Search This Blog

Tuesday, 31 July 2012

یہ ہراوّل دستے

یہ ہراوّل دستے


حالت جنگ میں آج کی زمینی فوج کی تربیت اور صف بندی کے بارے میں مجھے کچھ بھی معلوم نہیں لیکن ماضی بعید کی جنگی تربیت کے سلسلے میں مجھے یہ معلوم ہے کہ ترتیب اس طرح سے ہوتی تھی : - ہراوّل ،اوّلین صفیں،قلب یعنی درمیانی صفیں ، عقب یعنی آخری صفیں۔میمنہ یعنی دایاں پہلو ۔ میسرہ یعنی بایاں پہلو…جنگ شروع ہونے سے پہلے ہر دو افواج کے چند پہلوان قسم کے سپاہی آمنے سامنے آکر پنجہ آزمائی اور زور آزمائی کرتے تھے ۔جو گرتا تھا وہ مرتا تھا ۔اس کے بعد اصل جنگ شروع ہوتی تھی جس میں طاقتور کی جیت ہوتی تھی اور کمزور کی ہار ۔ ہر اوّل دستے فوج سے آگے ہوتے تھے جن میں بہت زیادہ سپاہی نہیں ہوتے تھے لیکن اُن کے ذمے طرح طرح کے کام ہوتے تھے جن میں دُشمن کو اپنے پیچھے کی فوج کی طاقت وقوت کا عندیہ دینا بھی ہوتا تھا ۔ ان کے عندیات خاصی اہمیت کے حامل ہوتے تھے ۔ ان ہر اوّل دستوں کو ’’مقدمتہ الجیش‘‘ بھی کہا جاتا تھا یعنی لشکر کا مقدمہ!
ہم زندہ لوگ فی الوقت زندگی کے میدان جنگ میں ہیں۔اس جنگ میں فطرت اور قدرت ہماری حریف ہے ۔ قدرت حتمی طور سے ناقابل شکست ہے ۔لیکن بجائے اس کے کہ ہم قدرت کی لامتناہی قوت کا اندازہ کرکے دوچار ہاتھ چلا کر سپر انداز ہوجائیں اور اپنی شکست تسلیم کریں ، ہم اسے آنکھیں دکھارہے ہیں ۔اگر ہم شکست تسلیم کرکے خراج ادا کرنے کی روش اختیار کرتے تو ہماری مملکت محفوظ رہ سکتی تھی اور یہ پسپائی بڑی کامیابی اور سرخروئی ہوتی کیونکہ قدرت سے لڑکر اسے شکست دینا کسی جن وانس کے بس کی بات نہیں ۔اس محاذ پر جوجھکا وہ سرفراز ہوگیا اور جس نے ’’راج ہٹ ‘‘ کا طریقہ اپنایا،مسمار ہوکے رہ گیا ۔ لیکن ہم قدرت کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرکے طبلِ جنگ بجا چکے ہیں ۔ نہ بجاچکے ہوتے تو………۔
مالِ فَے کو ذاتی جائیداد نہ سمجھتے ۔امانت میں خیانت نہ کرتے ۔ زکوٰۃ کو فرض کے بجائے تاوان نہ سمجھتے ۔تعلیم فقط دنیای مفادات کے لئے حاصل نہ کرتے ۔بیوی کی اطاعت وعزت اور ماں کی بے عزتی نہ کرتے ۔ دوست کو قریب اور باپ کو دُور نہ کرتے ۔مساجد میں شورشرابہ اور دھینگا مشتی نہ کرتے ۔اللہ کے نافرمان لوگ ہمارے سردار نہ بنتے ۔ گھٹیا قسم کے لوگ ہمارے سر چڑھ کر نہ بولتے ۔ انسان کی عزت اُس کے شر کے خوف سے نہ کرتے ۔ گانے بجانے والی عورتوں اور مزامیر(آلاتِ موسیقی ) کی کثرت نہ ہوتی۔شراب بے دریغ نہ پی جاتی ۔ گزرے ہوئے نیک لوگوں کی تذلیل نہ کی جاتی !! وغیرہ ۔
آج حال یہی ہے اور بلاشک یہی ہے ۔ اس لئے قدرت نے بھی ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے لیکن اُس کا ظرف چونکہ وسیع، مملکت عظیم ترین اور فوج بے اَنت ہے ، اس لئے فی الحال اپنے ہر اوّل دستے بھیج رہی ہے کہ شاید ہمیں اُس کی طاقت وعظمت کا اندازہ ہواور ہم توبہ کرلیں ۔ خشک سالی ، برف وباراں کی شدت ، ہوائوں کا خلافِ معمول وموسم ورود، سردی گرمی کی شدت ، نت نئی بیماریوں کا ظہور،خوف وخطر ک افراط، ظلم کی انتہا وغیرہ سامنے کی مثالیں ہیں ۔ اکتوبر 2005ء کا آدم خور زلزلہ اور مارچ 2012ء کی بے موسم مسلسل آندھی ہی ہمارے لئے چشم کشا ہوسکتی تھی ۔لیکن کیا کیا جائے کہ ہم نے متنبہ نہ ہونے کی جیسے قسم کھائی ہے ۔ زلزلے او ربے رنگ آندھی تو آچکی ۔کیا اب ہمیں ایک بڑے زلزلے اور سُرخ آندھی کا انتظار ہے جس میں قدرت کا رحیمانہ رُخ قاہرانہ بھی ہوسکتاہے ۔ اگر ہمارا شعار اب بھی نہ بدلا تو ہمیں اپنا بوریا بسترہ گول کرکے رکھ لینا چاہئے تاکہ اُس کے آسمان کے نیچے سے بوقتِ ضرورت بھاگ کر نکل سکیں لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آسماں ہرجگہ اُسی کا ہے !! اس ضمن میں ذیل کی حدیث مبارکہ ہماری توجہ چاہتی ہے:
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ …رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب مالِ فَے کو ذاتی دولت سمجھاجانے لگے ، امانت غنیمت سمجھ کر دبالی جائے ،زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے ،تعلیم دین کے علاوہ (دنیا کے لئے) حاصل کی جائے ،انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور ماں کو ستائے ، دوست کو قریب اور باپ کو دُور کرے ، مسجدوں میں (دنیاکی باتوں)کا شور ہونے لگے، قبیلوںکے سردار نافرمان لوگ بن جائیں اور گھٹیا قسم کے لوگ قوم کے سردار بن جائیں ، انسان کی عزت اُس کی شرارتوں کے خوف سے کی جائے ، گانے بجانے والی عورتوں اور گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے ،شرابیں پی جانے لگیں ، بعد میں آنے والے لوگ پچھلے (نیک)لوگوں پر لعنت کرنے لگیں…تو اُس وقت تم سُرخ آندھیوں اورزلزلوں کا انتظار کرو اور زمین میں دھنس جانے ، صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری اُن نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے درپے اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور پے در پے دانے گرنے لگیں !‘‘۔
-----------------------------
رابطہ:-سیر جاگیر سوپور (کشمیر)
 ای میل : armukhlis1@gmail.com  
موبائل: 9797219497

No comments:

Post a Comment