Search This Blog

Thursday 19 July 2012

استقبالِ صیام کا اہتمام Istaqbale Siyam

استقبالِ صیام کا اہتمام
ہم سرا پا منتظر ہو ں تو سہی

 رمضان المبارک کا عظیم اور بابرکت مہینہ بس چند ہی دنوں میں ہم پر سا یہ فگن ہونے والاہے۔ یہ بابرکت مہینہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے امت مسلمہ کے لیے نہ صرف  ایک عظیم تحفہ ہے بلکہ اللہ تعالی سے قرب حاصل کرنے کا بہترین وسیلہ بھی ۔ یہ وہی مہینہ ہے جس میں انسانیت کو ہدایتِ ابدی قرآن جیسے انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ رمضان کی آمد نہ صرف امت مسلمہ کے لیے بلکہ پوری دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانہ پر خیرو برکت کی خبر ہے۔ یہ مہینہ تقویٰ ، پرہیزگاری، ہمدردی،غمگساری، محبت و الفت، خیرخواہی اور خدمت خلق کے علاوہ راہ خدا میں استقامت ، جذبۂ حمیت اور ملی اتحاد کو فروغ دینے کا مہینہ ہے۔  یہ مہینہ نسلی، مسلکی اور گروہ وہی منافرت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ کے اندر ہمیں وہی صفات پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوگی جن کی جانب اللہ تعالیٰ ہمیں اس برکت والے مہینہ کی وساطت سے متوجہ کرنا چاہتاہے ۔ ہم سب مسلمان اس سے واقف ہیں کہ اسی ماہ کے اندر قرآن کا نزول ہوا، روزے فرض کئے گئے، جنگ بدر پیش آئی، شبِ قدر کی عظیم رات اسی ماہ مبا رک کے اندر رکھی گئی اور فتح مکہ بھی اسی میں ہوا۔ 
احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ اس ماہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر حصہ کو ایک مخصوص اہمیت و فضلیت سے نوازا گیا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسی ماہ میں زکواۃ، صدقات، انفاق اور فطرانہ کا اہتمام بھی کیا گیا اور اس ماہ میں عبادات کا اجروثواب ستر گنا تک بڑھایا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے  کہ اگر اس میں ہرثواب کو دوہرا اور ستر گنا کا اضافہ کیا گیا تو اس کا استقبال بھی اسی شان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ قبل اس کے کہ رمضان ہمارے اوپر سا یہ ٔ رحمت وعنا یت دراز کرے ،ہمیں چاہیے کہ قبل از وقت اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لئے تیار کرلیں تاکہ اس ماہ مقدس س کی برکتوں اور عنایتوںسے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوسکیں۔ غا لباً یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین بھی اس پر عمل پیرا تھے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلعم  ہر شعبان کے آخر میں خطبہ دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے:’’ اے لوگو تم پر ایک عظیم و بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے کو اللہ نے فرض قراردیا ہے اور اس کی راتوں  میں خدا کی بارگاہ میں کھڑا ہونے کو نفل قرار دیاہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی نیک کام اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے اس مہینے کے سوا دوسرے مہینے میںکسی نے فرض ادا کیا ہو اور جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا وہ ایسا ہوگا جیسا اس مہینے میں کسی نے ستر فرض ادا کیے اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ ہمدردی  و غمخواری کا مہینہ ہے اور وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتاہے۔ جس کسی نے اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور (جہنم کی) آگ سے آزادی کا سبب ہوگا اور اسے اس روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔،،
آپ صلعم سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ ؐ ہم میں ہر ایک کو سامان میسر نہیں ہوتا جس سے وہ روزہ دار کو افطار کراسکے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : ’’اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطار فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا کھجور پر یا پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کو افطار کرادے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلادے اللہ اسے میرے حوض سے ایسے سیراب کرے گا کہ اس کو پیاس ہی نہیں لگے گی ،یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت ، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے مملوک (غلام یا خادم) کے کام میں تخفیف کردے گااللہ اس کی مغفرت فرمادے گا  اور اسے دوزخ کی آگ سے آزادی دے گا،،
یہ حدیث استقبال رمضان کے سلسلے میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ان تمام باتوں کا تذکرہ موجود ہے جس پر انسانیت کی فطری اور صالح صلاحیتوں اور قوتوں کو ابھرنے اور نشو نما پانے کے بنیادی اصول موجود ہیں۔ اس مقدس عبادت کے ذریعہ ہم اپنی روح اور اخلاق و کردار کو بہترین طریقے تربیت دے سکتے ہیں کیونکہ روزہ کا بنیادی اور اصلی مقصد ہی روح کی طہارت اور اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے ۔ ایک انسان جب تک اپنے نفس کو قابو میں نہیں کرسکتا وہ کوئی اونچا کام انجام دینے میں بہتر طور کامیاب نہیں ہوسکتا اور نہ اس کے اندر تقویٰ کی وہ کیفیت پیدا ہوسکتی جس کا مطالبہ قرآن و حدیث میں کیا کیا گیا ہے۔ خواہشات نفسا نی سے مغلوب انسان کو نہ خدا کی عظمت کا احساس ہوتاہے اور نہ وہ زندگی کی اعلی حقیقتوں کو محسوس کرپاتاہے۔ بہیمانہ خصوصیات کا غلبہ اسے یہ موقع ہی فراہم نہیں ہونے دیتے کہ وہ اپنی فطری ضرورتوں کے تقاضوں کی طرف توجہ دے سکے۔ روزہ انسان کو خدا کی طرف اور زندگی کی ان اعلی اقدار و حقائق کی طرف متوجہ کرتا ہے جو حیات انسانی کا اصل سرمایہ ہیں۔ وہ ایک انسان کے اندر وہ اوصاف پیدا کرتاہے جن کے ذریعہ وہ اپنے خالق و مالک کا قرب حاصل کرنے میں آسانی سے کامیاب ہوتاہے۔ اسی لئے اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’ کتنے ہی لوگ روزہ  سے نہیں ہوتے اس کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے وہ صائم ہوتے ہیں اور کتنے ہی لوگ روز رکھتے ہوئے بھی درحقیقت روزہ دار نہیں ہوتے ،،روزہ جس نیک عملی کا نام ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کو اپنی خواہشات پر قابوہو اور اسے تقویٰ کی زندگی حاصل ہو۔ بسا اوقات ایسا ہوتاہے کہ آدمی بظاہر توروزے سے ہوتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا روزہ نہیں ہوتا کیو نکہ ظا ہری و با طنی طورنہ اس کی کی نگاہیں عفیف ہوتی ہیں اور نہ اس کی زندگی اور خدا ترسی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ روزے کو عربی میں صوم کہتے ہیں۔ امام راغب ؒاس کی تشریح کرتے فرماتے ہیں کہ ’’صوم،، کے اصل معنی کسی کام سے رُک جانے کے ہیں، خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا بات چیت کرتے اور چلنے پھرنے سے ہو۔ اسی وجہ سے گھوڑا چلنے پھرنے یا چارہ کھانے سے رُک جائے تو اسے صائم کہتے ہیں۔
اس وضاحت سے معلوم ہوتاہے کہ درحقیقت کسی چیز سے رُک جانے کی کیفیت کا نام صوم ہے۔ روزہ حقیقت میں اسی شخص کا ہے جو روزے کی حالت میں تو کھانے پینے اور جنسی خواہش کو پورا کرنے سے بازرہے لیکن گناہوں کے ارتکاب اور ناپسندیدہ طرز عمل کو ہمیشہ کے لئے  ترک کردے۔ روزہ کی حالت میں انسان فرشتوں جیسی صفات سے آراستہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ان ضرورتوں سے بے  نیاز ہواکرتے ہیں۔ ان کی غذا صرف اللہ کی تعالیٰ کی تسبیح و مناجات ہی ہوا کرتی ہے۔ روزہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ پرانی شریعتوں میں بھی موجود تھی اور قرآن پاک کی آیات ِبینات سے اس کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ رمضان مبارک کے ایام میں اجتماعی حیثیت سے روزہ رکھنے سے  نیکی اور روحانیت کو پروان چڑھانے کا ایک موثر موقع فراہم ہوتاہے۔ کم ہمت اور کمزور و ناتوان افراد کے لیے بھی نیکی کی راہ اختیار کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ غرض روزہ سے اگرحقیقتاً کوئی فائدہ اٹھانا چاسے تو وہ  بغیر کسی محنت و مشقت کے یہ فائدہ نہیںاٹھا سکتاہے اور اس کے شب و روز کبھی بھی بے خوفی اور بے پروائی کے ساتھ بسر نہیں ہوسکتابلکہ احساس ذمہ دار ی کے ساتھ لبریز ہو کر وہ خدا پرستی ، انسان دوستی اور آخرت پر ستی روزہ دار افراد کو معاشر ے کے لئے مفید ، عالم انسانیت کے لئے خیر خواہ اور تمام اقوام و ملتو ں کے لئے انسا نی اصولوں کی بنیادپر استوار کر تا ہے۔ روزہ دار انہی بلند مقا صد کے حصو ل کی را ہ تکتے ہو ئے رجب وشعبان سے ہی رمضان کی آ مد آ مد کے لئے سراپا انتظار ہو تا ہے ۔ استقبا ل رمضان کر نے والا خو ش نصیب کبھی بھی خود فراموشی اور خدافراموشی کی سیا ہیو ں میں ڈوب کر نہ رہے گا بلکہ ہمیشہ  نہ صرف اپنے مقصد زندگی کو پیش نظر رکھے گا بلکہ سوسائٹی اور معاشرے کی صالح تعمیر و ترقی کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہے گا۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم شعور و جذ با ت کے ساتھ رمضان کا والہا نہ استقبال کر یں اور اس کے تقاضو ں کا اپنی اپنی زند گیو ں میںاہتمام بھی کریں۔
gfalahi@gmail.com

No comments:

Post a Comment