Search This Blog

Sunday, 22 July 2012

ماہ صیام کے تقاضے

ماہ صیام کے تقاضے

-ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

وقت اور عمر دنیا کے اہم ترین خزانے ہیں جس کا حساب معبود حقیقی کو دینا ہے۔ وقت کا پرندہ اتنی تیزی سے اڑتا چلا جارہا ہے کہ صدیاں سالوں میں سال مہینوں میں مہینے دنوں میں اور دن ساعتوں میں گزر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کل ہی رمضان گزرا تھا اور اب بھی اسلامی تقویم کے نویں مہینے کی تیاری ہوگئی۔ رمضان المبارک کا ایسا ماہ مبارک ہے جس میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے لیے رحمتیں اور برکتیں بے حساب نازل فرمائی ہیں ہر مسلمان اس کی آمد کا منتظر اور بساط بھرتیاری میں مصروف نظر آتا ہے۔ خواتین اپنے ہی انداز میں رمضان کی تیاری کرتی ہیں۔ اب سے نصف صدی پہلے خواتین پورے رمضان المبارک عبادت میں مصروف رہتی تھیں۔ خیرات زکواۃ صدقہ اللہ کے نام کا کھانا ہر گھر سے جایا کرتا تھا۔ مسجدوں میں افطاری کی ٹرے ضرور جاتی تھی مگر اب یہ دستور ختم ہوگیا ہے۔ اب خواتین (معذرت کے ساتھ) صرف اپنا اپنے بچوں اور شوہر کا خیال رکھتی ہیں۔ معاشرتی ذمہ داریوں اور غرباء مساکین اور یتامیٰ سے انہوں نے ہاتھ اٹھالیا ہے۔ اب رمضان کا پورا مہینہ گھر کے پردے فرنیچر‘ صوفوں کے غلاف بدلنے بچوں اور شوہر کے کپڑوں کی خریداری میں صرف کرتی ہیں۔ ان تمام کاموں میں اتنی تھکن ہوجاتی ہے کہ عبادت کے لیے ہمت نہیں ہوتی۔ رمضان ہر سال مہمان کی طرح ایک ماہ کے لیے اپنے اندر بے انتہا رحمتیں‘ برکتیں‘ فضائل لے کر آتا ہے۔ ناسمجھ اور کم عقل خواتین اس کی مہمانداری کے بہانے بے شمار بے جا اخراجات تلے دب کر اپنا آئندہ کئی ماہ کا بجٹ فیل کردیتی ہیں اور حقیقتاً ان تمام فیوض سے محروم ہوجاتی ہیں جو رمضان المبارک کا خاصا ہے۔ رمضان المبارک تو ہر سال آتا ہے اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ ا س کے لیے تیاری چند ماہ پہلے کرلی جائے اور رمضان کو صرف عبادت کے لیے مخصوص کرلیا جائے؟ اس ماہ کی فضلیت کے لیے نزول قرآن ہی کافی ہے۔ اور نہ صرف قرآن بلکہ تمام آسمانی صحیفوں کا نزول اسی ماہ مبارک میں ہوا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں ایک ماہ کے روزے ہر بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض کردیے۔ تاکہ مسلمان تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کریں۔ اسی ماہ مبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں وہ قیمتی رات بھی مخفی کردی گئی جس میں صرف ایک رات کی عبادت کا ثواب 83 سال 4ماہ کے برابر ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لیے عطیہ خداوندی ہے اور ہر وہ مسلمان مرد اور عورت اس عطیہ سے فیضیاب ہوسکتا ہے جو اس کے لیے جدوجہد کرے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عبادت گزار مرد اور عورت روزہ دار مرد اور عورت ونوں کو اجر و ثواب میں برابرٹھیرایا ہے۔ اللہ کے ہاں ہر نیک عمل کا اجر ہے اور روزہ تو ایسی عبادت ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’بندہ روزہ میرے لیے رکھتا ہے اس لیے میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘ ایک مسلمان اللہ کو سمیع و بصیر سمجھتے ہوئے صبح صادق سے مغرب تک اپنے آپ کو ہر حلال چیز سے روکے رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ حکم ربی ہے۔ رب کی اطاعت میں خواتین بھی اتنی ہی مصروف نظر آتی ہیں۔ جتنے مرد‘ بلکہ عورتوں کی ذمہ داریوں میں تو زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کا ایک شیڈول بنائیں اور اس کے مطابق کام کریں ورنہ آپ افطار سحر بازاروں کے چکروں میں اس ماہ مبارک کی برکتوں سے محروم رہ جائیں گی۔ اسی ماہ مبارک میں نزول قرآن ہوا اس لیے قرآن کی تلاوت کے ساتھ اس کے معنی اور مفہوم پر بھی غور کرتی جایئے تاکہ انسان کا مقصد حیات سمجھ میں آسکے اور آپ بھی یہ سمجھ لیں کہ ترجمہ ’’اور میں نے انسان او رجنوں کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘ (سورہ الذریات) اس ماہ مبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کیجیے۔ 21 ویں‘ 23 ویں ‘ 25 ویں ‘27 ویں اور 29 ویں شب کے لیے پہلے سے تیار رہیں اس دن کوئی ایسا محنت کا کام نہ کریں جو تھک کر چور ہوجائیں اور رات سوکر گزار دیں ہر شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس کو ضائع نہ کریں رمضان کا پہلا عشرہ رحمت‘ دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے نجات ہیں۔ تینوں عشروں کی الگ الگ دعائیں ہیں۔ گھریلو کام کاج میں مصروف خواتین ان دعائوں کا ورد جاری رکھ سکتی ہیں۔ دعا کے لیے صرف جانماز پر بیٹھ کر مانگنا ہی ضروری نہیں ہے آپ اپنے اللہ سے ہر لمحہ‘ ہر وقت مانگ سکتی ہیں کیونکہ وہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اور ہر مانگنے والے کو نوازتا ہے۔ اسلام ایسا پاکیزہ مذہب ہے جس میں نفاق اور شرک کی گنجائش نہیں۔ رمضان میں یہ شعوری احساس اور زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ ہم اللہ کے حکم سے جب زبان کو مخصوص اوقات میں ہر قسم کے ذائقے سے محروم رکھ سکتے ہیں تو اسی زبان کو ہر قسم کی غیبت‘ بدگمانی‘ برائی سے کیوں نہیں روک سکتے۔ اگر آپ روزے سے ہیں تو اپنے آپ کو ہر اس شر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں جو آپ کے روزے کو اس کے اصل ثواب سے محروم کرسکتا ہے۔ اگر آپ کو کوئی برائی پر آمادہ کرنا چاہے تو اسے کہہ دیں کہ آپ روزے سے ہیں۔ یعنی آپ کسی کی غیبت میں شریک ہوکر کسی کی عزت کو اچھال کر ‘ کسی پر بہتان لگا کر کسی کے خلاف دل میں بدگمانی کرکے اس بڑے ثواب سے محروم نہیں ہوسکتیں جو آپ کا مالک آپ کو دینے والا ہے۔ انتہائی فضلیت والی نفل نماز ہے جو جنت میں جانے کا راستہ بھی ہے اور جس کے ادا کرنے والے بلاحساب جنت کے حقدار ٹھیریں گے۔ رمضان میں اس نماز کو ادا کرنے میں تساہل نہ برتیں۔ سحری کی تیاری سے پہلے کم از کم چار رکعت زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتوں کے لیے وقت نکالیں اور تہجد کی نماز خضوع و خشوع سے ادا کریں ہر عبادت اور ہر نماز کو آخری نماز سمجھ کر ادا کریں سورہ مومنوں میں نماز کے خضوع و خشوع اور وقت پر ادا کرنے کی فضلیت بیان کی گئی ہے۔ موجودہ حکومت کی کرپشن ‘ لوٹ مار‘ بدعنوانی‘ اقتصادی و معاشی ناہموداریوں نے عام لوگوں کی زندگی کو انتہائی مشکل بنادیا ہے گزشتہ دس سالوں میں خودکشی کی شرح بڑھ گئی ہے اس کی وجہ دن رات بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔ ایسے لوگ جو سفید پوشی کا بھرم رکھ کر زبان سے کسی قسم کا سوال نہیں کرتے مگر ان کے چہرے ان کی مسکینیت اور فاقہ کشی کا راز کھول دیتے ہیں ان کی زکواۃ صدقے سے مدد کرنا انتہائی نیکی کا کام ہے۔ یوں بھی رمضان المبارک زکواۃ کی ادائیگی کے لیے موسم بہار ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں بہت زیادہ صدقہ خیرات اور زکواۃ ادا فرماتے تھے۔ اگر خواتین اپنی اور اپنے بچوں کے کپڑوں کی الماریوں پر نظر ڈالیں تو ان میں سے بے شمار سوٹ ایسے نظر آئیں گے جو نہ اب تک استعمال میں آئے ہیں اور نہ کبھی ان کے استعمال کی باری کئی سال تک آنے والی ہے ان سب کپڑوں کو نکال کر ایسے مسکینوں کے حوالے کردیں جو نئے کپڑوں کی خوشی سے محروم ہیں۔آپ کی نیت اگر ان کے تن ڈھانپنے اور ضرورت پوری کرنے کی ہے تو یقیناآپ کو اس کا بے انتہا ثواب ملے گا یہ ماہ مبارک تو یوں بھی ثواب لوٹنے کا مہینہ ہے اس ماہ مبارک کے ہر ہر لمحہ سے فائدہ اٹھائیں ملت اسلامیہ کا یہ اعزاز ہے کہ وہ خواہ امریکا میں رہتے ہوں یا ناروے میں۔ پورے سال دنیا کی کسی مصروفیت میں مگن ہوں رمضان شروع ہوتے ہی وہ ایک لڑی میں شامل ہوجاتے ہیں جیسے تسبیح کے دانے۔ موسم خواہ کتنا شدید کیوں نہ ہو مسلمان روزہ ضرور رکھتے ہیں۔ مغرب دنیا مسلمان کو دیکھ کر حیران ہے کہ وہ مسلمان جو پورے سال مصروفیت کا بہانہ کرکے قرآن نہیں پڑھتے وہ بھی اس ماہ مبارک میں کچھ نہ کچھ وقت تلاوت قرآن کے لیے نکال لیتے ہیں۔ سات سو بیس گھنٹے کی جہد مسلسل ان کو ایک ایسی ملت میں شامل کردیتی ہے جو شعوری طور پر اپنے اللہ سے اقرار کرتا ہے کہ ’’میری عبادات‘ میری قربانیوں‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب رب العالمین کے لیے ہے‘‘ ہر مسلمان مرد اور عورت جب شعوری طور پر روزہ رکھتا ہے تو یہی احساس اور شعور اس کے اس مقصد کی تکمیل کردیتا ہے جو اسلام کی اصل روح ہے۔ سورہ احزاب میں مسلمان مرد اور عورت کو ان کے ہر نیک عمل کے لیے برابر کی جزا کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ خواتین کسی بھی طرح اپنے اجر و ثواب میں مردوں سے کم نہیں ہیں۔ چنانچہ اس مبارک مہینہ میں بڑھ چڑھ کر عبادت‘ صدقہ وخیرات میں حصہ لیں اور اللہ کے حضور سرخرو ہوں۔

No comments:

Post a Comment