Search This Blog

Monday, 26 March 2012

شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ

شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ

شیخ محمد غزالی ؒ ایک جید عالم او ر مشہور داعی تھے ۔آپ ان کمیاب اور نایاب شخصیات میں سے تھے جن کے علم وفضل سے کئی نسلوں نے فائدہ اٹھایا۔ شیخ غزالیؒ ۱۹۱۷ء میں مصر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔تاجر گھرانے میں پرورش وپرداخت ہوئی۔ والد قرآن کریم کے حافظ اور ایک خدا ترس انسان تھے ۔ انہوں نے بیٹے کی پرورش بھی اسی انداز سے کی، چنانچہ شیخ غزالی نے دس سال کی عمر ہی میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی پھر ۱۹۳۷ء میں قاہرہ میں کلیۃ اصول الدین میں داخلہ لیا جہاں سے عالمیت،پھر دعوت وارشاد میں تخصص اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔آپ نے اپنے دور کے زبردست علماء ،مفکرین ،اساتذہ اور عظیم علمبرادران دعوت کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا جن میں سرفہرست امام حسن البنا شہیدؒ تھے ۔
عملی زندگی: تعلیم کی تکمیل کے بعد مسجد القبہ الخضراء میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دئیے۔ازہر میں بھی واعظ کے منصب پر فائز رہے۔ شعبہ مساجدکی ذمہ داریاں بھی تفویض رہیں،پھر تربیتی امور کے ناظم اور دعوت وارشاد کے ڈائرکٹر بھی رہے۔ ۱۹۴۹ء میں تقریباً ایک سال ’طور‘ کے قید خانے میں اور ۱۹۶۵ء کے دوران طرہ قیدخانے میں ہزاروں اخوانیوں کے ساتھ مقید رہے۔ ۱۹۷۱ء میں جامعہ ام القریٰ مملکت سعودی عرب کی عظیم اسلامی یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۱ء میں وکیل الوزارۃ(Under Secretary of State) بنائے گئے ۔ اسی طرح پانچ سال تک الجزائر کی جامعۃ الامیر عبدالقادر الجزائری الاسلامیہ کی مجلس علمی کی صدارت کے فرائض انجام دئیے۔
شیخ غزالی ؒ روشن دماغ ،پرجوش طبیعت ، عمیق ایمان والے، صاحب عزیمت ،خوش بیان ،اثر پذیر واثر انداز ،خوش مزاج اور نرم دل انسان تھے ۔ عصر حاضر کی ممتاز اسلامی شخصیت اور عالم اسلام کے عظیم داعی تھے ۔اپنی حاضر دماغی اور پرکشش انداز بیان کے لیے مشہور تھے ۔مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے بقول:’’وہ اخوان المسلمون کی سرکردہ شخصیت اور مصر میں دینی بیداری اور انقلاب کے ایک اچھے مصنف تھے۔ اور اخوان المسلمون کو صحیح فکری وروحانی غذ ا کے ساتھ ساتھ پر مغز اسلامی ادب سے بھی نواز رہے تھے‘‘۔
شیخ غزالیؒ ایک شعلہ بیاں خطیب بھی تھے اور بلند پایہ ادیب بھی۔آپ کو تقریر وتحریر پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ مجلہ ’الاخوان المسلمون‘ میں مسلسل لکھتے رہتے ۔جوانی میں ہی آپ کے شاندار انداز بیاں،دوررس معانی اور پختہ وشائستہ ادب سے متاثر ہوکر حسن البنا شہیدؒ نے ایک خط کے ذریعہ آپ کی حوصلہ افزائی کی تھی ،یہ خط شیخ غزالیؒ کے لیے کسی فخر واعزاز سے کم نہ تھا۔ آپ کی تحریریں جہاں ایک طرف داخلی امور کا مکمل احاطہ کرتی ہیں وہیں دوسری طرف خارجی چیلنجوں کا بھی سامنا کرتی نظر آتی ہیں۔
جامعہ ازہر مصر، ام القریٰ مکہ مکرمہ،کلیۃ الشریعہ قطروغیرہ میں آپ کے شاگر د موجود ہیں جنھوں نے آپ کے علم ، جرأت ،صاف گوئی ،صداقت اور واضح بیانی سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ تقاریر ،دروس ،لکچرس، کتابوں ،مقالات واجتماعات کے ذریعہ ایک بڑی تعداد نے آپ سے کسب فیض کیا۔
آپ کے تلامذہ کی تعداد عالم اسلامی کے گوشوں گوشوں میں پائی جاتی ہے جنھوں نے پرچم اسلام کو سنبھالا اور اللہ کی دعوت کی تبلیغ و ترسیل اور پیغام اسلام کی اشاعت کے لیے آگے بڑھے ،جو خیر وفلاح ،نصرت وکامیابی کی شاہراہ پر امت کی قیادت کررہے ہیں، ان میں کچھ عظیم اساتذہ اور عبقری شخصیات کے طور پر افق عالم پر ابھر چکے ہیں جیسے علامہ یوسف قرضاوی، شیخ مناع القطان،ڈاکٹر احمد عسال وغیرہ۔
علمی خدمات: شیخ غزالیؒ کی مختلف موضوعات پر ساٹھ سے زائد کتابیں ہیں ۔ اس کے علاوہ لکچرس، مباحثے ، خطبات ، مواعظ ،دروس اور مناظرے ہیں جو مصر اور بیرون مصر انہوں نے پیش کیے۔آپ کی متعدد قیمتی کتابوں کو عربی زبان سے دوسری اہم زبانوں میں بھی منتقل کیاگیا ہے۔چند مشہور کتابوں میں ’اسلام اور اقتصادی حالات،اسلام اور اشتراکی مناہج،مسلمانوں کے ثقافتی اتحاد کا دستور، زندگی کی تجدید کرو، اسلام اور مسیحیت کے درمیان تعصب اور رواداری،اندرونی عجز اور بیرونی سازش کے درمیان معرکۂ دعوت،عقل ودل میں ایمان کے دفینے‘،وغیرہ اہم کتابیں ہیں۔
اردو زبان میں آپ کی بیشتر کتابوں کو منتقل کرنے کا کارنامہ جناب ابومسعود اظہرمرحوم نے انجام دیا، مرحوم کا اردو داں طبقہ پر یہ ایک ناقابل فراموش احسان ہے۔ عقیدہ پر ان کی مایہ ناز اور بے مثال کتاب عقیدۃ المسلم کا ترجمہ’عقیدہ اسلامی‘ کے نام سے مولانا محمدعنایت اللہ سبحانی اور خلق المسلم کا ترجمہ مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم (سابق امیر جماعت اسلامی ہند)نے کیا ہے،یہ اور اس کے علاوہ آپ کی متعدد کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوچکی ہیں۔
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ بہت ہی جرأتمند عالم دین تھے، مختلف علمی آراء کے اظہار کے سبب کافی طعن وتشنیع کا بھی سامنا کرنا پڑا، علامہ یوسف القرضاوی ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بعض امور میں تمہیں غزالی سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جب تم انہیں اچھی طرح پہچان لوگے تو تم بے ساختہ ان سے محبت اور ان کی تعظیم کرنے لگو گے ۔ ان کے اخلاص وللہیت ،حق کے لیے یکسوئی ،راہ حق پر استقامت اور اسلام کی خاطر سچی غیرت کی وجہ سے ان کے گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکو گے ۔شیخ غزالی گرچہ سریع الغضب تھے لیکن ان کا غصہ جلد ٹھنڈا ہوجاتا تھا ۔ جب ان کے سامنے حق واضح ہوجاتاتو حق کو گلے لگا تے ،اپنی غلطی کا اظہار واعتراف کرنے میں کسی بات کی پروا نہ کرتے تھے ‘‘۔ اسی طرح شیخ غزالی کی ایک اور اہم خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے باکمال ساتھیوں کے علم وفضل کے معترف تھے‘‘۔شیخ الازہر ڈاکٹر عبدالحلیم محمود بھی شیخ غزالی کے قدر شناس اور ان کی عظمت کے معترف تھے کہاکرتے تھے کہ ’ہمارے پاس کوئی نہیں سوائے دو غزالیوں کے ،ایک موجودہ دور کے شیخ غزالی اور ایک احیاء علوم الدین کے مصنف امام غزالیؒ ‘۔
وفات: دعوت وعزیمت سے بھرپور ایک طویل حیات کے بعد عالم اسلام کا یہ عظیم داعی ومفکر ۱۹۹۶ء کو ریاض سعودی عرب میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گیا۔ جنت البقیع مدینہ منورہ میں تدفین ہوئی۔ اللہ تعالی آپ کو اپنی رحمت سے نوازے اور آپ کی علمی و عملی خدمات کو قبول فرمائے ۔آمین
(عبدالعظیم قاسم)
بہ شکرءیہ  رفیق منزل

No comments:

Post a Comment