Search This Blog

Friday 20 July 2012

خوش آمدید اے ماہِ رمضان

خوش آمدید اے ماہِ رمضان
روزہ داری ایک بے مثال تحفۂ الٰہیہ

  رمضان المبارک کی عظمت اور برکت قدیم زمانوں سے چلی آرہی ہے ۔ یہی وہ متبرک مہینہ ہے جس میں تمام آسمانی کتابیں اﷲتعالیٰ نے اپنے اولوالعزم پیغمبروںؑ پر اُتاریں۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ اصلواۃ وسلام کو صحیفے ، حضرت دائود علیہ صلواۃ وسلام کو زبور ، حضرت موسی۱ علیہ صلواہ وسلام کو تورات اور حضرت عیسٰی علیہ صلواۃ وسلام کو انجیل اسی مہینے میں عطا ہوئی ۔ یہی وہ با برکت مہینہ ہے جس میں سارا قرآن لوحِ محفوظ سے آسمانِ اول پر سارا کا سارا نازل ہوا اور پھر تھوڑا تھو ڑا ۲۳ سالوں کے عرصہ میں محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ قرآ ن مجید کا نزول اسی تقدیر سا زمہینے میں ہوا۔ پا نچ ارکانِ اسلام میں صومِ رمضان تیسرا حکم ہے ۔ عربی میں صوم کے معنی ایسی چیز سے دور رہنے کو کہتے ہیں جس کی طرف نفس انسانی کشش اور رغبت دلاتی ہو۔ رمضان المبارک میں روزوں کی فرضیت سنہ ۲۰ھ میں ہوئی۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی یہ مہینہ نہایت مکرم ،محترم اور مقدس سمجھا جاتا تھا۔آنحضورؐ نبوت و بعثت سے پہلے بھی شروع رمضان میں مسکینوں اور محتاجوں کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔
   طبعی طور پر روزداری سے انسانی جسم پر خدا خو فی اور حب الٰہی کا ملمع چڑ ھ جا تا ہے ۔ اس کے زیرا ثر انسان کی فطرت بد نہیں جا تی بلکہ ا س میں نظم وضبط، ڈسپلن ، انسانیت کے اوصاف اور اس سب سے بڑ ھ کرنیک عملی اور بیدا رضمیری کی وہ اندرو نی روشنی پیدا ہو تی ہے کہ وہ ہر پل اور ہر وقت اللہ کی فرماں برداری میں اپنا نفع اور کما ئی کا راز ڈھو نڈ تا ہے ۔ وہ نماز ادا کر تا ہے تو یہ جان کر کہ اس کا ایک اجر وثواب اللہ کے دربار میں ضرور ملے گا ۔ وہ زکوٰ ۃدیتا ہے تو یہ  منا فعے کاسودا اس کو مال ودولت دنیا کی زنجیرو ں میںجکڑ جا نے سے  بچا تا ہے اور اس کے دل میں دوسرو ں کا درد بھر دیتا ہے کہ محتا جو ں اور مسکینو ں کی ما لی امداد کر کے وہ رو حا نی تشفی پا تا ہے،وہ روزہ داری کا محنت طلب کام بداشت کر تا ہے اس نیت کے ساتھ کہ اللہ کے احکام خلوت وجلوت میںبجا لا نے سے وہ اس کی رضا جو ئی کا انعام پا تا ہے۔ وہ حج کا سفر محمو د اختیا ر کر تا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی دنیو ی زند گی میںاپنو ں کا پیار ، وطن کی محبت ، مال وجا ئداد کی طر ف رغبت  و میلا ن سے اس کی رو حا نی زندگی میں جو رکا وٹیں آ جا تی ہیں، حج بیت اللہ اسے اللہ کی را ہ میں اپنے گھر کی تما م آ سائشوں سئے رضا کا را نہ طور دستبرداہو کر فقیرانہ شب وروز گزارنے کا ڈھنگ بتا ہی دیتا بلکہ اقوام و ملل کو ایک ہی جگہ جمع کر کے انہیں روز محشر کی تصویر کی ایک جھلک دکھا تا ہے۔ روزہ ان ساری عبادات میں ایک بد نی عبادت و ریاضت کا نام ہے ۔ روزہ دار کو صوم وصلوٰ ۃ سے روح کی صفا ئی کا ایک کا میاب نسخۂ عمل مل جا تا ہے  اور با تو ں کے علا وہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ آبادی کا بہت بڑا حصہ موٹاپے، دل جگر اور گردوںکی چربی یا کولسٹرال اور شُگر جیسی بیماریوں سے بہت ہی پریشان ہے اور ان امراض سے بچاؤ کے طوراسے مختلف قسم کے ادویات یا ورزش وغیرہ کو اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن ایک نوجوان اور صحتمند انسان روزداری سے ان خطرناک بیماریوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے کیونکہ ہمارے جسم میں کچھ ایسے جراثیم ہوتے ہیں زیادہ کھانے پینے سے مزید پرورش پاکر تعداد میں اضافہ کرتے ہیں ، روزہ داری کی وجہ سے انہیں وافرمقدار میں کھانا نہ ملنے کے سبب ان کی تعداد میں خا طر خواہ کمی آجاتی ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان تکلیفوں اور جسما نی نقا ہتو ںسے نجات پاتا ہے۔پرانے زمانے میں وید اور حکیم مریضوں کو دس دس بیس بیس فاقے دلواتے تھے اور بڑ ی چمتکا ری انداز میںاچھے اور صحت مند ہوجاتے تھے۔ اگر ہم بغیر تعصب کے کچھ دیر سنجیدگی سے سوچیں تو ہم پر یہ بات عیاں ہوگی کہ اسلام میں کوئی بھی ایسی عبادت یا طریقہ عبادت نہیں ہے جس سے کہ انسانی روح کی بلند پروازی ہی ممکن نہیں ہو تی ہو یا جسم کو بھی تقویت نہ ملتی ہو اور اس کے زیراثر نجی اورسماجی زندگی میں بھی یگانگت اور معنویت کا رنگ بھر نہ جا تا ہو ۔ ہا ں روحانی پہلو ؤن کا پلہ کو زیا دہ تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ نماز میں آقا اور غلام یا امیر و غریب یا کا لے اور گورے کا ایک ہی صفے میں کندے سے کندے ملاکر خدا کے حضور کھڑا ہوجانا روحا نی یکسانیت کے ساتھ ساتھ سماجی اجتما عیت اور طبقاتی یگانگت نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی طرح ظا ہر ی نکتہ نظر سے سحری یا افطار کے وقت سبوں کا مل بیٹھ کر ایک ہی صدا پر کھانا تنا ول کر نایا افطار کرنا بھی ہم ایک معنیٰ میں بہترین سماجی یگانگت سے ہی تعبیرکرسکتے ہیں ۔روزہ داری سے انسان میں برد باری اور نرمی کی عادت پیدا ہوجاتی ہے ۔ روزہ دار ایک بھوکے پیاسے مفلوک الحال انسان کی سختی کو جان سکتا ہے اور اس میں خو د بخو د  خیر خواہی ،ہمدردی، انسانیت اور مروت کاتعمیری جذبہ پروان چڑ ھ جاتا ہے۔ روزداری سے سوچنے سمجھنے اور قوتِ برداشت اور ایمان میں پختگی و راستی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک روزدار کا دل دماغ آنکھیں کان اور ہاتھ وغیرہ بھی روزدار ہی ہونے چاہئے اس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ دار کو نہ برا سوچنا چاہئے،نہ سننا چاہئے ،نہ برا دیکھنا چاہئے ، نہ برا کہنا چاہئے اور نہ ہی برا کرنا چاہئے ورنہ محض فاقہ کشی کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوجائے گا۔
  یہ مہینہ ایک قسم کی بے انتہا مو ثرٹریننگ کا مہینہ ہے جو مسلما ن کو نفس امارہ اور نفس لوامہ کی سفلیت سے چھٹکارا دلا کر اسے نفس مطمٔنہ کی جانب راغب کر نے کی ایک کا میا ب ترین اسکیم ہے۔ چونکہ خدا تعالیٰ کو انسان کی ظاہری اور باطنی پاکی اور صفائی پسند ہے اور یہ کہ ایک صاف ظاہر و باطن والے انسان کے اندر خود بخود نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف رغبت بڑھتی ہے ۔ الغر ض روزدار حکم خدا وندی کی بجا آوری کیلئے دن بھر کھانا پینا چھوڑتا ہے اور ان تمام محرکات سے باز رہنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کا روزہ توڑنے کا باعث بن جائے تو خدا و ند کریم جو سمیع البصیر ہے، کیوں نہ اسے اس بڑے پیا رے عمل کا جزاء نہ دے ۔ چناںچہ اﷲتعالی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ روزہ دار کو خود جزاء سے نوازے گا ۔ پس اے مسلمانو !روزہ داری کا احترام کرو اور اپنے نفس و جسم کو تمام ظاہری اور باطنی نا پا کیو ںپر صاف و پاک کرو۔ ہاں یہ بھی واضح رہے کہ دین عدل اسلام نے بوڑھوں، بیماروں اور ناتوان اشخاص کو روزداری سے مستثنیٰ رکھا ہے لیکن کسی عذر کی بنا پران کو احترامِ صیام میں فدیہ کے طور مسکین کو کھانا کھلانا یاشرع شریف کے مطا بق بند گا ن خدا کی دل جو ئی کر نا لازمی قرار دیا گیا ہے۔  
courtesy Kashmir Uzma Srinagar

No comments:

Post a Comment