Search This Blog

Sunday 29 July 2012

جمال

جمال

شاہ نواز فاروقی 
-انسان کی زندگی میں حسن و جمال کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ ان کے بغیر زندگی کو زندگی کہنا محال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور کائنات کی ہر شے اس کے جمال کا مظہر ہے۔ اگر یہ جمال انسان کے اندر اور باہر موجود نہ ہو اور انسان کو شعوری یا لاشعوری طور پر اس کا احساس نہ ہو تو وہ خودکشی کرلے۔ انسان میں حسن وجمال کی طلب اتنی بنیادی ہے کہ اس کی تسکین عقل کے تقاضوں اور ان کی تسکین سے زیادہ اہم ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عقل کے تقاضوں اور ان کی تسکین کی نوعیت اکتسابی ہے، اور جمالیاتی تقاضوں کی نوعیت وہبی ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عقل کا تعلق صرف ذہن سے ہے جبکہ جمالیات کا تعلق انسان کے پورے وجود سے ہے۔ چنانچہ جمالیاتی تقاضوں کی تسکین دراصل انسان کے پورے وجود کی تسکین ہے۔ یعنی جمالیاتی تقاضوں کی تسکین میں روح، قلب، نفس اور جبلتوں سب کی تسکین شامل ہے۔ ہمارے دین کی تعلیم یہ ہے کہ جنت کا حصول اور جہنم سے نجات انسان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جس کو جنت میسر آئی وہ کامیاب ہوا، اور جو جہنم کا مستحق قرار دیا وہ خسارے میں رہا اور مارا گیا۔ لیکن جب اہلِ جنت‘ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم خوش ہو اور کیا تمہیں سب کچھ عطا ہوگیا ہے؟ اہلِ جنت کہیں گے کہ بیشک ہم خوش ہیں اور تمام نعمتیں ہمیں میسر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ سب سے بڑا انعام ابھی باقی ہے اور یہ انعام ’’دیدارِ الٰہی‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ کہیں گے اور خود کو اہلِ جنت پر ظاہر کردیں گے اور اہلِ جنت اپنے رب کو اس طرح دیکھ سکیں گے جس طرح وہ چاند کو دیکھتے ہیں۔ اہلِ جنت جمالِ الٰہی کو سامنے دیکھیں گے تو اس میں محو ہوجائیں گے اور انہیں محسوس ہوگا کہ جنت کی تمام نعمتیں بھی دیدارِ الٰہی کے ایک لمحے کے برابر نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اہلِ جنت کا مرتبہ زمین پر موجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مرتبے سے بڑھ جائے گا، کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی خواہش کی اور انہیں جواب ملا کہ تم مجھے دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتے۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اصرار کیا اور اللہ تعالیٰ کی ایک تجلی نے کوہِ طور کو جلا دیا، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ اہلِ جنت میں اپنے دیدار کو برداشت کرنے کی استعداد پیدا کردیں گے، اور اس دیدار کا ایک لمحہ جنت کی تمام نعمتوں اور لذتوں سے بڑھ جائے گا۔ لیکن یہ معاملہ صرف جنت کا نہیں ہے، اس دنیا میں بھی جمالِ الٰہی کے مظاہر کا انسان پر ایسا ہی اثر ہوتا ہے۔ جمال کا اثر کہیں عقل سے بڑھ کر عقل بن جاتا ہے، کہیں فہم سے بڑھ کر فہم میں تبدیل ہوجاتا ہے، کہیں تحرک سے بڑھ کر تحرک یعنی Motivation کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ اور بات کہ ہم جمال کے اثرات پر اس طرح غور نہیں کرتے جس طرح دوسری چیزوں مثلاً دولت‘ اقتدار اور جسمانی قوت وغیرہ کے اثرات پر غور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں انبیاء و مرسلین کے قصے بیان فرمائے ہیں اور ان میں حضرت یوسف ؑ کے قصے کو احسن القصص یا سب سے حسین قصہ قرار دیا ہے، حالانکہ اس قصے کا مرکزی حوالہ حضرت یوسف ؑ اور زلیخا کی کہانی ہے۔ اس کہانی کی ابتداء زلیخا کے اس خواب سے ہوئی جس میں اس نے حسنِ یوسف کو مجسم صورت میں دیکھا۔ حضرت یوسف ؑ بازارِ مصر میں نیلام ہوئے اور زلیخا نے انہیں خرید لیا۔ بلاشبہ زلیخا حضرت یوسف ؑ کی محبت میں مبتلا ہوئی۔ حضرت یوسف ؑ کا خواب اس نے خود نہیں دیکھا تھا بلکہ یہ خواب اسے ’’دکھایا‘‘ گیا تھا، اور اس کی دو وجوہ تھیں، ایک یہ کہ جمالِ یوسف کے غیر معمولی اثرات کو ظاہر کیا جائے اور حضرت یوسف ؑکے دامن کی حرمت ثابت کی جائے، اور یہ دونوں کام بہ تمام و کمال ہوئے۔ زلیخا نے حضرت یوسف ؑ کے لیے جال بچھایا اور حضرت یوسف ؑ توفیقِ الٰہی سے جال سے نکل بھاگے۔ لیکن جب حضرت یوسفؑ سے زلیخا کی محبت کا چرچا طبقۂ امراء کی عورتوں میں عام ہوگیا تو زلیخا نے انہیں محل میں بلایا اور چھریوں سے میوے کترنے کے لیے دے دیے اور اچانک حضرت یوسف ؑ کو ان کے سامنے بلالیا۔ طبقۂ امراء کی عورتوں نے جمالِ یوسف ؑ دیکھا تو محویت میں چھریوں سے اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔ اس پر غالب نے یہ بے مثال شعر کہا ہے: سب رقیبوں سے ہیں ناخوش پر زنانِ مصر سے ہے زلیخا خوش کہ محوِ مالِ کنعاں ہوگئیں غور کیا جائے تو حضرت یوسف ؑ اور زلیخا کے قصے کے تین پہلو اہم ہیں: (1) جمال کا تجربہ عمر اور طبقے کی نفسیات سے ماوراء ہے ۔ ورنہ حضرت یوسف ؑ عمر میں زلیخا سے بہت چھوٹے اور زلیخا کے ’’زر خرید غلام‘‘ تھے۔ (2) جمال کا مشاہدہ اور تجربہ رقابت کی نفسیات کو بھی معطل کرسکتا ہے۔ (3) جمال انسان کے فہم و شعور پر غالب آکر خود فہم و شعور بن سکتا ہے۔ لیکن ہماری تہذیب میں جمال کا تجربہ صرف ظاہری حسن و جمال تک محدود نہیں، بلکہ ہمارا دین ہمارے باطن کو بھی حسین وجمیل دیکھنا چاہتا ہے، مثلاً نماز کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ’’اے فرزندانِ آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرلیا کرو۔‘‘ (31:7) ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کون ہے جو اللہ کو حسین قرض دے‘‘۔ اور مسلمان جب اپنے کسی بھائی سے کسی کی وفات پر تعزیت کرتے ہیں تو اس کے لیے صرف صبر کی دعا نہیں کرتے بلکہ ’’صبرِ جمیل‘‘ کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے جمال کا شعور صرف انسانوں میں نہیں پایا جاتا بلکہ حیوانات بھی ایک درجے میں اس شعور کے حامل ہیں۔ چکور ایک پرندہ ہے اور وہ چاند کے حسن کا عاشق ہے۔ چاند تکمیل کے آخری مراحل میں حسین تر ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی چکور کی دیوانگی بڑھ جاتی ہے۔ چکور چاند کے حسن میں جذب ہوجانے کے لیے چاندنی راتوں میں چاند کی طرف پرواز کرتا ہے۔ وہ فضا میں بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اس کی قوتِ پرواز محدود ہوتی ہے۔ وہ تھوڑی ہی دیر میں اڑتے اڑتے بری طرح تھک جاتا ہے، اس کے بازو شل ہوجاتے ہیں اور وہ چاند کی محبت میں فنا ہوجاتا ہے۔ بلبل کے لیے پھول میں ایک حسن ہے اور وہ پھول کا عاشق ہے۔ بلبل کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گلاب کے پھول کے گرد منڈلاتے منڈلاتے اس کے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ گلاب کا کانٹا اس کے سینے میں اتر جاتا ہے اور بلبل کی موت واقع ہوجاتی ہے، اور سرخ گلاب کی سرخی گویا بلبل کے خون سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تشبیہ ’’شاعرانہ‘‘ مگر ’’بامعنی‘‘ ہے۔ پتنگے اور شمع کی محبت اس اعتبار سے ایک داستان ہے کہ فارسی اور اردو شاعری کی روایت میں شمع اور پروانہ دو بنیادی کرداروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پتنگے کے عشق اور اس کی حسن پرستی کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ پتنگا شام گئے پیدا ہوتا ہے‘ وہ ساری رات شمع کے گرد منڈلاتا ہے اور صبح ہونے سے پہلے جل کر شمع پر جان دے دیتا ہے۔ سلیم احمد کا ایک شعر ہے: پروانے کے جینے کا اسلوب پسند آیا شب رقصِ جنوں کرنا اور صبح کو جل جانا اہم بات یہ ہے کہ شمع اور پروانہ حقیقت بھی ہیں اور علامت بھی۔ اس سلسلے میں اقبال کی نظم شمع اور پروانہ کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے: پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں؟ یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں؟ سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے آدابِ عشق تُو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟ کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا پھونکا ہوا ہے کیا تری برقِ نگاہ کا آزارِ موت میں اسے آرام جاں ہے کیا؟ شعلے میں تیرے زندگیٔ جاوداں ہے کیا؟ غم خانۂ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو اس تفتہ دل کا نخلِ تمنا ہرا نہ ہو گرنا ترے حضور میں اُس کی نماز ہے ننھے سے دل میں لذتِ سوز و گداز ہے کچھ اس میں جوشِ عاشق حسنِ قدیم ہے چھوٹا سا ’’طُور تُو‘ یہ ذرا سا کلیم ہے پروانہ اور ذوقِ تماشائے روشنی کیڑا ذرا سا اور تمنائے روشنی اس سلسلے میں اقبال کی نظم ’’جگنو‘‘ بھی اہمیت کی حامل ہے جو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جمال ہر شے میں جلوہ گر ہے۔ اقبال نے کہا ہے: ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی پروانے کو تپش دی جگنو کو روشنی دی رنگیں نوا بنایا مرغانِ بے زباں کو گل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی نظارۂ شفق کی خوبی زوال میں تھی چمکاکے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی رنگیں کیا سحر کو بانکی د لہن کی صورت پہنا کے لال جوڑا شبنم کو آر سی دی سایہ دیا شجر کو‘ پرواز دی ہوا کو پانی کو دی روانی موجوں کو بے کلی دی یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری جگنو کادن وہی ہے جو رات ہے ہماری حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ‘ یاں دردکی کسک ہے اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ نغمہ ہے بوئے بلبل‘ بُو پھول کی چہک ہے کثرت میں ہوگیا ہے وحد ت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے شعورِ جمال کی رسائی اتنی ہے کہ سمندر چاند کے حسن سے متاثر ہوتا ہے اور اس میں تلاطم برپا ہوجاتا ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر دیگر مخلوقات کے لیے جمال اتنا اہم ہے تو اشرف المخلوقات یعنی انسان کے لیے کتنا اہم ہوگا! لیکن بدقسمتی سے اربوں انسان حقیقی شعورِ جمال سے ان معنوں میں محروم ہوچکے ہیں کہ وہ جمالِ الٰہی کو فراموش کرکے صرف مجازی حسن کے اسیر ہوگئے ہیں اور یہ اصل کو بھول کر نقل کو اختیار کرلینا ہے۔

No comments:

Post a Comment