Search This Blog

Tuesday, 31 July 2012

تدبر بھی کیا تونے؟؟

تدبر بھی کیا تونے؟؟
زند گی اک سفر ہے سہا نا

 ہم لو گو ں کو یہ دنیا بہت بھلی پیاری لگتی ہے ،دنیا والے ہمیں بہت عزیز ہیں ،دنیا کے دھندے ،دنیا کی  رنگینیاں ،رونقیں ،رشتے ناتے ،سب بہت دل لبھانے والے ہیں مگر یہ دنیا اپنی تمام تر خوب صورتی کے باوجود لا ئق ِمحبت نہیں ہے ۔یہ نہایت فریب کے ساتھ عروج وزوال کے کھیل کھیلتی ہے ۔یہ بے وفا کبھی کسی ایک کی نہ ہو سکی ۔دنیا کی حقیقت قرآن کے نزدیک لہوو لعب یعنی کھیل تما شے کی  چیز ہے ۔یہ دنیا کی زندگی چند روزہ فائدہ اٹھانے کی شیٔ ہے اور جو آخرت ہے وہی ہمیشہ رہنے والی ہے ۔اگر ہم دنیا کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ یہ زندگی کھیل تماشے کی جگہ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک متعین ہدف اورمقررہ مقصد ہے ۔ یہ وقت جو بغیر کسی وقفے کے گزرتا ہے ،یہ لمحے جو پل پل میں ختم ہو رہے ہیں ،یہ سانسیں جو لمحہ بہ لمحہ کم ہو رہی ہیں ،اگر ان کی حیثیت کو نظر میں رکھیں تو یہ تسلیم کرنے میں پس وپیش نہ ہو گا کہ زندگا نی کی قدر کرنی چاہیے ،بالکل ایسے جیسے امتحان سے پہلے کا وقت قابل قدر ہو تا ہے بعد میں تو صرف افسوس ہی رہ جاتا ہے ۔اسی طرح زندگی کے ہر لمحے کی قدر کریں ۔اس زندگی کا وقت بھی انتہائی مختصر ہے اور اس سفر کی حقیقت بزرگوں نے اس مثال سے سمجھایا ہے کہ اگر کوئی آدمی ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کا ارادہ کرکے گاڑی میں بیٹھے ،گاڑی کچھ دیر چلنے کے بعد ایک جگہ پر محض کچھ دیر کے لئے ٹھہرتی ہے تاکہ مسافر کچھ دیر آرام کریں اور اپنے مختصر تقاضے پورے کر سکیں ،یعنی اگر کسی کو قضائے حاجت ہے تو کر سکے یا کسی نے اگر پانی وغیرہ پینا ہے تو پی سکے تاکہ آگے کا سفر آسان ہو مگر انہی مسافروں میں سے کوئی مسافر یہ سوچے کہ میں اس جگہ پر جہاں گاڑی کچھ دیر کے لئے رکی ہو ،مکان کی تعمیر کا پلان بنالوں یا اپنے مستقل قیام کے بارے میں سوچوں تو ہر کوئی ذی حس اس کو بے وقوف کہے گا ۔کیوں کہ اس کی منزل وہ ہے نہیں جہاں گاڑی  نے کچھ دیر کے لئے پڑآؤ ڈالا ہے بلکہ اس کی منزل تو وہ ہے جہاں پر اس نے اپنے کسی کام کی غر ض سے جانا ہے ۔بعینہ اسی زندگی کی مثال بھی ہے کہ یہ ایک گاڑی ہے جو چلتے ہوئے اگلے سفر کی تیاری کے لئے کسی مخصو ص جگہ پر کچھ دیر کے لیے ٹھہر گئی ہے۔اب یہاں پر صرف اور صرف اگلے سفر کی تیاری کرنی ہے تاکہ اچھی طرح اپنی منزل پر پہنچاجائے ۔اس لئےہمیں غور وفکر کرنا چاہیے کہ ہماری اصل منزل آخرت کی منزل ہے جس کی ہم نے اس زندگی میں تیاری کرنی ہے۔غالبؔ نے سفر زندگی کے اس آ یٔنے کا یو ں شاعرانہ انداز میں مشا ہدہ کیا ہے  ؎
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آ گے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
شاعر لو گ کیا کہتے ہیں جڑوری نہیں کہ ان کے وادات قلبی کے ساتھ ہر ایک کو اتفاق ہو۔ زندگی ہمارے نزدیک ایک بڑی نعمت اور عظیم اما نت ہے ۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کے ہر لمحے کی قدر کریں ،گناہوں سے بچتے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کریں ،ذکرِ الہی ،نیک لوگوںکی صحبت ،نماز کی پابندی، نیک کا مو ں کی انجا م دہی، ایک دوسرے کے دکھ درد کو با نٹنے کی انسانی خدمت، بلا کسی بھیدبھاؤ کے اوروں کے کام آ نے کا بے لو ث جذ بہ، یہ چند ایسے افعال ہیں جو ہمیں زندگی کی مٹھاس کا مزا چوسنے، گناہوں سے بچنے اور اسلام کی رحمتو ں سے مستفید ہو نے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح گناہوں اور غلط کا ریو ں سے سے بچنے کا ایک آزمودہ نسخہ ذکرِ آخرت ،موت کی سختی اور قبر کے عذاب کو ہمہ وقت یاد کرنا ہے۔پتھر سے پتھر دل بھی اس ذکر  الہٰی سے موم ہو جاتے ہیں ۔ ہمیں سمجھنا چا ہیے کہ نہ کوئی خوشی پائیدار ہے نہ کوئی غمِ دائمی ہے ۔ ہم ہر موقع پر موت کو سامنے رکھیں کیو ںکہ یہ زندگی کی ایک اٹل حقیقت ہے ،یہ زندگی کا سچا ہم سفر ہے ،زندگی کے ہر قدم کے ساتھ اٹھنے والا دوسرا قدم موت کا ہے ۔جس دن موت کا قدم زندگی سے پہلے اٹھا وہ دن ،وہ لمحہ ،وہ قدم زندگی کا آخری قدم ہو گا ۔ اللہ عز وجل کاارشاد ہے :’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں اور تم ہماری طرف لوٹ کر آؤگے۔‘‘ یہ خدائے جبار وقہار کا فیصلہ ہے ،اس کے ساتھ ہی ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے مختلف قسم کی پریشانیوں اور تکالیف کو صبر وحوصلے کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے کیوں کہ کوئی تکلیف ،موت کی تکلیف سے بڑ ھ کر نہیں ہے ۔
ہم لوگ اکثر الاوقات دکھ،صدمے یا تکلیف میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ حالت جو بھی ہو ہمیں صبر و سکو ن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے ان لوگوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے جو بسترِمرگ پر کئی سالوں سے پڑے رہنے کے با وجود صبر کا دامن نہیں چھو ڑتے ہیں ۔جب کبھی ہمارا پا لا تکلیفوں سے پڑ ے تو اس وقت ہماری نگاہ میں سا مانِ راحت رہناچاہیے ۔مثلا اگر سردی سے تکلیف ہو رہی ہے تو ہم بآ سانی گرمی کا سامان کر سکتے ہیں اور اسی طرح اگر گرمی سے تنگ ہو رہے ہیں تو ٹھنڈک کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ہا ں یہ صورت بھی کبھی لا حق ہو سکتی ہے کہ راحت کا ساما ن نہ ہو سکے تو اس حال میں تقدیر الہٰی پر راضی برضا ہو نا تو کل اورتدبر کا تقاضا ہے۔ عام حالا ت میں ہم آ سائش کا ساما ن خود کو جوں تو ں بہم پہنچا سکتے ہیں۔ضروت کے اعتبار سے ہم اپنا آب وہوا تبدیل کر سکتے ہیں ،اپنے اردگرد کا ماحول بدل سکتے ہیں ، اپنے پیاروں سے مل کر تنہا ئی کا منفی احساس کم کر سکتے ہیں ،معصوم بچوں کے ساتھ کچھ وقت کاٹ  کر دنیا کی پر یشانیو ں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں ۔ تاہم عا  لم برزخ کا تصور کیجیے جہاں ہمارے اپنے ہی اعمال کے طفیل کبھی نہ بدلنے والے حالات سے ہما را سامنا ہوگا۔  یہ با ت محتاج تشریح نہیں کہ انسان چاہے کتنی غذائیں کھالے ،کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کرلے ، کتنا ہی سامان دفاع پل پل اپنے پا س جمع رکھے ، وہ وقتِ مقررہ سے ایک لمحہ بھی زیادہ نہیں جی سکتا اور وہ کتنی ہی کوشش کر لے ،کتنا ہی زور لگا لے ،اپنے وقت سے ایک منٹ بھی پہلے نہیں مر سکتا ۔زندگی اور موت بلا شرکتِ غیرے اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ سب کچھ لوحِ محفوظ میں مکتوب ہے ۔   اس اصول کو مان کر چلنے والے حا لا ت کی بر ہمی یا ان کی مو افقت کو پر کا ہ کی بھی اہمیت نہیں دیتے، ان کی توقعات اور امیدوں کا سارا دار ومدار اللہ کی مشیت سے جڑا ہو تا ہے۔ اس لئے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ زندگی کی رنگینیوں میں کھو کر اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور مہلتوں میں گم گشتہ راہ ہ ہو کر خدا کے حکم سے روگردانی کر نے کا گناہ نہیں کر نا چا ہیے بلکہ اپنے آ پ کوصراط مستقیم  پر رکھنے کے لئے ہمیں قیامت کی علامات کو یاد رکھنا ہوگا ،جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ کو باہر نکال پھینکے گی،جب زمین ہموار کر دی جائے گی ،جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب تارے جھڑپڑیں گے اور جب دریا بہہ کر ایک دوسرے میں مل جائیں گے اور جب قبر یں اُکھیڑ دی جائیں گی ،جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بے نور ہو جائیںگے اور جب پہاڑ چلائے جائیں تو خود سوچیے اس وقت کا عالم کیا ہو گا؟ا ہم سب خالق کائنات کی عدالت میں اپنا اپنا سروس بک یا نا مۂ اعمال لے کر حاضر ہو ں گے ۔ یہ ہماری جوابدہی کا دن ہو گا ، ہما رے گنا ہو ںاور ثوابو ں کو اللہ کی میزان میں وزن دینے کا وقت ہو گا ، ہما ری د و لت، شہرت ، اثر ورسوخ ، چا لا کی، چا پلو سی ، چرب زبا نی، ڈنڈی ماری، جھو ٹ ، مکرو فریب کا سارا ڈھکو سلہ دھڑام سے کر جا ئے گا۔ اور اللہ کا عد بے لا گ ہو گا ۔ اس عدالتی کارروائی میں کا میاب ہو نے کے لئے رب کا ئینات ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے   ؎
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
کوئی بھی انسان جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو یہ وقت اس کی سعادت وشقاوت کو اس کے نامہ اعمال میںدرج کرنے کی گھڑی ہوتی ہے ۔اگر ایک نوجوان سنجیدگی کے ساتھ اس دور کے شروع ہی میں اپنا مقصدِ حیات سمجھ لے اور اسی کی تکمیل کے لئے پوری طرح اپنی جوانی، صلا حیتوں اور جسما نی قویٰ کو نیک عملی اور بلند کردار میں کھپا لے تو زندگی میں گریڈ پرمو شن اورکامیابی کا رزلٹ سننے کے تمام جا ں گداز مرحلے بڑی آسانی کے ساتھ طے کئے جا سکتے ہیں بلکہ وہ اللہ کی با رگاہ میں قبو لیت کی خلعت سے فضل وکمال کے اعلی درجے تک پہنچ سکتا ہے ، البتہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس نعمتِ خداوندی کی قدرو قیمت سمجھتے ہوئے شباب کا قیمتی دور گزارا جا ئے ۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت کو چھوڑ کر ہماری ریاست کانوجوان مغرب کے نت نئے فتنہ انگیز تما شوں کے سمندر میں ڈوبا ہواہے۔ شایدزندگی کا مقصد اس نے محض یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ رنگ رلیاں منانے کے لئے ہے اور وہ اپنی قیمتی جوانی کو غلط  رُخ اختیار دے رہا ہے۔ کر رہے ہیں ۔ ہماری ریاست میں مختلف النوع جلسے جلوس اور کا نفر نسیں تو روز ہو رہی ہیں مگر اصلاحِ معاشرہ یا جوانوں کو سنبھا لنے سدھا رنے کے نام سے کوئی اجلا س ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔ لہٰذا والدین ،مساجد کے ائمہ ،مدارس کے علماء کرام ، سما جی اصلاح کارو ں، معزز شہریوں نیز مبلغین ، دانشوروں ، شعراء وادیبو ںاور صحا فیو ں کی یہ نا قابل التواء ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حتی الا مکا ن نوجوانو ں کو زندگی کے سہا نے سفرکا اصل مفہوم سمجھا نے ، اس کے آداب اور اصو لو ں پر چلا نے، برائیوں سے بچا نے ا ور اچھا ئیو ں کو اپنا نے اور اس کا ر گا ہ ِحیا ت کے ہر امتحا نی پر چے میں اول آ نے کا ہنر اور فن کاسلیقہ سکھا ئیں ۔ اس کے لئے ہر طرح کی کا وشو ں کی اشد ضرو ر ت ہے ۔ اگر اس اہم اصلا حی مشن کی ذمہ داریو ں سے دامن جھا ڑ گئے تو نتیجہ بھیانک ہوگا ۔ خود اصلا ح یا فتہ جوانوں کو حالاتِ حاضرہ پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیے کہ کہاں برائیا ں کہا ں پنپ رہی ہیں اور ان کا فی الفور ازالہ کر نے میں واضح حکمت عملی کے ساتھ سدّباب کر نے میں انہیں آ گے آ نا چا ہیے تاکہ ہماری حیا ت اجتما عی کا سفر خو شحا لی اورکا میا بی کے سفینہ میں آ رام سے جا ری رہے اور ہم سب  خود سدھر کر آنے والی نسلوں کے لئے منزل آ شنا ئی کاباد نما بن سکیں۔ البتہ ہمیں یہ با ت گرہ میں باندھ لینی چا ہیے کہ ہماری زندگی کا سفر، اس کے ہر پڑاؤ  اور ہرابتلا ء وآ زما ئش میں کا میابی کے لئے زاد راہ قرآن وسنت پر عمل کرتے ہوئے حا صل کیا جا ئے تو یہ سارا سفرآ رام واطمینان سے گزر جا ئے گا۔ با لفا ظ دیگرانسانی زندگی کے دنیو ی سفر کا نچو ڑرضائے الہی  اور اتبا ع رسول ؑکا حصول ہو تو ہر قدم پر مز ے ہی مزے ہیں بلکہ ہر سانس کا میا بی کا اعلا ن ہے  ؎
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
………
shahzadanwari@yahoo.in
Courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

No comments:

Post a Comment