صالح معاشرے کی تعمیر اور اداروں کا کردار
ڈاکٹر محمد رفعت | (مدیر ماہنامہ زندگی نو)
فرد کی شخصیت ظاہر اور باطن کا امتزاج ہوتی ہے۔
چنانچہ شخصیت کے
متوازن ارتقاء کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ظاہر کی بھی اصلاح کی جائے
اور باطن کی بھی۔
دونوں پہلو اہم ہیں لیکن اساس کی حیثیت بہرحال باطن کو حاصل ہے۔ فرد کے خیالات و افکار اس کے
باطن کی تشکیل کرتے ہیں۔ اگر افکاردرست، واضح اور مستحکم ہوں تو فرد کی شخصیت کے ارتقا کی توقع
کی جاسکتی ہے۔ فرد کی شخصیت کی طرح ہر معاشرہ بھی اپنی ایک ’’شخصیت‘‘ رکھتا ہے جو باطن اور ظاہر کا مجموعہ ہوتی ہے۔ معاشرے کا
باطن اْن اقدار سے عبارت ہوتا ہے جو اْس معاشرے میں رائج ہوں۔ یہ اقدار معاشرے کے اندازِ
فکرکی عکاس ہوتی ہیں۔ دو سری طرف معاشرے کا ظاہر اُس کے عملی رویے سے جھلکتا ہے۔ معاشرے کا یہ عملی رویہ معاشرے کے اداروں کی شکل
میں سامنے آتا ہے۔ چنانچہ جو باہمت افراد معاشرے کی اصلاح کا مشن لے کر اٹھیں اْن کے لیے
ناگزیر ہے کہ وہ ان دونوں پہلوؤں پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ ایک طرف اُن کا کام یہ ہے کہ معاشرے کے ردوقبول کے پیمانوں (یعنی
اقدار) کی اصلاح کریں اور دوسری جانب اْن کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کے اداروں کو درست خطوط پر
قائم کریں۔ تعمیر معاشرہ کی اس سعی کا ہدف مسلمان معاشرہ بھی ہوسکتا ہے اور عام انسانی معاشرہ بھی۔
جہاں تک مسلمان معاشرے کا تعلق ہے اْس کے اجتماعی
اداروں کے چلانے
والوں کو اس امر کی شعوری کوشش کرنی چاہیے کہ اْن کے زیر اہتمام
ادارے اسلامی
خطوط پر کام کریں اور اْن کی کارکردگی معیاری ہو۔ اِس مطلوبہ معیار کے حصول کی راہ میں بعض
مشکلات حائل ہوتی ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ کمزوریاں ہیں جو اداروں کو لاحق
ہوجاتی ہیں۔ اِن کمزوریوں کو تین عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے: (۱لف) شعور
کی کمی، (ب) اضمحلال اور (ج) تفرقہ۔ مسلم معاشرے کی تعمیر کی کامیاب سعی کے لیے اِن کمزوریوں پر
قابو پانا ضروری ہے۔
شعور کی کمی
مسلمان معاشرے کے کسی اجتماعی ادارے کو درست خطوط پر
استوار کرنے کے
لیے ضروری ہے کہ ادارے کے چلانے والوں کا اسلامی شعور بیدار ہو اور
وہ اسلامی فکر کے
حامل ہوں۔ اداروں کے سیاق میں اسلامی فکر سے تین امور مراد ہیں: (الف) بحیثیت مجموعی اْمت کے مشن کا شعور (ب)
اُس ادارے کے مقصد کا واضح تصور اور (ج) اسلامی حدود و آداب سے واقفیت۔ اس معیار پر جانچا جائے تو مسلمان معاشرے کے اداروں
کی عمومی صورتحال کچھ تسلی بخش نظر نہیں آتی۔ یہ واقعہ ہے کہ مسلمان تعلیمی ادارے بھی چلا رہے
ہیں اور خدمتِ خلق کے ادارے بھی لیکن مسلمان معاشرے میں یہ شعور عام نہیں ہے کہ ادارے کا طرزِ عمل اْمت کے مجموعی مشن سے ہم
آہنگ اور اس کا تابع ہونا چاہیے۔
ہر باشعور مسلمان جانتا ہے کہ امت کے مشن کے کلیدی
عناصر حق کی شہادت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہیں۔ ان عناصر پر محیط مشن جہدِ پیہم کا تقاضا کرتا ہے۔ اس
جدوجہد سے جو نتیجہ مطلوب ہے وہ باطل کی شکست اور حق کی فتح ہے۔ اس امر کا فطری تقاضا یہ ہے کہ
مسلمانوں کا ہر ادارہ اس طرز پر کام کرے کہ ادارے کے تحت کی جانے والی سعی بالآخر حق کی فتح کے
آخری مقصد کے
حصول میں معاون ہوسکے۔ کسی معاشرے میں حق کا غلبہ ایک ایسا مظہر ہے جو سطحی کوششوں سے نمودار
نہیں ہوسکتا بلکہ حقیقی و بنیادی تبدیلی چاہتا ہے۔ اس تبدیلی کا جَوہر معاشرے کی قیادت کی تبدیلی
ہے۔ جو مخلص افراد حق کے غلبے کے خواہش مند ہوں ان کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کو غیر صالح قیادت سے نجات دلائیں اور صالح
قیادت کے تحت اْس کو منظم کریں۔ مسلمانوں کے ہر ادارے کو اپنے مقصد اور طریق کار کا تعین اِسی طرز
پر کرنا چاہیے کہ معاشرے میں قیادت کی یہ تبدیلی واقع ہوسکے۔ اس تبدیلی کے لیے یہ ضروری ہے کہ عوام کے اندر صالح قیادت سے
وابستگی اور غیر صالح قیادت سے بیزاری کے جذبات فروغ پائیں۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اسلامی
مشن کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ہماری جدوجہد کا آخری مقصود انقلابِ امامت ہے۔ یعنی
دنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق وفجار کی امامت ختم ہوکر امامت صالحہ کا نظام
قائم ہو، اوراسی سعی وجہد کو ہم دنیا وآخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔۔۔ دراصل
فساق و فجار کی قیادت ہی نوع انسانی کے مصائب کی جڑ ہے۔ اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار اس بات پر ہے کہ دنیا کے معاملات کی
سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔۔۔ اب اگر کوئی شخص دنیا کی اصلاح چاہتا ہو اور فساد کو
صلاح سے، اضطراب کو امن سے، بداخلاقیوں کو اخلاق صالحہ سے اور برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے
محض نیکیوں کا وعظ اور خدا پرستی کی تلقین اور حْسن اخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے بلکہ اْس کا
فرض ہے کہ نوعِ انسانی میں جتنے صالح عناصر اْس کو مل سکیں انہیں ملاکر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدن کی زمامِ
کار فاسقوں سے چھینی جاسکے اور امامت کے نظام میں تغیر کیا جاسکے‘‘۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی
بنیادیں)
جاہلی معاشرے میں قیادت کا منصب، اقتدار کے طالبین کے
پاس ہوتا ہے۔ زوال سے دوچار مسلمان معاشرہ اگر جاہلیت کے اثرات سے متاثر ہوتو اس میں
بھی اْن افراد کا
احترام کیا جانے لگتا ہے جو اقتدار رکھتے ہوں یا دولت وثروت اْن کو حاصل ہو خواہ اخلاق و کردار،دین سے وابستگی
اور علم وفہم کے اعتبار سے وہ پست درجے کے لوگ ہوں۔ جب پورا معاشرہ اِس صورتحال سے دوچار ہوتو بظاہر اچھے اور نیک مقاصد کے
لیے کام کرنے والے ادارے بھی با اثر فساق و فجار کی سرپرستی کے طالب ہوتے ہیں اور اْن کی نگاہِ
التفات کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ’’نیک‘‘ لوگوں کا یہ طرز عمل عوام الناس کے لیے
نمونہ بنتا ہے
اور بدکردار لوگوں کی قیادت ختم ہونے کے بجائے معاشرے میں مزید مستحکم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس
طرح تعمیری مقاصد رکھنے والا ادارہ اْمت کے مشن کی راہ میں روڑا بن جاتا ہے اور اْس کے ذریعے
انجام پانے والا خیر کا کام بالآخر دنیا میں شر کے غلبے کا سبب بنتا ہے۔ اس خرابی سے بچنے کے لیے اِ س امر کا اہتمام ضروری ہے
کہ معاشرے کی خدمت کرنے والے اداروں کے ذمے داران اور کارکنان، سب میں اْمت کے مشن کا واضح
شعور پیدا کیا جائے تاکہ وہ اپنے ادارے کو فی الواقع انقلاب امامت کے مقصد کا خادم بنا سکیں۔ اِس مقصد کی راہ کا پہلا مرحلہ یہی ہے
کہ غیر صالح قیادت سے عوام الناس کو نجات دلائی جائے۔
ادارے کے مقصد کا واضح تصور
مسلمانوں کے تحت چلنے والے ہرادارے کے مقصد کا تعین
اسلامی فکر کی
روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر تعلیم کو لیجیے۔ مسلمانوں
کے درمیان تعلیم کا
جو تصورعموماً رائج ہے، اس کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’ہمارے یہاں معاملہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ تمام اوقات (گھنٹوں) میں تو ہم وہ علوم پڑھائیں جو مغربی مصنفین کی کتابوں میں ملتے ہیں اور صرف ایک پیریڈ میں لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا جائے کہ ایک ہستی کا نام خدا بھی ہے جسے تم کو جاننا چاہیے اور ایک ہستی کو اللہ نے رسولؐ بناکر بھیجا تھا، لیکن اس خدا اور اُس رسولﷺ کا مظاہرہ (Function) اْن کو باقی اسباق میں نظر نہیں آتا ، بلکہ اس کے برعکس تمام علوم و فنون اْس طرز پر پڑھائے جارہے ہیں جس طرز پر اہل مغرب نے انہیں مرتب کیا ہے‘‘۔ (علمی تحقیقات کیوں اور کس طرح؟)
’’ہمارے یہاں معاملہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ تمام اوقات (گھنٹوں) میں تو ہم وہ علوم پڑھائیں جو مغربی مصنفین کی کتابوں میں ملتے ہیں اور صرف ایک پیریڈ میں لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا جائے کہ ایک ہستی کا نام خدا بھی ہے جسے تم کو جاننا چاہیے اور ایک ہستی کو اللہ نے رسولؐ بناکر بھیجا تھا، لیکن اس خدا اور اُس رسولﷺ کا مظاہرہ (Function) اْن کو باقی اسباق میں نظر نہیں آتا ، بلکہ اس کے برعکس تمام علوم و فنون اْس طرز پر پڑھائے جارہے ہیں جس طرز پر اہل مغرب نے انہیں مرتب کیا ہے‘‘۔ (علمی تحقیقات کیوں اور کس طرح؟)
یہ جو کچھ ہورہا ہے اس پر مولانا مودودیؒ کی تنقید
تھی۔ اس کے برعکس
مسلمانوں کو تعلیم کے سلسلے میں کرنا کیا چاہیے؟ اس بارے میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’سب سے پہلا کام ہم یہ کرناچاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفہ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلل تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم وفنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں وہ دراصل تمام دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں اور اْن کے ساتھ کسی تعصب کا کوئی سوال نہیں ہے۔ لیکن ان معلومات و حقائق کو جمع کرکے جو فلسفہ حیات اہل مغرب نے بنایا ہے وہ قطعی باطل ہے۔ یہ پہلا ضروری کام ہے جس کے ذریعے سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مغربی فکر وفلسفے کا جو سحر ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ اس وقت تک تو مسلمانوں کا کام آنکھیں بند کرکے اہلِ مغرب کے پیچھے چلنا ہے۔ اِس حالت کو آپ نہیں بدل سکتے جب تک اِس سحر کو نہ توڑ دیں اوراس حقیقت کو واضح نہ کر دیں کہ علمی حقائق اور چیز ہیں اور علمی حقائق کو ترتیب دے کر ایک فلسفۂ زندگی اور نظامِ حیات مرتب کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ اِس کے آگے جو دوسرا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام علوم وفنون کو نئے اسلوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے تاکہ وہ ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔۔۔ جتنے بھی علوم عمرانی ہیں اُن میں سے ہر ایک کو باقاعدہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اْن کو اسلامی نقطۂ نظر سے مرتب نہ کیا جائے گا اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ علوم نہ پڑھائے جائیں گے اس وقت تک آپ یہ توقع نہ رکھیں کہ یہاں کبھی اسلامی تہذیب اٹھ سکتی ہے۔ اس کے بعد جو تیسرا کام ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ ایک نصاب مرتب کیا جائے جو اِس طرز پر تعلیم کے قابل کتابیں تیار کرے‘‘۔ (ایضاً)
’’سب سے پہلا کام ہم یہ کرناچاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفہ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلل تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم وفنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں وہ دراصل تمام دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں اور اْن کے ساتھ کسی تعصب کا کوئی سوال نہیں ہے۔ لیکن ان معلومات و حقائق کو جمع کرکے جو فلسفہ حیات اہل مغرب نے بنایا ہے وہ قطعی باطل ہے۔ یہ پہلا ضروری کام ہے جس کے ذریعے سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مغربی فکر وفلسفے کا جو سحر ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ اس وقت تک تو مسلمانوں کا کام آنکھیں بند کرکے اہلِ مغرب کے پیچھے چلنا ہے۔ اِس حالت کو آپ نہیں بدل سکتے جب تک اِس سحر کو نہ توڑ دیں اوراس حقیقت کو واضح نہ کر دیں کہ علمی حقائق اور چیز ہیں اور علمی حقائق کو ترتیب دے کر ایک فلسفۂ زندگی اور نظامِ حیات مرتب کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ اِس کے آگے جو دوسرا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام علوم وفنون کو نئے اسلوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے تاکہ وہ ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔۔۔ جتنے بھی علوم عمرانی ہیں اُن میں سے ہر ایک کو باقاعدہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اْن کو اسلامی نقطۂ نظر سے مرتب نہ کیا جائے گا اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ علوم نہ پڑھائے جائیں گے اس وقت تک آپ یہ توقع نہ رکھیں کہ یہاں کبھی اسلامی تہذیب اٹھ سکتی ہے۔ اس کے بعد جو تیسرا کام ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ ایک نصاب مرتب کیا جائے جو اِس طرز پر تعلیم کے قابل کتابیں تیار کرے‘‘۔ (ایضاً)
ایک دوسری مثال لیجیے۔ اداروں کی ایک اہم قسم خدمتِ
خلق کے ادارے ہیں۔
مسلمانوں کے زیراہتمام خدمتِ خلق میں مصروف اداروں کے سامنے خدمت کا
تصور واضح ہونا
چاہیے جو اسلام نے دیا ہے۔ مولانا سید جلال الدین عمری اِس تصور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جن لوگوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے اور جو صحیح معنوں میں اْس کے عبادت گزار ہوتے ہیں، انسانوں کے ساتھ اْن کا رویہ بھی ہمدردی اور خیرخواہی کا ہوتا ہے۔۔۔ وہ کسی ذاتی غرض یا خارجی دباؤ کے بغیر انسانوں کی خدمت کرتے ہیں، اْن کے سامنے کوئی دنیوی مفاد نہیں ہوتا، وہ اسے شہرت اور ناموری کا ذریعہ نہیں بناتے اور اِس بہانے سے لوگوں کو قریب کرنا اور ان پر اپنی حکمرانی اور سیادت قائم کرنا نہیں چاہتے بلکہ اسے ایک فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ وہ صرف اللہ کی رضا کے طالب ہوتے ہیں اور اْسی سے صلہ کی تمنا کرتے ہیں۔ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ خدمت خلق کے لیے خدا اور مذہب پر ایمان ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی خدمت ہوتی رہتی ہے۔ اس کے ثبوت میں مغربی قوموں کا ذکر کیا جاتا ہے کہ انھوں نے پوری دنیا میں زبردست رفاہی کام کیے ہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اِنسان کی فطرت میں اپنے ابناء نوع کی خدمت کا جذبہ پایاجاتاہے۔ یہ اسی کا اظہار ہے، لیکن جب اِس جذبے سے ذاتی اور قومی مفادات ٹکراتے ہیں تو وہ مضمحل ہوکر رہ جاتا ہے اور اس کے بالکل منافی رَوِش انسان اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ یہی اقوام مغرب جن کی رفاہی خدمات کا ہر طرف چرچا ہے، اپنے مفادات کی خاطر مخالف قوموں کی معاشی ناکہ بندی کرتی ہیں، اْن پر سیاسی دباؤ قائم رکھتی ہیں اور جبر واستحصال کے تمام حربے استعمال کرتی ہیں۔ اِس طرح انہیں تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ (اِس کے برعکس) خدا پرستی اِس (رَوش) سے افراد اور اقوام کو محفوظ رکھتی ہے اور خدمت کے فطری جذبے پر مفادات کو غالب آنے نہیں دیتی‘‘۔ (اسلام میں خدمت خلق کا تصور)
’’جن لوگوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے اور جو صحیح معنوں میں اْس کے عبادت گزار ہوتے ہیں، انسانوں کے ساتھ اْن کا رویہ بھی ہمدردی اور خیرخواہی کا ہوتا ہے۔۔۔ وہ کسی ذاتی غرض یا خارجی دباؤ کے بغیر انسانوں کی خدمت کرتے ہیں، اْن کے سامنے کوئی دنیوی مفاد نہیں ہوتا، وہ اسے شہرت اور ناموری کا ذریعہ نہیں بناتے اور اِس بہانے سے لوگوں کو قریب کرنا اور ان پر اپنی حکمرانی اور سیادت قائم کرنا نہیں چاہتے بلکہ اسے ایک فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ وہ صرف اللہ کی رضا کے طالب ہوتے ہیں اور اْسی سے صلہ کی تمنا کرتے ہیں۔ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ خدمت خلق کے لیے خدا اور مذہب پر ایمان ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی خدمت ہوتی رہتی ہے۔ اس کے ثبوت میں مغربی قوموں کا ذکر کیا جاتا ہے کہ انھوں نے پوری دنیا میں زبردست رفاہی کام کیے ہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اِنسان کی فطرت میں اپنے ابناء نوع کی خدمت کا جذبہ پایاجاتاہے۔ یہ اسی کا اظہار ہے، لیکن جب اِس جذبے سے ذاتی اور قومی مفادات ٹکراتے ہیں تو وہ مضمحل ہوکر رہ جاتا ہے اور اس کے بالکل منافی رَوِش انسان اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ یہی اقوام مغرب جن کی رفاہی خدمات کا ہر طرف چرچا ہے، اپنے مفادات کی خاطر مخالف قوموں کی معاشی ناکہ بندی کرتی ہیں، اْن پر سیاسی دباؤ قائم رکھتی ہیں اور جبر واستحصال کے تمام حربے استعمال کرتی ہیں۔ اِس طرح انہیں تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ (اِس کے برعکس) خدا پرستی اِس (رَوش) سے افراد اور اقوام کو محفوظ رکھتی ہے اور خدمت کے فطری جذبے پر مفادات کو غالب آنے نہیں دیتی‘‘۔ (اسلام میں خدمت خلق کا تصور)
تعلیمی اور رفاہی اداروں پر دیگر اداروں کو بھی قیاس
کیاجاسکتا ہے۔
مطلوب یہ ہے کہ مسلمانوں کے زیراہتمام تمام اداروں کے مقاصد کی صورت
گری اسلامی تصورات
و اقدار کی روشنی میں کی جائے۔
اسلامی حدود و آداب کا التزام
اداروں کی ایک اہم قسم ذرائع ابلاغ ہیں۔ اسلامی حدود
و آداب پر گفتگو
ان اداروں کے ضمن میں کی جاسکتی ہے۔ عموماً ذرائع ابلاغ کے تین
مقاصد قرار دیے
جاتے ہیں: (الف) خبریں اور اطلاعات فراہم کرنا (ب) واقعات اور حالات کا تجزیہ پیش کرنا اور (ج) تفریح
کا سامان فراہم کرنا۔ اسلام ان تینوں مقاصد کو جائز مقاصد شمار کرتا ہے البتہ وہ اِن کے حصول
کو بعض آداب کا پابند بناتا ہے۔ اسلام نے یہ اصول پیش کیا ہے کہ ہر اہم خبر کی تحقیق کی جائے۔ بلا تحقیق اہم امور کے بارے
میں کوئی فیصلہ کرلینا ممنوع ہے:
’’اے ایمان لانے والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی
خبر لے کر آئے تو
تحقیق کرلیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ
نقصان پہنچا
بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو‘‘۔ (الحجرات: ۶)
مولانا مودودیؒ اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اِس آیت میں مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی گئی ہے کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر ، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مترتب ہوتا ہو، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبرلانے والا کیسا آدمی ہے۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو یعنی جس کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ اْس کی بات اعتماد کے لایق نہیں ہے، تو اس کی دی ہوئی خبر پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کرلو کہ امرِ واقعہ کیا ہے‘‘۔ (ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی)
مولانا مودودیؒ اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اِس آیت میں مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی گئی ہے کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر ، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مترتب ہوتا ہو، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبرلانے والا کیسا آدمی ہے۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو یعنی جس کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ اْس کی بات اعتماد کے لایق نہیں ہے، تو اس کی دی ہوئی خبر پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کرلو کہ امرِ واقعہ کیا ہے‘‘۔ (ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی)
دوسرا اصول اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ اگر خبر کسی
نازک معاملے سے
متعلق ہوتو اسے عام نہ کیاجائے بلکہ اسے ذمے داروں کے علم میں لایا
جانا چاہیے۔
’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذِمّہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔ تم لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے‘‘۔ (النساء: ۸۳)
’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذِمّہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔ تم لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے‘‘۔ (النساء: ۸۳)
اس آیت کے ذیل میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’چونکہ (جنگ کا موقع) ہنگامہ کا موقع تھا اس لیے ہر طرف افواہیں اُڑ رہی تھیں۔ کبھی خطرے کی بے بنیاد مبالغہ آمیز اطلاعات آتیں اور ان سے یکایک مدینہ اور اْس کے اطراف میں پریشانی پھیل جاتی۔ کبھی کوئی چالاک دشمن کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے اطمینان بخش خبر یں بھیج دیتا اور لوگ انہیں سن کر غفلت میں مبتلا ہو جاتے۔ عام لوگوں کو اندازہ نہ تھا کہ اِس قسم کی غیر ذمے دارانہ افواہیں پھیلانے کے نتائج کس قدر دور رس ہوتے ہیں۔ ان کے کان میں جہاں کوئی بھنک پڑ جاتی اُسے لے کر جگہ جگہ پھونکتے پھرتے تھے۔ ان ہی لوگوں کو اس آیت میں سرزنش کی گئی ہے اور انہیں سختی کے ساتھ متنبہ فرمایا گیا ہے کہ افواہیں پھیلانے سے باز رہیں اور ہر خبر جو اُن کو پہنچے اُسے ذِمّہ دارلوگوں تک پہنچا کر خاموش ہوجائیں‘‘۔ (ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی)
’’چونکہ (جنگ کا موقع) ہنگامہ کا موقع تھا اس لیے ہر طرف افواہیں اُڑ رہی تھیں۔ کبھی خطرے کی بے بنیاد مبالغہ آمیز اطلاعات آتیں اور ان سے یکایک مدینہ اور اْس کے اطراف میں پریشانی پھیل جاتی۔ کبھی کوئی چالاک دشمن کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے اطمینان بخش خبر یں بھیج دیتا اور لوگ انہیں سن کر غفلت میں مبتلا ہو جاتے۔ عام لوگوں کو اندازہ نہ تھا کہ اِس قسم کی غیر ذمے دارانہ افواہیں پھیلانے کے نتائج کس قدر دور رس ہوتے ہیں۔ ان کے کان میں جہاں کوئی بھنک پڑ جاتی اُسے لے کر جگہ جگہ پھونکتے پھرتے تھے۔ ان ہی لوگوں کو اس آیت میں سرزنش کی گئی ہے اور انہیں سختی کے ساتھ متنبہ فرمایا گیا ہے کہ افواہیں پھیلانے سے باز رہیں اور ہر خبر جو اُن کو پہنچے اُسے ذِمّہ دارلوگوں تک پہنچا کر خاموش ہوجائیں‘‘۔ (ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی)
اسلام کے نزدیک واقعات و حالات کا تجزیہ منصفانہ ہونا
چاہیے۔ شہادت حق کا تقاضا یہی ہے۔ بقول اقبال: مسلمانوں کا فریضہ’’ احتساب کائنات ‘‘
ہے۔ لیکن یہ کام
اْسی وقت نتیجہ خیز اور مفید ہوسکتا ہے جب وہ دیانت داری اور حقیقت پسندی کے ساتھ انجام دیا جائے۔
تفریح انسان کی ایک جائز ضرورت ہے۔ اخلاقی حدود کے
احترام کے ساتھ
تفریح کا سامان فراہم کیا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ
بھی اپنا کردار
ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک صالح سماج کے اندر انسان کے سفلی جذبات کو ابھارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح
تفریح کے ایسے مشاغل جو انسان کو اْس کی ذمّہ داریوں اور فرائض سے غافل کردیں، قابل قبول نہیں ہیں۔
اسلام سماج میں برائی کی اشاعت کو پسند نہیں کرتا۔
چنانچہ جرائم اور
بے حیائی کی خبروں کی بِلا کسی حقیقی تمدنی ضرورت کے) تشہیر کو
معاشرے کی خدمت
نہیں کہا جاسکتا۔ اسلامی آداب کے پابند ذرائع ابلاغ سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے طرزِعمل سے
برائیوں کی اشاعت میں تعاون نہیں کریں گے۔
’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں
فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اگر اللہ کا فضل اور
اس کا رحم وکرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق ورحیم ہے (تو یہ چیز جوابھی
تمھارے اندر پھیلائی گئی تھی بدترین نتائج دکھادیتی)۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی
کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا رحم وکرم تم
پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سننے اور
جاننے والا ہے‘‘۔ (النور: ۱۹۔۲۱)
مندرجہ بالاہدایت کی تشریح کے ذیل میں مولانا مودودیؒ
لکھتے ہیں:
’’آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بدکاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بداخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اْس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی اِس صف میں آجاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیاجاتا ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں، دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے‘‘۔ (تلخیص تفہیم القرآن ، سورۂ نور۔ حاشیہ ۶۱)
’’آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بدکاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بداخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اْس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی اِس صف میں آجاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیاجاتا ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں، دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے‘‘۔ (تلخیص تفہیم القرآن ، سورۂ نور۔ حاشیہ ۶۱)
ایک فتنہ جو آج کل اخبارات پھیلا رہے ہیں تصویر
کافتنہ ہے۔ عورتوں
کی تصویریں عام ہیں اور بزعم خود دین پسند حلقوں کے اخبارات ورسائل
میں بھی یہ
تصویریں چھپ رہی ہیں جبکہ کوئی حقیقی تمدنی ضرورت ان تصاویر کی اشاعت کا تقاضا نہیں کرتی۔ اسی طرح
دینی، سماجی اور سیاسی شخصیات کی تصاویر بھی شائع کی جارہی ہیں جب کہ اہم شخصیات کی تصویریں
انسانی تاریخ میں شخصیت پرستی کی ابتداء میں اہم رول ادا کرتی رہی ہیں۔ کمیونسٹ ممالک میں کمیونسٹ رہنماؤں کی تصاویر، ہمارے ملک
میں سیاسی لیڈروں کی تصاویر اور عرب ممالک میں آمروں اور ڈکٹیٹروں کی تصاویر کو اسی لیے
نمایاں کیاجاتا ہے کہ عوام الناس پر اْن کی سیادت کا سکہ بیٹھ سکے اور اگر مشرکانہ ماحول بھی موجود
ہو تو عقیدت کے
جذبات کو پرستش کے مرحلے تک پہنچایا جاسکے۔ ہمارے ملک میں مذہبی شخصیات کی تصاویر کی تو بلا تکلف پرستش ہوہی
رہی ہے۔ اس پس منظر کی موجودگی میں اہم شخصیات کی تصاویر کی قباحت بالکل واضح ہے۔
اسلامی شعور یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو اخبارات اور
ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے کنٹرول میں ہیں اْن کا بے لاگ احتساب کیا جائے اور اْن کو اسلامی حدود کا پابند بنایا
جائے۔ اُسی صورت میں ابلاغ کے یہ ذرائع معاشرے کی تعمیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔ بصورت دیگر اُن کا
رول تخریبی قرار پائے گا۔
اضمحلال
شعور کی کمی کے علاوہ دوسری کمزوری جو معاشرے میں
پائے جانے والے
اداروں کو لاحق ہوتی ہے وہ اضمحلال ہے۔ اضمحلال کی چند وجوہات
ہوسکتی ہیں: (الف) مخلص کارکنوں کا نہ ملنا (ب) ادارے کوفعال بنانے کے لیے
درکار مطلوبہ اوصاف کی عدم موجودگی اور (ج) وسائل کی کمی۔
یہ حقیقت ہے کہ اْمت کی آبادی کا بہت قلیل حصہ دینی ،
ملی اور سماجی
خدمات کے لیے اپنا کچھ وقت دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر افراد
وہ ہوتے ہیں جو
اپنے معاشی اور دیگر مشاغل میں لگے رہتے ہیں اور معاشرے کی تعمیر کے لیے اپنے وقت اور صلاحیتوں
کا کوئی جْز استعمال نہیں کرتے۔ اِس صورتحال کو بدلنے کے لیے ان افراد کے ایمان کو زندہ کرنے کی
اور جذبۂ عمل کو جگانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اِس امر کی بھی ضرورت ہے کہ جن افراد کا پورا وقت
لیا جانا ناگزیر
ہو اْن کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے معقول نظم کیا جائے تاکہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ
ہو۔ موجودہ صورتحال کا یہ پہلوخاص طور پر اصلاح طلب ہے اور اس کی درستی کے لیے قابل عمل
صورتیں سوچی جانی چاہئیں۔
یہ بھی واقعہ ہے کہ اداروں کو چلانے کے لیے محض اخلاص
کافی نہیں ہے بلکہ معلومات اور فنی تربیت بھی درکار ہے۔ کارکنوں کی اس پہلو سے تربیت کو مسلمانوں کے اداروں کی منصوبہ
بندی میں اہم مقام ملناچاہیے۔ ابھی تک
مسلمانوں کے اداروں میں یہ مطلوبہ منصوبہ بندی نہیں پائی جاتی۔ اس
جانب توجہ کی
ضرورت ہے۔ وسائل کی کمی اداروں کی کارکردگی میں ایک حقیقی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ تمام مناسب تدابیر
سے وسائل کی فراہمی کی کوشش کے علاوہ ادارے کے خادموں کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ وہ چھوٹے
پیمانے پر کام پر قناعت کرلیں اور اسے کافی سمجھیں، لیکن اصولوں کی خلاف ورزی کو گوارا نہ کریں
اور کام کی نوعیت
جس معیار کا تقاضا کرتی ہے، ادارے کی کارکردگی کو اْس معیار سے نیچے نہ جانے دیں۔ یہ رویہ بھی صبر ہی کاایک
پہلو ہے اوراس صبر کے پیدا کیے جانے کی ضرورت ہے۔
تفرقہ
اِداروں کی ایک بڑی کمزوری تفرقہ ہے ،جس کے نتیجے میں
مسلمانوں کا کوئی ادارہ اپنے کو اْمت کا خادم سمجھنے کے بجائے محض کسی خاص مسلک یا مکتبِ فکر سے وابستہ افراد کا
ادارہ سمجھتا ہے۔اِس طرز عمل سے اْمت کے اندر تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان
پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں وہ نظرانداز ہونے لگتے ہیں۔
اس معاملے میں مطلوبہ معیار یہ ہے کہ: (الف) مسلمانوں
کا ہر ادارہ اپنے آپ کو ساری اْمت کا ادارہ سمجھے (ب) بِلا کسی تفریق کے سارے مسلمانوں کی خدمت انجام دے اور کسی کو
اپنے فیض سے محروم نہ کرے (ج) تمام مسلمانوں سے تعاون کی اپیل کرے اور درکار وسائل تمام
مسلمانوں سے فراہم کرے (د) حتی الامکان تمام مخلص اور دیانت دار افراد کو ادارے کے انتظام میں شریک رکھے اور (ہ) پورے معاشرے کو اپنی
کارکردگی اور حساب کتاب سے باخبر رکھے۔ اور سب کے مشورے حاصل کرے تاکہ لوگ اطمینان کے ساتھ ادارے
کے ساتھ تعاون کرسکیں۔
اگر مسلمانوں کے ادارے اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں
تو توقع کی جاسکتی ہے کہ معاشرے کی صالح تعمیر کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ جنوری ۲۰۱۲ء)
No comments:
Post a Comment