یادیں یا د آتی ہیں شہزادہ بسمل
جب سے انسانی معیشت اور معاشرت پرصنعتی نظام کا کنٹرول حاوی ہوگیا ہے یا با لفاظ دیگر جب سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی فتو حا ت کا سلسلہ شروع ہواہے انسان اور اس کے ماضی کے درمیان دراڑیں پڑھنے کی وجہ سے دوریاں لگاتار بڑھتی جارہی ہیں ۔ ماضی بلاشبہ غمناک اور اذیت ناک ہی کیوں نہ رہا ہو ، اُس نے زخم ہی کیوں نہ دئے ہوں مگر وہ اپنی خوش رنگی، جمالیات اور صالحات سے خالی نہیں ہوتا۔
فطرت کے قوانین کی یہ بھی ایک شق ہے کہ جو چیز استعمال میں نہیں رہتی یا بے توجہی کا شکار ہوجاتی ہے یا وہ چیز ایک نئے اَوِشکار کی وجہ سے پسِ پردہ چلی جاتی ہے تو پھر وہ رفتہ رفتہ کالعدم ہوجاتی ہے ، سماج ومعاشرے سے خارج ہوجاتی ہے ۔ قہر درویش برجانِ درویش کے مصداق اپنے ہی تمدن و سماج کی مثال لے لیجئے ۔ آج سے چالیس پینتالیس سال قبل کے وقت کو ذہن میں لائے پھر یادکیجئے کتنی ایسی باتیں جو آپ کے مشاہدے میں تھیں ، یا جو آپ کرتے تھے، عملاتے تھے یا اُن کو اپنے سماجی تہذیب کا ایک حصہ مانتے تھے،وہ اب ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آرہی ہیں۔ مثال کے طور پر رُف یا رُو کو ہی لے لیجئے ۔ یہ نہ صرف ہمارے تمدن کا حصہ تھا بلکہ لڑکیوں ، بالیوں کے لئے مختلف شادمانی کے مواقع پر ایک پاسٹ ٹائم بھی تھا اور اس اجتماع سے رمضان کے مہینے میںیا پھر عیدین پر ایک رونق بنی رہتی تھی۔ وادی کی سطح پر یہ ہردلعزیز سماجی عمل تھا ہی ، بدیشی بھی اس کے بارے میں ایک رومانی رائے رکھتے تھے۔ چنانچہ ڈبلیو آر لارنس کی مشہور کتاب تاریخ ’’ویلی آ ف کشمیر‘‘ میں ہم پڑھتے ہیں:
ہندولڑکیاں قطاروں میں کھڑی ہوکر آگے اور پیچھے جھول کر رُوگاتی ہیں ۔ عید پر مسلمان مستورات بھی اِسی طرح کے گیت گاتی ہیں۔گانا(رُو) خوش کن اور عورتوں کا آگے پیچھے جھولنا شاندارہوتاہے ۔
رمضان میں عیدین پر اور ایسے ہی کسی خوشی ومسرت کے موقعے پر لڑکیاں ، بالیاں ایک سماں باندھ دیتی تھیں مگر آج کشمیری تمدن سے وہ چیز عنقا ہے ۔ مشہور کشمیری پنڈت لیڈر کیشپؔ بندھو نے جب ہندو بیوہ عورتوں کی دوبارہ شادی کی تحریک شروع کردی اور پنڈت لڑکیوںنے تعلیمی میدان میں بڑھ چڑھ کر آگے بڑھنا شروع کیا تو سب سے پہلے رُو ہندویعنی کشمیری پنڈت کے صحنوں سے رُخصت ہوگیا ۔ تقسیم ملک کے بعد جب ریاست سے ڈوگرہ شاہی کا اختتام ہوگیا اور جمہوری نظام قائم ہوا تو رُو صرف مسلمانوں تک ہی محدود ہوکے رہ گیا کیونکہ کشمیری پنڈت اُس وقت تک پڑھے لکھے ہوکر اور نظم ریاست کے ہر شعبے پر چھا کر ’’ترقی یافتہ‘‘ ہوچکے تھے اور ستّرفیصد عورتوں نے لمبے فرن اور ترنگوں کوخیرباد کہہ دیا تھا ۔ گرچہ اُس وقت کے بعد بھی یعنی سن انیس سو ساٹھ تک ہمارے محلے میں کیشوناتھ اورہر دئے ناتھ دوکشمیری پنڈت ہرلحاظ سے بہت آگے تھے، جس طرح وہ ڈوگرہ شاہی میں بھی ہوا کرتے تھے ۔
دوسری خاص چیز جو اب تقریباً عنقا ہے ، پردہ یا برقعہ ہے ۔ عورتوں میں عام طور پر پردے یا برقعے کا چلن تھا ۔ پرانے وقتوں میں کشمیری پنڈتانیاں بھی برقعے کا استعمال کرتی تھیں ۔ میں نے ذاتی طور گرچہ کسی پنڈتاتی کو برقعے میں نہیں دیکھاہے مگراُس برقعے کو ایک پنڈت ہمسایہ کے گھر میں ضرور دیکھا ہے جو پنڈتانیاں ’’ستیہ یگ‘‘ میں پہنا کرتی تھیں ۔پردے کا رواج اونچے گھرانوں یا شرفاء میں شدت کے کے ساتھ مروج تھا مگر درمیانہ طبقے میں بھی برقعہ یا پردہ کم مقبول نہ تھا۔ البتہ کچھ مخصوص پیشوں سے وابستہ لوگوں کی مستورات برقعے کا استعمال نہیں کرتی تھیں ا ور دیہات میں کسانوں کے ہاں بھی اس کا زیادہ چلن نہیں تھا ۔ اونچے گھرانوں اورشرفاء میں یہ اس قدر سختی کے ساتھ عملایا جاتا تھا کہ اگر کسی خاتون کو تانگے میں بیٹھ کر کہیں جانا ہوتا تھا تو اُس خاتون کے ذاتی برقعے کے علاوہ تانگے کے پیچھے سے ایک چادر باندھ دی جاتی تھی تاکہ وہ خاتون مستورحالت میں بھی مکرر مستور رہے۔
آنے جانے کا سادھن گرچہ موٹر لاری وغیرہ تھا مگر مجموعی طور پر دریا میں کشتی اور سڑک پر تانگہ ہوتا تھا ۔ اُن دنوں ٹیمپو، میٹا ڈار اور آٹو رکشا معرضِ وجود میں نہیں آئے تھے۔ ہاں اِکا ادھا ٹیکسی کہیں کہیں نظر آجاتی تھی ۔لوگ عموماً حضرت بل کشتیوں میں یا پیدل ہی جایا کرتے تھے۔بربر شاہؔ میں نقاشپورہ کے پاس موجود گلیمرگیسٹ ہائوس کے قریب اور نائوپورہ پُل سے ایک آنے اور دو آنے(چھ پیسے اور بارہ پیسے) فی سوار حضرت بل کے لئے کشتیاں بآسانی مل جاتی تھیں۔ عام آدمی کے لئے یہ تڑپ اعتقادی کشش کے علاوہ سیاسی پلیٹ فارم بھی اور تفریح کا ذریعہ بھی بنتا تھا۔ لوگ پورے کھانے پینے کے سامان کے ساتھ آثار شریف میں حاضری دیا کرتے تھے ۔ہم بھی بچپن میں اپنے بزرگوں کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر حضرت بل جایا کرتے تھے ۔ کشتی میں اتنی سواریاں بھردی جاتی تھیں مانئیے کشتی کی دیواریں پانی سے بہ مشکل دو انچ اوپر رہتی تھیں ۔ میں کشتی میں ہمیشہ ڈرا ڈرا اور سہما سہما دبک کر ایک ٹک بیٹھا رہتا تھا مبادا میرے ہی ہلنے سے پانی کشتی کے اندر نہ آجائے ۔
یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ کچھ مخصوص طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مستورات کے برقعوں کی منفرد ہیئت ہونے کی وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ پہچانی جاسکتی تھیں۔ مثلاًمیٹ سیلر کی مستورات کے چہرے برقعے عموماً کھلے ہوتے تھے اور ماتھے کے پاس برقعے میں سوزن کاری کا ایک خوبصورت کام کیا ہوتا تھا اور آشپازوں کی عورتوں کے برقعے بھی لگ بھگ اُسی طرز کے ہوا کرتے تھے ۔ عام طور پر افغانی ٹائپ کے سفید برقعے کا چلن تھامگر کچھ مستورات سیاہ ،سلیٹی اور برائون رنگ کے برقعے بھی استعمال میں لاتی تھیں ۔شہر کی سڑکوں پر ایک دلچسپ نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا جب ہر دوسری عورت برقعے میں ملبوس نظر آتی تھی ۔آج کل شہرودیہات میں کچھ اسکول کالج جانے والی لڑکیاں بلاشبہ عبا یہ کااستعمال کرتی ہیں مگر عبا یہ تو صرف ایک پہناوا ہو کے رہ گیا ہے کیونکہ کوئی عباپوش عورت مستور نہیں کہلائی جاسکتی ۔ عورت کا چہرہ اور نہ سر ہی ڈھکا ہوتاہے اس لئے ایسے پہناوے برقعے کے ضمن میں نہیں آتے ہیں ۔ کچھ لڑکیاں برقعہ بے شک پہنتی ہیں ، ہر ایک چیز ڈھکی اور چھپی ہوتی ہے مگر مشاہدہ یہی ثابت کرتاہے کہ کہیں کہیں وہ پردہ معنوی اعتبار سے تعلیمِ اسلام کے شوق ورغبت میں نہیں بلکہ محض فیشن کے طور پر استعمال کیا جاتاہے تاکہ پہننے والی لڑکیاں ایک مخصوص شخصیت معلوم ہو اور اس سے ایک انفرادیت جھلک پڑے کیونکہ اُس لڑکی نے اپنا حلیہ بنایا ہی ویسا ہوتاہے ۔ اصل پردہ اور برقعہ آج کل شہرودیہات میں ایک فیصدسے بھی کم نظر آتاہے اوربقول حضرت اکبر الہ آبادی ’’مردو ں کی عقل پر پڑگیا‘‘… جوظاہر ہے ۔ ہاں کہیں کہیں جومستورات دینی ہدایت کے تحت اور شوق ورغبت کے ساتھ پردے برقعے کا اہتمام کرتی ہیں، ہماری دُعا اُن کے لئے یہی ہے کہ اللہ انہیں مستور رکھ کر ہر بلا سے محفوظ رکھے ،ہمیشہ محفوظ ومامون رکھے ۔
آج کل کے اس دور ابتلاء میں اگر کوئی بچی ،لڑکی بالی یا خاتون برقعے کا استعمال کرتی ہے تو اُس کا وہ عمل قابلِ صد آفرین ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دشمانِ اسلام جب ایک مسلمان کو ہر طریقے سے پسپا کرکے مطمئن ومسرور ہوئے تو ان کے طاغوتی ہتھکنڈے سے ایک عورت کیسے محفوظ رہ سکتی تھی ۔قرون اولیٰ میں یہود ونصاریٰ نے ایک مرد مومن کو کمزور کرنے کے لئے اور اُس کی عزتِ نفس کو پامال کرنے کے لئے ہمیشہ عورت پر ہاتھ ڈالا اور وہی ایجنڈا آج بھی عملایا جارہاہے۔ اغیار کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مسلم خواتین بھی چراغِ خانہ نہ رہ کر شمعِ محفل بن کر اپنی پاکیزہ عفت وعصمت کو مٹی میں ملا دے اور موجودہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ یورپ کے مختلف اطراف میں ، کبھی ایک ملک میں تو کبھی دوسرے ملک میں آج برقعے پر پابندی لگتی ہے تو دوسرے دن سکارف ڈالنے کی بھی مناہی آتی ہے مگر اتنی سختیوں اور ایسے ہتھکنڈوں کے باوجود مسلم خواتین تمام یورپ و ایشیاء میں بڑی پامردی کے ساتھ اپنے اصول اور مؤقف کے ساتھ جڑی رہتی ہیں ۔ اغیار کی سرکشیوں کا گرچہ وقتی طور کچھ منفی اثرپڑتاہے مگر جیت بہرحال سچ کی ہی ہوتی ہے ۔فطری وپائیدار ومستحکم دین ، دین فطرت ہی ہے ، دین خداوندی ہی ہے ، رب الکریم کا لائحہ عمل ہی ہے ۔ باطل کی پھونکوں سے اس شمع فروزاں کو کیا نقصان ہوسکتاہے ۔ ہوہی نہیں سکتا۔ یہ بہرحال طاغوتی طاقتوں کو ذہن نشین کرنا ہی پڑے گا کہ ؎
جنگ تو تم سے جیت لیں گے پھر کسی میدان میں
مورچہ ہارا ہے ہمت تو ابھی ہاری نہیں
(انیس دہلوی )
………………
رابطہ :-پوسٹ باکس نمبر :691،جی پی او سرینگر-190001، کشمیر؛
موبائل نمبر:-9419475995
|
Search This Blog
Wednesday, 25 July 2012
یادیں یا د آتی ہیں
Labels:
SOCIOLOGY
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment