Search This Blog

Thursday, 26 July 2012

جہیز اور عورت

جہیز اور عورت
خاموشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

عصرِ حاضر میں والدین کی ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ لڑکی کی پرورش کریں،اُسے تعلیم دیں،اُس کی دینی و اخلاقی تربیت کریں،اُسے گھریلوں زندگی کے آداب و اطوار اور تہذیب و سلیقہ سِکھائیں ۔اس کے لئے رشتہ تلاش کریں اور دستور کے مطابق کسی شریف اور باکردار آدمی کے نکاح میں اپنی لختِ جگر کو دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں،بلکہ یہ بھی اُن کی ذمہ داری ہے کہ لڑکے کو انہوں نے اپنی لڑکی کے لیے منتخب کیا ہے اُس کے وہ مطالبات بھی پورے کریں جنہیں شاید وہ خود بھی پورے نہیں کر سکتا۔ ان مطالبات کی فہرست اتنی طویل اور اتنی متنوع ہوتی ہے کہ اس میںنقد کے علاوہ دولہا کے شایانِ شان موٹر سائیکل،ماروتی کار،سونے کی گھڑی،موبائل فون، کمپیوٹر وغیرہ چیزیں آجاتی ہیں۔یہ فہرست حسبِ حالات مختصر بھی ہوسکتی ہے اور طویل بھی۔ بہرحال یہی وہ زرّیں موقع ہوتا ہے جبکہ دولہے میاں اپنے حوصلے اور تمنائیں پوری کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکی کو مطلوبہ زیورات سے آراستہ کیا جائے اور اُسے اتنے سازوسامان کے ساتھ رخصت کیا جائے کہ آدمی کی قسمت جاگ اُٹھے اور گھر سچ مچ سُنارخانہ بن جائے۔لڑکی کودیئے جانے والے اس مال و اسباب کی قیمت تو متعین نہیں ہے البتہ اتنی بات طے ہے کہ اسے لڑکی والے کی حیثیت سے بہر حال زیادہ ہوناچائیے۔
ہوسِ زر اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لڑکی کی شکل و صورت ، تعلیم و تربیت اور دین و اخلاق سب کچھ اس کے مقابلے میںپیچھے رہ گئے ہیں۔آج کل سب سے پہلی چیز جو دیکھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکی کتنی دولت اپنے ساتھ لاسکتی ہے۔ حُسن و جمال ہی کی نہیں دین واخلاق کی بھی اس قدر توہین شاید ہی دنیا نے کھبی دیکھی ہو۔دولت نے ہر اعلیٰ قدر کو شکست دے رکھی ہے۔شکستِ فاش!
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی لڑکیاں لمبی لمبی عمر تک محض اس لیئے بیٹھی رہتی ہیں کہ بدقسمتی سے وہ ایسے ماں باپ کے گھر پیدا ہو گئیں جو اُن کےلئے جہیز فراہم نہیں کر سکتے۔ان میں کتنی ہی مظلوم اور بے زبان زندگی بھر کنواری رہ جاتی ہیں۔کچھ نیک بخت صور تحال کی نزاکت کا احساس کر کے از خود شادی سے انکار کردیتی ہیں تاکہ ان کے والدین ان کی شادی کی فکر سے آزاد ہو جائیں اور وہ اپنی اُمنگوں اور تمناوّں کا مرثیہ پڑھی ہوئی زندگی گزاردیں۔اس کے علاوہ بر صغیر میں مشترک خاندان کا عام رواج ہے،جب کسی خاندان میںلڑکوں کی شادیاں ہوتی چلی جاتی ہیں اور لڑکیاں کنواری رہ جاتی ہیں تو خاندان کے اندر بڑی نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور خانگی زندگی کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ناکتخدا ئوں کا وجود اس ظالم سماج کے خلاف مسلسل فریاد ہے۔لیکن کون ہے جو ان بے نوائوںکی فریاد سنے ؟
سب سے بڑا مسئلہ اُس لڑکی کا ہے جو جہیز کے بغیر اپنے شوہر کے گھر چلی جائے۔اُس میں لاکھ خوبیاں سہی اُس کی یہ غلطی معاف نہیں ہوسکتی کہ وہ خالی ہاتھ اپنے میکے سے آئی ہے۔اس سے باز پرس کرنے والا صرف اس کی شوہر ہی نہیں ہوتا بلکہ شوہر کا پورا خاندان اُس کا محاسبہ کرتا ہے۔ اُسے اپنے اس ناکردہ جرم کا ایک ایک فرد کو حساب دینا پڑتا۔اس کی عام سزا تحقیر وتذلیل،طنز و تعریض اور مارپیٹ ہے۔ اس کے نتیجے میں اُسے خانہ بدر کیا جاتا ہے اور شوہر سے علیحدگی بھی ہو سکی ہے۔اتنا ہی نہیں اس ’’جر م‘‘کی پاداش میںاسے اپنی جان سے بھی ہاتھ  دھونا پڑتا ہے۔جہیز کے لئے جان لینے کے واقعات اس قدر ہورہے ہیںکہ اب ان میں کوئی ندرت یا نیا پن نہیں ہے۔ان کی نوعیّت روز مرّہ کے حادثات کی ہوکر رہ گئی ہے۔کھبی یہ سزا شوہرِ نامراد دیتا ہے۔اگر اسے اس میں کوئی تامُل یا ہچکچاہٹ ہو تو خاندان کے دوسرے افراد اس خدمت کے لیئے تیار رہتے ہیں۔
جہیز کے مسائل و مصا ئب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے عورت خودکشی کو بھی ترجیح دینے لگی ہے۔اس کے لئے کبھی وہ مٹی کے تیل اور پیٹرول کا سہارا لیتی ہے،کبھی کسی اونچی عمارت سے چھلانگ لگاتی ہے،کبھی گلے میں پھندا لگا کر چھت سے لٹک جاتی ہے،کبھی زہرکھا کر ہمیشہ کی نیند سو جانا چاہتی ہے۔خداہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی معصوم جانیں اس خونِ آشام جہیز کی نذرہو چکی ہیں اور ابھی اور کتنی معصوم جانیں نذر ہوں گی۔ جہیز کے اس ذلیل فعل سے جنگل کے درندے بھی شرمارہے ہوں گے۔
جہیزکی ان ہلاکت خیزیوں کو آج ہر شخص اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے بلکہ دیکھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے کی بہت بڑی اکثریت نے اسے ایک ناگزیر سماجی خرابی کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔اس کے نزدیک موجودہ حالات میں لڑکوں کے لئے جہیز لینا اور لڑکیوں کو جہیز دینا اس قدر ضروری ہوگیا ہے کہ اس سے بچنے کی کوئی بھی صورت نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لڑکیوں کو بہرحال جہیز دینا ہی پڑتا ہے۔( اس میں لڑکے کے مطالبات کی تکمیل بھی شامل ہے ) اس کے بغیر ان کی شادی نہیں ہوسکتی۔والدین اس کی ہمت نہیں کرسکتے کہ ن نکی لڑکی بن بیاہی گھر بیٹھی رہے۔جو شخص جہیز دیتا ہے وہ جہیز لینے پر مجبور بھی ہے۔اُس سے یہ مطالبہ بے جاسا ہوگا کہ وہ تو اپنی لڑکیوں کو جہیز کے ساتھ رُخصت کرتاہے  اور دوسروں کی لڑکیاں اس کے گھر خالی ہاتھ آئیں۔ ہوسکتا ہے اس نقصان کو بعض لوگ جھیل جائیں،ہر شخص اُسے برداشت نہیں کرسکتا۔
اس منطق کی رو سے سوچئے وہ انسان کتنا بدقسمت ہوگا جس کے صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں اور جو ریاضی کے اس فامولے کے تحت نقصان پر نقصان اُٹھاتا رہے،اور پھر کتنا خوش قسمت ہے وہ شخص جس کے صرف لڑکے ہوں اور جہیز کی دولت سے مسلسل نہال ہوتا چلا جائے۔
پھر اس منطق کا حاصل یہ ہے کہ کسی برائی کو ہم محض اس وجہ سے نہ صرف یہ کہ گوارہ کریں بلکہ عملََا اختیار کرلیں کہ دنیا اس کا ارتکاب کررہی ہے اور اس سے فائدہ اُٹھا رہی ہے۔اس طرح آدمی رشوت،خیانت،فریب اور مکاری کو بھی جائز قرار دے دیتا ہے۔اس لئے کہ یہ نسخے آج کی دنیا میں بڑے ہی مجرب اور کامیاب نسخے ہیں اور جو انہیں استعمال نہیں کرتا وہ سراسر نقصان میں رہتا ہے۔
اسی قسم کی غلط توجیہات دنیا کی ہر بُرائی کو استحکام عطا کرتی ہیں۔ان سے انسان کے ضمیر میںاسکے خلاف جو کھٹک ہوتی ہے وہ بھی جاتی رہتی ہے اور وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اسکا ارتکاب کرنے لگتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جہیز کے نام پر جو زیادتی ہورہی ہے اسے دنیا کا کوئی بھی مذہب،کوئی فلسفہ اخلاق اور قانون جائز قرار نہیں دے سکتا۔ آج کل ہماری وادی کے بیشتر اخبارات کا ایک خاص موضوع یہی جہیز ہے۔اس کے خلاف مختلف حلقوں سے آواز اُٹھتی رہتی ہے۔حکومت بھی قانون کے ذریعے اس پر پابندی لگانا چاہتی ہے لیکن کسی بھی خرابی کو بدلنے کے لیئے حکومت اور سماج کا دباوّ کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ذہن و فکر کی تبدیلی اور خدا اور آخرت کے خوف کی ضرورت ہے۔اسلام یہی فرض انجام دیتا ہے۔وہ سب سے پہلے سماج کے غلط دستور اوررسم و رواج کو توڑتا ہے اور زندگی کا صاف ستھرا اور آسان طریقہ سکھاتا ہے۔ اسلام نے ازدواجی زندگی کے تمام مسائل کو بھی بہت آسانی سے حل کیا ہے۔اس کے نزدیک نکاح سادگی اورسہولیت سے ہونا چائیے۔اسے مشکل اور دشوار بنانا بہت بڑی زیادتی ہے۔اس سلسلہ میں اسلام کی بعض اصولی تعلیمات کا ذکر کیا جارہاہے۔
۱-         اسلام اس بات کا شدت سے مخالف ہے کہ کسی بھی معاملہ میں ظلم و زیادتی کا روّیہ اختیار کیا جائے۔اس کے نزدیک کسی کی کمزوری اور مجبوری  سے غلط فائدہ اُٹھانا اور اس کا استعمال کرنا سراسر ناجائز ہے۔ جہیز کے نام پر لڑکی والو ںکا استحصال بھی اسی میں آتا ہے۔اسلام اس کا کسی حال میں روادار نہیں ہے۔
۲-         شادی لڑکی والوں سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ بعض بلند مقاصد کے لئے  ہوتی ہے۔وہی شادی کامیاب ہے جس سے  ان مقاصد کی تکمیل ہو۔ہوسِ زرمیں ان مقاصد کو پسِ پست ڈال دینا سراسر غلط اور ناپسندیدہ ہے۔
۳-         مرد کو اــــﷲ نے قواّم بنایا ہے۔وہ اسی حیثیت سے عقد نکاح کرتا ہے۔وہ اس عہد و پیماں کے ساتھ لڑکی کا ہاتھ پکڑتا ہے کہ وہ اس کے نان و نفقہ اور رہائش وغیرہ کا ذمہ دار ہے،جس کو خدائے تعالیٰ نے یہ مقام عطا کیا ہو اس کے لئے یہ بات سخت توہین کی باعث ہے کہ وہ شادی سے چند دن پہلے لڑکی یا اس کے سرپرستوں کے سامنے ’’جہیز ‘‘ کے نام پر دستِ سوال دراز کرے اور جب اپنی مراد پوری نہ ہو تو پھر کسی دوسری لڑکی کے در پر پہنچ جائے۔
۴-         جہیز کے نہ ملنے پر عورت کے ساتھ بالعموم جو زیاتی ہوتی ہے اس کا کوئی دینی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ جہیز یا مال و اسباب کے لیئے عورت کو تنگ کرنے کی جگہ اسلام نے عورت کی دلجوئی کا حکم دیا ہے۔ ’’مہر‘‘ اس کی علامتِ خاص ہے ۔مہر کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عورت اپنے گھر اور خاندان سے چونکہ جدا ہوتی ہے۔اس لئے مرد مہر کی شکل میں خلوص و محبت کا تحفہ پیش کرتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اس کا دشمن نہیں بلکہ مخلص،ہمدرد اور غم خوار ہے۔ پھر جہیز کے لئے پریشان کرنا عورت کے ساتھ حسن وسلوک کی اس تعلیم کے بھی خلاف ہے جو اسلام نے دی ہے۔
جس شخص کے سامنے یہ پاکیزہ اور مقدس تعلیمات ہوں اُسکا وہ ذہن ہرگز نہیں ہوسکتا جو آج کے نوجوانوں کا ذہن ہے۔وہ جہیز کے نام پر عورت اور اُس کے اندان کے استعمال کی جگہ ان سے ہمدردی اور محبت کارویہ اختیار کرے گا اور اپنے حسنِ سلوک شرافت اور انسانیت کا ثبوت فراہم کرے گا۔
جہیز کا ایک علاج تو یہ ہے کہ سماج میں اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔دوسرا علاج یہ ہے کہ جو لوگ جہیز کی خرابی کو محسوس کر رہے ہیں وہ ہمت کر کے اس کے لین دین کو ختم کریں۔اس معاملے میں لڑکی والے تو مظلوم ہیں اُنہیں نصیحت کی نہیں بلکہ ہمدردی کی ضرورت ہے۔البتہ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے خلاف اقدام ہونا چائیے۔
اس موضوع کو درجہء تکمیل تک پہنچانے سے پہلے بعض باتوں کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے۔تاکہ اس مسئلہ میں اسلام کا نقطئہ نظر پوری طرح سامنے آجائے۔
۱شادی کے بعد لڑکے اور لڑکی کو اپنا نیا گھر بسانا ہوتا ہے۔اس فعل میں لڑکے والے بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں اورلڑکی والے بھی۔اگر نیا جوڑا اس معاملہ میں تعاون کا مستحق ہو تو تعاون کو پسندیدہ ہی کہا جائے گا۔یہ تعاون پیسہ کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور سازو سامان کی شکل میں بھی لیکن واضح رہے یہ نہ تو فرض ہے اور نہ واجب۔اورنہ نکاح کی شرط کہ اس کے بغیر نکاح ہی نہیں ہوتا۔
۲شادی کے موقع پر دولہا اور دلہن کو اعزہ و اقارب اور دوستوں و احباب کی طرف سے تحفے اور ہدیے دیئے جاسکتے ہیں۔لیکن اسے جواز ہی کی حد میں ہونا چائیے۔اسے ضروری سمجھنا یا اس کے نہ دینے پر بُرا ماننا اور شکوہ شکایت کا پیدا ہونا سراسر غلط ہے۔تحفہ اور ہدیہ خوش دلی سے ہوتا ہے ورنہ وہ تحفہ نہیں تاوان اور جرمانہ ہوگا۔
۳شادی کے موقع پر لڑکی کو جو زیور یا سامان دیا جاتا ہے اُس کے بارے میں یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ وہ شوہر یا سسرال والوں کی ملکیت ہے۔اس کی مالک اصلاً لڑکی ہو تی ہے۔اُس کی اجازت کے بغیر اس میں خرچ کرنا قطعََ جائز نہیں۔
۴آخری بات یہ کہ اسلام نے نکاح کو آساں بنا رکھا ہے۔اس لئے سماج کی وہ ساری بندشیں جن سے اس میں دشواری پیدا ہو قابلِ مذمت ہیں۔ان سے ہمیں احتراز کرنا چاہئے۔
یہ ہے اعتدال کی راہ جواسلام نے دکھائی ہے۔اس میں محبت اور ہمدردی ہے،حُسنِ سلوک ہے،ظلم و زیادتی کی ممانعت ہے اور اس کے ساتھ انسان کے جذبات اور ضروریات کی بھر پور رعایت بھی ہے۔اس پر عمل ہو تو جہیز کے جھگڑے ختم ہی نہیں ہوں گے بلکہ پرسکون خاندانی زندگی بھی نصیب ہوگی۔کاش کہ ہم اس طرف پلٹ آئیں۔
Ishfaqparvaz@hotmail.co.uk 

No comments:

Post a Comment