Search This Blog

Tuesday 31 July 2012

اسکولوں میں دینی نصاب رائج کــرنے کــی ضرورت

اسکولوں میں دینی نصاب
رائج کــرنے کــی ضرورت

آج کل ہم بچے بہت مصروف ہوتے ہیں۔ صبح اسکول، شام میں ٹیوشن اور رات میں ہوم ورک۔ ہمیں کھیلنے کودنے کے لئے بھی وقت نہیںملتا‘‘۔یہ آج ہر گھر کا المیہ ہے۔جب ایک بچے کا سارا وقت دنیا کی تعلیم پر صرف ہوگا تو نتیجہ بھی دنیا پرستی ہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔ آج کل دینی تعلیم محض ظاہر کے چند عقائد کو ازبر کرانے اور قرآن کی تجوید سکھانے تک محدود ہوگئی ہے۔ نہ بچوں کو دینی عقائد کا فلسفہ پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں قرآن کی تعلیمات کا علم۔ سیکھنے کی یہ عمر چھلکا کھانے تک محدود ہو جاتی ہے اور مغز تک رسائی نہیں ہوپاتی۔آج اس بات کی ضرورت ہے کہ دینی تعلیم کے لئے ایک آسان نصاب ترتیب دیا جائے جو اتنا آسان ہو کہ ہر گھر کے پڑھے لکھے ماں باپ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ اس نصاب میں قرآن کی عربی کے ساتھ ساتھ قرآن کے بیان کردہ قصے ہوں تاکہ بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے انہیں قرآن کا ترجمہ پڑھنے پر راغب کیا جائے۔ اس کے نصاب میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سیرت کے واقعات ہوں جن سے اخلاقیات کی تربیت دی جاسکے۔اس نصاب میں سبق آموز داستانیں ہوں جن سے نصیحت حاصل کی جاسکے۔ غرض یہ نصاب تعلیم اور تربیت پر مبنی مواد کا ایک مرقع ہو جس میں اسلام کے ظاہر کیساتھ ساتھ اس کے باطنی پہلو کو بھی اجاگر کرے۔جموں و کشمیر میں اس حوالے سے اب تک کوئی بھی مربوط سسٹم نہیں بنایا گیا ہے۔یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کی کسی بھی سرکار کے پاس تعلیم سے متعلق کبھی کوئی پالیسی ہی نہیں رہی ہے، موجودہ دور، جسے سائینسی علوم کا دور کہا جاتا ہے میں اگر ان ترقی پذیر ممالک کا تجزیہ کریں جو اس وقت سائینسی علوم کو آگے لے جارہے ہیں، میں بھی پہلے اپنی مادری زبان اور اپنے عقیدے کے حساب سے تعلیم دینا لازمی مانا گیا ہے۔لیکن یہاں تو بالکل اس کے برعکس ہے، دینی تعلیم تو ہم گھر پر حاصل کرتے ہیں وہ بھی کسی مولوی صاحب سے جو ہمیں قرآن پڑھانے آتے ہیں، لیکن اسلامی تاریخ کے بارے میں ہم بالکل کورے کے کورے رہ جاتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا اگر سکولوں میں ہی ہم اسلامی تاریخ اور دینی علوم سے بھی روشناس ہوتے جس طرح دیگر علوم سے ہمیں واقف کرایا جاتا ہے تو دین کو غلط طرح سے پیش کرنے کوششیں بھی ناکام ہوتی، نیز ایک ایسی نئی نسل تیار ہوتی جو آگے چل کر پوری ریاست کے لئے مشعل راہ ہوتی۔یہی بچے بڑے ہوکر ڈاکٹر، انجینئر، بیرو کریٹ اور جج بنتے اور یوں نہ سرکاری طور پر کورپشن ہوتا، نہ عام لوگوں کو کسی قسم کی کوئی مشکل پیش آتی ۔، نہ ایسے سیاست دان پیدا ہوتے جو لوگوں کو دھوکہ دیتے اور نہ ہی کبھی کسی کو زک پہنچانے کی کوئی کوشش کی جاتی۔ریاست میں دینی تعلیم تو دور کی بات ہے یہاں تو سرکاری سکولوں کی حالت ہی خراب کردی گئی ہے، اس قدر معیار گرا دیا گیا ہے کہ کو ئی بھی شخص اپنا بچہ وہاں ڈالنے کے لئے ہی تیار ہیں۔رہی بات انگلش میڈیم سکولوں کی ،ان میں اردواور کشمیری زبانیں جو ہماری مروجہ اور مادری زبانیں ہیں  بھی مشکل سے ہی پڑھائی جاتی ہیں، اسلامیات یا پھر دینیات تو دور کی بات ہے۔آج کل جہاں سرکاری طور پرانگلش میڈیم سکولوں کی ہی پشت پناہی کی جاتی ہے وہیں والدین کی جانب سے صرف بچوں کو بڑے بڑے سکولوں میں داخلہ دلانا ہی اپنی منزل بنائی گئی ہے،عام سرکاری سکولوں کا تعلیمی معیار اگر بہتر بنایا جاتااورمروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر دینی تعلیم بھی دی جاتی تو یقینی طور پر ایک ایسی نئی نسل سامنے آتی جو نہ صرف معاشرے میں موجود امیر اور غریب کا تفرق مٹاتی بلکہ اس معاشرے کو ہی بہتر بنایا جا سکتا تھااور ہم سب اخلاقی قدروں کے محافظ بن سکتے تھے۔، لیکن اس کی طرف توجہ دینا تو درکنار سرکاری سطح پر بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں دینی تعلیم پر مبنی ایک نصاب رائج کیا جائے تاکہ ہم دنیاوی و دینی دونوں طرح کی تعلیم سے خود کو آراستہ کرسکیں۔
ادفر نثار
سوپور
courtesy Kashmir Uzma Srinagar

No comments:

Post a Comment