Search This Blog

Monday, 26 March 2012

آزادئ فکر وعمل اور اسلام — علامہ یوسف القرضاوی

آزادئ فکر وعمل اور اسلام — علامہ یوسف القرضاوی

اسلام نے عالم انسانی کو حقوق انسانی کی آزادی کا ایک واضح تصور دیا ہے۔ اس نے لوگوں کے مطالبات اور خواہشات کے بغیر انسانی عظمت کی پاسداری کا حکم دیا، اور ان کو آزادی کی دولت سے سر فراز کیا چنانچہ اس نے لوگوں کو فکر و نظر کی آزادی ، تعلیم کی آزادی ، بات چیت کی آزادی ، تنقید و تبصرے کی آزادی ، مذہب و عقیدے کی آزادی اور تصرف وملکیت کی آزادی سے سرفراز کیا بشرطیکہ اس آزادی کے نتیجہ میں کسی کی ایذارسانی نہ ہو۔ غرضیکہ اس نے تمام بنیادی اور اہم حقوق کی آزادی سے فیضیاب کر کے ہماری عزت افزائی فرمائی ۔
آزادی کے تعلق سے اسلام کا ایک عام قاعدہ ہے، اور وہ ہے ’’ لا ضرر و لا ضرار ‘‘ نقصان اٹھاؤ نہ نقصان پہنچاؤ ۔چنانچہ ہر وہ آزادی جو کسی کے حق میں باعث ضرر بنے وہ اسلام کی نگاہ میں آزادی نہیں ہے یا اسلام اس آزادی کو حدود وقیود کا پابند بنادیتا ہے کیونکہ یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک انسان کی آزادی وہیں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہو تی ہے ۔
آزادی کی ایک اور قسم ہے جس کو حریت فسوق سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا دعوی کرنے والے اس کا استعمال فساد اور بگاڑ کی خاطر کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں زندگی کے ہر گوشے کو آلودہ کر ڈالتے ہیں مذہب ہو یا عقل ، مال ہو یا عزت حتی کہ ان کے اپنے جسم بھی اس گندگی و نجاست سے محفوظ نہیں رہتے اسلام اس قسم کی آزادی کا سخت مخالف ہے ۔
اسلام نے لوگوں کے سامنے آزادی کے چند بنیادی اصول پیش کیے ہیں،امیر المومنین حضرت عمرؓ بن الخطاب نے بہت ہی پیاری بات کہی ہے، انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا‘‘ اورحضرت علیؓ بن ابی طالب کی وصیت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ’’سنو !کسی کی غلامی نہ کرنا، تم کو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے‘‘ یہ الفاظ حقوق کی آزادی کے سلسلہ میں اسلام کے نظریہ کی بہت اچھی غمازی کر تے ہیں ۔لوگ اپنی حقیقت کے اعتبار سے آزاد اور خود مختار ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو آزاد پیدا کیا اور ان کی ماؤں نے ان کو اسی آزاد فطرت پر جنا ہے چنانچہ ان کو آزادی کاپورا حق ہے اور وہ کسی کے غلام یا ما تحت نہیں ہیں ۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ لوگ غلامی کے خوگر تھے، فکری و مذہبی غلامی ، سیاسی و معاشی غلامی نیز سماجی و تہذیبی غلامی غرض انسان مختلف قسم کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا، اسلام نے اس وقت آزادی کی صدائے باز گشت لگائی اور وہ ہرآزادی جس کی انسانی فطرت کو ضرورت تھی، عقیدے کی آزادی ، فکر و نظر کی آزادی ، قول و عمل کی آزادی اوردین و مذہب کی آزادی سے نوع انسانی کو ہمکنار کیا، ہر قسم کی غلامی سے انسان کو نجات دلائی۔ چنانچہ کسی کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ کسی کو کسی مخصوص مذہب کے اختیار کرنے پر مجبور کرے۔قرآن نے صراحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی کہ : افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین۔ یہ فرمان مکی زندگی کا ہے ۔ مدنی دور میں ان لفظوں میں تاکید فرمائی کہ : لا اکراہ فی الدین، اس آیت کے شان نزول پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام نے انسان کو کس قدر آزادی دی ہے اور اس کے یہاں کتنی وسعت و ہمہ جہتی ہے اور اس نے اس پر کتنا شدید زور دیا ہے ۔
دور جاہلیت میں قبیلہ اوس و خزرج کی کسی عورت کو جب اولاد نہیں ہوتی تھی تو وہ نذر مانتی تھی کہ اگر وہ اولاد کی نعمت سے سرفراز ہو گئی تو اس اولادکو یہودیت کا خرقہ پہنائے گی ۔اس طرح ان دونوں قبیلوں میں بہت سے یہودیوں نے بھی پرورش پائی ۔جب اسلام آیا اور اس کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر ردائے رحمت دراز کی اور ان کو اپنی نعمتوں سے ڈھانپ لیا تو بہت سے لوگوں کو اس بات کی تمنا ہوئی کہ ان کے نور نظر اور لخت جگر بھی اس اسلام کی آغوش میں آجائیں اور اس بے حقیقت یہودیت سے ان کو واپس لوٹا دیا جائے لیکن ان تمام احوال و کوائف کے باوجود جن سے یہودیت دو چار تھی اور مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین ہونے والی معرکہ آرائی کے باوجود اسلام نے کسی فرد کو بزور طاقت کسی مذہب کو قبول کرنے یا چھوڑنے کی اجازت نہیں دی،اگربعض اہل اسلام کی جانب سے بھی اس قسم کی کوشش کی گئی تو اسلام اس کو ناجائز اور ممنوع ٹھہراتا ہے
آزادی کے یہ اصول و قوانین کسی سماجی ارتقا ء کے نتیجے میں یا کسی انقلاب کی بدولت وجود پذیر نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی لوگوں کی کد و کاوش کا ثمرہ تھے بلکہ یہ قوانین وقت کے تمام معاشرتی قوانین سے بلند و بالا تھے، یہ قوانین آسمان کی بلندی سے اترے تھے تا کہ زمین والوں کو بلندی سے ہمکنار کریں۔
مذہب و عقیدے کی آزادی : اسلام نے اس آزادی کا تصور دے کر انسانیت کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا لیکن اسلام نے اس آزادی کے ساتھ کچھ شرائط و ضوابط بھی متعین کر دیئے ہیں تا کہ دین لوگوں کے کھیل کود کی آماجگاہ نہ بن جائے ….. جیسا کہ یہود نے بنایا چنانچہ انہوں نے کہا (آمنوا بالذی انزل علی الذین آمنوا وجہ النھار واکفروا آخرہ لعلھم یرجعون )۔ صبح میں ایمان لاؤ اور شام میں پلٹ جاؤ اور کہو کہ ہم نے محمد ؐ کے دین میں یہ یہ خامیاں پائیں چنانچہ ہم کو پلٹنا پڑا ۔یا آج کے دن ایمان لاؤ اور آنے والے کل یا آنے والے ہفتے انحراف کر جاؤ ۔اس طرح انہوں نے اس نئے دین کی خوب تحقیر و تذلیل کی ۔چنانچہ اس راستے کے سد باب کے لئے یہ قاعدہ وضع کر دیا گیاکہ جو شخص غورو فکر اور فہم وبصیرت کے بعد اسلام قبول کرے گا اس کے لئے اعراض کی گنجائش نہیں ہو گی اور بصورت اعراض اس کو سزائے ارتداد بھگتنا پڑے گی۔
فکرو نظر کی آزادی : اسلام نے لوگوں کو اپنے گردو پیش کی دنیا میں غور و فکر کرنے کی پر زور دعوت دی ہے (انما اعظکم بواحدۃ ان تقوموا للہ مثنی و فرادی ثم تتفکروا ) ( قل انظروا ماذا فی السمٰوات والارض ) (افلم یسیروا فی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھا او آذان یسمعون بھا فانھا لا تعمی الابصار ولٰکن تعمی القلوب التی فی الصدور ) اسلام نے ان لوگوں کے خلاف عام اعلان جنگ کیا ہے جو اوہام پرستی کا شکار ہوتے ہیں او رخواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں فرمایا (ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً ) اور جو اتباع شہوات اور تقلید آباء و اجداد اور اقتدائے اہل ثروت و سطوت کو اپنا شیوہ بناتے ہیں یہی لوگ بزبان شکوہ قیامت کے روز کہیں گے ( انا اطعنا سادتنا و کبراء نا فاضلونا السبیلا ) اور یہی دنیا میں کہتے ہیں ( انا وجدنا آباء نا علی امۃ و انا علی آثارھم مھتدون )چنانچہ ان کو اللہ تعالی نے جانوروں سے بھی بدتر بنادیا ۔
اسلام نے اندھی تقلید کی سخت مذمت کی ہے اور سوچنے سمجھنے ، غورو فکر کرنے اور عقل و فہم کا استعمال کرنے کی دعوت دی ہے اور بآواز بلند یہ صدالگائی کہ ( ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین )
عقیدۂ اسلامی کے اثبات میں عقلی دلائل کا بھر پور سہارا لیا گیا ہے، علماء اسلام نے صحیح لکھا ہے کہ ’’: سچ تو یہ ہے کہ عقل سلیم نقل صحیح کا ستون ہے ۔ عقل نقل کی بنیاد ہے چنانچہ وجود باری تعالی عقل سے ثابت ہے ، نبوت محمدی ؐ کی صحت پر عقل دلیل اول ہے ۔عقل ہی ہے جو دو ٹوک انداز میں کہتی ہے یہ کے رسول ہیں کیونکہ ان کی صداقت پر دلیل موجودہے، ان کی صحت نبوت پر معجزات شاہد ہیں یا یہ کہ یہ کذاب ہے ، دجال ہے کیونکہ اس کا دعوی بے بنیاد ہے ، اس کے پاس کوئی معجزہ نہیں ہے ۔چنانچہ اسلام میں عقل و فکر کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے۔
اس آزادئ فکرو نظر کے نتیجے میں ایک اور آزادی وجود میں آتی ہے جس کو ہم حریت عمل یا قول وفعل کی آزادی کہتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علماء اسلام کے درمیان علمی تحقیقات و تدقیقات میں بے شمار اختلافات واقع ہو تے ہیں اور ان میں سے بعض بعض کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کے کاموں پر تنقید کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی نہ عار محسوس کرتا ہے اور نہ تنگ دامانی کا شکار ہوتاہے ۔ہم ایک ہی کتاب میں دیکھتے ہیں کہ معتزلی عالم کا بھی ذکر ہے اور اہل السنۃ کا بھی ۔ تفسیر کشاف جو ایک معتزلی امام یعنی امام زمخشری کی لکھی ہوئی ہے، اہل السنہ اس سے خوب خوب استفادہ کرتے ہیں اور اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، حتی کہ بعض علماء اہل السنہ اس کتاب کا دفاع بھی بھر پور انداز سے کرتے ہیں مثلاً ابن المنیر نے ان پر ’’الانتصاف من الکشاف ‘‘ کے نام سے حاشیہ چڑھایا ،حافظ ابن حجر نے ایک کتاب ’ الکافی الشافی فی تخریج احادیث الکشاف ‘ کے نام سے تصنیف کی ۔
اس طرح ہمارے علماء بلا جھجک ایک دوسرے کی تصانیف اور تحقیقات سے مستفید ہوتے تھے۔فقہاء کے درمیان علمی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے سینے ہمیشہ کشادہ ،جبیں خندہ اور ظرف اعلی ہوتے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیشہ ملت اسلامیہ کے اندر آزادئ فکر و نظر کے ساتھ آزادئی قول وعمل کا دروازہ بھی کھلا رہا ہے ۔
نقد وتبصرہ کی آزادی: اسلام نے نہ صرف اس کو بحیثیت ایک حق منظور کیاہے بلکہ جب امت کی کوئی مصلحت اس سے متعلق ہوجائے یا عام اخلاق و آداب اس کے متقاضی ہو جائیں تو اس کو ایک واجب کا درجہ دیا ہے ۔تمہارے اوپر واجب ہوگا کہ تم حق بات کہو اور اللہ کے سلسلے میں کسی کی ملامت کی پروا نہ کرو ،معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو اور خیر کی طرف دعوت دو، نیکوکار کی اس کی نیکی پر تحسین کی جائے ،اس کی تائید کی جائے اور بدکار و بد اخلاق کی برائی پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا جائے،اس کو اس بات سے روکنے کی کوشش کی جائے۔یہ حق پھر ایک و اجب کی صورت اختیار کرلیتا ہے، اگر کوئی اس سے عہدہ برآ نہ ہو یا اس پر خاموشی سے امت کے اندر مضر اثرات یا فساد عام کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں واجب ہوگا کہ تم حق بات کہو اور بیباکی کا مظاہرہ کرتے رہو، ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ اور’’ واصبر علی ما اصابک ان ذلک من عزم الامور‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر بن جاؤ ۔
اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگوں کے افکارو خیالات مقید کرکے رکھ دیا جائے یا لوگوں کی لگام بالکلیہ کسی ایک فردکے حوالے کردی جائے کہ کوئی اس کی اجازت کے بغیر لب کشائی نہ کرسکے جیسا کہ فرعون نے اپنے جادوگروں سے کہا تھا (آمنتم لہ قبل ان آذن لکم ) وہ چاہتا تھا کہ لوگ اس سے اجازت طلب کئے بغیر یا اس کے حکم کے بغیر نہ ایمان لائیں، نہ زبان کو گویائی کی اجازت دیں، اسلام اس قسم کی کسی بھی پابندی کا ہرگزروادار نہیں۔
اسلام نے نہ صرف لوگوں کے لئے غورو فکر کے دروازے وا کیے بلکہ ان کو حکم دیا کہ وہ غوروفکر سے کام لیں ،اس نے نہ صرف حق پر یقین کرنے اور عقیدہ رکھنے کی آزادی دی بلکہ ان کو حکم دیا کہ وہ اسی پر عقیدہ رکھیں جس کو حق سمجھتے ہوں اور صاحب عقیدہ پر واجب کردیا کہ اپنے عقیدے کی حمایت و حفاظت کی خاطر پورا زور بازو اور قوت اسلحہ جھونک دیں ۔
اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ آزادئ عقیدہ کو عام کرنے کے لیے سخت جدوجہد سے کام لیں یہاں تک کہ فتنہ دب کر رہ جائے اور دین پورا کا پورا اللہ رب العالمین کے لئے ہو جائے، اسلام نے یہاں تک کہاں کہ آزادی کی حمایت اور فتنہ کی سرکوبی کے لئے تیغ وتفنگ اور اسلحہ کا استعمال بھی بلا جھجھک جائز ہے تاکہ کوئی اپنے دین اور عقیدے کے تعلق سے فتنہ کا شکار نہ ہوجائے۔قتال وجہاد کی مشروعیت و حقیقت پر جو پہلی آیت نازل ہوئی اس میں اللہ تعالی فرماتا ہے (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا ) آگے فرمایا (و لو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیراً) یعنی اگر اللہ تعالی نے مومنوں کو ان کی تلواروں کے ذریعے آزادی کا دفاع کرنے کی قوت نہ بخشی ہوتی …..خصوصاً بنیادی آزادی کرنے کی قوت نہ بخشی ہوتی تو اس روئے زمین پر کوئی اللہ کی عبادت کی تاب نہیں لاسکتا تھا، اور نہ ہی اس نیلگوں آسمان کے نیچے کنائس ، کلیسے ، مساجد اور عبادت گاہوں کے نشانات ہوتے جن میں کہ اللہ تعالی کا ذکر ہو ۔
اسلام ہی ہے جس نے اس قسم کی بیش قیمت آزادی کا تصور دیا، لیکن اسلام جس آزادی کو پیش کرتا ہے وہ حقوق کی آزادی ہے نہ کہ فسق و فجور کی ۔اسلام قطعاً اس آزادی کے حق میں نہیں ہے جس کو لوگ شخصی آزادی کا نام دیتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ ہر مضر و نقصاندہ آزادی کا دعوی کرتے ہیں یعنی یہ کہ تم اپنی خواہشات کی پیروی کرو،خواہشات کے مطابق زنا کرو ،شراب نوشی کرو اور ہر مہلک اور نقصان دہ فعل کا ارتکاب کرو ۔ اسلام حقوق کی آزادی دیتا ہے، جائز خواہشات اور مطالبات پورے کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن وہ کبھی اور کسی صورت میں فسق وفجور کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح کچھ معاملات ہوتے ہیں جہاں مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس میں آزادی مشروط اور مقیدہونی چاہئے جیسے کہ ہر بات پر تنقید نہ کرو ،ہر وہ چیز جس کو تم صحیح سمجھتے ہو اس کااظہار نہ کرو، ہر عمل کی تائید نہ کرو اور کسی معذور کو برے القاب سے نہ پکارو مثلاً کسی لنگ پا کو لنگڑا مت کہو۔ ایسے میں شخصی آزادی کا دعوی کرنا کہ جس سے خود تمہارے اخلاق و کردار ، روح و ضمیر اور گھر خاندان میں فساد و بگاڑ کا خطرہ ہو، اسلام میں اس قسم کی آزادی کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔اگر آزادی کا مفہوم اس انداز کا ہے تو ہرگز اسلام ایسی آزادی کا قائل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس طرح یہ حقوق کی آزادی نہیں بلکہ فسق و فجور اور فساد و بگاڑ کی آزادی ہے یعنی تم خود تو آزادی کا دعوی کرو اور پھر لوگوں کی آزادی کو ٹھیس پہونچاؤایسی آزادی کا قائل کون ہو سکتا ہے ؟
تمہیں راہ نوردی کا پورا حق حاصل ہے لیکن ساتھ ہی کچھ آداب کا پاس بھی تم پر واجب ہے ۔تم لوگوں کو دھکا مت مارو، گاڑیوں سے مت ٹکراؤ ، پیادہ پا لوگوں کو ڈھکیل مت دو اوراخلاق واقدار کو پامال مت کرو اس طرح کے اصول تمہاری آزادی کے لئے شرط ہیں اور یہ عام مصلحت کے پیش نظر ہے ۔ہر دین اور ہر نظام اس طرز کے شرائط و قوانین کا پاسدار ہوتا ہے جبکہ اسلام کے لائے ہوئے قوانین تو بشریت کے بالکل مطابق اور فطرت کے عین موافق ہیں ۔
(عربی سے ترجمہ: ذوالقرنین حیدر ندوۃ العلماء لکھنؤ)

No comments:

Post a Comment