Search This Blog

Friday, 20 July 2012

عالمی تہذیبی جنگ Alami Tahezeebi jang

عالمی تہذیبی جنگ


ڈاکٹر احمد علی سراج

آج دنیا تہذیبی بحران کا شکار ہے اس تہذیبی ثقافتی بحران میں تہذیب و تمدن کی جنگ ہے۔ ایک طرف مغربی ثقافت اور دوسری طرف اسلامی ثقافت ہے۔ دنیا میں اسلامی ممالک کی حکومتیں اپنی اسلامی ثقافت اور تہذیب چھوڑ کر مغربی ثقافت کو اپنانے کو اپنی ترقی قرار دیتی ہیں جبکہ مغربی ثقافت کی طرف سے اسلامی تہذیب کو قدامت پرستی کا نام دے کر انتہا پسند گروپ کا نام دے دیا گیا جبکہ مغربی تہذیب کو روشن خیال لوگوں نے مہذب درجہ دے کر اسے اس دور میں کامیاب ترین ثقافت قرار دے رکھا ہے۔
مغرب نے اپنی مذہبی رسومات کو صرف چرچ تک محدود کر دیا ہے مذہب کا امور سلطنت اور سیاسی و سماجی اداروں میں کوئی دخل نہیں۔ اس طرح کی ایک خاص سوچ کو اسلامی ممالک میں لاگو کرنے کیلئے ذہن تیار کیا گیا تعلیمی اداروں کے نصاب میں تبدیلیاں لا کر اس سوچ کو پیدا کیا گیا تاکہ اسلام کو صرف مسجد تک محدود کر دیا جائے اور اسلامی تہذیب و تمدن کو قدامت پرستی کا نام دے کر نوجوان نسل کو اس سے دور کر دیا جائے۔ حکومتی اداروں کے علاوہ سیاسی و سماجی قوتیں اس مہم کو چلا رہی ہیں اس مہم میں میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے وہ اساسی ہے جس کی سرپرستی یہودی لابی کر رہی ہے۔ جبکہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو سماج سے کٹ کر قائم بھی نہیں رہ سکتا۔ دین اور سماج ایک ایسی اجتماعی زندگی ہے جس میں سماج کی تعمیر میں لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کا یہ کلمہ وحدت اور امت کے وجود میں مساوات اور بھائی چارہ سے ایک ایسی سماجی زندگی کو جنم دیتا ہے جس سے ملت کا تصور قائم ہے۔ اسلام میں عبادت محض مراسم بجا لانے کا نام نہیں بلکہ پوری زندگی اللہ کے قانون کے تابع گزارنے کا نام ہے۔
اسلام میں رہبانیت نہیں اسلام نہ پچاریوں اور پادریوں کا نظام ہے بلکہ اجتماعی دین فطرت ہے جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ اسلام سماج کی بنیاد ہے اسلام سیاست کو عبادت کا نام دیتا ہے اسلام فکری اور ملی سوچ میں پیوست ہے اسلام اور سلطنت کے چلانے میں عدل و انصاف کی بنیاد پر کامیاب تجربہ کا نام ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اس کے چلانے میں انبیاءکرام اور خاتم النبیین حضرت محمد رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا عمومی اور عملی اسوہ حسنہ دیکر اس کی تعمیر میں عبادات، معاشیات، سیاست اور قیادت کے ساتھ ملت کا تصور دیا جس طرح اسلام نے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فرمائی اس لئے اس تہذیبی بحران میں اسلامی نظام حیات ہی واحد حل ہے جو دین اور سماج کو ایک جگہ پر اکٹھا کرکے پوری کائنات میں غلبہ اور قائم ہونے کیلئے ہمارے رسول لے کر آئے۔ اس لئے ہمیں اسلام کے نظام حیات کو ضابطہ حیات قرار دینے کے ساتھ اسلامی تہذیب و تمدن کو اپنانے کا حکم دیا ہے۔ اسلام کی نظر میں زندگی تعاون اور ہمدردی اور مساوات کا نام ہے جس کی بنیاد اجتماعی عدل ہے۔ اس عدل کے قیام میں اسلام انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق امور سلطنت کا نظام چلاتا ہے جس سے معاشرہ میں امن خوشحالی اور آزادی فکر کے ساتھ سکون کی فضا میں اخوت اور مساوات کے تعلق سے سماج میں بھائی چارہ کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو سماج میں امتیاز و برتری کے ہر نشان کو ختم کرکے ذات پات رنگ و نسل کے فرق کے باوجود اخوت کے ترازو میں اکٹھا کرکے تقویٰ کے میزان پر افضلیت کا تاج پہناتا ہے جس سے اسلامی تہذیب کے بنیادی اصول جن میں حیا، حلال خوری، غیرت اور دینی حمیت کے ساتھ بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے۔ اسلام نے عورت کے درجہ کو بلند رکھتے ہوئے مردوں کے برابر قرار دےا ہے۔ مگر افسوس کہ مسلمان اپنی خوبصورت تہذیب کو چھوڑ بیٹھے اور مغرب کی چمک دمک کو دیکھ کر اسلامی تہذیب کو غلامی اور انتہا پسندی کے ساتھ قدامت پرستی کا طعنہ دے رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment