Search This Blog

Monday 26 March 2012

اسلام میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق


 اسلام میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق

قرآنی تعلیمات کی روشنی میں

ڈاکٹر سید حیدر شاہ


اللہ تعالیٰ نے دین اسلام بنی نوع اانسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے۔ تاکہ لوگ ضلالت کے گڑھے سے نکل کر راہ راست پر گامزن ہوسکیں۔ انبیاء علیھم السلام کے مقدس سلسلے کے اختتام پر حضرت محمدﷺ مبعوث ہوئے۔ آپ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ دین اسلام کو دیگر تمام مذاہب پر غالب کردیا جائے۔ ارشاد عزوجل ہے:
’’وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول راہ کی سوجھ اور سچا دین دے کر کہ اس کو بلند کرے سب ادیان پر اور چاہے بُرا مانیں سب شرک کرنے والے۔‘‘ (الصف:۹)
حضورﷺ کی مکی زندگی میں دعوت الی اللہ و تبلیغ دین پُرامن تھی۔ مگر کفار مکہ نے اس کے خلاف جارحیت و تشدد کا راستہ اختیارکیا۔ جس کے جواب میں کئی سال بعد مدینہ میں مسلمانوں کو قتال کی اجازت ملی۔ اس کے ذریعے سرکش قوتوں کو مطیع کرنا مطلوب تھا۔ اسلام میں جہاد و قتال اگرچہ فرض کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر ان کا مقصد کسی کو زبردستی مسلمان بنانا نہیں بلکہ جارحیت و تشدد پر آمادہ قوتوں کا انسداد مقصود ہوتا ہے۔ جب مخالف قوتیں اپنی سرکشی چھوڑ کر مطیع بننے پر آمادہ ہوں تو انہیں اسلامی ریاست میں بطور اہل الذمہ شامل کیا جاتا ہے۔ جہاں وہ تمام بنیادی حقوق کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ معمولات زندگی میں وہ مسلم رعایا کے مساوی درجے پر آجاتے ہیں۔
’’اہل کتاب جو کہ نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسولﷺ نے حرام بتلایا ہے اور نہ سچے دین (اسلام) کو قبول کرتے ہیں۔ ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ ماتحت ہو کر اور رعیت بن کر جزیہ دینا منظور کریں۔‘‘ (التوبۃ:۲۹)
جارح قوتوں کے خلاف قتال واجب ہے یہاں تک کہ وہ ہتھیار رکھ کر اسلامی ریاست کے اطاعت گزار نہ بن جائیں۔ اور جزیہ کی ادائیگی ان کی اطاعت شعاری کا ثبوت ہوگی۔ اس آیت میں حکم تو اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے متعلق ہے۔ مگر جوخصائل (کفر) ان کی بیان ہوئی ہیں۔ وہ ان سے کہیں زیادہ دیگر مشرکین میں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے اُن سے قتال بدرجہ اولیٰ واجب ہے۔ اور مُشرکین عرب کو چھوڑ کر باقی علاقوں کے مشرکین کے اظہار اطاعت کی صورت میں ان سے جزیہ وصول کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضورﷺ نے مجوس یمن سے لیا حالانکہ وہ اہل کتاب نہ تھے۔
مشرکین عرب کا جزیہ سے استثناء حضورﷺ کے فرمان کی بنا پر ہے۔ جس میں جزیرۃ العرب کو قیامت تک کے لیے توحید کا جغرافیائی مرکز قرار دیا گیا ہے، اس کی حدود کے اندر کفرو شرک کی اجازت کسی شرط پر نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے مشرکین عرب کے لیے جزیہ نہیں بلکہ دو ہی صورتیں تھیں کہ وہ مسلمان ہو جائیں یا جزیرۃ العرب سے باہر نکل جائیں۔
جزیہ کے معنی بدلہ اور عوض کے ہیں یعنی وہ رقم جو اسلامی حکومت اپنی غیر مسلم رعایا سے ان کے جان و مال کی حفاظت کے معاوضہ میں وصول کرتی ہے۔ یہ لوگ فوجی خدمات سے مستثنیٰ ہوتے ہیں اور ان پر زکوٰۃ بھی لاگو نہیں ہوتی جبکہ مسلم رعایا پر فوجی خدمات نیز صاحب نصاب لوگوں پر زکوٰۃ دونوں چیزیں لاگو ہوتی ہیں۔ اس طرح ذمی اقوام معمولی ساجزیہ ادا کرکے زیادہ سہولت میں رہتی ہیں۔ جزیہ بھی صرف صاحب استطاعت اور بر سرروزگار لوگوں سے وصول کیا جاتا ہے۔ ان کے مفلس و محتاج، معذور، عورتیں اور بچے اس سے مستثنیٰ ہیں۔[دورِ جدید میں فوجی ضروریات کی تکمیل انکم ٹیکس وغیرہ سے ہوتی ہے جو کہ مسلم و غیرمسلم دونوں سے لیا جاتا ہے، اس لیے اب جزیہ کے حوالے سے کوئی بھی اسلامی مملکت اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرے گی (مدیر، معارف مجلہ تحقیق)]
مفتوحین پر قبول اسلام میں تو کوئی جبر نہیں مگر انہیں اسلامی ریاست کا ماتحت و مطیع بن کر امن و سلامتی سے رہنا ہوتا ہے۔ جس کی علامت ان کی طرف سے جزیہ کی ادائیگی ہے۔ ایسے لوگوں کو اسلامی اصطلاح میں اہل الذمہ یا ذمی کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو مسلم حکومت کے ذمہ میں آجائیں۔ جدید اصطلاح میں غیر مسلم رعایا کے لیے مذہبی اقلیت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کئی طرح کے لوگ شامل ہوسکتے ہیں۔ مثلا ذمی جو مفتوح ہو کر جزیہ ادا کرتے ہوں۔ دوسرے وہ معاہدین جو بغیر جنگ کیے مصالحت کے ذریعے مسلمانوں کے زیر انتظام آگئے ہوں۔ تیسرے مستامن۔ یعنی وہ لوگ جو مسلمانوں سے امن لیکر اسلامی ریاست میں آئے ہوں۔ مثلا تاجر۔ وفود اور سفیر وغیرہ۔ اور چوتھے وہ جنگی قیدی ہیں جو مسلمانوں کی قید میں ہوں۔ اسلام نے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا درس دیا ہے۔ الغرض ان تمام مذہبی اقلیتوں کوقرآن مجید کے حوالے سے جو حقوق حاصل ہیں وہ درج ذیل ہے۔

۱۔ حفاظتِ جان:

قرآن مجید میں قتل ناحق کی سخت مذمت آئی ہے۔ کسی بے گناہ شخص کا خون پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ اور کسی بے قصور شخص کو مارے جانے سے بچالینے کو ساری انسانیت کی حفاظت کے برابر قرار دیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے۔
’’جو کوئی قتل کرے ایک جان کو بلاعوض جان یا بغیر فساد کے ملک میں تو گویا قتل کر ڈالا اس نے سب لوگوں کو اور جس نے زندہ رکھا ایک جان کو تو گویا زندہ رکھا سب لوگوں کو۔‘‘ (المائدۃ:۳۲)
یہاں صرف مسلمانوں کے قتل ناحق کی ممانعت نہیں بلکہ اسلامی مملکت کے سب شہریوں کے خون ناحق سے روکا گیا ہے۔اگر کوئی شخص ناحق قتل کیاجائے تو شرع اسلامی نے مقتول کے اولیاء کو چارہ جوئی کا حق دیا ہے۔ اور اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ قاتل کو سزا دے۔
ارشاد ربانی ہے:
’’قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اُ س کی مدد کی جائے گی۔‘‘ (بنی اسرائیل:۳۳)
اس میں یہ شرط نہیں کہ مقتول مسلمان ہو بلکہ ذمی و معاہد (مقتول) کے ورثا کو بھی قصاص لینے کا حق حاصل ہے۔ اس کے متعلق قرآن مجید میں وارد ہے۔
’’اے ایمان والو فرض ہوا تم پر (قصاص) برابری کرنا مقتولوں میں۔‘‘ (البقرۃ:۱۷۸)
قصاص لینے میں مسلم و ذمی کی کوئی تمیز نہیں۔ ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:
’’مقتول ذمی کے بدلے میں قاتل مسلمان کا قتل واجب ہے۔ کیونکہ (عام حقوق میں) ایک ذمی اور ایک مسلمان کے مابین کوئی فرق نہیں ہے اور قصاص کے واجب ہونے کا حکم عام ہے سب میں۔ اس آیت کریمہ کی رو سے (عام معاملات میں) ایک کافر اور ایک مسلمان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ قصاص کا حکم دونوں پر جاری ہوگا۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلیل ہے کہ جو مظلوم قتل ہوا ہو ہم نے اس کے ولی کو دعویٰ کا حق دیا ہے۔‘‘

۲۔ ذمی و معاہد کی دیت:

قرآن مجید میں قتل خطا کے بدلہ میں دیت یعنی خون بہا کی ادائیگی اور کفارہ پیش کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ مقتول مسلم ہو یا ذمی دونوں کے دیت و کفارہ مساوی رکھے گئے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے:
’’اور جو قتل کرے مسلمان کو غلطی سے تو آزاد کرے ایک گردن مسلمان کی اور خون بہا پہنچائے اس کے گھر والوں کو مگریہ کہ وہ معاف کردیں۔۔۔ اور اگر وہ تھا ایسی قوم میں سے کہ تم میں اور ان میں عہد ہے تو خون بہا پہنچائے اس کے گھر والوں کو اور آزاد کرے گردن ایک مسلمان کی۔‘‘ (النساء:۹۲)
دور جہالت میں دیت کا نصاب سو اونٹ تھا۔ اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا۔ یعنی قاتل مقتول کے ورثا کو سو اونٹ یا ان کی قیمت دے گا۔ اس حکم کی تفسیر میں ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے جہاں مسلمانوں کی دیت کا ذکر فرمایا ہے۔ وہیں عطف کر کے معاہد او ر ذمی کی دیت بھی وہی قرار دی ہے۔ جو مسلمان کی ہے۔ یہ دیت ایک بدیہی چیز تھی کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دیت کالفظ استعمال نہ ہوتا۔ اس لیے کہ دیت تو ایک مقدار معلوم کا نام ہے کسی جان کے بدلے میں،اس میں نہ اضافہ ہوسکتا ہے نہ کمی ہو سکتی ہے اور لوگ مقاد یر دیات سے پہلے ہی واقف تھے مگرمسلم و کافر کی دیت کے فرق سے ناواقف تھے، پس واجب ہوا کہ کافر (ذمی و معاہد) کی دیت بھی وہی ہو جو مسلمان کی تھی۔‘‘
اسلام نے مسلم و ذمی (معاہد) کا خون بہا مساوی رکھا ہے۔ اس میں کسی طرح کا امتیاز روانہ رکھ کر یہ ثابت کردیاہے۔ کہ دنیاوی معاملات میں وہ صرف انسانیت کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اور کافر و مسلم میں فرق رکھ کر مسلمانوں کی بالادستی قائم نہیں کرتا بلکہ مساوات کامل کا اصول پیش کرتا ہے۔

۳۔ تحفظِ ناموس:

قرآن مجیدمیں کسی اجنبی عورت سے جنسی تعلق کو حرام بتایا گیا ہے۔ اسے بے حیائی اور بدچلنی قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو اس قبیح فعل کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اور حکم عدولی کی صورت میں مرد و عورت دونوں کے لیے سزا مقرر فرمائی جسے شرعی اصطلاح میں حد کہا جاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
’’بدکاری کرنے والی عورت اور بدکار مرد، سو مارو ہرایک کو دونوں میں سے سو سو دُرے۔‘‘ (النور:۲)
قرآن مجید میں زنا کی ممانعت نیز ارتکاب کی صورت میں سزا کا حکم اس امر کی دلالت کرتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے میں فحاشی و بدچلنی کا مکمل انسداد چاہتا ہے۔ اس میں صرف مسلم ہی نہیں بلکہ معاشرے میں شامل سب کی عصمت کا تحفظ مطلوب ہے۔ مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید کی رو سے بدکاری مطلقاََ حرام ہے خواہ وہ کسی عورت سے کی جائے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ عورت مسلمان ہو یا غیر مسلم (ذمی) اپنی قوم کی ہو یا غیر قوم کی۔ دوست ملک کی ہو یا دشمن ملک کی۔‘‘
اسلام حاکم قوم(یعنی مسلمانوں) کو ا س کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ محکوم رعایا (یعنی ذمیوں) کی عزت و عصمت پر ہاتھ ڈالیں۔ حکم عدولی کی صورت میں ان پر وہی حدنافذ ہوگی جو کسی مسلمان خاتون کی عصمت دری پر مقرر ہے۔

۴۔ حدِّ قذف:

مسلم معاشرے میں کسی پاک دامن پر تہمت زنا لگانا شدید جرم ہے،جس کے متعلق قرآن مجید میں آیا ہے:
’’اور جو لوگ عیب لگاتے ہیں حفاظت والیوں کو پھر نہ لائے چار مرد شاہد تو مارو انہیں اَسّی (۸۰) دُرے اور نہ مانو ان کی گواہی او ر وہی لوگ ہیں نافرمان۔‘‘ (النور:۴)
اس آیت میں پاکدامن عورتوں پر تہمت زنا لگا کر اس کا شرعی ثبوت (یعنی چار عاقل بالغ اور مسلمان گواہ) پیش نہ کرنے والے پر حد قذف لگانے کا حکم ہے۔ پاکدامن ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں، بلکہ وہ غیر مسلم خواتین بھی ہوسکتی ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی ذمی عورت پر تہمت لگائے تو اس پر بھی یہ حد جاری ہوگی۔ در مختار میں لکھا ہے کہ
’’یہ حدنافذ ہوگی چاہے آزاد ہو یا غلام۔ اسی طرح چاہے ذمی ہو یا عورت ہو۔‘‘

۵۔ معاشی تحفظ:

معاشرے میں نادار و مفلس افراد کے لیے مالی معاونت کے متعلق ارشاد قرآنی ہے۔
’’اور ان کے اموال میں مانگنے والوں اور (نہ مانگنے والوں) محروم دونوں کا حق ہے۔‘‘ (الذاریات:۱۹)
یعنی سائل اور غیر سائل مساکین و محتاج لوگوں کی کفالت مسلم معاشرے اور حکومت کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ ان کا مسلمان ہونا شرط نہیں بلکہ اگر محتاج ذمی بھی ہو تو اس کی کفالت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کفالت کی ترغیب میں ارشاد ہے:
’’اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو۔‘‘ (الدھر:۸)
اسلامی ریاست میں محتاج و یتیم ذمی بھی ہوسکتے ہیں جنھیں کھانا کھلانا اللہ تعالیٰ کی رضا کا سبب بتایا گیا ہے۔ اور جہاں تک قیدیوں کا تعلق ہے تو دور نبویﷺ میں قیدی تو صرف حربی کفار ہی ہوتے تھے۔ ابوبکر جصاص لکھتے ہیں کہ
’’یہ بات تو بالکل ظاہر ہے اس لیے کہ دارالاسلام میں کوئی اسیر جنگ مشرک ہی ہو سکتا ہے۔‘‘
مثلاً غزوہ بدر کے قیدی مشرکین مکہ تھے جنہیں مسلمان اپنی نسبت بہتر کھانا کھلاتے تھے۔ غیر مسلموں پر خرچ کرنے کے متعلق ارشاد ربانی ہے:
’’تیرے ذمہ نہیں ان کو راہ پر لانا اور لیکن اللہ راہ پر لاوے جس کو چاہے۔ اور جو کچھ خرچ کرو گے تم مال میں سے سو اپنے ہی واسطے۔‘‘ (البقرۃ:۲۷۲)
اس جگہ عام اُصول بیان کیا گیا ہے۔ کہ اللہ کی راہ میں جس کو مال دو گے تمھیں اس کا ثواب دیا جائیگا۔ مسلم و غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ ہر مستحق کو دیا جا سکتا ہے۔ ابن حنفیہ سے روایت ہے کہ لوگ اسے نا پسند کرتے تھے کہ مشرکین کو صدقہ دیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو اب لوگ (نادار) مشرکوں کو بھی صدقہ دینے لگے۔
ان آیات قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے مساکین و محتاج کی کفالت کرنا مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کو بھی ترغیب دی گئی ہے کہ معاشی مشکلات میں ان کے ساتھ تعاون کیا کریں۔

۶۔ تحفظِ ملکیت:

لوگوں کے ذاتی و جائیداد کی حفاظت کے متعلق ارشاد الٰہی ہے:
’’اور نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا آپس میں ناحق۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۸)
ناحق مال کھانے سے مراد چوری، خیانت، دغابازی، رشوت ستانی اور غصب وغیرہ کے ذریعے کسی کا مال و جائیداد ہتھیانا ہے۔ یہ حکم بھی عام ہے کہ مسلم و ذمی کسی کے مال کو اُن مذکورہ بالا ذرائع سے حاصل کرنا حرام ہے۔ اور حکم عدولی کرنے والا مجرم اور مستوجب سزا ہوگا۔ مثلا اگر کوئی شخص کسی ذمی کے مال کی چوری کرے گا تو سزا میں اس کاہاتھ کاٹا جائے گا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کی شراب اور خنزیر (جن کی انہیں اجازت ہے) کو تلف کرے گا تو اسے توان دینا پڑ ے گا۔جیسا کہ در مختار میں ہے:
ویضمن المسلم قیمۃ خمرہ و خنزیرہ اذا اتلفہ۔

۷۔ تحفظِ عزت و آبرو:

آبرو کا تحفظ بھی انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ اس کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’تم میں سے کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے،ممکن ہے یہ اس سے بہتر ہو(یعنی بلحاظ انجام وہ اس سے بہتر ہو)۔‘‘ (الحجرات:۱۱)
ایسامذاق جس سے دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہو ممنوع ہے۔ اس میں مسلم و ذمی کی
کوئی تخصیص نہیں۔ بلاوجہ کسی کے ساتھ تمسخرکی اجازت نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
’’اور نہ کسی کو بُرے القاب دو۔‘‘ (الحجرات:۱۱)
یعنی ایسے القاب و نام رکھنا جس سے کسی کو تکلیف ہو حرام ہے۔ اس میں بھی مسلم و ذمی کی کوئی تخصیص نہیں۔ فقہا ء اسلام نے ارشاد فرمایا ہے:
’’کہ کسی ذمی کو کافریا مشرک کہہ کر پکارنے سے اسے اگر بُرا لگتا ہو توایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور خلاف ورزی کرنے والا مستوجب سزا ہوگا۔‘‘
آگے ارشاد ہے:
’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔‘‘ (الحجرات:۱۲)
غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ اس میں بھی مسلم و ذمی کی کوئی قید نہیں، اس سے سب کو تکلیف ہوتی ہے، اور ذمی کو گالی یا غیبت کے ذریعے تکلیف پہنچانا ممنوع ہے۔ابن نجیم لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی مسلمان اسے گالی وغیرہ کے ذریعے تکلیف پہنچائے گا تو وہ مستوجب سزا ہوگا۔‘‘

۸۔ نجی زندگی کا تحفظ:

اسلام نے لوگوں کے ذاتی معالات میں دخل اندازی کو بھی منع فرمایا ہے۔ اس بارے میں ارشاد ربانی ہے۔
’’اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک کہ ان سے اجازت نہ لے لو۔‘‘ (النور:۲۷)
ایک اور ارشاد ہے:
’’اور کسی کا بھید نہ ٹٹولا کرو۔‘‘ (الحجرات:۱۲)
ان احکام کا مقصدیہ ہے کہ لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت نہ کی جائے یہاں بھی مسلم و ذمی کی کوئی تمیز نہیں۔ کسی ذمی کے گھر بلا اجازت داخل ہونا۔ یا بلاوجہ اس کی عیب جوئی کے لیے اس کی ٹوہ میں رہنا اسے تکلیف پہنچانے والی حرکات ہیں۔ ذمی کو تکلیف پہنچانا ناجائز و حرام ہے۔ غزوہ خیبر کے موقع پر کسی یہودی نے حضورﷺ سے بعض افراد کے اُ ن کے گھروں میں داخل ہونے کی شکایت کی تو آپؐ نے مسلمانوں کو اس حرکت سے منع فرمایا۔

۹۔ عدل و انصاف:

انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام اللہ تعالیٰ کو اس قدر محبوب ہے کہ انبیاء علھیم السلام کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا ایک اہم مقصد نظام عدل کاقیام بتایا ہے۔ ارشاد ہے:
’’ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول نشانیاں دے کر اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری تاکہ لوگ سیدھے رہیں انصاف پر۔‘‘ (الحدید:۲۵)
جہالت و بے دینی انسانی معاشرے میں ظلم و ستم کا باعث ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسولﷺ کو آسمانی تعلیمات دے کر اس لیے بھیجا تاکہ انسانیت راہ حق پر گامزن ہو کر عدل و انصاف کی خوگر بن جائے۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا معاملہ چاہتا ہے۔ جس کے متعلق ارشاد ہے۔
’’اور جب تم لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘ (النساء:۵۸)
اسلامی تعلیمات میں مسلم و غیر مسلم سب انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا حکم ہے۔ قیام عدل میں کسی قوم کی دشمنی و عداوت سے متاثر ہونے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ تمام خواہشات و جذبات سے بالاتر ہو کر صرف اللہ کے لیے عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اے ایمان والو کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی۔ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو۔ عدل کرو۔ یہی بات نزدیک ہے تقویٰ سے۔اور ڈرتے رہو اللہ سے۔ اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘ (المائدہ:۸)
دین اسلام کی یہ امتیازی شان ہے کہ کفارو مشرکین کی جانب سے اظہار نفرت و عداوت کے باوجود مسلمانوں کو راہ اعتدال سے سرموہٹنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ انہیں ہر حال میں نیکی اور تقویٰ پر قائم رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ کلام پاک میں ارشاد ہے:
’’اور باعث نہ ہو تم کو کسی قوم کی دشمنی جو کہ تم کو روکتی تھی حرمت والی مسجد سے اس پر کہ زیادتی کرنے لگو۔ اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور نہ مدد کرو گناہ پر اور ڈرتے رہو اللہ سے بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ (المائدہ:۲)
عدل و انصاف کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے۔
’’بے شک ہم نے اتاری تیری طرف کتاب سچی کہ تو انصاف کرے لوگوں میں جو کچھ سمجھادے تجھ کو اللہ اور تو مت ہو دغا بازوں کی طرف سے جھگڑنے والا۔‘‘ (النساء:۱۰۵)
اس آیت کی تفسیر میں ابوبکر جصاص نے لکھا ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ یہ اس آدمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے ایک ذرہ چرالی تھی اور جب اندیشہ ہوا کہ چوری کھل جائے گی تو وہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی۔ جب یہودی کے گھر میں ذرہ پائی گئی تو اس نے چوری سے انکار کیا اور اصل چور اس یہودی پر الزام دھرنے لگا اور مسلمانوں کی ایک جماعت نے یہودی کے مقابلے میں مسلمان کا ساتھ دیا۔ چنانچہ رسولﷺ بھی مسلمانوں کے قول کی طرف مائل ہونے لگے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اصل واقعہ کی اطلاع دی اور یہودی کو چوری سے بری قرار دیا۔ اور اس کے خلاف فیصلہ دینے سے روک دیا۔
یعنی عدل و انصاف کے معاملے میں ایک یہودی کے مقابلے میں ایک مسلمان کی طرف ذرا سے میلان پر آپؐ کو فوراََ متنبہ کیا گیا اور بذریعہ وحی آپؐ کو عدل پر قائم رہنے کا اہتمام کیا گیا۔

۱۰۔ مذہب کا تحفظ:

اسلام رواداری اور برداشت سکھاتا ہے۔ مذہب و عقیدے میں تنگ نظری کا قائل نہیں قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔‘‘ (البقرۃ:۲۵۶)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’اور کہو سچی بات جو ہے تمہارے رب کی طرف سے، پھر جو کوئی چاہے مانے اور جو کوئی چاہے نہ مانے۔‘‘ (الکہف:۲۹)
ایک اور ارشاد ہے:
’’تم کہو میں تو اللہ کو پوجتا ہوں خالص کر کر اپنی زندگی اس کے واسطے اب تم پوجو جس کو چاہو اس کے سوا۔‘‘ (الزمر:۱۴۔۱۵)
حضورﷺ کی بے انتہا خواہش تھی اور اسی سلسلہ میں سعی بلیغ فرماتے تھے کہ سب لوگ اسلام میں داخل ہوں۔ لہٰذا ہر وقت متفکر و پریشان رہا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد الٰہی ہوا:
’’اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ ہم نے تم کو ان پر کوئی محافظ (مقرر) نہیں کیا۔ اور نہ تم ان کے وکیل ہو (کہ انہیں بھٹکنے نہ دو)۔‘‘ (الانعام:۱۰۷)
اسی مضمون کی ایک اور آیت ہے:
’’اگر تمہارارب چاہتا تو دنیا کے تمام لوگ سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں کو مجبور کر سکتے ہو۔‘‘ (یونس:۹۹)
کلام پاک میں غیر مسلموں کی الگ مذہبی حیثیت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادہے۔
’’ان غیر مسلموں سے کہہ دو کہ تمہارے لیے تمہارا دین ہے۔ اور میرے لیے میرا دین۔‘‘ (الکافرون:۶)
ان قرآنی آیات سے یہ بات خوب واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ردو قبول میں لوگوں کو آزاد رکھا ہے۔ قتال کا مقصد لوگوں کو مسلمان بنانا نہیں بلکہ ان کی سرکشی و شرارت ختم کر کے انہیں مطیع و پُرامن بنانا ہے۔ اسلام کی دعوت رشد و ہدایت سب کے لیے عام ہے۔ مگراس معاملہ میں کسی پرجبر نہیں۔ اسلام کی بنیاد توحید پر قائم ہے اور اسی کی اشاعت و ترویج کے لیے پورا نظام دعوت و جہاد قائم ہوا ہے۔ قرآن مجید نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے۔ اور اس سے مکمل بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود غیر مسلموں کے دیوتاؤں اور مذہبی تقدس کی حامل اشیاء کو بُرا بھلا کہہ کر ان کی دل آزاری سے منع فرمایا ہے۔ اس بارے میں ارشاد ہے۔
’’اور تم لوگ بُرا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا۔ پس وہ برا کہنے لگیں گے اللہ کو بے ادبی سے بدون سمجھے۔ اسی طرح ہم نے مُزین کر دیا ہے۔ ہر ایک فرقہ کی نظر میں ان کے اعمال کو۔‘‘ (الانعام:۱۰۸)
اسلام غیر مسلموں کے مذہبی اداروں کا بھی احترام سکھاتاہے۔ اور قتال کی ایک غرض محض ان شرپسند قوتوں کا خاتمہ قرار دیتاہے۔ جن کے سبب مذہبی مراسم کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اگر نہ ہوتا دور کرنا اللہ کا بعض کو بعض سے۔ البتہ ڈھائے جاتے خلوت خانے درویشوں کے اور عبادت خانے نصاریٰ کے اور عبادت خانے یہود کے اور مساجد، کہ لیا جاتا ہے بیچ ان کے نام اللہ کا بہت۔‘‘ (الحج:۴۰)
تاریخ گواہ ہے کہ ان قرآنی تعلیمات کے پیش نظر مسلم فاتحین نے غیر مسلم اقوام کے ساتھ جہاد و قتال میں ان کی مذہبی عبادت گاہوں کو عمومََا نقصان نہیں پہنچایا۔ اور نہ ان مذہبی رہنماؤں اور راہبوں وغیرہ سے کوئی تعارض کیا جن کا مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کوئی کردار نہ تھا۔ محمود غزنوی کے سومنات کے مندرکو ڈھانے کی وجہ مذہبی تعصب نہیں بلکہ عسکری ضرورت تھی۔ کیونکہ وہ مندر مسلمانوں کے خلاف مدافعت میں اہم کردار کا حامل تھا۔ اس کے برعکس زمانہ رسالت اور خلفائے راشدین بلکہ بنوامیہ اور بنو عباس کے خلفاء کی طرف سے عطا کردہ امان ناموں میں ان کی عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔ (۔۔۔ جاری ہے!)
(بشکریہ: ششماہی ’’معارف مجلۂ تحقیق‘‘ کراچی۔ جولائی۔دسمبر ۲۰۱۱ء)


No comments:

Post a Comment