Search This Blog

Wednesday 25 July 2012

بدلنے کی رُ ت یہ سنورنے کا موسم

بدلنے کی رُ ت یہ سنورنے کا موسم
اس نعمتِ عظمیٰ کاہم مفہوم تو سمجھیں

رمضان المبارک کے ایام ِ سعادت وبرکت ہم پر سایہ فگن ہیں۔ عالم اسلام کے ساتھ ساتھ مسلمانانِ کشمیر بھی اس بابرکت مہینے کے فیوض و برکات سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔دوسرے مہینوں کے برعکس ان ایام میں خداپرستی اور انسانی دوستی کا جذبہ عوام میں اُمڈ آتا ہے۔نمازیں، تلاوت،اللہ کی راہ میں مال وزرخرچ کرنا اور اخوت و ہمدردی کے ذریعے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بھر پور کوششیں کی جا تی ہیں۔رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں عام مسلمانوں کا ضمیر اُنہیں یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ کسی اعلیٰ وارفع مقصد کے تحت اس دنیائے میں لائے گئے ہیں۔ رمضان المبارک میں ہی تاریخ اسلام کے بڑے بڑے معرکے سر ہوئے ہیں، بڑی بڑی فتوحات حاصل کی گئی ہیں، دل جیتے گئے اور اسلامی سلطنت کا دائرہ وسعت پاگیا۔ اس مہینے میں تقویٰ حاصل کیا جاتا ہے تاکہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو پہچان پائے، سماج میں اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے اپنے فرائض ادا کرنے کا درس اسی مہینے سے ملتا ہے۔ روزے محض فاقہ کشی اور نفسا نی خواہشات سے دور رہنے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ رمضان کے روزوں میں  ایک منضبط فلسفہ موجود ہے ، انسانیت کی تعمیر کا، ہمدردی، اخوت اور بھائی چارے کا درس یہاں سے ملتا ہے، سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننے کا موقع یہ مہینہ فراہم کرتا ہے، شیطانی طاقتوں اور شیطانی حربوں سے نبرد آزما ہونے کا سبق یہاں سے ملتا ہے، ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے کا درس روزوں سے ملتا ہے، یہ مہینہ حق اور باطل میں تمیز کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے ، رمضان کے روزے رزق حلال کی اہمیت اور افادیت کو واضح کرتے ہیں۔ غرض ماہ صیام مسلمانوں کی انفردی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کو بھی سنوارنے کا کام کرتا ہے بشرطیکہ مسلمان اس مہینے کے جسمانی فائدوں کے ساتھ ساتھ روحانی فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے اپنے اندر تڑپ رکھتے ہوں۔
جب ہم اپنے سماج پر نظریں دوڑاتے ہیں تو بے شک صیام کے طفیل بہت ساری قابل دیدظاہری تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ لوگوں کامساجد کی جانب دوڑنا ، سحری اور افطار  کے اوقات میں مسلم بستیوں میں رونقیںاور چہل پہل، سڑکوں اور شاہراوں پر نمازیوں کی قطاریں، گھروں اور مساجد میں تلاوت قرآن کاباقاعدگی کے ساتھ اہتمام وغیرہ سب اس بات کا غماز ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے میں ابھی زندگی کے آثار موجود ہیں۔ اِن بنیادی باتوں میں روزوںا ور ماہ رمضان کے خوشگوار آثار ضرور دکھائی دیتے ہیں لیکن جب ماہ رمضان کے اصل تقاضو نں پہ نگاہ ڈالتے ہیں اور تقویٰ شعارانہ زندگی کی وسعتوںپر غور وفکر کر تے ہیں تو ہماری یہ ظاہری دین داری محض دکھاوا ہی لگتی ہے۔ الا ما شاء اللہ کو ئی کوئی بندۂ خدا روزوں کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ اکثر مشاہدہ یہ ہے کہ جب غریب کی مدد کرنے کی بات آتی ہے تو ہم دریا دلّی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں، جب ہمسائیوں کے حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں تو ہماری ظاہری دین داری عریاں ہو جاتی ہے، جب جھوٹ کے مقابلے میں حق کا ساتھ دینے کی بات ہوتی ہے تو ہم دین اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں رکھ کر دامن جھاڑ لیتے ہیں،جب حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر لب کشائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمارے توحید پرست ہونے کے تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہو جاتے ہیں۔اپنے اردگرد کے سیاسی حالات، معاشی بدحالی اور اُمت مسلمہ کے مسائل پر غور و فکرکرکے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک حاصل کرنا ہماری قوم نے شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے حالانکہ رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا ہے اور قرآن با ر بار غور و فکر اور تدبر و تفکر کی تعلیم دیتا ہے۔
 یہ ایک کھلا رازہے کہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط نامساعد حالات نے کشمیری مسلمانوں کی حسین تہذیب کی بنیادی ہلا کر رکھ دی ہیں۔جہاں اس عرصے میں عام انسان نے بے پناہ قربانیاں پیش کی ہیں ،وہاں حالات نے اُس کے ذہن پر ایسے گہرے منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں کہ ان کے زیر سایہ عوام النا س میں نفسیاتی الجھنیں او ر ذہنی امراض عام ہو چکے ہیں۔ جس انسان کو آئے رو ز ذلت اور رسوائی کا سامناکرنا پڑتا ہو گا، جس سماج میں آئے دن ہر جانب لاشیں ہی لاشیں دیکھنے کو ملتی ہوں، جہاں بیٹیوں کی عزت لوٹی گئی، جہاں نوجوانوں نے قبرستان آباد کیے ہوں ، جہاں املاک تباہ و برباد کیے گئے ہوں، جہاں مدتوں ٹارچر اور اذیت رسانی روز کا معمول بنا رہاہو، جہاں سما جی گھٹن کے ساتھ ساتھ زندان خانوں میں نوجوانوں، کم عمر لڑکوں، بزرگوںحتیٰ کہ خواتین کو تڑپایا جا تارہا ہو، وہاں ذہنی امراض کی اوسط بڑھ جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔یہ اِن ہی حالات کا قصور ہے کہ آئے روز معمولی باتوں کو لے کر مسافر بسوں، سڑکوں، بازاروں اور دیگر عوامی جگہوں پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھا پائی اور گالم گلوچ پر اُتر آتے ہیں۔ذرا سی بات پر دو ہمسائیوں کے درمیان تصادم شروع ہو جاتا ہے ۔ حال ہی میں نٹی پورہ سرینگر میں معمولی بات کو لے کر دو پڑسیوں میں گرم گرفتاری نے تصادم کا روپ دھار لیا اور نتیجے میں ایک بے گناہ انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ عدم برداشت کی اس طرح کی مثالیں آئے روز اخباروں میں شائع ہونے والی وہ منحوس خبریں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح خاندانی ، گروہی، مسلکی اور ہمسائیوں کے درمیان معمولی بات پر جنگ چھیڑ جاتی ہے۔اس افسوس ناک صورت حال سے یہاں جرائم کا گراف بڑھ گیا ہے، باہمی محبت ومودٔ ت عنقا ہو رہا ہے، اعتما د اور بھروسہ ختم ہوتا جا رہا ہے ، ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کوئی مسلم معاشرہ نہیں بلکہ خدا خوفی سے کوسوں دور ایسا بگڑا ہوا سماج ہے کہ جسے کبھی انسانیت کی ہوا تک بھی نہ لگی ہو۔ ایسے نا گفتہ بہ حالا ت کم ہو نے کی بجا ئے بڑ ھ رہے ہوں توبھلا اُن روزوں کا کیا فائدہ جو مسلمان میں صبر اور برداشت پیدا نہ کر سکیں۔ اُس قیام لیل اور اُن لمبی لمبی  دعاؤں کا کیا حاصل جو یہ سوچ پیدا نہ کر سکیں کہ دوسروں کے کام آنا ، انسانیت کا احترام کرنا اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھنا مسلمان کے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر ابدی کامیابی و فلاح ناممکن ہے۔
نہ جانے ہم رمضان کی روزوں سے کیا مراد لیتے ہیں؟ ہمارے یہاں بندہ روزدار بھی ہوتا ہے اوررشوت لینے اور دینے والا بھی ہوتا ہے، سحری کھانے اور تہجد پڑھنے والا بھی ہوتا ہے اور باطل وشیطا ن کا ساتھ بھی دیتا ہے،شب بیداری کرنے والا بھی ہوتا ہے اور بے حیائی ، بدی اور عریانیت و فحاشیت کو پروان چڑھانے میں پیش پیش بھی ہوتا ہے، وہ لوگ بھی روز دار ہوتے ہیں جو محض چند ٹکوں کے لیے بلا وجہ روزہ خوری سے صیام کی توہین کرنے والوں کو پردوں کے پیچھے کھلاتے پلاتے ہیں،اُن لوگوں کا بھی روزہ ہوتا ہے جو بازاروں ، دفاتر اور ہسپتالوں میں مجبوروں ، لاچاروں اور حالات کے ماروں کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں، قانون کے اُن محافظوں کا بھی رو زہ ہوتا ہے جو اپنی جیب گرم کرنے کے لیے آئے روز بے گناہ نوجوانوں کو مختلف فرضی کیسوں میں ملوث کرکے اُن سے رشوت اینٹ لیتے ہیں،قوم کے اُن ’’زاہدوں‘‘،’’ متقیوں‘‘ اور ’’فاضلوں‘‘ کا بھی روزہ ہوتا ہے جو اس بابرکت مہینے میں بھی فروعی مسائل کو ہوا دے کر ملّت کو بانٹنے کا کارِ بد انجام دیتے ہیں، اُن فتویٰ بازوں کا بھی روزہ ہوتا ہے جومسلمانوں پر’’کفر‘‘ کا فتویٰ صادر کرکے اپنے آپ کو خبروں میں رکھنے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ وہ بھی روزہ دار ہی ہوتے ہیں جو عوامی منڈیٹ حاصل کرکے غریب عوام کے وسائل کو دودوہاتھوں لو ٹتے ہیں اوراور ان کے مفادات کو داؤ پر لگا دیتے ہیںاور وہ بھی روزوں میں پیش پیش ہوتے ہیں جو قوم کی قربانیوں کو کوڑیوں کے مول بیچنے کا ساز باز کر رہے ہو تے ہیں۔اس طرح کی فاقہ کشیو ں کی نہ ہی اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت ہے اور نہ ہی ایسے لوگ’ روزوں‘ سے کوئی فیض حاصل کر سکیں گے۔ سچائی یہی ہے کہ روزوں کی مقصدیت تک پہنچنے کے لیے ابھی ہمیں لمبا روحا نی اور تزکیا تی سفر ایثار اور اخلا ص ، خدا خو فی اور فلاح انسانیت کی زادہ راہ پر طے کرنا ہو تا ہے۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں مسلمانوں نے بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں، یہی وہ مقدس مہینہ ہے جس میں بدر کے مقام پر حق نے باطل پر غلبہ پا لیا، قلیل تعداد اور کم وسائل کے باوجود مسلمانوں نے مخالفوں پر غلبہ پا لیا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں مسلمان اپنے سیاسی و مذہبی حقوق کی باز یابی کے لیے بر سر جدوجہد ہیں، مختلف ملکوں اور خطوں مسلمانون کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے، شام ، عراق، فلسطین، چیچنیا، کشمیر، پاکستان، افغانستان میں آئے روز مسلمان کٹ مر رہے ہیں، برما کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، وہاں حال ہی میںایک اندازے کے مطابق بیس ہزار مسلمانوں کو تہ تیغ کیا گیا، معصوم بچوں کو آگ میں جھونک دیا گیا، حد تو یہ ہے کہ وہاں کی حکومت کہتی ہے کہ مسلمان برما کے شہری نہیں ہیں۔ وہاں افطار اور سحری کے اعلانات پر پابندی عائد ہے۔وہاں مظالم کی ایسی مہیب داستانیں رقم کر دی گئی ہیں کہ سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قرون اولیٰ کے مسلمان کم وسائل اور کم تعداد کے باوجود جہاں جاتے تھے اپنا جھنڈا گاڑ دیتے تھے اور آج کے مسلمان افراد قوت سے مالا مال ہیں، وسائل کی بھی کمی نہیں ہے لیکن پھر بھی اُن کی حیثیت سمندر کے پانی پر اُس جھاگ کی سی ہے جو ہوا کے معمولی جھونکے یا پا نی کے بہاؤ سے فنا ہو جاتا ہے۔وجہ کیا ہے؟ کیوں آج کے مسلمان پٹتے جا رہے ہیں؟ کیوں اُنہیں اپنے گھروں کے اندر بھی جا ئے پناہ حاصل نہیں ہوتی ہے؟ وجہ صاف ہے ، قرون اولیٰ کے مسلمان دنیا  وی مفادات اور لذات کو ثانوی حیثیت دیتے تھے اور اللہ پر کامل ایمان کے ساتھ اُس کے دین کی سر بلندی کے لیے ہمیشہ میدان عمل میں رہتے اور ہر انسان اور ہرقوم کے لئے دل سے رحمت اور بر کت کا با عث بنتے جب کہ آج حالت یہ ہے کہ مسلمان پر دنیا غالب آچکی ہے، دنیا پرستی نے اُنہیں بزدل بنا دیا، وہ جاہ و حشمت ، عیش و عشرت کو چھوڑنے کے لیے کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہیں۔ اُن کا ایمان کمزور ہے ، وہ اسلامی عبادات کے حقیقی مفہوم کو جان ہی نہیں پاتے ہیں۔ دوسروں کے کام آ نا رتو در کنار وہ اپنے نفس کی عارضی مٹھاس کے لئے اوروں کو دن دھا ڑ ے ذبح کر نے سے بھی نہیں کتراتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ماہ رمضان کے اس بابرکت مہینے میں تدبر و تفکر کر کے اپنے مقام و مرتبے کو پہچانے کی کوشش کریں۔ایمان کو مضبوط کرکے خالص اللہ کی ذات کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کریں، ایمان اور اللہ پر توکل ہی وہ کمال دکھا سکتے ہیں جس کا فی الحال ہمیں دور دور تک آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ایمان ہی ٹوٹتی ہمتیں کو باندھ سکتا ہے، پست حوصلوں کو بلندی عطا کر سکتا ہے اور نا اُمیدی کو امید میں تبدیل کر سکتا ہے۔ آج بھی بازی پلٹ سکتی ہے، اسلام کے نام لیواؤں کا ہر سو چرچا ہوگا، اُن کے سامنے کسی کو ٹکنے کی ہمت نہ ہوگی ، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہم اپنے اندر ایمان راسخ کریں۔ایمان کی جڑوں کو مضبوط کریں پھر زمانہ دیکھ لے گا کہ مسلمان کس چیز کا نام ہے۔ رمضان کے فلسفہ کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے،بسیار خوری کے سوچ کُند ہو جاتی ہے ،بھوک اور پیاس عقل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لیے اِن مقدس ایام کو غنیمت جان کر ہمیں اپنے آپ کا احتساب کرنا چاہیے۔ آنے والا وقت ہمارا ہوگا انشاء اللہ۔
essahmadpirzada@gmail.com

No comments:

Post a Comment