Search This Blog

Sunday 8 July 2012

پسینہ کیوں اور کیسے؟

پسینہ کیوں اور کیسے؟


- حکیم راحت نسیم سوہدروی
پسینہ کا اخراج ہر فرد کے لیے ضروری‘ قدرتی اور صحت بخش عمل ہے۔ اس کے ذریعے جسم سے فاسد مواد نکلتا ہے۔ اس کے بغیر صحت نہیں ہوسکتی۔ اگر پسینہ رک جائے تو جسم میں جو حرارت پیدا ہوتی رہتی ہے وہ جسم میں ہی جمع رہے تو آدمی کو خاکستر کردے اور زندگی برقرار نہ رہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں پسینہ نہیں آتا وہ شدید غلطی پر ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو پسینہ آتا ہے مگر اس طرح کہ نظر نہیں آتا، کیونکہ پسینے کا بیشتر حصہ اڑ جانے والے بخارات کی صورت اُڑ جاتا ہے۔ یہ بات ایسے لوگوں کے لیے حیران کن ہوگی کہ ہر شخص کے جسم سے 24 گھنٹوں میں نصف کلو پسینہ بہہ جاتا ہے۔ پسینہ اُس وقت زیادہ نکلتا ہے جب جسمانی حرارت 98.4 سے بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ موسم سرما میں کام کاج کرنے‘ دھوپ میں نکلنے‘ ذرا سی محنت مشقت سے پسینہ زیادہ آتا ہے۔ جس قدر حرارت کا اضافہ ہوگا اسی قدر پسینہ زیادہ آئے گا، کیونکہ جسم حرارت کے اخراج کی کوششیں کرتا ہے۔ جسم پسینے سے شرابور ہوجائے گا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پسینے کے اخراج سے شاذو نادر ہی کوئی آرام یا فرحت محسوس کرتا ہو، کیونکہ پسینے سے بدبو اورکپڑے چپکنے کا عمل بے چین اور مضطرب کردیتا ہے۔ ایسا عموماً اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کو پسینے کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کی پابندی اور پسینے کو کنٹرول کرنے والی اشیاء کے استعمال سے پسینے کا بڑھا ہوا اخراج کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ پسینے کا اخراج قدرتی اور صحت بخش عمل ہے۔ اس کے بغیر سنگین صحتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ہماری جلد کی گہرائی میں ایسے کروڑوں غدود ہیں جن سے پسینہ خارج ہوتا ہے۔ پسینے سے جسم کا درجہ حرارت یکساں رہتا ہے اور جسم مرطوب رہتا ہے۔ اگر پسینے کا اخراج زیادہ ہو تو جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ اس طرح جسمانی محنت و ریاضت سے یہ غدود فعال ہوکر پسینہ خارج کرتے ہیں۔ جب جسم گرم ہوجاتا ہے تو پسینہ خارج ہوتا ہے، مگر جلد پر پسینہ بخارات میں تبدیل ہوکر اُڑ جاتا ہے اور جسم کی گرمی توڑ کر جسم کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ جب پسینے کو جلد پر پہنچ کر خارج ہونے کا راستہ نہیں ملتا تو بدبو پیدا کرتا ہے۔ یہ صورت جسم میں خلیوں کو کھانا شروع کرتی ہے جو مُردہ ہوکر سڑاند پیدا کرتیہیں۔ایکرین گلینڈ بھی اسی بو کا سبب ہوتے ہیں۔ یہ گلینڈ تولیدی اعضاء کے قریب ہوتے ہیں اور ایسے سیّال مواد کا افراز کرتے ہیں جس میں مُردہ خلیے اور نامیاتی مواد پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مواد پہلے مرحلے پر بے بو ہوتا ہے اور جلد پر بیکٹیریا شامل ہوکر اس کے مرنے سے بدبودار ہوجاتا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ غم و غصہ سے دور رہیں۔ خوش و خرم زندگی گزاریں۔ اعصاب کو سکون دیں۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کی پاسداری کریم۔ ٹالکم پائوڈر، دافع بو اشیاء پیروں اور جوتوں پر چھڑکیں۔ روزانہ غسل کریں۔ کپڑے تبدیل کریں۔ صاف رہیں۔ اعصابی ہیجان سے بچیں۔ ایک تدبیر ان لوگوں کے لیے جن کو ہتھیلیوں پر بکثرت پسینہ آتا ہے: چائے کی پتی جو چائے بناکر بچ جاتی ہے، رات سونے سے قبل ہتھیلیوں پر مل لیا کریں۔

No comments:

Post a Comment