مزید کامیابیاں اور سازشیں
عبدالغفار عزیز
حسن البنا شہیدؒ اپنی ڈائری میں بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’گرمیوں کی چھٹیوں میں ہماری ایک سرگرمی یہ بھی ہوتی کہ ہم تین ساتھی ’محمودیہ‘ کے محلوں کو آپس میں تقسیم کرتے ہوئے، فجر کی نماز سے پہلے وہاں جاکر لوگوں کو جگایا کرتے۔ میں جب کسی مؤذن کو اذان کے لیے جگاتا تو ایک پُرکیف لذت محسوس کرتا۔ میں انھیں جگانے کے بعد اسی جادو اثر اور جذباتی کیفیت میں دریاے نیل کے کنارے جاکھڑا ہوتا۔ ’محمودیہ‘ کی مساجد قریب قریب واقع تھیں، جب اذانیں شروع ہوتیں تو مجھے محسوس ہوتا کہ گویا ایک ہی اذان، مختلف مؤذنوں کے گلے سے نکل کر فضا میں رَس گھول رہی ہے۔ ایسے میں میرا دل کہتا: ان سارے مؤذنوں کو مَیں نے جگایا ہے، اب اتنی بڑی تعداد میں جو بھی نمازی جاگیں گے، ان کی عبادت میں، مَیں بھی برابر کا شریک ٹھیروں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مجھے اپنے لطیف حصار میں لے لیتا: ’’جو شخص کسی کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے تو اسے اپنی نیکی کا اجر بھی ملتا ہے اور اس شخص کی نیکی کا بھی جو اس کی وجہ سے نیکی پر عمل پیرا ہوا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی۔ پھر اسی لذت و سعادت سے سرشار مَیں جب مسجد پہنچتا اور دیکھتا کہ ان تمام نمازیوں میں سے مَیں سب سے کم عمر ہوں، تو سراپا حمدوسپاس بن جاتا کہ تمام تر توفیق اسی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
مذکرات الداعیۃ (داعی کی ڈائری) کے عنوان سے شائع اس کتاب کی یہ سطور امام حسن البنا کی شہادت کے ۶۳برس بعد بھی قاری کو اسی کیفیت سے آشنا کردیتی ہیں جو حسن البنا نامی بچہ محسوس کیا کرتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت کہ: ’’یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہنا ہے‘‘۔ آج ہرصاحبِ ایمان کو تقویت فراہم کر رہا ہے۔ حسن البنا بچپن میں مؤذنوں کو جگاتے رہے اور ۴۳برس کی مختصر عمر ختم ہونے سے پہلے، پوری دنیا میں تکبیر بلند کرنے والی نسلوں کی فصلیں بوگئے۔ آج دنیا تغیر پذیر ہے، اور جہاں بھی تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے سب تسلیم کرتے ہیں کہ بیداری کے پیچھے اصل ’اذان‘ اسلامی تحریک کے کارکنان کی ہے۔
۞تیونس، مصر اور مراکش کے بعد ۲فروری ۲۰۱۲ء کو کویت میں بھی انتخابات ہوئے ہیں۔ نتائج آئے تو سب نے کہا: اخوان جیت گئے، اسلامی پارٹیاں جیت گئیں۔ خلیج کی اس مال دار ترین ریاست میں گذشتہ تقریباً اڑھائی صدیوں سے آلِ صباح خاندان مقتدر ہے، لیکن خلیج میں سب سے پہلے، یعنی ۱۹۶۳ء میں انتخابی عمل بھی کویت ہی میں شروع ہوا۔ اگرچہ پارلیمنٹ کا کردار محدود ہوتا ہے، حکومت بنانے کا اختیار بھی امیرکویت ہی کو حاصل ہے، لیکن منتخب پارلیمنٹ نہ صرف عوام کے رجحانات کی عکاسی کرتی ہے بلکہ حکومتی کارکردگی پر بھی کڑی نگاہ رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے کویتی اسمبلی اکثر اپنی عمر پوری نہیں کرپاتی۔ ابھی ۲۰۰۹ء میں انتخابات ہوئے تھے، اس سے پہلے بالترتیب ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۶ء، ۲۰۰۳ء، ۱۹۹۹ء اور ۱۹۹۶ء میں بھی انتخاب ہوئے، لیکن عرب انقلابات کے بعد حالیہ انتخابات کی اہمیت کئی حوالوں سے زیادہ تھی۔
تیونس اور مصر کی عوامی تحریکوں کے بعد کویت میں بھی حکومتی کرپشن پر تنقید کی لَے بہت بلند ہوگئی اور نومبر ۲۰۱۱ء میں تو مظاہرین نے اسمبلی ہاؤس پر باقاعدہ دھاوا بول دیا۔ وزیراعظم کے خلاف مواخذے کی تحریک آگئی۔ اس تناظر میں امیرکویت نے اسمبلی توڑتے ہوئے نئے انتخاہات کروانے کے اعلان کردیا۔ کویت کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ۵۰؍ارکان کے ایوان میں اسلام پسند ارکان کو ۳۴نشستیں ملی ہیں۔ اخوان کی سیاسی پارٹی کا نام ’دستوری تحریک‘ ہے۔ اسے ۵۰میں سے پانچ نشستیں ملیں (چار ان کے اپنے اور ایک حمایت یافتہ) اخوان، سلفی، تحریک، آزاد ارکان اور دیگر اسلامی گروپوں کو ملا کر دیکھیں تو انھیں ۲۲نشستیں ملی ہیں۔ سات شیعہ ارکان اسمبلی ان کے علاوہ ہیں۔ اس طرح اگر اسلام پسند ارکان اسمبلی مل کر اور مؤثر حکمت عملی سے فعال کردار ادا کریں تو مخصوص قبائلی اور خاندانی نظام کے باوجود، کویت میں ایک نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ انتخابات میں اسلامی رجحانات رکھنے والے تجزیہ نگار بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حکومتی کرپشن کے مقابلے میں عوام کے پاس ایک ہی راہ بچتی ہے کہ وہ اسلامی قیادت منتخب کریں۔
۞نومنتخب ارکان اسمبلی کو بھی اپنی اس ذمہ داری کا بخوبی ادراک ہے۔ کویت کے ارکان اسمبلی ہی نہیں مصر، تیونس اور مراکش کی حکومتیں بھی اس آزمایش پر پورا اُترنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہیں۔ حال ہی میں الاخوان المسلمون کے نائب مرشدعام جمعہ امین سے ملاقات ہوئی تو بتا رہے تھے کہ نومنتخب ارکان اسمبلی کے لیے پارلیمانی امور کے خصوصی ٹریننگ کورس شروع کردیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اخوان کے نظم نے اسرہ جاتی نظام کے تحت خصوصی تربیت گاہوں کا بھی مستقل نظام بنادیا ہے۔ ان تربیت گاہوں میں کسی بھی اور موضوع کے بجاے تعلق باللہ میں اضافے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے مختلف حلقوں کی طرف سے گاہے بگاہے ایسے اقدام و بیانات سامنے آجاتے ہیں کہ قوم کے حقیقی مسائل ان کی گرد میں کھو جاتے ہیں۔
۴فروری کو مصر کے بڑے شہر بورسعید (پورٹ سعید) میں دو مصری ٹیموں ’المصری فٹ بال کلب‘ اور ’الاھلی فٹ بال کلب‘ کے میچ کے دوران بھڑک اُٹھنے والے ہنگامے سے ۷۷؍افراد جاں بحق اور ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوگئے۔ اس دوران انتظامیہ نے لڑائی کی آگ بجھانے کے بجاے اس پر مزید تیل چھڑکا، اسٹیڈیم کے دروازے بند کردیے گئے، روشنیاں بجھا دی گئیں، لوگوں کے پاس اچانک ہتھیار بھی آگئے۔ پارلیمنٹ نے فوری تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی، پتا چلا کہ خود وزارتِ داخلہ کے لوگ اس پوری خوں ریزی میں ملوث تھے۔ ہنگاموں کی اس آگ کو جلد ہی ملک کے دوسرے شہروں تک بھی پھیلا دیا گیا اور کئی روز تک ملک میں فسادات جاری رہے۔ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی ذمہ دار کو سزا نہیں دی گئی۔ اس دوران میں عبوری حکومت کے وزیرداخلہ میجر جرنل محمد ابراہیم کا بیان آیا بھی تو یہ کہ وزارتِ داخلہ کے قوانین کے مطابق پولیس والوں کی داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے، جو لوگ بھی اس قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ بیان کے بعد ایک اور بحث اور مناقشت شروع ہوگئی۔ اخوان کے ذمہ دار ڈاکٹر البلتاجی نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب وزیرداخلہ! حیرت ہے، آپ کو غنڈا گردی اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی تو کوئی فکر نہیں لیکن آپ نے داڑھی کی بنیاد پر معرکہ آرائی شروع کردی ہے۔ اصل کام پر توجہ دیں، قوم کو غیرضروری بحثوں میں نہ اُلجھائیں۔
مصر میں انتخابی عمل ابھی جاری ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد اب مجلسِ شوریٰ (سینیٹ) کے انتخابات بھی مکمل ہوگئے ہیں۔ ۲۷۰کے ایوان میں سے دوتہائی، یعنی ۱۸۰؍ارکان براہِ راست عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں، جب کہ باقی ۹۰؍ارکان آیندہ منتخب ہونے والا صدر نامزد کرے گا۔ سینیٹ انتخابات کے باقاعدہ نتائج ابھی سامنے نہیں آئے، لیکن اندازہ یہی ہے کہ ایوانِ بالا میں بھی قومی اسمبلی کی طرح اخوان کی الحریۃ والعدالۃ (حریت و عدالت) پارٹی ہی سب سے بڑی پارٹی ہوگی اور اسے تقریباً اسمبلی جتنی نشستیں یہاں بھی مل جائیں گی۔ انتخابی عمل میں اب اہم ترین مرحلہ صدرمملکت کا انتخاب ہے۔ ۱۰مارچ سے کاغذات نامزدگی وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ حسنی مبارک نے صدارتی اُمیدوار کی نامزدگی ہی جوے شیر نکال لانے کی طرح ناممکن بنا دی تھی۔ اُمیدوار کے لیے سب سے اہم شرط یہ قرار دی گئی تھی کہ اسے کم از کم ۲۵۰؍ارکانِ پارلیمنٹ نامزد کریں۔ واضح رہے کہ دسمبر ۲۰۱۰ء کے آخری انتخاب میں ’ہردل عزیز‘ حسنی مبارک کے علاوہ کسی پارٹی کو ایک بھی نشست نہیں حاصل ہوئی تھی، یعنی نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔ صدر مملکت چھے سال کے لیے منتخب ہوتا تھا اور وہ تاحیات اُمیدوار بن سکتا تھا۔ انقلاب کے بعد مارچ ۲۰۱۱ء میں ریفرنڈم کے ذریعے ۷۷فی صد عوام کی تائید سے بننے والے عبوری دستور میں کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے لیے کم از کم ۳۰؍ارکان اسمبلی کی تائید کافی ہے۔ صدرمملکت چارسال کے لیے منتخب ہوگا اور وہ مسلسل صرف دوبار منتخب ہوسکتا ہے۔ یہ شرط بھی رکھ دی گئی ہے کہ اس کے پاس مصری شہریت کے علاوہ کوئی دوسری شہریت نہ ہو۔ حسنی مبارک نے فردِ واحد کا اقتدار یقینی بنانے کے لیے کبھی اپنا کوئی نائب نہیں بنایا تھا، اب شرط لگادی گئی ہے کہ صدرِمملکت زیادہ سے زیادہ ۶۰روز میں اپنا نائب صدر متعین کردے گا۔
الاخوان المسلمون کے لیے اس وقت اپنا صدر مملکت منتخب کروانا انتہائی آسان ہے، لیکن ملک میں قومی وحدت کو یقینی بنانے کے لیے وہ اپنے اس اعلان پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں کہ اخوانی صدر نہیں لائیں گے، قوم کے لیے قابلِ قبول کوئی بھی اچھا شہری ہمارا اُمیدوار ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی اعلان ہے کہ اگرچہ ہم اکیلے بھی بآسانی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں لیکن حالیہ عبوری حکومت کی مدت (جون میں) ختم ہونے پر ہم سب کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دیں گے۔ اسپیکراسمبلی کے انتخابات کے موقع پر بھی انھوں نے دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملاتے ہوئے انھیں مختلف کمیٹیوں میں برابر کا حصہ دیا۔ کئی مواقع پر اخوان اور سلفی حضرات کے مابین اختلافات کھڑے کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن اخوان کے کارکنان کا نعرہ ہے: السلفیۃ والاخوان اِید واحدۃ فی کل مکان، ’’اخوان اور سلفیت ہرجگہ یک مشت ہیں‘‘۔
اخوان کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں ان کے بارے میں پھیلائے جانے والے خدشات اور خوف کے باوجود ہرطبقے سے ان کے حق میں آواز اُٹھ رہی ہے۔ اخوان کی جیت کے تناظر میں پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ یہ مولوی حضرات فن و ثقافت کے دشمن ہیں۔ جواباً ایک معروف قومی گلوکار شعبان عبدالرحیم (المعروف: الشعبولا) نے اپنا تازہ نغمہ پیش کیا: یامھاجم الاخوان ھتروح من ربک فین، ’’اخوان پر اعتراضات کرنے والو! اپنے رب سے بچ کر کہاں جاؤ گے‘‘۔ فین ملقوش فی الزھرۃ عیب ۔ قالوا أحمر الخدین، ’’انھیں پھول میں کوئی عیب نہ ملا تو کہنے لگے: اس کے گال سرخ کیوں ہیں؟‘‘۔ سبحان اللہ اُوپر تبدیلی آجائے تو نغمہ و لحن بھی اللہ کی یاد دلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
اخوان کے ذمہ دار بتا رہے تھے کہ ہم لا صِدَام ، یعنی عدم تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کسی سے بھی تصادم کے بجاے ، قوم کے تمام صالح افراد سے تعاون چاہتے ہیں۔ اس وقت اسلام پسند عناصر کو ناکام بنانے کے لیے ہی نہیں، ملک ہی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ پوری قوم کو متحد کیے بغیرچارہ نہیں ہے۔ قاہرہ کے اِلیٹ اسٹڈیز سنٹر (Elite Studies Centre) کے سربراہ احمد فودہ لکھتے ہیں: ’’۸۰کی دہائی کے آغاز میں امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگون نے معروف صہیونی دانش ور برنارڈ لویئس کو ذمہ داری سونپی تھی کہ عالمِ اسلام کو مزید ٹکڑے کرنے کے لیے جامع منصوبہ تیار کرے۔ اس نے ایک مسودہ تیار کیا، جسے امریکی کانگریس نے ۱۹۸۳ء میں اپنے ایک خفیہ اجلاس کے دوران منظور کیا اور تب ہی سے اس پر عمل درآمدشروع ہے۔ احمد فودہ مزید لکھتے ہیں کہ حسنی مبارک کے دور میں مصر کو توڑنے کے لیے جتنا کام ہوا، وہ ہماری پوری تاریخ میں نہیں ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ میں انتخابی مہم کی انچارج مصری خاتون دولت عیسیٰ نے اس وقت اپنے عہدے سے استعفا دے دیا جب انھیں معلوم ہوا کہ انسٹی ٹیوٹ کے تمام بیرونی فنڈ براہِ راست امریکی کانگریس سے آتے ہیں، اور ادارے کی سرگرمیوں کا اصل ہدف یہ ہے کہ ۲۰۱۵ء تک مصر کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے۔ احمد فودہ کا کہنا ہے کہ حسنی مبارک کے اقتدار کے بعد ملک میں مذہبی، علاقائی اور قبائلی بنیادوں پر جتنے بھی فسادات شروع کروائے گئے ہیں ان کے پیچھے ملک توڑنے کی یہی امریکی سازش کارفرما ہے۔
۞کانگریس میں بلوچستان کے حوالے سے آنے والی قرارداد کے تناظر میں اہلِ پاکستان کے لیے ان سازشوں کی حقیقت سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ تقریباً ہرمسلم ملک میں انھی بیرونی سازشوں کے تانے بانے دکھائی دے رہے ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کے محبِ وطن دانش ور حضرات نے بھی قوم کے سامنے دہائی دی ہے کہ عوامی لیگ حکومت میں تمام حدیں پھلانگتا ہوا بھارتی اثرونفوذ ملکی سلامتی کے لیے سمِ قاتل ہے۔ نمایاں بھارتی سیاست دان بالخصوص بی جے پی کے رہنما کھلم کھلا مطالبہ کرتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے ہندوؤں کو واپس بنگلہ دیش بھیجا جائے۔ ان کے لیے اور بنگلہ دیش کی دوسری ہندو آبادی کے لیے، بنگلہ دیش کے ۶۵میں سے ۱۹؍اضلاع کو ایک آزاد ہندو ریاست کی حیثیت دی جائے۔ ظاہر ہے کہ ہرجانب سے ہندستان کی گرفت میں پھنسی اس ریاست کی آزاد حیثیت کچھ بھی نہ ہوگی، لیکن بنگلہ دیش کو بتدریج ہڑپ کرنے کا آغاز ہوجائے گا۔
اسی طرح بنگلہ دیش کا ۱۱/۱علاقہ چٹاگانگ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے، جہاں مقامی قبائل اور بنگالی آبادی نصف نصف تناسب رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور متعدد مغربی غیرسرکاری تنظیمیں یہ مہم بھی چلا رہی ہیں کہ بھارت کی دو ریاستوں منی پور اور میزورام کے علاوہ بنگلہ دیش کے اس ۱۱/۱علاقے کو بھی ایک الگ ملک کی حیثیت دی جائے۔ اسرائیل کی طرف سے انکشاف کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے یہ مقامی قبائل بنیادی طور پر یہودی تھے۔ دوسری طرف دونوں ہندستانی ریاستوں میں بھی ۵۰ہزار یہودی رہتے ہیں، جن کی اکثریت اسرائیلی پاسپورٹ رکھتی ہے۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی قبائلی آبادی کو بھی دھڑادھڑ اسرائیلی دورے کروانا شروع کردیے ہیں۔ بنگلہ دیشی دانش وروں کے مطابق منصوبہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے قلب میں پیوست صہیونی ریاست کی طرح جنوب مغربی ایشیا میں بھی ایک صہیونی ریاست کاخنجر گھونپ دیا جائے۔ انڈونیشیا سے مشرقی تیمور اور سوڈان سے جنوبی سوڈان کو کاٹ پھینکنے کی مہم سرانجام دینے والے لارڈ ابورر (Lord Abburir) کو چٹاگانگ ہل ٹریکٹس کمیشن (Chitagong Hill Tracts Commission) کا سربراہ بناکر میدان میں اُتار دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کو بھی ان ساری سازشوں کا ادراک تو یقیناًہوگا، لیکن مکمل بھارت نوازی نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔
اب ایک طرف یہ ساری سازشیں ہیں اور دوسری طرف عالمِ عرب سے آنے والی خوش گوار بہار کے جھونکے۔ یمن میں بھی ۳۳سال کے بعد پہلی بار ایسے صدارتی انتخاب ہوئے کہ جس میں سابق صدر علی عبداللہ شریک نہیں تھا۔ عبدہ منصور ہادی سب کا مشترک اُمیدوار تھا۔ اخوان نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور اب سابقہ ڈکٹیٹر کے اقتدار کا حتمی خاتمہ ہوگیا۔ یہ تمام تبدیلیاں دشمن کے تمام منصوبوں کے علی الرغم اور لاتعداد قربانیوں کے بعد وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ اہلِ ایمان کو یقینِ کامل ہے کہ ان شاء اللہ جیت حق ہی کو ملنا ہے۔ بیرونی دشمن بھی نامراد ہوگا اور اندرونِ ملک ان کے غلام بھی۔
چلتے چلتے یہ خوش گوار خبر بھی سن لیجیے کہ ۱۰فروری کو سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن کے سنہالی زبان میں ترجمے کی پُروقار تقریب منعقد ہوئی۔ سری لنکن وزیراعظم تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے اور امیرجماعت اسلامی سری لنکا رشید حج الاکبر صدرمجلس۔ عرب انقلابات کے بعد دنیا اسلام اور اسلامی تحریک کو نئی روح سے سمجھنا چاہتی ہے۔ تفہیم القرآن کا سنہالی ترجمہ اس سلسلے کی اہم کڑی ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔ اس تقریب کی اطلاع سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ مبارک کی مٹھاس پھر عود کرآئی کہ:’’جو شخص کسی کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے تو اسے اپنی نیکی کا اجر بھی ملتا ہے اور اس شخص کی نیکی کا بھی کہ جو اس کی وجہ سے نیکی پر عمل پیرا ہوا، اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی‘‘۔ امام حسن البنا شہید اور سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اور ان جیسے لاتعداد بزرگوں کی تاقیامت جاری رہنے والی نیکیوں کا ذکر کرتے ہوئے آیئے ہم بھی سوچیں، بلکہ فیصلہ کریں کہ ہمیں پیچھے کیا چھوڑنا ہے۔
No comments:
Post a Comment