے ذاتی استعمال کے لیے سٹیم سیل بنایا ہے۔ڈاکٹروں کو امید ہے کہ بالاخر اس سے مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج میں مدد ملے گی۔کیمبرج یونیورسٹی کی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ سٹیم سیل حاصل کرنے کے آسان ترین اور محفوظ ترین طریقوں میں سے ایک ہوگا۔عالمی طبی جریدے ’سٹیم سیل: ٹرانسلیشنل میڈیسن‘ میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سٹیم سیل کا استعمال شریان بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔طبی تحقیق کے میدان میں سٹیم سیل سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ یہ کسی بھی قسم کے خلیوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں جن سے جسم کی تعمیر ہوئی ہے اس لیے اس کے ذریعے دل سے لے کر دماغ تک اور آنکھوں سے لے کر ہڈیوں تک کسی بھی عضو کی مرمت کی جا سکتی ہے۔طبی محققین کا کہنا ہے کہ کسی بالغ کی جلد سے لیے گئے سیل کو سٹیم سیل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جسے جسم اپنے حصے کے طور پر قبول کرے اور اسے باہری عنصر سمجھ کر رد نہ کرے۔کیمبرج کی ٹیم نے خون کے نمونوں کو سیل کی مرمت کے لیے منتخب کیا اور اسے خون کے دوران کے ساتھ شریانوں میں دوڑایا تاکہ شریانوں کی دیوار کی مرمت ہو سکے۔ اس کے بعد انہیں سٹیم سیل میں تبدیل کر لیا گیا۔ ادھرایک امریکی بایو ٹیکنالوجی کمپنی بارہ نابینا افراد کی بینائی واپس لانے کے لیے ان کی آنکھ میں انسانی سٹیم سیل یعنی بنیادی خلئے داخل کرنے کے تجربے کا آغاز کرنے والی ہے۔چوہوں پر کامیاب آزمائش کے بعد انسانوں پر اس تجربے کی منظوری امریکہ کے خوراک و ادویات کے منتظم ادارے نے دی ہے۔تجربہ کرنے والی کمپنی ایڈوانس سیل ٹیکنالوجی کے سینئر ایگزیکٹو نے بتایا ہے کہ چوہوں پر کی گئی آزمائش کے دوران ان کی بصارت میں سو فیصد اضافہ ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ سٹیم سیل تحقیق میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ابتدائی طور پر جن بارہ مریضوں پر تجربہ کیا جائے گا ان کی بصارت بحال ہونے کا امکان نہیں ہے بلکہ اس تجربے کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ یہ علاج کتنا محفوظ ہے۔تجربے کی کامیابی کی صورت میں سٹیم سیل کا یہ علاج نوجوان مریضوں پر آزمایا جائے گا تاکہ ان کی بینائی مکمل طور پر ختم ہونے سے بچائی جا سکے۔سٹم سیلز میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کسی دوسری قسم کے خلیوں میں ڈھل سکتے ہیں اور کئی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سٹم سیلز کی اس صلاحیت کی بنیاد پر یہ ممکن ہے کہ انہیں مختلف ٹشوز میں ڈھال کر جسم کے اندر متاثرہ اعضاء کی مرمت اور بیماری کا علاج کیا جا سکے۔سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد جسم میں کسی بھی طرح کے خلئے میں تبدیل ہوسکتے ہیں اور حال ہی میں ایک اور امریکی کمپنی نے ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ کا شکار افراد کے علاج کے لیے انسانی بنیادی خلیوں کے استعمال کے تجربات بھی شروع کیے ہیں۔سائنسدانوں کا موقف ہے کہ سٹیم سیل پر مزید تحقیق سے انسانی جسم کے لیے ’سپیر پارٹس‘ حاصل کیے جا سکیں گے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ سٹیم سیل پر مزید تحقیق سے کئی ناقابل علاج بیماریوں جیسے ذیابیطس، رعشہ اور الزائمر کے علاج میں بھی مدد مل سکتی ہے۔سٹیم سیل ریسرچ کے دو بانی سائنسدانوں کو اس سال مشترکہ طور پر طب کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا ہے۔برطانیہ کے جان گرڈن اور جاپان کے شنیایمنا کو یہ انعام بالغ خلیوں کو سٹیم سیلز میں بدلنے کی تحقیق پر دیا گیا۔ یہ سٹیم سیلز بعد ازاں جسم میں کسی بھی قسم کے خلئے کی شکل اپنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
موبائل نمبر:-8803003787
courtesy: Kashmir Uzma Srinagar
|
Sunday, 2 December 2012
ISLAM KA ZABTAE JANG اسلام کا ضابطۂ جنگ
اسلام کا ضابطۂ جنگ عبدالرحمٰن مخلص
جنگ وجدال کی طرف رُجحان انسان کی فطرت میں ملا ہواہے جس کو علمِ نفسیات یعنیPsychology میں Instinct of gregariousness یا ’’جبلت جنگجوئی‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس لئے حضرت آدم علیہ السلام کا پانچ نفوس پر مشتمل کنبہ بھی اس کے اثر ونفوذ میں آہی گیا۔ آدم ؑ کے بیٹے قابیلؔ نے اپنے بھائی ہابیلؔ کو قتل کردیا اور زمین کی سطح پہلی بار خونِ آدم سے داغدار ہوئی ۔قتل کیوں اور کس لئے ہوا۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن اُس وقت سے آج تک یہ سلسلہ مسلسل چلا آرہاہے اور یقینی طور سے اس کااختتام ظہورِ قیامت کے ساتھ ہی ہوگا۔ معلوم تاریخ میں اس صفحۂ ہستی پر بہت سی جنگیں لڑی گئیں اور لڑی جارہی ہیں ۔ کہیں دو آدمیوں کے درمیان ، کہیں دو ملکوں یا قوموں کے درمیان لیکن جنگ عظیم اوّل ودوم کے علاوہ ویٹ نام ، کوریا ، بوسنیا ، عراق ، افغانستان اور ہندوپاک کی جنگیں اس کی بدترین مثال ہیں ۔لیکن جو بھی جنگ لڑی گئی یا لڑی جارہی ہے ، اُس میں راست طور سے زر ، زمین ، زَن کا ہاتھ رہاہے ۔اب حرص وہوس اور چودھراہٹ کا عنصر بھی اِس میں شامل ہوگیا ہے ۔ دیکھئے ! میں عالمی چودھری انکل سام سے کہوں گا : ’’سام جی ؔ اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تمہارے پاس ہے ۔تم گلوب کے بعید ترین سروں سے دوڑے دوڑے کیوں آرہے ہواور عراق ، شام،ایران ، لیبیا ، یمن ، سوڈان ،مصر، پاکستان ، افغانستان وغیرہ کے معاملات میں اپنی گندی ٹانگ اَڑاتے ہو ؟اگر اُن کے پاس نیوکلیائی ہتھیار میں تو کیا ہوا ؟ کیا خود تمہارے پاس یہ ہتھیار نہیں ہیں ؟ اگر تم رکھ سکتے ہوتو کوئی دوسرا کیوں نہیں رکھ سکتا بلکہ تم ہی تو اس ہتھیار کے بنانے والے اور سب سے پہلے جاپان پر آزمانے والے ہو ۔ اگرتم اس حقیقت کو مانوگے تو تمہارا دھاریوں ستاروں والا پرچم بھی سلامت رہے گااور تمہارا اونچا ٹوپ بھی ! نہ مانوگے تو تمہیںجس طرح آج عراقیوں افغانوں نے کس کے بھینچ لیا ہے اور تم پر ’’بلّی کے منہ میں چھچھوندر، نہ اُگلا جائے نہ نگلا جائے ‘‘ والی مثال صادق آرہی ہے ، اسی طرح اور جگہوں پر تمہارا دامن کانٹوں میں اُلجھ جائے گا اور تم انہیں کانٹوں سے چھُڑانے کی کوشش میں اپنے فطری لباس میں نظر آئوگے ۔ یعنی الف ننگا…!!
بہرحال! میں عرض یہ کر رہا تھاکہ جنگ کا چھوٹے یا بڑے پیمانے پر بپا ہونا فطری ہے ! اس پس منظر میں اسلام نے ایک بہترین اور قابل عمل ضابطۂ جنگ پیش کیا ہے ۔ اگر اس پر عمل کیا جائے ،تو جنگ ، جنگ نہیں لگے گی بلکہ اپنی تمام کراہتوں کے باوجود دوستوں کے درمیان ہاتھا پائی کی حدود کے اندر رہے گی اور ظاہرہے کہ ہاتھا پائی میں چند خراشیں تو لگ سکتی ہیں جن سے خون بھی بہہ سکتاہے لیکن قومیں ،ممالک ،تہذیبیں اور انسانی اقدار تلف نہیں ہوں گی اور خونِ آدم اتنا سستا ہرگز نہیں بنے گا جتنا آج ہے ۔اسلام کا پیش کردہ ضابطۂ جنگ یہ ہے :-
۱-دُشمن کو ہلاک یا زخمی کرنے میں بے رحمی اور اذیت دہی کے طریقوں سے کام نہ لیا جائے ۔
۲-غیر نبردآزما لوگوں کے قتل سے پرہیز کیا جائے ۔خصوصیت کے ساتھ عورتوں ، بچوں ، نابینائوں ، درویشوں ، راہبوں ، بوڑھوں ، اپاہجوں او رفاتر العقل لوگوں کو ہرگز قتل نہ کیا جائے ۔
۳- کسی انسان کی شکل وصورت کو بگاڑنے کی کوشش نہ کی جائے ۔یہاں تک کہ حیوانوں کی بھی شکل نہ بگاڑی جائے ۔
۴- قتلِ عام سے پرہیز کیا جائے ۔
۵- خوراک کے لئے جس قدر جانور درکارہوں ،اُس سے زیادہ ذبح نہ کئے جائیں ۔
۶-سرسبز کھیتوں کو برباد نہ کیا جائے اور آگ لگانے سے پرہیز کیا جائے ۔
۷-دشمن سے جو عہد کیا جائے ،اُسے پورا کیا جائے ۔ عہدشکنی کسی بھی حالت میں نہ کی جائے ۔
۸-گرفتار شدہ عورتوں سے دُور رہا جائے ۔خلاف ورزی کرنے والے سپاہی کو عبرت انگیز سزا دی جائے ۔
۹- کسی ایک شخص کے جرم میں اس کی اولاد کو سزا نہ دی جائے ۔
۱۰-تاجروں ،سوداگروں ،ٹھیکیداروں ،ڈاکٹروں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے والے لوگوں کو قتل نہ کیا جائے ۔
۱۱-کسی انسان یا حیوان کو زندہ نہ جلایا جائے ۔ نیز دشمن کا سر قلم نہ کیا جائے ۔
۱۲-جنگی قیدیوں پر زیادتی نہ کی جائے ۔اُن کو وہی غذا کھانے کو دی جائے جو فاتح لشکر کے مسلمان سپاہی کھاتے ہوں ۔
اس ضابطۂ جنگ کا اظہار حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اُس وقت بھی تفصیل سے کیا تھا جب وہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو روانہ کرنے کے لئے اُن کے ساتھ مدینہ کے باہر تک اس حالت میں چل کے گئے تھے کہ حضرت اسامہؓ ، جو کہ ایک ’’غلام‘‘ نوجوان سالار تھے اور انہیں خود سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس سالارِ لشکر مقرر کیا تھا ، وہ گھوڑے پر سوار تھے اور خلیفہ وقت ؓ گھوڑے کی رکابیں تھامے انہیں یہ ہدایات دے رہے تھے ۔
افسوس ! آج ہر طرف ہر کوئی اس ضابطۂ جنگ کے خلاف جارہاہے ۔ جنگ تباہی اور بربادی کی پیغام بر ہوتی ہے لیکن اگر اس ضابطے کوملحوظِ نظر رکھا جائے تو ہمہ گیر تباہی اور غیر انسانی طرزِ عمل سے بڑی حد تک بچا جاسکتاہے ۔ آج انسانیت ہر کوچہ وبازار میں اپنے بال نوچ نوچ کر نوحہ کررہی ہے اورانسان سر سے پائوں تک خاک وخون میں لتھڑا ہواہے ۔کاش ، سب انسان ’’بنیاد پرست‘‘ بن کر ان اصولوں کی پیروی کریں تو دنیا جنگ وجدال کے درمیان بھی گل و گلزار لگے گی ۔لیکن نہ جانے آج کے انسان کو انسانی خون پینے کی لت کیوں پڑی ہوئی ہے حالانکہ خون نجس اور حرام ہے۔ خونِ ناحق بہانا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر مبغوض اور ناپسند ہے ،اس کا واشگاف اظہار قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر موجود ہے لیکن ہماری نظر اُن فرامین پر جاتی ہی نہیں اوراگر جاتی بھی ہے تو سرسری طور سے ، جیسے طائرانہ نظر جو زمین کی چیزوں کو دیکھتی تو ہے لیکن اُن کی اصل کو محسوس نہیں کرسکتی !
بہت سال پہلے ہفتہ روزہ اخبار ’’کریسنٹ‘‘ میں کرشن چیتنیہ نامی شخص نے لکھا تھا : ’’…اسلام کے مطابق جارحیت کے ہاتھوں پامال ہونا اور جوابی کارروئی نہ کرنا ایک ناقابلِ عمل اصول ہے ۔ اسلام رحم اورمعافی کی تلقین کرتاہے ۔ وہ یہ بھی کہتاہے کہ بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دو مگر یہ نصب العین صرف افراد کے لئے ہے ۔ ایک حکومت مجرموں کومعاف کرکے سماجی نظام کو درہم برہم نہیں کرسکتی ۔ اسی طرح دوسری مخالف طاقت کی جارحیت کے ہاتھوں خاموشی سے پامال ہونا خودکشی کے مترادف ہے۔ گیتا کی طرح قرآن بھی اس کی تعلیم دیتاہے کہ تشدد وجارحیت کا مقابلہ نہ کرنا فرضِ منصبی سے منہ موڑناہے ۔جس نے ظلم پر اپنی مدافعت کی ، وہ مجرم نہیں ہے ۔مگر جنگ کے موقعہ پر اخلاقی ضابطوں کوہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے ۔ جنگ دفاع کے لئے ہونی چاہئے ، جارحیت کے لئے نہیں۔دُشمنوں کی جارحیت کا مقابلہ کرو مگر حملہ کرنے میں پہل مت کرو۔ خدا جارحیت کوناپسند کرتاہے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہترین سپہ سالار تھے اور اُنہوں نے میدانِ جنگ میں اچھے برتائو کی بہت سی مثالیں قائم کی ہیں …!‘‘
رابطہ:-سیر جاگیر سوپور (کشمیر)
ای میل :- armukhlis1@gmail.comموبائل:- 9797219497
|
Subscribe to:
Posts (Atom)