Search This Blog

Monday, 9 July 2012

بندگی کا تقاضا


بندگی کا تقاضا

 اسلام کا تصورِ عبادت یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو۔ آپ اپنے آپ کو دائمی اور ہمہ وقتی ملازم سمجھیں۔ آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ اس دنیا میں آپ جو کچھ بھی کریں، خدا کی شریعت کے مطابق کریں۔ آپ کا سونا اور جاگنا، آپ کا کھانا اور پینا، آپ کا چلنا اور پھرنا، غرض سب کچھ خدا کے قانونِ شرعی کی پابندی میں ہو۔ خدا نے جن تعلقات میں آپ کو باندھا ہے، ان سب میں آپ بندھیں، اور ان کو اس طریقے سے جوڑیں یا توڑیں جس طریقے سے خدا نے انھیں جوڑنے یا توڑنے کا حکم دیا ہے۔ خدا نے جو خدمات آپ کے سپرد کی ہیں اور دنیوی زندگی میں جو فرائض آپ سے متعلق کیے ہیں، ان سب کا بار آپ نفس کی پوری رضامندی کے ساتھ سنبھالیں اور ان کو اس طریقے سے ادا کریں جس کی طرف خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے آپ کی رہنمائی کی ہے۔ آپ ہروقت ہر کام میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں، اور سمجھیں کہ آپ کو اپنی ایک ایک حرکت کا حساب دینا ہے۔ اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ، اپنے محلے میں ہمسایوں کے ساتھ، اپنی سوسائٹی میں دوستوں کے ساتھ اور اپنے کاروبار میں اہلِ معاملہ کے ساتھ برتاؤ کرتے وقت ایک ایک بات اور ایک ایک کام میں خدا کی مقرر کردہ حدود کا آپ کو خیال رہے۔ جب آپ رات کے اندھیرے میں ہوں اور کوئی نافرمانی اس طرح کرسکتے ہوں کہ کوئی آپ کو دیکھنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ کو یہ خیال رہے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے۔ جب آپ جنگل میں جارہے ہوں اور وہاں کوئی جرم اس طرح کرسکتے ہوں کہ کسی پکڑنے والے اور کسی گواہی دینے والے کا کھٹکا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا کو یاد کر کے ڈر جائیں اور جرم سے باز رہیں۔ جب آپ جھوٹ، بے ایمانی اور ظلم سے بہت سا فائدہ حاصل کرسکتے ہوں اور کوئی آپ کو روکنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا سے ڈریں اور فائدے کو اس لیے چھوڑ دیں کہ خدا اس سے ناراض ہوگا۔ اور جب سچائی اور ایمان داری میں سراسر آپ کو نقصان پہنچتا ہو اس وقت بھی نقصان اُٹھانا قبول کرلیں، صرف اس لیے کہ خدا اس سے خوش ہوگا۔
پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور اللہ اللہ کرنا عبادت نہیں ہے، بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر اور دنیوی زندگی کی ساری ذمہ داریوں کو سنبھال کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے۔ ذکر الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جاری ہو، بلکہ اصلی ذکرالٰہی یہ ہے کہ جو چیزیں خدا سے غافل کرنے والی ہیں ان میں پھنسو اور پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنیا کی زندگی میں جہاں قانونِ الٰہی کو توڑنے کے بے شمارمواقع، بڑے بڑے نقصانوں کا خوف لیے ہوئے سامنے آتے ہیں، وہاں خدا کو یاد کرو اور اس کے قانون کی پیروی پر قائم رہو۔ حکومت کی کرسی پر بیٹھو اور وہاں یاد رکھو کہ مَیں بندوں کا خدا نہیں ہوں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ عدالت کے منصب پر متمکن ہو اور وہاں ظلم پر قادر ہونے کے باوجود خیال رکھو کہ خدا کی طرف سے مَیں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ زمین کے خزانوں پر قابض و متصرف ہو اور پھر یاد رکھو کہ مَیں ان خزانوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ امین ہوں اور پائی پائی کا حساب مجھے اصل مالک کو دینا ہے۔ فوجوں کے کمانڈر بنو اور پھر خوفِ خدا تمھیں طاقت کے نشے میں مدہوش ہونے سے بچاتا رہے۔ سیاست و جہاں بافی کا کٹھن کام ہاتھ میں لو اور پھر سچائی، انصاف اور حق پسندی کے مستقل اصولوں پر عمل کر کے دکھاؤ۔ تجارت اور مالیات اور صنعت کی باگیں سنبھالو اور پھر کامیابی کے ذرائع میں پاک اور ناپاک کا امتیاز کرتے ہوئے چلو۔ ایک ایک قدم پر حرام تمھارے سامنے ہزار خوش نمائیوں کے ساتھ آئے اور پھر تمھاری رفتار میں لغزش نہ آنے پائے۔ ہر طرف ظلم اور جھوٹ اور دغا اور فریب اور بدکاری کے راستے تمھارے سامنے کھلے ہوئے ہوں اور دنیوی کامیابیاں اور مادی لذتیں ہر راستے کے سرے پر جگمگاتے ہوئے تاج پہنے کھڑی نظر آئیں اور پھر خدا کی یاد اور آخرت کی بازپُرس کا خوف تمھارے لیے پابندِ پا بن جائے۔ حدود اللہ میں سے ایک ایک حد قائم کرنے میں ہزاروں مشکلیں دکھائی دیں، حق کا دامن تھامنے اور عدل و صداقت پر قائم رہنے میں جان و مال کا زیاں نظر آئے، اور خدا کے قانون کی پیروی کرنا زمین و آسمان کو دشمن بنا لینے کا ہم معنی ہوجائے، پھر بھی تمھارا ارادہ متزلزل نہ ہو اور تمھاری جبیں عزم پر شکن نہ آئے۔ یہ ہے اصلی عبادت! اس کا نام ہے یادِ خدا! اِسی کو ذکر الٰہی کہتے ہیں، اور یہی وہ ذکر ہے جس کی طرف قرآن میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ: فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo(الجمعۃ ۶۲:۱۰) ’’پس جب نماز ختم ہوجائے تو پھیل جاؤ زمین میں اور تلاش کرو اللہ کے فضل میں سے اور یاد کرو اللہ کو بہت تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘.....
lاسلام میں مراسمِ عبادت کی حیثیت: یہ خلاصہ ہے اسلامی تصورِ عبادت کا۔ اسلام انسان کی پوری دنیوی زندگی کو عبادت میں تبدیل کردینا چاہتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی یہ بات لازم آجاتی ہے کہ جس اللہ کو آدمی نے اپنا معبود تسلیم کیا ہے، اس کا عبد، یعنی بندہ بن کر رہے، اور بندہ بن کر رہنے ہی کا نام عبادت ہے۔
کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے زبان سے ادا کیا جاسکتا ہے، مگر عملاً آدمی کی ساری زندگی کا اپنے تمام گوشوں کے ساتھ عبادت بن جانا آسان کام نہیں، اس کے لیے بڑی زبردست ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاص طور پر ذہن کی تربیت کی جائے، مضبوط کیرکٹر پیدا کیا جائے۔ عادات اور خصائل کو ایک سانچے میں ڈھالا جائے، اور صرف انفرادی سیرت ہی کی تعمیر پر اکتفا نہ کرلیا جائے، بلکہ ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے جو بڑے پیمانے پر افراد کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے والا ہو، اور جس میں جماعت کی طاقت فرد کی پشت پناہ، اس کی مددگار اور اس کی کمزوریوں کی تلافی کرنے والی ہو۔ یہی غرض ہے جس کے لیے اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی عبادتیں فرض کی گئی ہیں۔
ان کو عبادت کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہی عبادت ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اُس اصلی عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہیں۔ یہ اس کے لیے لازمی ٹریننگ کورس ہیں۔ انھی سے وہ مخصوص ذہنیت بنتی ہے، اس خاص کیرکٹر کی تشکیل ہوتی ہے، منظم عادات و خصائل کا وہ پختہ سا پختہ بنتا ہے، اور اس اجتماعی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جس کے بغیر انسان کی زندگی کسی طرح عبادتِ الٰہی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ان چار چیزوں کے سوا اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے۔ اسی بنا پر ان کو ارکانِ اسلام قرار دیا گیا ہے، یعنی یہ وہ ستون ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی اور قائم رہتی ہے۔ (اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، ص ۱۱۔۱۸)

No comments:

Post a Comment