Search This Blog

Thursday, 5 July 2012

فارسی…شریں زبان

فارسی…شریں زبان

اس بات پر ماہرین لسانیات میں سے اکثریت کااتفاق ہے کہ دنیا میں جو زبانیں بولی جاتی ہیں ، ان میں لسانی حلاوت ، رنگ وآہنگ کی شیرینی اور فنی محاسن کے اعتبار سے زبانِ فارسی سہل الفہم ، سلیس ،سادہ اور ملائم زبان ہے ۔مغلق الفاظ ، پیچیدہ تراکیب ، ثقیل محاورات سے آزاد فارسی اُس دیس میں جنم لے چکی ہے ، جسے ایران کے نام سے جانا جاتاہے ۔ چنانچہ اس ملک کے اکثر شہریوں کے نام لسانی حُسن سے آراستہ ہیں مثلاً ہمدان ، آبادان ، اصفہان، طہران،مشہد،طُوس ،اہواز ، شیراز اور قم وغیرہ۔ سعدی ؔ اور حافظ ؔ دونوں کا تعلق شیرازؔ کی بستی سے تھا، جس کا چپہ چپہ زبان وادب کی خدمت عظمت اور حلاوت کاآئینہ دار رہا ہے۔ اپنے ابتدائی ایام سے ہی فارسی علم وآگہی ، فصاحت وبلاغت ، نکتہ آفرینی او رسب سے بڑھ کر اخلاقِ آدمیت کا ترجمان بھی اور بڑھ چڑھ کر علمبردار بھی رہی ہے۔ عالمی ادب میں اخلاقیات کے گوشوں کو تلاش کیا جائے تویہاں سعدیؔ شیرازی صفِ اوّل میں نمایاں حیثیت وصورت کے ساتھ نظر آئیں گے اور رومیؔ وحافظؔ دنیا کو درس آموز حکایات،حیران کن مشاہدات اور عشق ومستی کے تجربات سے معمور دکھائی دیں گے ۔فلسفۂ مغرب کے غواص اور علومِ اسلامیہ کے رمزشناس علامہ اقبال حضرت رومیؔ کے سامنے اپنے عجز وانکسار کا اظہار یوں کرچکے ہیں   ؎
پیرِ رومیؔ مرشدِ روشن ضمیر
کاروانِ عشق ومستی را امیر
ترجمہ: - روشن ضمیررہنما حضرت رومیؔ عشق ومستی کے قافلے کا امیر ہے ۔
فارسی زبان کے اکثر وبیشتر ادب پارے انسانی معاشرے کے اخلاقی اورعمرانی پہلوئوں سے براہِ راست مخاطب ہیں۔
فارسی زبان وادب میں ایسے گنج ہائے گرانمایہ چھپے ہوئے ہیں ، جن کی قدر وقیمت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے ۔فارسی کے انہی بیش بہا لعل وگہر نے برصغیر کے دوممتاز اُردو شاعروں مرزا غالبؔ اور علامہ اقبال ؔکو فارسی زبان میں اپنے بلند تخیلات کو ضبطِ تحریر میں لانے پر مجبور کردیا۔ غالب ؔ کی شہرت وقبولیت کا راز ان کے اُردو کلام میں پوشیدہ ہے لیکن ہمارے اس بے نظیر سخنور کو اپنے فارسی کلام پر ہی ناز تھا   ؎
فارسی بیں تاببینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اُردو کہ بے رنگِ من است
ترجمہ:- (میرا )فارسی کلام دیکھ تاکہ تو اس میں نقش ہائے رنگ رنگ کا مشاہدہ کرسکے ۔ میرا اُردو مجموعہ آپ کے لئے بے رنگ ثابت ہوگا ۔
غالبؔ کے فارسی کلام پر ظ۔ انصاری ، مالک رام ، یوسف سلیم ،ظہیر احمد صدیقی اور کینیڈا مقیم ہندوستانی ڈاکٹر تقی عابدی نے شرح وترتیب اور ترجمہ و تجزیہ کے قابل قدر کارنامے انجام دیئے ہیں ۔
گزشتہ نصف صدی سے ہندو پاک میں فارسی زبان سے بے توجہی کا رُجحان بڑھ چکاہے اور اس زبان کے لئے دفتر ، اسکول اور بازار کے سبھی دروازے بند ہو کر رہ گئے ہیں ۔انگریزی زبان سے ہماری نئی نسل کا رشتہ اس قدر مستحکم ہوچکاہے کہ گھروں میں کشمیری زبان کا استعمال ایک عیب بن کر رہ گیا ہے ۔ فارسی زبان ، فارسی تہذیب اور فارسی اخلاقیات کی کتابوں کو ایک غیر محسوس طریقے کے تحت ہمارے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب سے خار ج کردیا گیا ۔ اس بات سے کوئی بھی صائب الرائے شخص انکار نہیں کرسکتا کہ جب تک ہمارے نظام تعلیم میں اخلاقیات کا گوشہ موجود تھا، سعدی ؔ اور سنائی ؔ کے سبق آموز اشعار شامل تھے ، انبیاء واولیاء ؒکی زندگی سے وابستہ کہانیاں موجود تھیں اور فارسی اقوال وملفوظات کا چلن تھا ، بڑی حد تک سماجی توازن ، اساتذہ کا احترام ،بزرگوں کی عزت ، والدین کی اطاعت اور سب سے بڑھ کر خوفِ خدا کا تصور نمایاں ہوا کرتا تھا۔ فارسی اخلاقیات اور درسیات طلبہ کے اندر حلال وحرام اور زشت وخوب کے درمیان فرق کرنے کا سلیقہ سکھاتی تھی اور آج کے نظامِ تعلیم کی بدولت کیا کچھ سامنے آرہاہے ،زبانِ شیریں میں شاعر مشرق کی زبانی سنئے   ؎
تخمِ دیگر بکف آریم و بکاریم ز نَو
کانچہ کشتیم ز خجالت نتواں کردہ دور
یعنی جو بیج میں نے اپنے ہاتھوں بویا،اس کی فصل جوکاٹ رہاہوں وہ شرمندگی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔
اسی خیال کو کسی اور زبان میں اگر ہم پیش کرنا چاہیں ، شاید اس شعر سے بہتر الفاظ فراہم نہیں ہوںگے ۔سعدیؔ شیرازی کی فکر کا کینواس شیکسپیئر سے دس گنا بڑا تھا اور جہاں بینی کا دائرہ تیس سال کے طویل عرصے پر پھیلا ہوا تھا ،لیکن سعدیؔ کی یہ بدنصیبی تھی کہ ایران میں پیدا ہوا او رشیکسپیئر کی خوش بختی تھی کہ ایک زندہ اور ادب پرور قوم میں تولد ہوا۔ انگریزوں کی حکومت ہندوستان سے چلی گئی لیکن اپنی زبان اور لباس ، اپنے ادارے اور ان کے نام اور کام یہیں پر ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے ۔ برعکس اس کے مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی زبان بھی یہاں سے ختم ہوئی اور ان کے چند آثار جو عمارات اور باغات کی شکل میں آج بھی موجود ہیں،سلطنت کی عظمت کا راگ الاپ رہے ہیں ۔
آج جب کہ پورے یورپ میں سائنسی علوم وفنون کا دور دورہ ہے ، اس صورت حال میں رومیؔ، سعدیؔ ، حافظ ؔ اور اقبالؔ کے افکار کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور وہاں علم وادب کے شیدائیوں کا بڑا حلقہ براہِ راست متن کو ترجموں کے ساتھ مطالعہ میں لاکر فارسی کی اہم تخلیقات سے مستفید ہورہاہے ۔ ہمارے یہاں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈیو ،ٹی وی ،شعبہ فارسی کشمیر یونیورسٹی ، سنٹرل ایشین اسٹڈیز ، کلچرل اکیڈیمی ، ڈائریکٹر کالجر ، ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن اور دیگر ادبی وعلمی اداروں کی طرف سے فارسی دانی کی طرف ایک قدم بڑھنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ کشمیر میں سینکڑوں علمی خانوادوں کے پاس فارسی کے نادر نمونے کسمپرسی کی حالت میں پڑے اور سڑے ہوئے ہیں ان کو محفوظ بنانے کی مساعی ہونی چاہئے ۔
رابطہ: اقبال انسٹی چیوٹ کشمیریونیورسٹی

No comments:

Post a Comment