Search This Blog

Saturday, 28 July 2012

یورپ پر فاشزم کے تاریک سائے منڈلا رہے ہیں

یورپ پر فاشزم کے تاریک سائے منڈلا رہے ہیں

آصف جیلانی  
-یورپ اس وقت دوسری عالم گیر جنگ کے بعد اپنی تاریخ کے سنگین ترین اقتصادی اور سیاسی بحران سے دوچار ہے ۔13سال قبل یورپی یونین کے 17 ممالک نے معیشت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے واحد کرنسی یورو کا جو نظام قائم کیا تھا وہ ٹھپ پڑتا نظر آتا ہے کیونکہ یورپ کے گنے چنے ملکوں کوجن میں جرمنی اور فرانس نمایاں ہیں یونان اور اسپین کو ان کے پہاڑ ایسے قرضوں کے بحران سے نکالنے کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور اب ان کی بھی کمر ٹوٹتی دکھائی دیتی ہے ۔ یونان پر 600 ارب ڈالر اور اسپین پر0 200ء ارب ڈالر کے قرضوں کا بوجھ ہے۔ ایک طرف یورو کا سنگین بحران ہے تو دوسری طرف مالی بھنور میں معیشت ڈوبتی نظر آتی ہے۔ ان حالات میں پچھلے ایک برس میں پورے یورپ میں بے روز گاروں کی تعداد میں 25لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے اور اب ڈھائی کروڑ افراد کو بے روزگاری کے عذاب کا سامنا ہے یہ تعداد کام کے قابل افراد کی دس فی صد ہے ۔ بے روزگاری کے اس عذاب میں مبتلا یورپی ملکوں میں سر فہرست اسپین ہے جہاں 25فیصد افراد بے روزگار ہیں اس کے بعد یونان ہے جہاں بے روزگاروں کی تعداد 23فی صد ہے ۔پوری یورپی یونین میں 22فی صد نوجوان بے روزگار ہیں جن میں شدید بے چینی بڑھ رہی ہے ۔ موجودہ اقتصادی ابتری کا سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے وہی حالات پیدا ہو رہے ہیں جو 30ء کے عشرہ میں تھے جب کہ جرمنی میں نازی قوت کے بل پر ہٹلر کی قیادت ابھری تھی اور اٹلی میں مسولینی کی قیادت میں فاشسٹ جماعت بر سر اقتدار آئی تھی اور جس کے نتیجہ میں پوری دنیا دوسری جنگ کے شعلوں میں جھلس گئی تھی۔ سنگین اقتصادی مسایل اور مالی بحران کی وجہ سے یورپ میں اس وقت بڑی تیزی سے انتہا پسند قوم پرستی بڑھ رہی ہے جو فاشزم کو جنم دے رہی ہے ۔ یہ صورت حال یورپ کی جمہوری قوتوں کے لیے زبردست چیلنج ہے خاص طور پر یورپی یونین کی بقا کے لیے ۔ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد سارا زور اس نظریہ پر تھا کہ جمہوری نظام کی بنیاد پر یورپی اتحاد کو فروغ دے کر نازی اور فاشسٹ قوتوں کا قلع قمع کیا جائے جنہوں نے یورپ پر اپنا تسلط جمانے کے لیے جنگ بھڑکائی تھی اور اقتصادی اتحاد اور یک جہتی کی بنیاد پر باہمی دشمنیاں اور رقابتیں ختم کی جائیں۔ لیکن 2008ء میں امریکا میں بڑے بڑے بنکوں نے جو سنگین مالی بحران بھڑکایا ہے اس کے اثرات سے یورپ نہیں بچ سکا ہے جس نے پورے یورپ کی معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں یہ اثرات اتنے شدید ثابت ہوئے ہیں کہ یورپی کمیشن اپنے وسیع وسایل کے باوجود ان پر قابو نہیں پا سکا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ بھی ناکام رہا ہے ۔ یورپ میں اقتصادی ابتری اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری انتہا پسند قوم پرست قوتوں کو ہوا دے رہی ہے بالکل اسی طرح جس طرح 30ء کے عشروں میں جرمنی میں نازی پارٹی کو تقویت دی تھی۔ ان حالات میں یورپ میں سیاسی نقشہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے ۔ یونان میں موجودہ سنگین مالی مشکلات اور بڑے پیمانہ پر سرکاری اخراجات میں تخفیف کے اقدامات نے انتہا پسند قوم پرستی کو ایسی ہوا دی ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں پہلی بار نازی پارٹی ’’ گولڈن ڈان،،کو 7فی صد ووٹ ملے ہیں اور پارلیمنٹ میں 18 نشستیں حاصل کر کے ایک اہم سیاسی قوت بن کر ابھری ہے ۔ گولڈن ڈان پارٹی اپنے آپ کو نازی پارٹی کہلانے سے انکاری ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ پارٹی فاشزم سے وجدان حاصل کرتی ہے ۔ ا س کا نشان بھی ہٹلر کی نازی پارٹی کے سواستکا سے ملتا جلتا ہے اور اس پارٹی کے کارکن ہٹلر کی نازی پارٹی کے جوانوں کی طرح سیاہ قمیضوں میں ملبوس عوام کو دھمکاتے پھرتے ہیں۔ ادھر فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی نسل پرست جماعت فرنٹ نیشنل کی موجودہ لیڈر میرین لے پین جو پارٹی کے بانی ژاں میری لے پین کی صاحبزادی ہیں حالیہ صدارتی انتخاب میں تیسرے نمبر پر رہی ہیں ۔ انہوں نے 17فی صد ووٹ حاصل کیے۔ فرنٹ نیشنل کی مقبولیت کی بڑی وجہ الجزائر اور شمالی افریقہ کے مسلم تارکین وطن کے خلاف نسل پرست مہم ہے ۔یہ بات تشویش ناک ہے کہ فرانس جو روشن فکری کادعوی کرتا ہے وہاں فرنٹ نیشنل ایسی نسل پرست اور انتہائی قوم پرست جماعت کو اتنے ووٹ ملے ہیں۔ ہالینڈ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے پس منظر میں نسل پرست گریٹ وائلڈرس کی جماعت فریڈم پارٹی مقبولیت حاصل کر رہی ہے ۔ اس پارٹی کا تمام تر زور اسلام دشمنی اور مسلم تارکین وطن کے خلاف مہم پر ہے جس کی بنیاد پر یہ ہالینڈ کے عوام کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ بے روزگاری کے مسئلے کے ذمہ دار مسلم تارکین وطن ہیں جو ہالینڈ کو اسلامی مملکت بنانا چاہتے ہیں۔ یہ گریٹ وایلڈرس کی دو دھاری حکمت عملی ہے ۔اسرائیل نواز گریٹ وائلڈرس کا مطالبہ ہے کہ ہالینڈ میں مسلم تارکین وطن کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے اورتمام مسلم اسکول بند کردیے جائیں دوہری شہریت کے حامل افراد کو پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے پر پابندی عائد کی جائے اور ان تمام شہریوں کو رجسٹر کیا جائے جن کے پاس دو پاسپورٹ ہیں تاکہ وقت آنے پر انہیں ملک بد ر کیا جاسکے۔ 2005ء میںقائم ہونے والے اس نسل پرست جماعت نے اس تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے کہ 2010ء کے عام انتخابات میں اس جماعت کو 24نشستیں حاصل ہوئیں اور چوتھی بڑی جماعت کے طور پر سیاسی افق پر ابھری۔ آسٹریا میں نسل پرست اور نئی نازی جماعت فریڈم پارٹی نے بھی حال میں تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے اور ہنگری میں Jobbikپارٹی اپنے فاشسٹ نظریات کی بناء پر مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ 2010ء کیے عام انتخابات میں اسے 17فی صد ووٹ ملے ۔ یورپ کی دائیں بازو کی انتہا پسند اور فاشسٹ جماعتوں کے حوصلے اتنے بڑھے ہیں کہ پچھلے دنوں ان جماعتوں نے یورپی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی انتہا جماعتوں کا اتحاد قائم کیا ہے ۔ برطانیہ چونکہ یورو نظام میں شامل نہیں لہٰذا اب تک یورو کے بحران سے براہ راست متاثر نہیں ہوا لیکن چونکہ اس کی معیشت یورپ سے وابستہ ہے اور برطانیہ کی پچاس فی صد تجارت یورو کے علاقہ کے ممالک سے ہے لہٰذا اس پر بلواسطہ اثرات پڑ رہے ہیں اور برطانیہ میں کساد بازاری میں اضافہ ہوا ہے اور مجموعی قومی پیداوار میں کمی ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں بے روزگاری بڑھی ہے ۔اس صورت حال سے برطانیہ میں نسل پرست اور قوم پرست تنظیمیں سیاسی فائدہ اٹھارہیں ہیں جن میں برٹش نیشنل پارٹی اور انگلش ڈیفنس لیگ پیش پیش ہیں ان کی بھی د و دھاری حکمت عملی ہے ۔ برطانوی عوام کو ایک طرف یہ باور کرانا ہے کہ اصل میںملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے ذمہ دار تارکین وطن ہیں۔ دوسری طرف عوام کو اسلام کا خوف دلانا ہے اور یہ ڈرانا ہے کہ مسلمان اگر حاوی آگئے تو وہ یہاں شرعی نظام قائم کردیں گے جس کے تحت چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیںگے اور زنا کی سزا سنگ ساری ہوگی ۔ برطانیہ کے سنجیدہ عناصر اس امرکا شدید خطرہ ظاہرکرتے ہیں کہ یورپ کی طرح اگر اقتصادی حالات ابتر ہو گئے تو ملک میں فاشسٹ قوتیں تیزی سے سر اٹھائیں گی جس سے ایسی افراتفری مچے گی کہ پورا معاشرہ متزلزل ہو جائے گا۔صورت حال اس بناء پر اور زیادہ تشویش ناک ہے کہ ملک کی تینوں سیاسی جماعتوں سے عوام تیزی سے بدظن ہوتے جارہے ہیں۔ ٹوری پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس کی مخلوط حکومت کی پالیسیاں خاص طور پر بڑے پیمانہ پر سرکاری اخراجات میں تخفیف عوام کی ناراضگی کا نشانہ بن رہی ہیں اور پچھلے عام انتخابات میں ہاری ہوئی لیبر پارٹی ابھی تک اپنے احساس شکست سے نہیں نکل پائی ہے ویسے بھی ایڈ ملی بینڈ کی نئی قیادت بے جان اور بے اثرثابت ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں برطانیہ کے حالات نہایت خطرناک نظر آتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment