قرآنی اور سائنسی نظریہ ارتقا کا موازنہ اور ایک دہریہ کا قبول اسلام
پانچ فطری اصول :
۱:… سائنس کی بنیاد مشاہدہ و تجربہ پر ہے، اور جو چیزیں مشاہدہ یا تجربہ سے ماورا ہیں وہ سائنس کی دسترس سے باہر ہیں، ان کے بارے میں سائنس دانوں کا کوئی دعویٰ لائقِ التفات نہیں، جبکہ وحی اور نبوّت کا موضوع ہی وہ چیزیں ہیں جو انسانی عقل، تجربہ اور مشاہدہ سے بالاتر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اُمور میں وحی کی اطلاع قابلِ اعتبار ہوگی۔
۲:… بہت سی چیزیں ہمارے مشاہدے سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان کے مخفی علل و اسباب کا مشاہدہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ان کے علم کے لئے ہم کسی صحیح ذریعہٴ علم کے محتاج ہوتے ہیں، ایسے اُمور کا محض اس بنا پر انکار کردینا حماقت ہے کہ یہ چیزیں ہمیں نظر نہیں آرہیں۔
۳:… دو چیزیں اگر آپس میں اس طرح ٹکراتی ہوں کہ دونوں کو بیک وقت تسلیم کرنا ممکن نہ ہو تو یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں صحیح ہوں، لامحالہ ایک صحیح ہوگی اور ایک غلط ہوگی۔ ان میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط ہے؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس کا ثبوت یقینی و قطعی ذریعہ سے ہوا ہے؟ اور کس کا ظن و تخمین کے ذریعہ؟ پس جس چیز کا ثبوت کسی یقینی ذریعہ سے ہو وہ حق ہے اور دُوسری باطل یا موٴوّل۔
۴:… جو بات اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن ہو اور کسی سچے خبر دینے والے نے اس کی خبر دی ہو، اس کو تسلیم کرنا لازم ہے، اور اس کا انکار کرنا محض ضد و تعصب اور ہٹ دھرمی ہے، جو کسی عاقل کے شایانِ شان نہیں۔
۵:… انسانی عقل پر اکثر و بیشتر وہم کا تسلط رہتا ہے، بہت سی چیزیں جو قطعاً صحیح اور بے غبار ہیں، لوگ غلبہٴ وہم کی بنا پر ان کو خلافِ عقل تصوّر کرنے لگتے ہیں، اور بہت سی چیزیں جو عقلِ صحیح کے خلاف ہیں، غلبہٴ وہم کی وجہ سے لوگ ان کو نہ صرف صحیح مان لیتے ہیں بلکہ ان کو مطابقِ عقل منوانے پر اصرار کرتے ہیں۔
ڈارون کا نظریہ ارتقا حقیقت کے آئینہ میں :۔
سوال یہ ہے کہ انسان کی آفرینش کا آغاز کیسے ہوا؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور کسی اندازے اور تخمینے کی بنا پر اس بارے میں کوئی دوٹوک بات نہیں کہی جاسکتی۔ موجودہ دور کا انسان نہ تو ابتدائے آفرینش کے وقت خود موجود تھا کہ وہ جو کچھ کہتا چشمِ دیدہ مشاہدہ کی بنا پر کہتا، نہ یہ ایسی چیز ہے کہ انسانی تجربے نے اس کی تصدیق کی ہو، ورنہ ہزاروں برس میں کسی ایک بندر کو انسان بنتے ہوئے ضرور دیکھا ہوتا، یا کسی ایک بندر کو انسان بنادینے کا اس نے تجربہ ضرور کیا ہوتا۔ پس جب یہ نظریہ مشاہدہ اور تجربہ دونوں سے محروم ہے تو اس کی بنیاد اَٹکل پچو تخمینوں، اندازوں اور وہم کی کرشمہ سازیوں پر ہی قائم ہوگی۔ اس کے مقابلے میں خود خالقِ کائنات کا قطعی، غیرمبہم اور دوٹوک ارشاد ہے ۔ اب دادِ انصاف دیجئے کہ ایک مسئلے میں، جو انسانی مشاہدہ و تجربہ سے ماورا ہے، مسٹر ڈارون اور ان کے مقلدوں کا اَٹکل پچو تخمینہ لائقِ اعتبار ہے یا خدائے علام الغیوب کا ارشاد․․․؟ اگر وحیٴ الٰہی نے اس مسئلے میں ہماری کوئی راہ نمائی نہیں کی ہوتی تب بھی عقل کا تقاضا یہ تھا کہ ہم ڈارون کے غیرمشاہداتی اور غیرتجرباتی تیرتکوں کو قبول نہ کرتے، کیونکہ اہلِ عقل، عقل کی مانا کرتے ہیں، غیرعقلی قیاسات اور تخمینوں پر اندھادُھند ایمان نہیں لایا کرتے۔ پس نظریہٴ ارتقا کے حامیوں کا انسان کے سلسلہٴ نسب کو بندر سے ملانا، جبکہ وحیٴ الٰہی اور مشاہدہ و تجربہ اس کی تکذیب کرتے ہیں، تو یہ نظریہ اہلِ عقل کے نزدیک کیسے لائقِ التفات ہوسکتا ہے؟
نظریہٴ ارتقا کے موجدوں نے انسان کا سلسلہٴ نسب بندر تک پہنچاکر انسانی عقل کی جو مٹی پلید کی ہے، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انسانِ اوّل کے بارے میں ان کے دیگر تخمینوں اور قیاسات میں کتنی جان ہوگی، خصوصاً ان کا یہ کہنا کہ: “انسانِ اوّل کو جنت سے نہیں اُتارا گیا تھا، بلکہ اسی زمین پر بندر سے اس کی جنس تبدیل ہوئی تھی”، یا یہ کہ: “حوا اس کی بیوی نہیں بلکہ ماں تھی”۔ کون نہیں جانتا کہ جنت و دوزخ عالمِ غیب کے وہ حقائق ہیں جو اس عالم میں انسانی مشاہدہ و تجربہ سے بالاتر ہیں، اور جن کے بارے میں صحیح معلومات کا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل شدہ وحی۔ پس جو غیبی حقائق کہ انسان کے مشاہدہ و تجربہ کی دسترس سے قطعاً باہر ہیں اور مشاہدہ کی کوئی خوردبین ان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، خود ہی سوچئے کہ ان کے بارے میں وحیٴ الٰہی پر اعتماد کرنا چاہئے یا ان لوگوں کی لاف گزاف پر جو وہم و قیاس کے گھوڑے پر سوار ہوکر ایک ایسے میدان میں ترکتازیاں کرنا چاہتے ہیں جو ان کے احاطہٴ عقل و ادراک سے ماورا ہے․․․؟
سائنس کے دقیق اسرار و رموز کے بارے میں ایک گھسیارے کا قول جس قدر مضحکہ خیز ہوسکتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر ان لوگوں کے اندازے اور تخمینے مضحکہ خیز ہیں جو وحیٴ الٰہی کی روشنی کے بغیر اُمورِ الٰہیہ میں تگ و تاز کرتے ہیں۔ یہ مسکین نہیں سمجھتے کہ ان کی تحقیقات کا دائرہ مادّیات ہیں، نہ کہ ما بعد الطبعیات، جو چیز ان کے دائرہٴ عقل و ادراک سے ماورا ہے اس کے بارے میں وہ جو قیاس آرائی کریں گے اس کی حیثیت رجم بالغیب اور اندھیرے میں تیر چلانے کی ہوگی۔ قطعاً ممکن نہیں کہ ان کا تیر صحیح نشانے پر بیٹھے، وہ خود بھی مدة العمر وادیٴ ضلالت کے گم گشتہ مسافر رہیں گے اور ان کے مقلدین بھی۔ مسلمانوں کو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور ان وادیوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں، بحمداللہ ان کے پاس آفتابِ نبوّت کی روشنی موجود ہے، اور وہ ان اُمورِ الٰہیہ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں، دن کی روشنی میں کہتے ہیں۔
فلاسفہ طبیعیین نے اس بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ محض اٹکل مفروضے ہیں، جن کی حیثیت اوہام و ظنون کے سوا کچھ نہیں، اور ظن و تخمین کی حق و تحقیق کے بازار میں کوئی قیمت نہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے
:
:
“وَمَا لَھُمْ بِہ مِنْ عِلْمٍ، اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ، وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔” (النجم:۲۸)۔
ترجمہ:…”اور ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں، صرف بے اصل خیالات پر چل رہے ہیں، اور یقینا بے اصل خیالات امر حق کے مقابلے میں ذرا بھی مفید نہیں ہوتے۔
”
”
یہ نظریہ اب سائنس کی دُنیا میں بھی فرسودہ ہوچکا ہے، اس لئے اس طویل عرصے میں انسان نے کوئی ارتقائی منزل طے نہیں کی، بلکہ ترقیٴ معکوس کے طور پر انسان تدریجاً “انسان نما جانور” بنتا جارہا ہے۔
جو قومیں نورِ نبوت سے محروم ہیں، وہ اگر قبل از تاریخ کی تاریک وادیوں میں بھٹکتی ہیں تو بھٹکا کریں، اور ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑاتی ہیں تو دوڑایا کریں، اہل ایمان کو ان کا پس خوردہ کھانے اور ان کی قے چاٹنے کی ضرورت نہیں! ان کے سامنے آفتابِ نبوت طلوع ہے، وہ جو کچھ کہتے ہیں دن کی روشنی میں کہتے ہیں، ان کو قرآن و سنت کی روشنی نے ظن و تخمین سے بے نیاز کردیا ہے۔
قرآن اور ایک سابقہ دہریہ کے تاثرات :۔
میرے ایک دوست ہیں ، عبدالفتاخ انکا نام ہےبلجییم کے رہنے والے ہیں ، جدید سائنسی علوم میں انہیں بہت رسوخ حاصل ہے، وہ پہلے ایتھیسٹ (دہریے) تھے اور پھر 2005 میں انہوں نے اسلام قبول کیا ، اسلام سے پہلے وہ دہریوں کی طرف سے بہت بڑے مناظر بھی رہے تھے۔ کسی مسلمان دوست کے باربار قرآن پڑھنے کی درخواست کرنے پر قرآن پڑھنا شروع کیا، اور گائل ہوگئے اور اسلام قبول کرلیا۔ وہ قرآن کے بارے میں اپنے اس وقت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
" I was shocked by the profoundness and deepness of the words. I was also intrigued by how the book felt psychologically custom made for the human mind. Sometimes it even felt as if it was written just for me, since it was so applicable, as if the book interacts with me on a personal level and has anticipated all the reactions I have, and replies to them appropriately. It knows me better then I know myself, and answers all my questions. It knows science better then scientists. As I started reading I feeling emotions so profound, like I had never felt before in my life. Almost as if they were being rushed down trough me with a high pressure hose. Levels of fear but at the same time security, the most deepest of sadnesses but at the same time the most profound joy. I didn't even knew that such emotions existed. Next to all that, even though I was just reading a translation one can still see the traces of a magnificent poetic order and symphony that is complete in tune with the content of the text without such a thing compromising any of the other mentioned qualities. In summary, the book seemed like pure perfection on every level and aspect. "
اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے ماڈرن سائنس اور ایتھیسٹ کے نظریات پر تنقیدی سٹائل میں لکھنا شروع کیا، اور دہریت کے تمام سائنسی نظریات پر لاجواب تحریریں لکھیں ،ان کو میں خود کئی سائنسی علم رکھنے والے ایتھیسٹ کو میل کرچکا ہوں، کوئی بھی ان کو جھٹلا نہیں سکا۔انہوں نے اپنی ان تحریروں کو اپنی سائیٹ پر بھی دیا ہے۔ یہ انکی سائیٹ کا بینر اور لنک ہے۔
آپ کو اگر انکی کسی تحریر پر اشکال ہو توانہوں نے سائیٹ پر فورم کا لنک بھی دیا ہوا ہے، آپ وہاں ان سے وضاحت لے سکتے ہیں۔
http://www.seemyparadigm.webs.com