Search This Blog

Sunday 22 July 2012

رمضان اور قرآن!

رمضان اور قرآن!

- محمد آصف اقبال

انسان کی یہ فطری خواہش ہے کہ وہ فی الوقت جس مقام پر ہے اُس سے کہیں اوپر اٹھ جائے یعنی وہ ترقی، کامیابی، نصرت اور فلاح کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ جائے جہاں پہنچ کر لوگ اس کی عزت و تکریم کریں اور ذلت و رسوائی سے وہ کوسوں دور ہو۔ لیکن یہ سب کیسے حاصل ہوگا؟ اس کا کوئی واضح، مدلل اور ٹھیک جواب وہ نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی و کامیابی اور عزت و تکریم کے لیے مختلف طریقہ اختیار کرتا ہے۔ کبھی وہ رائج الوقت طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی سعی و جہد کرتا ہے جو اس کی نظر میں ’’کامیاب‘‘ کہلاتے ہیں تو کبھی ان طریقوں کو استعمال کرتا ہے جو عرف عام میں ’’کامیابی‘‘ کی منزل تک لے جانے میں معاون و مدد گار ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں ’’کامیاب‘‘ وہ شخص ٹھیرتا ہے جو معاشی طور پر نہ صرف مستحکم ہو بلکہ ذاتی مفاد کی خاطر دوسروں کا استحصال بھی بہ خوبی کرنا جانتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج کامیابی کی اِس دوڑ میں اخلاقی حدود کی کوئی حیثیت نہیں اور زندگی کا ہر شعبہ اخلاقی حدود سے مبرا ہے۔ ’’سمجھدار اور کامیاب‘‘ لوگوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اخلاقی حدود کی پابندی ناکامی کا سبب بنتی ہے لہذا سیاست و معیشت میں خصوصاً اور عموماً خاندانی نظام میں بھی ان حدود و قیود سے پاک رہنا چاہیے۔ تب ہی ممکن ہے کہ انسان خوشیاں سمیٹ سکے اور زندگی جو ’’ایک بار‘‘ ملی ہے اس سے بھر پور لطف اندوز ہوا جاسکے۔ اور یہ جو چہار طرفہ مسائل ہیںمثلاً ’’دہشت گردی‘‘، بد امنی، مذہبی جنون، فرقہ واریت، روایت پسندی، دقیانوسیت اور پھر یہ مسائل بھی جن میں بے سکونی، ڈیپریشن، نفسیاتی بیماریاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں یہ سب اُن ہی بیماریوں کا منبع ہے جن کو اخلاقی حدود سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لہذا اُن لوگوں کی جڑ ہی کاٹ دی جائے جو اس طرح کی باتیں، وعظ و نصیحت اور متبادل پیش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت جو سب پر عیاں ہے وہ یہ بھی ہے آج دنیا مٹھی میں بند ہے۔ فکر وعمل کوئی بھی ہو پلک جھپکتے ردعمل سامنے آجاتا ہے۔ لہذا ’’سمجھدار‘‘ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواہشات کے حصول کے لیے ان طریقوں کو اختیار کریں جن کے اختیار سے ان پر آنچ نہ آئے۔ ساتھ ہی دوسروں کو بھی ’’ذاتی خواہشات کے حصول‘‘ پر متحد کرنا آسان اور ممکن ہو۔ معلوم ہوا کہ بہت ہی واضح طور پر آج دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک زندگی کے تمام شعبۂ حیات میں اخلاقی حدود و قیود کی پابندی کرنے والے تو دوسرے وہ جو اخلاقی حدود و قیود کو ریاست اور فرد کی ترقی میںسب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ وہ دور بھی ایسا ہی تھا: جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اور آپؐ نے اسلام کی دعوت پیش کی اس وقت بھی کچھ ایسے ہی حالات تھے۔ زنا اور بدکاری کو نکاح کا درجہ دیا جاتا اور معاشرہ اس طرح کے نکاح کو تسلیم بھی کرتا، بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا اور اس میں اپنی بڑائی اور خوبی سمجھی جاتی، قبائیلی عصبیت اپنے عروج پر تھی اور ایک نہ ختم ہونے والا لڑائیوں کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا، شراب نوشی عام بات تھی جس کے نتیجہ میں بدکاریاں مزید فروغ پاتیں، انسانوں کے انسان ہی غلام تھے، رعایا درحقیقت ایک کھیتی تھی جو حکومت کے لیے محاصل اور آمدنی فراہم کرتی اور حکومتیں اسے لذتوں، شہوتوں، عیش رانی اور ظلم و جور کے لیے استعمال کرتیں، شرک اور بت پرستی اپنے عروج پر تھی، نذرانے اور قربانیاں پیش کی جاتیں اور حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے ان سے فریاد اور التجائیں کی جاتیں، سودی لین دین اور معاشی استحصال کا بازار گرم تھا، فال گیری، کاہنوں، نجومیوں کی خبروں پر ایمان اور بد شگونی کا رواج عام تھا، عقیدہ اور فکر کی گمراہیاں اس قدر عام تھیں کہ تصورِ آخرت ایک مذاق بن چکا تھا۔ یہ اور قسم کی بے شمار گمراہیاں، ظلالتیں، بدکاریاں اور ظلم وزیادتیں تھیں جن کے نتیجہ میںوہ معاشرتی اور تمدنی سطح پر اخلاقی حدود وقیود سے یکسر عاری تھے۔ ساتھ ہی یہودی مذہب محض ریاکاری اور تحکم بن گیا تھا، یہودی پیشوا اللہ کے بجائے خود رب بن بیٹھے تھے۔ عیسائیت ایک نا قابل فہم بت پرستی بن گئی تھی، اس نے اللہ اور انسان کو عجیب و غریب طرح سے خلط ملط کر دیا تھا۔ باقی ادیان کا حال بھی مشرکین جیسا ہی تھا کیونکہ ان کے دل یکساں تھے، عقائد ایک سے تھے اور رسم ورواج میں ہم آہنگی تھی۔ ان ہی حالات میں نزول قرآن کا واقعۂ عظیم رونما ہوا، یہ وہ واقعہ تھا جس نے دنیا کی کایا پلٹ دی! تبدیلی ٔ عظیم کا لازمی تقاضہ ہے کہ: قرآن وہ فرقانِ عظیم ہے جس نے انسان پر دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو بہت ہی واضح انداز میں کھول کر رکھ دیا، جم غفیر جن تاریکیوں میں مبتلا تھا اس کے سامنے وہ روشنی منور کی جس کے ذریعہ صراط مستقیم عیاں ہوگئی، کامیابی اور ناکامی کی راہیں متعین کیں اور ذلت ورسوائی سے نکال کر عزت وشرف کا مقام بخشا۔ اس عظیم تبدیلی کا لازمی تقاضہ تھا کہ انسانوں کے گروہوں پر قرآن کے کچھ حقوق لازم کر دیے جائیں۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک بار خطبے میں) ارشاد فرمایا: ’’یہ کتاب الہی (تمہارے ہاتھوں میں) اللہ تعالی کی رسی ہے، جس نے اس کی اتباع کی وہ راہ ہدایت پر گامزن رہا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے راہ ضلالت اختیار کی‘‘ (صحیح مسلم)۔ معلوم ہوا قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا وہ حقیقی کلام ہے جو اس کے بندوں کی طرف نازل کیا گیا ہے، اب جو شخص اور قوم اس کو مضبوطی سے تھامے گی وہ کامیاب ٹھیرے گی اور جو اس کو پس پشت ڈالے گا وہ ہلاک ہو جانے والا ہے۔ اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ کے رسولؐ نے حج الوداع کے موقعہ پر ایک عظیم مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھامے رہے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے، 1) اللہ کی کتاب اور 2) اس کے نبیؐ کی سنت‘‘۔ یہ کتابِ عظیم یقینا ہماری ہدایت کی ضامن ہے لیکن ساتھ ہی شرط یہ ہے کہ اس کے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ قرآن کے پانچ اہم حقوق ہیں، جن کا جاننا اور ان پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ پہلا حق اس پر ایمان لانا ہے: ہر شخص پر واجب ہے کہ اس کتاب کے کلام الہی ہونے اور رہتی دنیا تک تمام لوگوں کے لیے کتاب ہدایت ہونے پر ایمان لائے۔ کہا کہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔‘‘ (سورۃ النسائ: ۱۳۶)۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے، نہ ماننے والوں سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہو جائے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اُسے سچے دل سے مانے۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے۔ اپنی فکر کو، اپنے مذاق کو، اپنی پسند کو، اپنے رویّے اور چلن کو، اپنی دوستی اور دُشمنی کو، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اُس عقیدے کے مطابق بنالے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔ آیت میں خطاب اُن تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ’’ماننے والوں‘‘ میں شمار ہوتے ہیں۔ اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ دُوسرے معنی کے لحاظ سے وہ سچے مومن بن جائیں۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی ایمان کی متقاضی ہے کہ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیئس سالہ نبوی زندگی پر محیط ہے، یہ کتاب آج بھی بغیر کسی کمی اور زیادتی کے اُسی حالت میں ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے جس طرح یہ پہلی دفع نازل ہوئی تھی۔ اس میں مذکور ہر چیز کی تصدیق کی جائے، ہر حکم اور ہر نہی کو حق اور عدل و انصاف پر مبنی برحق مانا جائے نیز اس میں جو چیز حلال ہے اُسے حلال اور جو چیز حرام ہے اُسے حرام سمجھا جائے، نیز اس کتاب کو قیامت تک کے لیے کتاب ہدایت سمجھا جائے۔ یہ کتاب آخری رسول محمدؐ پر نازل ہونے والی آخری کتاب اللہ ہے لہذا اب اسے کسی نبی کی تعلیم منسوخ نہیں کرسکتی۔ دوسرا حق اس کی تلاوت ہے: ایمان کا لازمی تقاضہ ہے کہ اس کتاب کو پڑھا جائے۔ کس طرح پڑھا جائے؟ کہا کہ: ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اُسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس پر سچّے دل سے ایمان لاتے ہیں۔ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہّ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۱۲۱)۔ مزید کہا کہ: ’’اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھیر ٹھیر کر اسے لوگوں کو سُناؤ‘‘ (بنی اسرائیل:۱۰۲)۔ اسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: ’’اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘ (المزمّل: ۴)۔ مولانا مودودی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زیاد سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام الہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہو جائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرات محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے‘‘ (تفہیم القرآن)۔ رسولؐ اللہ کی قرات کا طریقہ حضرت انسؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ، رحمان اور رحیم کو مد کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری) حضرت ام سلمہؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضورؐ ایک ایک آیت کو الگ الگ کر پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً الحمد للہ رب العلمین پڑھ کر رک جاتے، پھر الرحمن الرحیم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رک کر ملک یوم الدین کہتے (مسند احمد۔ ابو داؤد۔ ترمذی۔ نسائی)۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضورؐ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپؐ کی قرات کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضورؐ اس مقام پر پہنچے ان تعذبھم فانھم عبادک و ان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم (اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی (مسند احمد، بخاری)۔ معاملہ یہ ہے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے پڑھنے والے میں یکسر تبدیلی آجاتی ہے۔ لیکن ہائے افسوس! کہ آج ماہ ِقرآن یعنی رمضان المبارک میں قرآن کے ساتھ ہم کس قدر ظلم کر رہے ہیں! ضرورت ہے کہ قرآن کو ویسے ہی پڑھا جائے جیسا کہ اس کو پڑھنے کا حق ہے۔ تیسرا حق اس پر عمل ہے: کتاب پر ایمان لے آئے، اس کا مطالعہ بھی کیا، اب لازم آتا ہے کہ اس پر عمل بھی کیا جائے۔ کیونکہ ایمان اور علم رکھنے کے باوجود اگر عمل نہ کیا تو حامل قرآن کی مثال بھی ان ہی لوگوں جیسی ہوگی جن کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا کہ: ’’جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔‘‘ (الجمعۃ:۵)۔ اس آیت کے عام معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں پر توراۃ کے علم وعمل، اور اس کے مطابق دنیا کی ہدایت کا بار رکھا گیا تھا، مگر نہ انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھا اور نہ ہی اس کا حق ادا کیا۔ مثال میں گدھے کا تذکرہ کیا، یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے، اسی طرح یہ توراۃ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لیے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ آج حامل قرآن بھی اس سے کچھ مختلف نظر نہیں آتے، قرآن پڑھتے اور پڑھاتے ہیں اس کے باوجود ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف شعبہ حیات میں اسلامی زندگی کا رنگ نہیں جھلکتا۔ یہ پہلو قابل توجہ ہے، خاص کر اِس موقع پر جبکہ رمضان المبارک کے موقع پر قرآن سننے، پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ بڑے پیمانہ پر عمل میں آتاہے۔ چوتھا حق اس پر تدبر و تفکر ہے: قرآن کہتا ہے: ’’ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کا نورِبصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیاکہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے۔ یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیر ی گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سُن کے اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں‘‘ (البقرہ: ۲۰-۱۷)۔ اور کہا کہ: ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘ (سورۃ ص:۲۹)۔ مزید فرمایا: ’’کیا اِن لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘ (محمد: ۲۴)۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ اور اس طرح کی مثالیں کیوں دی گئیں ہیں؟ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کی ہر ہر آیت پر رک رک کرتدبر و تفکر کریں، اپنا اور حالات کا جائزہ لیں اور فکر و عمل کی راہ کو صحیح خطوط پر متعین کر لیں۔ پانچواں حق اس کی تعلیم و تبلیغ ہے: ان تمام باتوں کے بعد قرآن کا اگلا حق یہ ہے کہ اس کے پیغام کو عام کیا جائے۔ اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘ (صحیح بخاری)۔ اور اللہ تعالیٰ متنبہ کرتا ہے کہ: ’’ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کُفّار تمہیں اُن سے باز رکھیں۔ اپنے ربّ کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو اور اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اُس کی ذات کے۔ فرماں روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو‘‘ (القصص: ۸۸-۸۷)۔ یہ باتیں کافی ہیں ان لوگوں کے لیے جو ماہ رمضان میں رمضان کے حقوق ادا کرنے کا عہد مصمم کرکے میدان ِ عمل میں سعی و جہد کے لیے خود کو تیار کرچکے ہیں۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی لکھ دی گئی ہے!

No comments:

Post a Comment