Search This Blog

Sunday 29 July 2012

شاعری اور مصوری

شاعری اور مصوری

- رضی مجتبیٰ

چوںکہ دو اجزا مصوری اور شاعری میں مشترک ہیں یعنی image (شبیہ) اور idea (خیال) اس لیے ہم ان دو اجزائے ترکیبی کے حوالے سے اس موضوع پر اپنی گفتگو جاری رکھیں گے۔ شاعری اور پینٹنگ دونوں امیج اور آئیڈیا کی ہم آہنگی کو حاصل کرنے کی اَن تھک کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس بیاںمیں جو کلیدی لفظ ہے وہ ہے Image۔ اس لفظ کی تشریح یوں تو اصطلاحات اور انسلاکات کے ذریعے اوراق کے انبار پر کی جاتی ہے لیکن بہت سلیس اور مختصر انداز میں یہ کہیں گے کہ امیج وہ شے ہے جو خیالات، محسوسات، جذبات کو تجریدی زبان میں بیان نہیں کرتی بلکہ ان کو زندہ تجربات اور زندگی کی طرح متحرک بیان کرتی ہے۔ کیا شاعری اور کیا مصوری دونوں اپنے objectکو اسی طرح تجرید سے بہت دور رکھنا چاہتے ہیں جیسے کہ وہ زندگی اور نیچر میں پایا جاتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی اور نیچر دونوں ہی میں پہلے ہی سے پینٹنگز اور شاعری پائی جاتی ہے اور اگر ایسا ہے تو ہمیں مصوروں یا شاعروں کی ضرورت ہی کیا؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ نیچر اور زندگی میں گو شاعری اور مصوری دونوں موجود ہیں لیکن ایک دوسرے سے بالکل لا تعلق۔ بس مصور اور شاعر کا یہی کمال ہے کہ وہ اس لاتعلقی کو ہم آہنگی میں تبدیل کردیتا ہے۔ مصور رنگوں اور خطوط کی مدد سے اور شاعر الفاظ کی مدد سے جن میں استعارے اور تشبیہات سبھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بات یہ بھی کہتا چلوں کہ بڑے آرٹسٹ، جیسے دوستوئیفسکی، ہنری جیمز اور مارسل پروست،اور شاعروں میں راں بو اور ایذرا پائونڈ اس لاتعلقی میں بھی ایک ایسا تعلق ڈھونڈ لیتے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے! پائونڈـ کی ایک سڑک پر اچانک لوگوں کے نظر آنے کو یہ تشبیہ کہ جیسے ڈال سے پتے پھوٹ نکلے ہوں، کس قدر خیال اور امیج کی ہم آہنگی کی تصویر ہے! اس کا یہ کہنا اسی لیے تو ن م راشد نے گرہ میں باندھ لیا تھا کہ"straight to the thing" یعنی جس چیز کو بیان کرنا چاہتے ہو بغیر کسی آرائش یا جمالیاتی گوٹا کناری لگائے، اس چیز کو بیان کرنا سیکھو۔ ادب، آرٹ، مصوری کا اوّلیں مقصد یہ ہے کہ وہ زندگی کے ان مظاہرات کو پیش کریں یا ان کو اپنا موضوع بنائیں جو ہر انسان کے لیے دل چسپی کا باعث ہو (کیا ہم اس کو آفاقیت کہہ سکتے ہیں؟)۔ زندگی کا اور نیچر کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان کا اس کے اطراف کی اشیا اور واقعات سے تعلق کو ہی مرکز بنا لیا جائے بلکہ اس زندگی میں انسان کی درونی زندگی بھی برابر کی شامل ہے۔ کبھی کبھی انسان خوابوں میں زندہ رہتا ہے اور اسی کو حقیقت سمجھتا ہے۔ کچھ دیر ہی کے لیے سہی، اس کو خواب میں بھی وہ معروضیت نظر آتی ہے جو ہماری جیتی جاگتی زندگی کی شناخت ہے۔ یہ کیفیتیں اگر بہت haunting (دل گداز) ہوں توکیا مصوری اور کیا شاعری دونوں ہی کو بہت محبوب ہوتی ہیں اور دونوں اصناف ان کو اپنا موضوع بنا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ ہماری شا عری اور مصوری کی نئی تعریف تخیل کو بھی بہت اہمیت دیتی ہے۔ لیکن اس فرق کو نہیں بھولنا چاہیے کہ شاعری آرٹ یا مصوری کی نسبت لازمی طور پر اشیا اور موٹفس کی وہ صورتیں پیش کرتی ہیں جس کا essence (جوہر) سے تعلق ہوتا ہے۔ ایک اور بہت اہم فرق دونوں اصناف میں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب کہ آرٹ جس میں مجسمہ سازی اور پینٹنگ دونوں ہی شامل ہیں، اپنے موضوع کے اظہار کے لیے جتنی تفصیلات اور جزئیات کو پیش کرتے ہیں، شاعری اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ بہت سی تفصیلات کو تج کر وہ صرف ان جزئیات سے وابستہ رہتی ہے جن سے صرف اور صرف essence اجاگر ہوتا ہے۔ خود لفظ concept (مجرد خیال) میں سوائے ان تفصیلات کے جو موضوع کے جوہر سے متعلق ہیں اور کوئی دوسرا پہلو شامل نہیں۔ مختصراً ہم یہ کہہ کے اس بات کو ختم کرتے ہیں کہ حقیقت خوابوں سے کہیںبرتر ہوتی ہے اور essesntial مقاصد انوکھے دعووں سے کہیں بلند۔ میں نے اس بحث کو اچانک ایک مختصر جملے میں سمیٹ دیا۔ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اس سے کالم میں غرابت جنم لیتی ہے۔ مگر یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ موضوع کلی طور پر غرابت سے اپنا دامن نہیں بچا سکتا اور نہ اسے یہ کوشش کرنی چاہیے۔ جن کو سنجیدہ موضوعات کے مطالعے سے دل چسپی ہے، غرابت ان کو مطالعے پر مجبور کرتی ہے اور ان کے ادراک کے دائرے کو وسیع۔ اب آئیے ایک مرتبہ ہم پھر شاعری اور مصوری کی باہمی مماثلت کے لیے، والس اسٹیونز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اسٹیونز نے شاعری اور پینٹنگ کے روابط پر اپنا پہلا لیکچر نیویورک میٹروپولیٹن میوزیم میں ۱۹۵۱ء میں دیا تھا۔ اس لیکچر میں اس نے شاعری اور مصوری کے درمیا ن کئی خصوصیات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہوگی، اگر انسان، جس میں شاعر بھی شامل ہے، آرٹ پر مختلف فنون کے انحصار کو نظر انداز کردے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، اس کے اس لیکچر کا Crescendo (زور) اس بات پر تھا کہ اب جب کہ انسان سے تمام اعتبارات چھن گئے، اس کے پاس ایک ہی مداوا اس زیاں کا رہ گیا ہے اور وہ ہے’’تخیل‘‘۔ والس کا استدلال یہ ہے کہ چوںکہ شاعری اور مصوری تصور اور حقیقت کے juncture (مرحلے) کے درمیان تخلیق ہوتے ہیں۔ یہ دونوں فنوں ایک پیمبرانہ قامت کو چھوتے ہیں اور انسان کی ذات کی ایک زندہ علامت بن جاتے ہیں۔ جہاں اب سوائے انسان کی ذات کچھ بھی نہیں— اور وہ بھی اگر باقی رہ سکے تو۔ اسٹیونز کا شاعری اور آرٹ کا یہ نقطئہ نظر اپنے ہم عصر شعرا سے خاصا الگ تھا، مثلاً ولیم کارلوس ولیم، جو اپنی شاعری کو پینٹنگ کا نعم البدل بنانا چاہتا تھا۔ اسٹیونز کے لیے شاعری اور پینٹنگ میں ربط نظریاتی طور پر تھا، تکنیکی طور پر نہیں۔ مغربی روایات نے لوگوں کو اس بات کا عادی بنا دیا تھا کہ وہ کسی مخصوص نظم سے کسی مخصوص پینٹنگ کا موازنہ کریں۔ اسٹیونز نے اس روایت سے بغاوت کی۔ اسٹیونز کا یہ اعتراض اس بات پر اپنی اساس رکھتا تھاکہ وہ انفرادی یا چند گنی چنی تصاویر کے اثر کے تحت اپنی شاعری کا وجدان حاصل نہیں کرتا بلکہ پینٹنگ کی کل تاریخ اس کی بنیاد ہوتی ہے۔ اسٹیونز کا یہ کہنا تھا کہ اکثر اوقات شعرا کو بھی وہی یا اسی قسم کے مسائل در پیش ہوتے ہیں جیسا کہ مصوروں کو۔ اس لیے ضروری ہے کہ شعرا بہت انہماک سے پینٹنگ کی تاریخ اور اس کے لٹریچر کا مطالعہ کریں۔ اسٹیونز کی شاعری کو جس نظم نے سب سے زیادہ متاثر کیا اس نظم کا عنوان تھا، The Man with the blue Guitar (نیلا گٹار بجاتا ہوا سازندہ)۔ تصویر پکاسو کے اس قول پر منحصر ہے کہ مصوری ایک ملبے کا ڈھیر ہوتی ہے۔ یہ نظم بھی گویا ملبے کا ایک ڈھیر ہے اور ملبے کا یہ ڈھیر ہمارے ہی وجودوں سے عبارت ہے۔ گویا ہماری سوسائٹی بھی ملبے کا ایک ڈھیر ہے۔ پکاسو کے اس قول کو اسٹیونز نے ایک میگزین cahiers d'arts (یعنی آرٹ کی بیاض) میں پڑھا۔ پھر اس نظم کو پڑھا اور آخر میں کہنے لگا کہ کیا پکاسو کے قول کا مطلب یہ نہیں کہ چوںکہ یہ نظم پینٹنگ سے متاثر ہوکر لکھی گئی، اس لیے یہ نظم بھی ملبے کا ایک ڈھیر ہے؟ بظاہر آپ کو یہ بات بہت بے تکی لگے گی مگر اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو شاعری اور مصوری دونوں کے عمق میں مخفی سر رئیلزم کو تلاش کرنا ہوگا پھر یہ بات مصوری کی تاریخ اور مختلف تحریکوں کی ایک کڑی بن کر بہت بامعنی ہو جائے گی۔ اسی سلسلے میں اگر مصوری اور فلسفے اور نفسیات کے روابط کی بات بھی کرلی جائے تو بے جا نہ ہوگی۔ کے لیے تو کیا مصوری کیا شاعری اور کیا میوزک سب ہی کچھ اس حقیقت سے فرار ہے جو انسان کے تخیل اور اس کی دبی ہوئی خواہشوں کے خوابوں اور سرابوں کی طرح خوب صورت نہیں۔مگر فرائڈ کھینچ تان کر اپنی نفسیاتی تھیسس کو ثابت کرتا رہا چوںکہ مصوری، شاعری یا فکشن میں ہم اکثر دبی ہوئی خواہشوں کے فرار سے زیادہ فن کار کو ان کی جستجو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ بڑی بڑی مثالیں دوستوئیفسکی، مارسل پروست اور راسین کی ہیں۔ مصوری اور آرٹ کے تعلق کا اعتراف مشہورِ زمانہ مصور Delacroix (دلاکغوا) نے اپنی ایک تصویر میں علامتی انداز میں کیا۔ اس تصویر میں خود دلاکغوا سقراط کے مجسّمے کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے کھڑا ہے۔ یہ تصویر آپ کو افلاطون کے مکالموں پر مشتمل کتاب میں بہ آسانی مل جائے گی۔ بات کو طول دیے بغیر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آرٹسٹ بنیادی طور پر وہ شخص ہوتا ہے جو ماورائیت کا متوالا ہوتا ہے (اور جوں ہی ہم ماورائیت کی بات کرتے ہیں ہم فلسفے کے شعبے میں داخل ہو جاتے ہیں) اسی ماورائیت کے عشق میں کیا شاعر، کیا مصور دونوں اس حقیقت سے منہ پھیر لیتے ہیں جو ان کے خوابوں اور ان کے تصورات کو غارت کر دیتی ہے اور ان کے حسین خوابوں کو روند کر ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ اگر ہم F.H.Bradley کی کتاب Appearance and Reality تو ہماری ہمدردیاں فن کار کے سوا کسی اور کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتیں۔ شاعر مگر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک جو اپنا خام مواد اپنے اطراف کی دنیا سے منتخب کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو یہ raw material بے ساختہ تخلیق کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ اب یہی دیکھیے کہ اطراف سے لیے ہوئے مواد سے گوئٹے نے ’’فائوسٹ‘‘ تخلیق کیا اور شیکسپیئر نے ’’ہیملٹ‘‘۔ بات در اصل یہ ہے کہ وہ شاعر جو اپنا خام مواد بے ساختہ یا اپنے تخیل اور وجدان کی مدد سے حاصل کرتا ہے، اس قسم کی شاعری میں سارا تاثر اظہار کی خوب صورتی میں مضمر ہوتا ہے۔ یہ شعرا لا شعور کی تاریک گہرائی میں ڈوب کر کسی آفاقی انسانی تصادم کو جو کسی بھی چیزسے ہوسکتا ہے، کسی چمکتے دمکتے موتی کی طرح لاشعور کی تاریک گہرائی سے نکالتا ہے۔ اور قاری اس تخلیق کو پڑھ کر بے ساختہ یہ کہہ اٹھتاہے کہ یہ میں ہوں جسے شاعر نے دیکھا ہے۔ اس قسم کی شاعری میں یقینا حقیقت اور تخلیق کا سنگم پایا جاتاہے۔ اسی سلسلے میں ہم ہائیڈیگر کے شاعری پر خیالات بھی بیان کر سکتے ہیں مگر وہ اپنی طوالت کے سبب اس کالم کی تنگنائے میں نہیں سموئے جا سکتے۔ ہائیڈیگر کی نظر میں شاعرانہ تخیل ایسا تخیل نہیں ہوتا جس میں تصورات یا خیالات محض تصورات اور خیالات کی حد تک محدود ہوں بلکہ ان میں ایک اَن جانی اور اجنبی دنیا کی جھلک ہوتی ہے یا تصویر یعنی ہائیڈیگر بھی شاعری اور مصوری کے تعلق کا قائل ہے۔ اب آئیے اس کالم کا اختتام خود مشہور شاعروں کی آرا پر کرتے ہیں۔ روبرٹ کریلے کہتا ہے کہ جب کہ کم تر درجے کے شاعر اپنی نظموں کے عنوان ڈھونڈتے ہیں، اعلیٰ درجے کے شاعر اپنی نظموں کا رشتہ ان پینٹنگز سے جوڑتے ہیں جن سے الفاظ اور پینٹنگ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ کینتھ پیچن کہتا ہے کہ میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شاعری کے الفاظ میرے برش کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ایک نا معلوم مبصر کا قول ہے کہ ہمارے بہت سے شاعروں نے اچھی شاعری کرنا جب سیکھی، جب انھوں نے مصوروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ یہ اقوال پڑھنے کے بعد اور سارے کالم کا تجزیہ کرنے کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ شاعری اور مصوری میں ایک قریبی تعلق ہے۔ دور کیوں جائیے، میرؔ کا یہ شعر شاعری اور مصوری کے تعلق کو کس خوب صورت طریقے سے اجاگر کرتا ہے:
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

No comments:

Post a Comment