Search This Blog

Sunday 8 July 2012

اصحاب رسول ؐ کی معاشی زندگی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ

اصحاب رسول ؐ کی معاشی زندگی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ

- عابد علی جوکھیو

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے تھے۔ آپؓ نے اپنے والد کے ساتھ اسلام قبول کیا، جبکہ اُس وقت آپ سنِ بلوغت کو بھی نہ پہنچے تھے۔ غزوہ بدر کے وقت آپ چھوٹے تھے اس لیے جنگ میں شریک نہ ہوسکے۔ سب سے پہلی جنگ، جس میں آپؓ نے شرکت کی تھی وہ غزوہ خندق تھی۔ غزوہ موتہ میں حضرت جعفر بن ابی طالب کے ساتھ شرکت کی تھی۔ آپؓ جنگ یرموک اور فتح مصر و افریقہ میں شامل تھے۔ آپؓ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد اتباع کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اترتے تھے وہیں آپؓ اترتے، جہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی وہاں نماز پڑھتے تھے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے نیچے اترے تھے تو حضرت ابن عمرؓ اس کو پانی دیا کرتے تھے کہ خشک نہ ہوجائے۔ نافعؓ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمرؓ نے اپنی ایک زمین دو سو اونٹوں کے عوض بیچ دی، ان میں سے سو اونٹنیاں جہاد کے لیے دے دیں، اور جسے دی تھیں اسے یہ تاکید کی کہ جب تک تم ان اونٹنیوں کو لے کر وادی قریٰ سے نکل نہ جائو اُس وقت تک انہیں نہ بیچنا۔ (ابونعیم) حضرت نافعؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عمر ؓ بیمار پڑگئے، ان کے لیے انگوروں کا ایک خوشہ ایک درہم میں خرید کر لایا گیا۔ اتنے میں ایک مسکین نے صدا دی، حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ یہ خوشہ اسے دے دو، اور وہ اسے دے دیا گیا۔ ایک شخص اس سائل کے پیچھے چلا گیا۔ اس نے وہ خوشہ اسی سائل سے ایک درہم میں واپس خریدا اور اس کو لے کر حضرت عبداللہ ؓ کے پاس آگیا۔ اتنے میں وہی مسکین دوبارہ آگیا اور سوال کیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ خوشہ اس کو دے دو۔ اس کے بعد ایک اور شخص اس سائل کے پیچھے گیا اور اس سے یہ خوشہ ایک درہم میں خریدکر آپؓ کی خدمت میں لے آیا۔ پھر تیسری مرتبہ وہی مسکین آیا اور اس نے سوال کیا۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: یہ خوشہ اسے دے دو، اور وہ دے دیا گیا۔ پھر ایک اور شخص اس مسکین کے پیچھے چلا اور اس سے پھر ایک درہم کے عوض وہ خوشہ لے لیا، اس مسکین نے ارادہ کیا کہ پھر مانگنے جایا جائے، مگر اسے وہاں جانے سے منع کردیا گیا۔ بالآخر وہ خوشہ حضرت ابن عمرؓ کو کھانے کے لیے دے دیا گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ اگر ابن عمرؓ کو یہ پتا چل جاتا کہ اس خوشہ کی وجہ سے اس مسکین کو روکا گیا ہے تو وہ اسے ہرگز نہ چکھتے۔ (ابونعیم) ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ ابن عمرؓ کو انگور کی خواہش ہوئی اور آپؓ بیمار بھی تھے، چنانچہ آپؓ کے لیے میں نے ایک درہم میں انگور کا خوشہ خریدا اور اسے لے کر آپؓ کے سامنے رکھ دیا، باقی واقعہ پہلی حدیث جیسا ہی ہے۔ مگر آخر میں اس طرح ہے کہ ہر دفعہ سائل لوٹ کر آتا اور حضرت ابن عمرؓ ہر مرتبہ وہ خوشہ اسے دینے کا حکم فرماتے، یہاں تک کہ میں نے سائل سے تیسری یا چوتھی مرتبہ کہا: تجھ پر بڑا افسوس ہے، تجھے شرم نہیں آتی! اور میں یہ خوشہ اسی سائل سے ایک درہم میں خریدکر حضرت ابن عمرؓ کے پاس آیا اور آپؓ نے اسے کھالیا۔ (الاصابہ) محمد بن قیسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بغیر مساکین کے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کی وجہ سے ان کا جسم کمزور ہوگیا تھا۔ بعض دفعہ مساکین ہی میسر نہ آتے اور بعض دفعہ پورا کھانا مسکینوں کو ہی کھلا دیتے اور خود کچھ بھی نہ کھاتے یا کم کھاتے۔ ابی بکر بن حفضؓ کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اُس وقت تک کھانا نہ کھاتے جب تک کہ ان کے دسترخوان پر کوئی یتیم نہ ہوتا۔ (ابونعیم) حضرت حسنؓ کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن عمرؓ جب صبح یا شام کھانا کھاتے تو آس پاس کے یتیموںکو بلاکر شریک کرتے۔ ایک دن صبح کا کھانا کھانے بیٹھے، کسی یتیم کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا، وہ یتیم نہ ملا۔ آپؓ کے پاس گھلا ہوا ستو ہوتا تھا جس کوکھانا کھانے کے بعد پی لیا کرتے تھے۔ لوگ کھانے سے فارغ ہوچکے، اب آپؓ اپنے ہاتھ میں ستوئوں کا پیالا لیے اسے پینے ہی والے تھے کہ اتنے میں وہ یتیم بھی آپہنچا۔ آپ ؓ نے ستو اس یتیم کو دے دیا اور فرمایا: اسے لو، میرا یہ خیال ہے کہ تم خسارے میں نہیں رہے۔ میمون بن مہرانؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ کی بیوی سے لوگوں نے شکایت کی کہ آپ اپنے میاں کی طرف توجہ نہیں کرتیں؟ آپؓ کی اہلیہ نے جواب دیا کہ میں ان کا کیا کروں؟ جب بھی ہم ان کے لیے کھانا بناتے ہیں تو یہ اس کھانے پر کسی نہ کسی کو بلاکر اسے کھلا دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ ان کی اہلیہ نے ان مسکینوں کی طرف (جو ان کے راستے میں اس انتظار میں بیٹھے رہتے تھے کہ آپؓ مسجد سے نکلیں اور ہم ساتھ ہولیں) پہلے سے ہی کھانا بھیج دیا، اور انہیں کہہ دیا کہ اگر وہ تم کو بلائیں تو ان کے پاس نہیں آنا۔ اور ہوا بھی ایسا کہ مسکین نہیں آئے۔ حضرت ابن عمرؓ نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ کیا تم لوگوں کا یہ ارادہ ہے کہ آج رات میں کھانا نہ کھائوں؟ چنانچہ اس رات آپؓ نے کھانا نہیں کھایا۔ (ابن سعد) حضرت ابوجعفر قاریؓ کہتے ہیں کہ مجھ کو میرے مالک نے حکم دیا کہ تم حضرت ابن عمرؓ کے ساتھ رہو اور ان کی خدمت کیا کرو۔ ابوجعفر کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ جس بھی بستی میں جاتے وہاں کے رہنے والوں کو بلاتے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے، اس کھانے میں اس بستی کے چھوٹے، بڑے سب شریک ہوتے۔ کسی آدمی کے حصے میں دو لقمے اور کسی کے حصے میں تین لقمے آتے۔ ایک مرتبہ آپؓ جُحفہ میں پہنچے، آپؓ کو دیکھ کر لوگ جمع ہوگئے، وہاں ایک حبشی غلام برہنہ بھی تھا، حضرت ابن عمرؓ نے اس کو بھی بلایا۔ اس غلام نے کہا کہ مجھے لوگوں کی بھیڑ میں بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں مل رہی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمرؓ کو دیکھا کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اس غلام کو اپنی چھاتی سے لگالیا۔ (ابونعیم) دوسری روایت اس طرح ہے کہ ابو جعفر قاریؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمرؓ کے ساتھ مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کے لیے نکلا، حضرت ابن عمرؓ کے پاس ثرید (ایک قسم کا کھانا) کا ایک بڑا پیالہ تھا۔ اس پیالہ پر ان کے بیٹے، ان کے ساتھی اور جو کوئی بھی آتا جمع ہوجاتا اور کھاتا، یہاں تک کہ ان میں سے بعض، جگہ کی تنگی کی وجہ سے کھڑے ہوکر کھاتے۔ حضرت ابن عمرؓ کے ساتھ ان کا ایک اونٹ تھا، اس پر چمڑے کے دو مشکیزے ہوتے جو نبیذ اور پانی سے بھرے ہوتے تھے، ہر آدمی کو اس نبیذ کے ستو کا ایک بڑا پیالہ ملتا جس سے وہ پیٹ بھرتا اور اس کی کوکھ نکل آتی۔ (ابن سعد) معنؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابن عمرؓ دسترخوان تیار کرتے، اور ان کے پاس سے کوئی ایسا آدمی گزرتا جس کی کچھ شان و شوکت ہوتی تو اس کو دسترخوان پر نہ بلاتے جبکہ دیگر لوگ ان شان و شوکت والوں کے اپنے دسترخوان پر بلاتے۔ جب کوئی مسکین انسان گزرتا توآپؓ اس کو بلالیتے اور یہ امیر لوگ اس کو نہ بلاتے۔ ان کے اس عمل پر حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ تم لوگ ایسوں کو بلاتے ہو جو اس کی خواہش نہیں رکھتے، اور ایسوں کو چھوڑ دیتے ہو جنہیں اس کی خواہش (ضرورت) ہے۔ (ابن سعد) حضرت میمون بن مہران ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عمرؓ کے پاس بارہ ہزار دینار آئے، اُس وقت میں بھی وہیں تھا۔ وہاں سے اٹھنے سے پہلے ہی آپؓ نے ان سب کو تقسیم کردیا۔ حضرت نافعؓ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہؓ نے حضرت ابن عمرؓ کے پاس ایک لاکھ کی رقم بھیجی۔ ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ ان کے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہا۔ حضرت ایوب بن وائلؓ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو مجھ سے ابن عمرؓ کے ایک پڑوسی نے بیان کیا کہ حضرت ابن عمرؓ کے پاس چار ہزار حضرت معاویہؓ کے پاس سے، چار ہزار ایک اور آدمی کے پاس سے، اور دو ہزار ایک تیسرے آدمی کے پاس سے آئے ہیں اور چادریں بھی آئی ہیں۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ حضرت ابن عمرؓ بازار آئے کہ اپنی اونٹنی کے لیے ایک درہم ادھار چارا خریدیں، جبکہ مجھے یہ معلوم تھا کہ ان کے پاس اتنا مال آیا ہے، میں ان کی خادمہ کے پاس گیا اور کہا کہ میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ تم مجھے یہ بات سچ سچ بتادو۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا یہ بات درست نہیں کہ حضرت ابن عمرؓ کے پاس چار ہزار تو حضرت امیر معاویہؓ کی جانب سے آئے تھے، چار ہزار ایک اور آدمی کے پاس سے، اور دو ہزار کسی اور کی جانب سے، اور چادریں بھی آئیں؟ اس نے کہا: ہاں بے شک یہ چیزیں آئی تھیں۔ میں نے اس خادمہ سے کہا کہ میں نے تو حضرت ابن عمرؓ کو دیکھا کہ وہ اپنے اونٹ کے لیے چارا ادھار خرید رہے تھے… خادمہ نے کہا کہ حضرت ابن عمرؓ صبح ہونے سے پہلے ہی اسے تقسیم کرچکے ہیں۔ رات ہی ایک چادر میں یہ مال ڈال کر چلے گئے، اس کے بعد اس چادر کو خالی واپس لائے۔ وہ پڑوسی کہتا ہے کہ تب میں نے جاکر تاجروں سے کہا: اے تاجروں کے گروہ! تم دنیا کے ساتھ کیا کررہے ہو؟ ابن عمرؓ کے پاس گزشتہ رات دس ہزار کھرے درہم آئے اور آج صبح وہ اپنی سواری کے جانور کے لیے ایک درہم کا چارا ادھار طلب کررہے ہیں۔ حضرت نافعؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ کے پاس بیس ہزار درہم سے زیادہ کی رقم آئی، لیکن جب اپنی مجلس سے کھڑے ہوئے تو اس حال میں کہ سارا مال وہیں خرچ کرچکے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ ہمیشہ صدقہ کیا کرتے تھے۔ بعض ایسے لوگوں سے ادھار لیتے جن کو انہوں نے عطیہ دیا ہوتا اور وہ اسی سے انہیں ادھار دیتے۔ میمونؓ کہتے ہیں کہ کہنے والا ان کو بخیل کہتا تھا۔ خدا کی قسم اس نے جھوٹ بولا۔ وہ نفع پہنچانے والی چیز میں ہرگز بخیل نہیں تھے۔ (مال کو صدقہ و خیرات کرنے میں) حضرت میمونؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ نے عمرو بن العاصؓ کو حضرت ابن عمرؓ کے دل کی بات معلوم کرنے کے لیے جاسوس مقرر کیا کہ آیا وہ جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں؟ حضرت عمرو بن العاص ؓ نے حضرت ابن عمرؓ سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن! آپ کو یہاں سے نکلنے (بیعت کے لیے) سے کس چیز نے روکا ہے کہ ہم آپؓ سے بیعت کرلیں؟ آپؓ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور امیرالمومنین کے صاحبزادے بھی، آپ تمام لوگوں میں سے اس بات کے زیادہ مستحق ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ کیا تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے جو تم کہہ رہے ہو؟ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا: ہاں سب کا اتفاق ہے سوائے چند لوگوں کے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اگر تین موٹے عجمی آدمی ہجر (مقام) کے رہنے والے بھی باقی رہ جائیں گے تو مجھے بیعتِ خلافت کی ضرورت نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس سے حضرت عمرو بن العاص ؓ نے جان لیا کہ آپؓ کا جنگ کا ارادہ نہیں۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ آپ کو اس بات کی خواہش ہے کہ آپ ایسے آدمی سے بیعت کریں جس کی بیعت پر عنقریب تمام لوگ جمع ہونے والے ہیں؟ اور وہ ہونے والا امیر آپ کے لیے زمینیں اور وہ مال لکھ دے جس کے بعد آپ اور آپ کے بعد آپ کی اولاد محتاج نہ رہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: تم پر بڑا افسوس ہے! تم یہاں سے چلا جائو اور پھر میرے پاس نہ آنا، تمہارے لیے خرابی ہو، بیشک میرا دین تمہارے دینار اور درہم پر نہیں، اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ میں دنیا سے اس طرح جائوں کہ میرے دونوں ہاتھ سفید اور صاف ہوں۔ (ابن سعد) حضرت میمون بن مہرانؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ نے اپنے ایک غلام کو مکاتب (وہ غلام جس سے یہ معاہدہ ہوکہ وہ کچھ رقم ادا کرلے تو آزاد ہوجائے گا) بنادیا اور اس پر کتابت کے بدلے (معاہدے کی رقم) کی قسطیں مقرر کردیں۔ جب پہلی قسط کی ادائیگی کا وقت آیا تو آپ کے پاس وہ مکاتب قسط لے کر آیا، آپؓ نے اس سے پوچھا کہ یہ قسط (رقم) کہاں سے حاصل کی؟ اس نے جواب دیا کہ میں کام بھی کرتا رہا اور مانگتا بھی رہا۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: تم میرے پاس لوگوں کا میل لائے ہو؟ اور کیا تم یہ چاہتے ہو کہ مجھے لوگوں کا میل کھلاؤ؟ جاؤ تم اللہ کی رضا کی خاطر آزاد ہو، اور جو کچھ تم لے کر آئے ہو یہ بھی میری طرف سے تمہارا ہوا۔ (ابو نعیم) حضرت حمزہ بن عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس بہت کھانا ہوتا جب بھی پیٹ بھر کر نہ کھاتے، اور کھاتے بھی تب جب اپنے ساتھ اور کھانے والے (مساکین، یتامیٰ) پا لیتے۔ ابن مطیعؓ حضرت ابن عمرؓ کے پاس عیادت کے لیے آئے، دیکھا کہ آپؓ کا جسم بہت لاغر ہوگیا ہے تو حضرت صفیہؓ سے کہا کہ آپ ان کے ساتھ مہربانی کیجیے (ان کی خوراک کا خیال رکھیے)، شاید کہ ان کے جسم میں کچھ جان آجائے۔ حضرت صفیہؓ نے جواب دیا کہ ہم ایسا ہی کرتے ہیں لیکن یہ سب گھر والوں اور مسکینوں، یتیموں کو اس کھانے پر بلالیتے ہیں۔ تم خود اس بارے میں ان سے گفتگو کرلو۔ چنانچہ ابن مطیعؓ آپؓ سے ملے اور فرمایا: اے ابوعبدالرحمنؓ! آپ کوئی کھانا پکوا لیا کیجیے کہ آپ کے جسم میں کچھ جان آجائے۔ یہ سن کر حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: مجھے آٹھ سال گزر رہے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔ (یا اس طرح فرمایا کہ صرف ایک مرتبہ پیٹ بھر کرکھایا ہے) اب تم چاہتے ہو کہ میں اپنا پیٹ بھروں؟ جب کہ میری عمر میں گدھے کی پیاس کے برابر حصہ باقی رہ گیا ہے (یعنی بہت تھوڑا حصہ۔ گدھے کی مثال اس لیے کہ وہ پانی پینے کے تھوڑی دیر بعد ہی پیاسا ہوجاتا ہے)۔ (ابونعیم) حضرت عمر بن حمزہ بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد حمزہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی گزرا، میرے والد نے ان سے پوچھا کہ آپ مجھے یہ بتائیے کہ جس دن آپ میرے والد (حضرت عبداللہ بن عمرؓ) سے مقام حرف میں ملے تو انہیں دیکھ کر کیا کہا تھا؟ اس گزرنے والے نے کہا: میں نے کہا تھا کہ اے ابوعبدالرحمن! تمہاری بوٹیاں پتلی پڑ گئی ہیں (تم دبلے ہوگئے ہو) اور تمہاری عمر بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ تمہارے پاس بیٹھنے والے (گھر والے) تمہارے حق اور تمہاری شرافت کو نہیں پہچانتے، کاش! تم اپنے گھر والوں کو حکم دیتے کہ وہ تمہارے لیے کچھ تیار کردیتے۔ جب تم ان کی طرف (گھر) لوٹ کر جاتے تو وہ تمہیں نرم غذا کھلاتے۔ اس پر حضرت ابن عمرؓ نے جواب دیا تھا کہ تجھ پر بڑا افسوس ہے! میں نے چودہ سال سے ایک مرتبہ بھی پیٹ نہیں بھرا، اب میں کیسے اپنا پیٹ بھروں جب کہ میری عمر بھی بہت کم رہ گئی ہے! حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے غلام عبیداللہ ؓ بن عدی عراق سے واپس آئے تو حضرت ابن عمرؓ کے پاس سلام کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ کہا کہ میں آپ کے لیے ایک ہدیہ لایا ہوں۔ پوچھا: کیا ہے؟ کہا: جوارش لایا ہوں۔ فرمایا: یہ جوارش کیا چیز ہے؟ کہا: کھانا ہضم کردیتی ہے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: میں نے چالیس سال سے پیٹ نہیں بھرا، میں اس جوارش کا کیا کروں؟ (ابو نعیم) حضرت ابن سیرینؒ سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے حضرت ابن عمرؓ سے کہا کہ میں آپ کے لیے جوارش بناؤں گا۔ آپؓ نے پوچھا: یہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جب کھانا ہضم نہ ہورہا ہو اور نقصان کا باعث بنے تو یہ بآسانی اسے ہضم کردے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: میں نے کتنے عرصے سے پیٹ بھرا ہی نہیں اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ مجھے کھانا نہیں ملتا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایک ایسی قوم کے ساتھ عرصۂ دراز گزارا ہے جو ایک مرتبہ کھاتی اور ایک مرتبہ بھوکی رہتی ہے۔ (ابن سعد) حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک اینٹ پر دوسری اینٹ نہیں رکھی (کوئی مکان نہیں بنایا) اور نہ میں نے کوئی پودا لگایا۔ (ابو نعیم و ابن سعد) حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس نے دنیا پائی، اور وہ دنیا کی طرف اور دنیا اس کی طرف مائل نہ ہوئی سوائے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے۔ سدیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے چند صحابہؓ کو دیکھا جن کا یہ کہنا ہے کہ صحابہ کرام ؓمیں سے کوئی بھی اپنی اس حالت پر نہیں رہا جس حالت پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑا تھا، سوائے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے۔ (الاصابۃ)

No comments:

Post a Comment