Search This Blog

Monday, 26 March 2012

پاپولر کلچر اور اسلام

پاپولر کلچر اور اسلام

تہذیب و ثقافت کی تاریخ ا تنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ ہے۔انسانی تاریخ اور اس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسانی سماج اپنی آنے والی نسل کو علم سے روشناس کراتا رہا ہے۔ علم دو طرح کا ہوتا ہے، ایک حقیقی علم جس میں خیالات، عقائد، رویے، روایات، اور طور طریقے شامل ہیں۔اس طرئقہ علم کو کلچر بھی کہا جا تا ہے۔اور دوسری قسم کا علم جس میں ، سائنسی، تکنیکی اور انتظامی امور کا علم ہے۔ اس طریقہ علم کو تہذیب بھی کہا جا تاہے۔جدید دانشوروں نے علم کو آرٹ اور سائنس میں تقسیم کردیاہے۔یہ ایک غیر مناسب تقسیم ہے۔انسانی سماج میں تہذیب و ثقافت ((culture and civilizationکی بڑی اہمیت ہے۔اور یہی اس کی شناخت بھی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس میں فرق ہے لیکن یہ دونوں الفاظ اکثر یکساں معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔اوراس وقت یہ پوری دنیا اوربالخصوص ہندوستان میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ہندوستان ایک واحد ملک ہے یہاں کی گنگا جمنا تہذیب پوری دنیا میں انفرادیت رکھتی ہے۔لیکن ان دنوں ہندوستان میں ثقافتی تصادم کا ایک نیا باب کھلا ہے۔جیسے پب پر حملہ، ویلنٹائن ڈے کے خلاف علم بغاوت اور جواباً گلابی انڈرویر کے تحفے دینا اور اس طرح کے عمل کو ’مورل پولسنگ‘ بتانا وغیرہ۔بہرحال کلچر کیا ہے؟ اور انسانی زندگی میں کلچر کی کیا اہمیت ہے اور کیسے نظریہ کے فروغ کے لیے اسے استعمال کیا جارہا ہے اور سماج پر اس کے اثرات کیا ہیں؟۔اس بات کا جائزہ لینا یہاں مقصود ہے۔
کلچر انگریزی زبان کا سب سے پیچیدہ لفظ ہے۔ کلچر یعنی ثقافت کی تشریح اس طرح ہے۔’ آکسفورڈڈکشنری کے مطابق روایات اور عقائد،زندگی گزارنے کا طریقہ اور کسی ملک یا گروپ کی سماجی تنظیم کا نام کلچر ہے‘۔کلچر کسی بھی فرد و سماج اور قوم و ملک کے عادات و اطوار اور ان کے رویے کے تشخص کا نام ہے۔مشہور ماہر معاشیات امرتیہ سین نے اپنی کتاب (Identity and Violance ) میں کلچر پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کے کلچر کوئی Homogeneousشئے نہیں ہے بلکہ اس کے اندر مختلف شکلیں ہیں۔اور اس میں کوئی ٹھہراؤ نہیں ہوتا اور کلچر سماج کے دیگر عوامل اور تصورات کے ساتھ تبادلہ کرتا ہے۔ مشہور انگریزی شاعر میتھیوآرنلڈ (Mathew Arnold)کہتے ہیں۔کلچر کو مناسب طور پر اگر بیان کیا جائے تو اسکی بنیاد تجسس میں نہیں بلکہ اسکی بنیاد محبت اور کمال میں ہے۔ یہ کمال Perfection کا مطالعہ ہے۔ یہ حقیقی معلومات کی سائنسی قوت سے نہیں چلتا بلکہ بہتر کام کرنے کی اخلاقی اور سماجی قوت کے بل بوتے پر چلتا ہے۔
ہندوستان میں ثقافت کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ ہے۔چار ہزار سال سے زائد عرصہ پر محیط یہ تاریخ کئی ادوار میں بٹی ہوئی ہے۔اندس ویلی کی تہذیب سے، آرئین، اشوک، گپتہ، ہندوازم، جین مت، بدھ مت سے یہ تاریخ مسلمانوں تک پہنچتی ہے۔اور مغلیہ دور حکومت کے طویل باب کے بعد انگریزوں سے ملتی ہے۔ اس طویل تار یخ کے ہر دور کی کچھ اہم خصوصیات ہیں جو ہندوستانی ثقافت کی تعمیر کرتی ہیں۔ جیسے آرٹ، موسیقی، مصوری، سائنس، ریاضیات، اور فلکیات وغیرہ میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ہرش وردھن کے دور کی ہندوستانی تہذیب و کلچر کو اس دور کا کلاسیکل دور کہا جاتاہے۔اس کی وفات کے بعد اور ہندوستان میں اسلام کی آمد سے قبل مذہبی روایتوں کی مضبو طی ہوتی ہے جیسے بھکتی گیت،یوگا،اور جنس sexکے کئی مظاہرے عام ہوتے ہیں۔ اور اس کا راست اثر یہاں کی ثقافت پر پڑتا ہے۔مغلوں کی ہند میں آمد کے بعد یہا ں کی ثقافت کے نئے باب کا آغازہوتا ہے۔فن تعمیرات کے نئے ماڈلس وجود میں آتے ہیں۔کاغذ عام ہوتا ہے۔ سنسکرت کی جگہ اردو لینا شروع کرتی ہے وغیرہ، مغلوں کے زوال کے بعد پھر ایک مرتبہ ہندوستانی تہذیب و کلچر انگریزوں کی حکومت اور ان کے کلچر کی زد میں آجاتی ہے۔یہ سلسلہ ہنوز آزادی ہند کے بعد بھی جاری ہے۔ اس مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوستانی تہذ یب و ثقافت پر کسی دور کا غلبہ نہیں رہا ہے۔ یہ مختلف دور میں بٹی ہوئی ہے اور مختلف مرحلوں سے گزر کر یہ بنی ہے۔اور نہ ہی یہاں کی ’ سنسکرتی‘ پر کسی کی اجارہ داری ہے۔ ہندوستان میں تہذیب، کلچر، اور روایات کی ایک لمبی تاریخ ہے، اس وقت یہاں تفصیلی گفتگو کی اجازت نہیں۔
پاپولر کلچر ایک ایساذریعہ ہے جس کے ذریعہ سے نظریات کا فروغ کیا جارہا ہے۔مختلف ذرائع کا استعمال کرکے پاپولر کلچر کو پھیلایا جارہا ہے۔ فلم، موسیقی، گانے، انٹرنیٹ، سوشل ویب سائٹس، موبائیل فون، اور اخباروغیرہ کے ذریعہ محض تفریح کے نام پرذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔پاپولر کلچر نے ایک ایسی بحث کا آغاز کیا ہے۔جس سے فرد کی آزادی، لباس، مزاج، غذا، پسند و نا پسند کے پیمانوں پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔اور جنسی تعلقات، ہم جنس پرستی، عریانیت ،ویلنٹائن ڈے ، نظام تعلیم میں جنسی تعلیم اور شراب نوشی کو قانونی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔اس وقت ملک میں بڑھتا ہوا پب کلچر بھی زیر بحث ہے۔ پب کلچر پاپولر کلچر کی ایک قسم ہے۔پب کلچر ستّرکی دہائی میں دبے پاؤں ملک میں داخل ہوا اور اسّی کی دہائی میں پب کلچر سماج کے چند نام نہاد و اعلی طبقات اور میٹروز تک محدود تھا۔ نویں دہائی میں آزاد معاشی پالیسوں کے نتیجہ میں بیرونی کمپنیوں نے ملک میں اپناجال پھیلایا، ان کمپنیوں نے نہ صرف تجارت اور روزگار کے مواقع ساتھ لائے بلکہ اپنی تہذیب و کلچر بھی لائے۔مغربی کلچر اب مخصوص طبقے یا مخصوص شہروں تک محدود نہیں ہے بلکہ اب یہ چھوٹے شہروں اور ٹاؤنس تک بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔پب کلچر کیا ہے؟ دن بھر کام میں مصروف افراد اپنی تھکان کو دور کرنے ایک ایسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں شراب و شباب کے نشے میں اور نیم تاریک ماحول میں ناچ و ہنگاموں کے ذریعہ ذہنی تھکان و تناؤ کو دور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔جہاں غیر اخلاقی حرکات پر کوئی پاپندی نہیں ہوتی اور یہاں ہر شخص اپنی آزادی چاہتا ہے۔چاہے اس کی مذہبی شناخت یا خاندانی روایات پامال ہورہے ہوں۔پب کلچر اس ملک کی روایات، مزاج اور شناخت کے خلاف ہے۔اس پر روک تھام کے لیے بہتوں نے کوشش کی، اب ہندوتوا طاقتیں اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کی غرض سے کلچر کی حفاظت کا نعرہ بلند کرکے تشدد کا سہارا لے رہی ہیں۔اس تشدد کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے۔ اور کئی سوالات کھڑے ہوئے ہیں جیسے، فرد کی آزادی کے حدودکیا ہیں؟ سماج فرد پر کس حد تک پابندیاں عائد کرسکتا ہے،وغیرہ۔ پب کلچر سے سب سے زیادہ نوجوان نسل متاثرہے۔اور اس کے اثرات کو بڑی تیزی سے قبول کررہی ہے۔اس کلچر کے فروغ میں بالی وڈ اہم کردار ادا کررہا ہے اور میڈیا نے بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
اسلامی تہذیب و ثقافت کے چار اصول ہیں۔۱) تو حید ، ۲)رسالت، ۳)آخرت، اور ۴)ذوق جمال وفکری طہارت۔ان نظریاتی اصولوں پرزبان، علاقہ، موسمی تغیرات، جغرافیائی فاصلے اور تاریخی عوامل میں سے کسی کا اثر نہیں پڑتا۔یہ اصول ہر دور میں، ہر علاقہ اور ہر نسل میں غیر متغیر رہتے ہیں۔ لیکن ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے عملی مظاہر ہر معاشرے اور ہر جغرافیائی تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہیں گے۔لیکن ان میں تبدیلی اور تغیر کے باوجود وہ سب اسلامی کلچر کے مظاہر کہلائیں گے۔اسلامی کلچر کی بنیاد یہ ہے کہ انسان صرف حیوان نہیں بلکہ اللہ تعالی کا خلیفہ ہے۔اسی تصور کے ساتھ انسان کی زندگی کا مقصداللہ کی خشنودی بن جاتا ہے۔مقصد کی طرف موڑنے میں عقائد کا اہم رول ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے میدان عمل، میدان فکر، اور میدان تخلیق میں اپنا ایک مخصوص نقشہ قائم کیا تھا۔میدان عمل میں معاشیات، معاشرت، سیاست، تعلیم، اور عمرانیات میں ایک خاص قسم کا نظام قائم کیا تھا۔ میدان فکر میں ان کی ذہانت نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی اور آئندہ ارتقاء کی راہ بھی متعین کردی۔میدان تخلیق میں انہوں نے اپنی جمالیاتی روح کی حرکت سے زندگی کے جمال کو نکھارنے اور مالا مال کردینے کا سامان کیاجو ان کے ادب، فنون لطیفہ اور فلسفہ میں نمودارہوا۔اسلام ایک مکمل تہذیب و کلچر کا نقشہ دیتا ہے۔توحید پرستی، انسانیت کا احترام، آفاقیت، عالمی اخوت، عالمی بھائی چارہ، عالمی امن، وحدت انسانیت، وحدت فکر و عمل، فرد شناسی، فرض شناسی، جوابدہی کا احساس، اور اعتدال و توازن وغیرہ۔ یہ سب اسلامی کلچر کی خصوصیات ہیں۔اور اسلامی کلچر جن غیر اخلاقی صفات کو اپنانے سے منع کرتا ہے وہ اس طرح ہیں شرک و بت پرستی، نسل پرستی، قوم پرستی، علاقہ پرستی، تنگ نظری، فتنہ و فساد، نمود و نمائش، بے قید آزادی اور رہبانیت وغیرہ ہیں۔
کلچر کسی بھی سماج کی شناخت اور کسی بھی نظریہ کا ترجمان ہوتا ہے۔ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام ایک مکمل کلچر انسانیت کو دیتا ہے۔اور امت اس کلچر کے فروغ و استحکام کی علمبردار بنائی گئی ہے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ایک تکثیری سماج میں اسلام کے نفوذ کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔ اس لیے اسلامی خطوط پر کلچرکی ترقی کے لیے پاپولر کلچر(popular culture) کا استعمال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔عربی کلچر کے دو مظاہرے شاعری اور خطابت تھے ۔ حضورؐکا اسوۂ ہمیں یہاں رہنمائی کرتاہے کہ آپؐ نے عہد جاہلیت کی شاعری کو مسترد نہیں کیا، البتہ اخلاقی اصول بیان کرکے اس کی حد بندی کردی۔ اورفن خطابت کو جوں کا توں قبول کیا، البتہ اسے صداقت کے تابع کردیا۔اب ہمیں اس دور کے پاپولر کلچر کا استعمال کرکے اسلام کی اشاعت کا کام انجام دینا ہے۔ اور سماج کو کلچر کے غلط استعمال سے روکنا ہے۔ پب کلچر کے مضر اثرات سے طلبہ برادری کو بچانا ہے ۔ آج اسلام دشمن طاقتیں اسی پاپولر کلچرکو اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔اس لیے ہمیں پاپولر کلچر کے وہ تمام ذرائع جو کہ تفریح کے نام پر عام کیے جارہے ہیں ان تمام ذرائع کو صحیح مقاصدکے لیے استعمال کرنے پر سماج کو آمادہ کرنا ہوگا۔
محمدآصف علی، بگدل

No comments:

Post a Comment