Search This Blog

Wednesday 25 July 2012

ماہ صیام: مہینہ نعت خوانوں کا

ماہ صیام: مہینہ نعت خوانوں کا


معصومیت کا اپنا ہی حُسن ہوتاہے ۔اس کے اپنے تحائف ہوتے ہیں …یہ وہ زمانہ ہوتاہے جب سیاہی میں بھی حسن نظر آتاہے ۔ بیشتر اوقات جب میں اپنے بچپن پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے لگتاہے کہ ہم معصومیت کی تجسیم تھے ۔ ہم نے حقیقی معنوں میں ریت کے ایک ’ذرّے میں دنیا دیکھی‘ اور ’جنگلی پھول میں جنت دیکھی ۔مجھے اور میرے ہم سروں کو یقین تھاکہ کمرے کے وسط میں ریشمی تارسے لٹکے ہوئے بجلی لیمپ پرجوپتنگے دھاوابول دیتے تھے وہ ہمارے فوت شدہ پردادوں اور پردادیوں کی روحیں تھیں۔تار اُسی طرح بل دار تھیں جیسے کہ شام کے وقت کسی دوشیزہ کے بالوں کے لٹ ہوا کرتے تھے ۔ہم اپنے بزرگوں کی روحوں کے تئیں احترام کے طور پر ہمارے گھر کے اندر آنے والے شام کے ان مہمانوں کو کبھی بھی تکلیف نہیں پہنچاتے تھے ۔مجھے اکثریہ یقین ہوجاتاتھاکہ جوسب سے بڑا پتنگا لیمپ سے ٹکراتاہے وہ میرا داداپردادا یا پردادی ہے ۔ ماہ صیام شروع ہوتے ہی ہمیں آباواجداد کے تئیں وابستگی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی تھی… اورہم اپنے آبا واجداد کی روحوں کے تئیں زیادہ حساس ہوجاتے تھے ۔
بچوں میں ماہ صیام کا انتظار شب برأت سے شروع ہوتا تھا ۔ مقدس مہینے کے چاند کا عکس رنگ برنگے پھولوں کی بھوج پتر کی چھت پر پانی کے ٹب میں دیکھتے تھے ۔ یہ سماں دیکھ کر ہمارے دل بلیوں اُچھلتے تھے ۔ کچھ بے مثل واقع ہوا ، کچھ ناقابل بیان واقع رونما ہوا ۔دفعتاً روحانیت کا ماحول ہماری چھوٹی سی کائنات پر غالب ہوا۔ سورج طلوع ہونے کے بعد جس طرح ہمارے مرغزاروں اور پہاڑوں سے ابر غائب ہوتاتھا اسی طرح دنیاوی مشغولیات ایتھر کی طرح تحلیل ہوتی تھیںاور فضاء درود واذکار سے گونج اٹھتی تھی جیسے کہ مولانا رومیؒ کے الفاظ میں:
میں اس دنیا میں یہ سننے کے لئے آیا ہوں ۔
ہرگیت جو زمین نے اُس وقت سے گائے میں جب اِذن باری تعالیٰ سے یہ معرض وجود میں آئی اور اس نے گھومنا شروع کیا۔
فقاری اور غیر فقاوی جانوروں کا گایا ہوا ہر نغمہ پہاڑ
 میدان اور درخت اور عورت اور بچہ کاگایا ہوا ہر نغمہ
ندی نالے اور چٹان کا گایا ہوا ہر نغمہ
بانسری ، ا ور چنگ پرگایا ہوا ہرنغمہ
سونے ، زمرد اور آتش کا گایا ہوا ہر نغمہ
برکتوں اور رحمتوں کا یہ مہینہ حقیقی معنوں میں وعظ خوانوں اور نعت خوانوں کا مہینہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ اعلیٰ پایہ کے واعظین کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد ہوتا کرتی تھی ۔ وہ مخصوص مساجد اور زیارت گاہوں میں وعظ تبلیغ کرتے تھے ۔ چھوٹے چھوٹے واعظین دور دراز علاقوں سے ماہ صیام شروع ہونے سے قبل ہی شہر آیا کرتے تھے ۔یہ چھوٹے چھوٹے واعظین مسجدوں اور زیارت گاہوں کے صحنوں میں وعظ پڑھاکرتے تھے ۔ ان میں وعظ خواں کم اور نعت خواں زیادہ ہوتے تھے ۔ آج تک میرے ذہن پر اِن میں سے چند ایک کے نقوش مرتسم ہیں ۔ یہ لوگ سفید کپڑے کا فرن ، بڑی بھاری پگڑیاں پہنے ہوتے تھے ۔ اُن کے سرمنڈے ہوئے ہوتے تھے ۔مہندی لگی ہوئی داڑھی بہت ہی تراش خراش شدہ ہوا کرتی تھی اور ان کے بائیں کندھے پر ایک سفید چادر لٹکی ہوا کرتی تھی ۔ ان کو دیکھ کر ایسا لگتا تھاکہ وہ ہمارے اپنے یا عہد وسطیٰ کے ایران کی لوک کہانیوں کے کردار تھے ۔
بعضوں کولحن داودی کے لئے مختلف پرندوں کے نام دیئے گئے تھے جیسے کہ بلبل ، کوئل ، سریلی چڑیا اور کستوری۔ کئی ایک جامع مسجد کے تناور چناروں کے سائے میں وعظ وتبلیغ کرتے تھے۔ یہ وہ وقت جب میرواعظ مولوی محمد یوسف شاہ کو اُس وقت کے وزیراعظم نے جلا وطن کیا تھا۔ کئی واعظین کو ہ ماران ،جس کے پس منظر میں جھیل نگین اور جھیل ڈل ہیں ، ان کے سننے والوں میں زیادہ بچے اور خواتین ہوا کرتی تھیں ۔ مجھے کچھ خواتین رضاکاروں کے چہرے اب بھی اچھی طرح یاد ہیں جو اُن واعظین اورنعت خوانوں کے لئے کستورپنڈمخدوم صاحب کے مقام پر اجتماع میں عطیات جمع کرتی تھیں ۔
کچھ نعت خواں ہمہ دان تھے ۔ انہیں نہ صرف کشمیری شاعروں عبدالاحد نادمؔاور محمودؔ گامی بلکہ نہایت ہی عظیم فارسی شعراء رومی ؔ، حافظؔ، جامیؔاور امیر خسروؔ کے نعت یاد ہوا کرتے تھے ۔ کئی لڑکوں کومقبول عام فارسی نعت از بر تھے اگرچہ وہ فارسی زبان سے نابلند تھے ۔بیشتر نعت خواں حاضرین کے ساتھ نعت پڑھا کرتے تھے ۔ مجھے اور میرے ہم سروں کو حضرت امیر خسروؔکی مشہور نعت یاد تھی : خط ِ سبزو لب لال ورخ زیباداری ، حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری…اور کستورپنڈسے واپس آتے ہوئے ہم یہ نعت زور سے کہتے تھے ۔ چھوٹے چھوٹے مبلغین اور نعت خوانوں کی شہرسرینگر میں آمد کی روایت 1970ء تک جاری تھی ۔
Courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

No comments:

Post a Comment