Search This Blog

Sunday 22 July 2012

اصحاب رسولؐ کی معاشی زندگی حضرت سعید بن عامر جمحیؓ

اصحاب رسولؐ کی معاشی زندگی حضرت سعید بن عامر جمحیؓ

- عابد علی جوکھیو
نام سعید، سلسلہ نسب یہ ہے، سعید بن عامر بن خدیم بن سلمان بن ربیعہ بن سعد ابن جمح بن عمرو بن بصیص بن کعب، ماں کا نام ارویٰ تھا، ننہالی سلسلہ نسب یہ ہے اروی بنت ابی معیط بن ابی عمرو بن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف (ابن سعد) غزوہ خیبر کے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے، اسلام لانے کے بعد ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے جس میں کفار مکہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، اس واقعے کے وقت آپؓ حلقہ بگوش اسلام نہ ہو ئے تھے، حضرت خبیبؓ کی شہادت کو اس وقت کفار مکہ اور آپؓ کے مابین ہونے والے مکالمے نے حضرت سعید بن عامرؓ کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالا اور اس واقعے کے بعد آپ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے یہیں سکونت اختیار کرلی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور صحبت میں رہنے لگے خیبر اور اس کے بعد ہونے والے غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پوری زندگی میں حضرت سعیدؓ سے خوش رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے ملاقات بھی اس حالت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعید بن عامرؓ سے ان کی خدمات کی وجہ سے خوش تھے آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں بھی آپؓ نے اسلام کے لیے اپنے خدمات پیش کیں اور ایک ایسی زندگی بسر کی جو مسلمانوں کے لیے کردار کا نمونہ ثابت ہوئی جنھوں نے دنیا کو بیچ کر آخرت کا سودا کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں اپنا اصل مقصد بنا کر مقدم جانا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں خلیفہ حضرت سعید بن عامرؓ کی صداقت اور تقویٰ کو خوب جانتے تھے، لہٰذا ان کی نصیحتوں کو غور سے سنتے اور ان کی باتوں پر عمل کرتے۔ حضرت عمرؓ کے خلیفہ بننے کے بعد ہی حضرت سعید بن عامرؓ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: اے عمرؓ میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ لوگوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں (اس کے احکامات کی بجا آوری میں) لوگوں سے کبھی نہ ڈرنا اور یہ کہ تمہارے قول و فعل میں تضاد کبھی نہ ہونا چاہیے اس لیے کہ انسان کی بہترین گفتگو وہی ہوتی ہے جس کی تصدیق اس کا کردار کرے۔ اے عمرؓ: اللہ رب العزت نے جن مسلمانوں کا تمہیں نگران بنایا ہے ان کے معاملات کی طرف خصوصی دھیان دیتے رہنا، ان کے لیے وہی پسند کرنا جو خود تمہیں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے پسند ہو اور ان کے لیے ہر اس شے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنا جو خود تمہیں اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے لیے ناپسند ہو۔ مشکلات و مصائب کا سامنا کرنے سے نہ گھبرانا اور راہِ حق پہ مضبوطی سے جمے رہنا اور حق کی راہ میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہ لانا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے! سعیدؓ بھلا کس میں یہ ہمت ہے کہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو سکے؟ سعیدؓ نے فرمایا: آپ اس کے اہل ہیں آپؓ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی کا فریضہ سونپا ہے آپؓ ایک ایسے شخص ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپؓ سے زیادہ اور کوئی اس کا مستحق نہیں۔ اس گفتگو کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت سعیدؓ کو اس بار خلافت میں اپنی نصرت و تائید کے لیے دعوت دی اور فرمایا: اے سعیدؓ ہم تمہیں علاقہ حمص کا گورنر مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت سعیدؓ نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’اے امیر المومنین! اللہ کے واسطے مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالیے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے اس پر خفا ہو کر فرمایا: ’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خلافت کا بار تنہا میری گردن پر ڈال دیا اور خود اس سے الگ تھلگ ہونے کی کوشش کر رہے ہو۔‘‘ خدا کی قسم میں آپؓ کو ایسے چھوڑنے والا نہیں اس کے بعد آپؓ نے حضرت سعید بن عامرؓ کو صوبہ حمص کا گورنر مقرر کر دیا۔ جب حضرت عمرؓ نے حضرت سعیدؓ کو حمص کا گورنر مقرر کیا تو ان سے فرمایا: ’’کیا میں تمہارے لیے تنخواہ نہ مقرر کردوں؟‘‘ آپؓ نے جواب دیا کہ اے! امیرالمومنین مجھے اس کی ضرورت نہیں، مجھے بیت المال سے جو وظیفہ ملتا ہے وہ بھی ضروریات سے زیادہ ہے۔ یہ کہہ کر حضرت سعید بن عامرؓ حمص کے لیے روانہ ہوگئے۔ آپؓ کے حمص جانے کے کچھ ہی عرصے بعد اہل حمص کے کچھ معززین حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ مجھے اپنے یہاں کہ فقراء اور حاجتمندوں کے نام لکھ کردے دو تاکہ میں ان کی ضروریات پوری کرنے کا انتظام کر سکوں۔ جب انہوں نے حمص کے فقراء اور ضرورت مندوں کی فہرست پیش کی تو فہرست میں دیگر ناموں کے علاوہ ایک نام سعید بن عامرؓ بھی تھا۔ حضرت عمرؓ یہ نام دیکھ کر حیران ہوئے؟ اور پوچھا کہ یہ سعید بن عامر کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے گورنر…… حضرت عمرؓ نے مزید حیرت سے پوچھا کہ کیا تمہارا گورنر فقیر ہے؟ وفد نے جواب دیا کہ جی ہاں امیر المومنین! بخدا کتنے دنوں تک ان کے گھر کا چولھا نہیں جلتا… یہ سن کر حضرت عمرؓ رو پڑے اور کافی دیرتک روتے رہے حتیٰ کہ ان کی ڈاڑھی آنسوئوں سے تر ہوگئی۔ پھر وہ اٹھے اور ایک ہزار دینار ایک تھیلی میں رکھ کر اسے انہیں حوالے کرتے ہوئے فرمایا: ’’سعیدؓ سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ امیرالمومنین نے یہ مال آپؓ کے لیے بھیجا ہے تاکہ آپؓ اس سے اپنی ضرورتیں پوری کریں۔‘‘ وہ لوگ یہ تھیلی لے کر حضرت سعید بن عامرؓ کی خدمت میں پہنچے اور ان کے سامنے یہ تھیلی پیش کردی۔ حضرت سعید ؓ سے اس تھیلی کو دور ہٹاتے ہوئے کہا ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ جیسے ان پر کوئی مصیبت نازل ہوئی ہو۔ ان کی آواز سن کر ان کی بیوی گھبرائی ہوئی ان کے پاس آئیں اور پوچھا: سعید کیا بات ہے؟ کیا امیرالمومنین کا انتقال ہو گیا ہے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ نہیں، اس سے بھی بڑا حادثہ پیش آیا ہے۔ بیوی نے پھر پوچھا کیاکسی جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی ہے؟ آپؓ نے کہا نہیں، اس سے بڑی آفت آ پڑی ہے۔ بیوی نے پوچھا بھلا اس سے بڑی آفت کیا ہو سکتی ہے؟ آپ ؓ نے بڑی پریشانی کی حالت میں بتایا کہ دنیا میرے گھر میں داخل ہوگئی ہے تاکہ میری آخرت کو تباہ کردے۔ ابھی بیوی کو معلوم بھی نہ تھا کہ اصل حقیقت کیا ہے لیکن انہوں نے مشورہ دیا کہ پھر آپؓ جلد اس سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ آپؓ نے اپنی بیوی سے کہا کہ کیا تم اس معاملے میں میری مدد کر سکتی ہو انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ پھر حضرت سعید بن عامرؓ نے تمام دیناروں کو بہت سی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں رکھ کر انہیں غریب اور حاجتمند مسلمانوں میں تقسیم کروا دیا۔ ابھی اس بات کو چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ حضرت خالد بن معدانؓ فرماتے ہیں کہ حمص میں ہم لوگوں پر حضرت عمرؓ نے حضرت سعید بن عامر جمحیؓ کو عامل (گورنر) مقرر کیا، جب حضرت عمر ؓ حمص تشریف لائے تو آپؓ نے حمص کو لوگوں سے پوچھا کہ تم نے اپنے گورنر کو کیسا پایا؟ ان لوگوں نے حضرت عمرؓ سے حضرت سعیدؓ کی شکایت کردی، چونکہ حمص کو لوگ اپنے عاملین کی شکایتیں زیادہ کیا کرتے تھے اس لیے اہل حمص کو کویفۃ الصغریٰ (چھوٹا کوفہ) کہا جاتا تھا۔ اہل حمص نے امیرالمومنین کے سامنے حضرت سعیدؓ کی چار شکایتیں پیش کیں، جن میں سے ہر ایک شکایت پہلی سے بھی بڑی تھی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس بات کے بعد میں نے انہیں اور حضرت سعیدؓ کو ایک جگہ جمع کیا اور اللہ تعالی سے دعا کی کہ وہ سعیدؓ کے متعلق میرے حسن ظن کو صدمہ نہ پہنچائے، کیونکہ میں ان کے متعلق بہت زیادہ خوش گمان تھا۔ جب شکایت کرنے والے اور ان کے امیر (حضرت) سعید بن عامرؓ میرے پاس آئے تو میں نے دریافت کیا کہ تم لوگوں کو اپنے امیر سے کیا شکایت ہے؟ پہلی شکایت یہ کی گئی کہ جب تک خوب دن نہیں چڑھ آتا یہ اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ میں (حضرت عمرؓ) نے دریافت کیا کہ سعیدؓ! تم اس شکایت کے متعلق کیا کہتے ہو؟ سعیدؓ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے خدا کی قسم میں اس بات کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا مگر اب اس بات کو ظاہر کیے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ بات یہ ہے کہ میرے گھر میں کوئی خادمہ نہیں ہے۔ اس لیے ذرا سویرے اٹھتا ہوں تو پہلے آٹا گوندھتا ہوں، پھر تھوڑی دیر انتظار کرتا ہوں تا کہ اس کا خمیر اٹھ جائے، پھر روٹیاں پکا تا ہوں۔ اس کے بعد وضو کر کے لوگوں کی ضرورت کے لیے باہر نکلتا ہوں۔ میں نے اہل حمص سے پوچھا کہ تمہاری دوسری شکایت کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ رات کے وقت کسی کا جواب نہیں دیتے۔ میں نے پوچھا کہ سعید اس شکایت کے متعلق تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ خدا کی قسم میں اس بات کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا، میں نے دن کے اوقات کو ان لوگوں کے لیے اور رات کے اوقات کو اپنے رب کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ تیسری شکایت بیان کرو۔ انہوں نے کہا کہ یہ مہینے میں ایک بار دن بھر گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ میں نے دریافت کیا کہ سعیدؓ تم اس شکایت کا کیا جواب دیتے ہو؟ سعیدؓ نے کہا کہ امیر المومنین! میرے پاس کوئی خادم نہیں ہے اور جسم کے ان کپڑوں کو سوا میرے پاس اور کوئی کپڑا بھی نہیں ہے، میں ان کو مہینے میں صرف بار ایک دھوتا ہوں اور ان کے خشک ہونے کا انتظار کرتا ہوں اور سوکھنے کے بعد دن کے آخری حصے میں انہیں پہن کر باہر آتا ہوں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ اب تمہاری آخری شکایت کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان کو وقفے وقفے سے غشی کے شدید دورے پڑتے ہیں اور یہ اپنے گرد و پیش سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا، سعیدؓ تمہارے پاس اس شکایت کا کیا جواب ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں خبیب بن عدیؓ کے قتل کے موقع پر موجود تھا اور اس وقت میں مشرک تھا۔ میں نے قریش کو دیکھا کہ وہ ان کے جسم کا ایک ایک عضو کاٹتے جاتے اور ساتھ ہی یہ کہتے جاتے کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ آج تمہاری جگہ پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پا جاتے؟ تو وہ جواب دیتے کہ خدا کی قسم مجھے تو یہ پسند نہیں کی میں اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں بیٹھا رہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تلوؤں میں ایک تنکا بھی لگ جائے۔ خدا کی قسم جب مجھ کو وہ منظر یاد آتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یاد آتا ہے کہ میں نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہ کی تو مجھے اس بات کا شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی میری اس کوتاہی کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور پھر اسی وقت میرے اوپر غشی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ سن کے میں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے سعیدؓ کے متعلق میرے حسن ظن کو صدمہ نہیں پہنچنے دیا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے تاکہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو آپؓ کی خدمات سے بے نیاز کردیا۔ اب آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خریدیے۔ یہ سن کر حضرت سعیدؓ نے کہا کہ کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں ہے؟… اس سے بہتر؟… اس سے بہتر کیا چیز ہو سکتی ہے؟… اہلیہ نے پوچھا۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کردیں جو اسے ہم کو اس وقت واپس کردے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔ اہلیہ نے کہا وہ کیسے؟ آپؓ نے فرمایا کہ ہم یہ رقم اللہ تعالی کو قرض حسنہ دے دیں۔ اہلیہ نے کہا ہاں یہ بہتر ہے۔ اللہ آپؓ کو جزائے خیر دے۔ پھر حضرت سعیدؓ وہیں بیٹھے، آپؓ نے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی کو کہا کہ انہیں فلاں قبیلے کی بیوائوں، فلاں قبیلے کے یتیموں، فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجتمندوں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عبد الرحمن بن سابط جمحی کی روایت ہے کہ جب سعیدؓ کو اس طرح کا عطیہ یا تحفہ ملتا تو وہ اس سے اپنے گھر والوں کے لیے کھانے کا سامان خریدتے اور باقی کو صدقہ کر دیا کرتے تھے۔ ان کی بیوی ان سے پوچھتی کہ تمہارا باقی وظیفہ کہاں گیا؟ یہ فرماتے کہ میں نے اسے صدقہ کردیا ہے۔ حضرت سعیدؓ کے پاس کچھ لوگوں نے آکر کہا کہ آپؓ کی بیوی کا بھی آپؓ کے اوپر حق ہے اور آپؓ کے اہل کا بھی آپ کے اوپر حق ہے، حضرت سعیدؓ نے جواب دیا کہ میں حورعین کی طلب میں لوگوں میں سے کسی کی رضا مندی کا نہ تو متلاشی ہوں اور نہ میں ان کی طلب میں ان لوگوں کو ترجیح دوں گا، اور اگر جنت کی حوروں میں سے کوئی حور جھانکے تو اس کی وجہ سے پوری روئے زمین اس طرح چمک جائیگی جیسے کہ سورج چکمتا ہے اور میں تو اگلے لوگوں سے ہرگز پیچھے رہنا نہیں چاہتا۔ حضرت عبداللہ بن زیادؓ بیان کرتے ہیں کی حضرت عمرؓ نے حضرت سعید بن عامرؓ کو ایک ہزار دینار دیے، سعیدؓ نے کہا کہ مجھے ان کی کچھ ضرورت نہیں، آپؓ یہ انہیں دیجیے جو مجھ سے زیادہ مستحق اور ضرورتمند ہیں، حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا ذرا رک جائو، میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں جو مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، پھر تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو اسے قبول کرو یا نہ کرو۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھے کچھ چیزیں دیں تو میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی بات کہی جو ابھی تم نے کہی ہے، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چیز آدمی کو کوئی بغیر سوال اور بغیر کسی خواہش کے دی جائے وہ اللہ کی جانب سے رزق ہے، اسے چاہیے کہ اسے قبول کرے اور لینے سے انکار نہ کرے، حضرت سعیدؓ نے پوچھا کہ کیا آپؓ نے خود یہ بات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ حضرت سعیدؓ نے اسے قبول کر لیا۔ (الکنز العمال) آپؓ نے ہر حالت میں دنیا کے بدلے آخرت کو ترجیح دی اور گورنری کے زمانے میں بھی سادگی، قناعت اور خوف الہی کی وہ مثال قائم کی جو ایک مومن کا ہی سرمایہ حیات ہو سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment