Search This Blog

Tuesday 10 July 2012

عرب وہند کے تعلقات


محترم حبیب صالح
مسلمانوں کی آمد سے قبل اس پورے ملک کا کوئی ایک نام نہ تھا، اہل فارس نے جب اس کے صوبہ پر قبضہ کیا جس میں دریائے سندھ تھا تو اس کا نام ”سندہو“ رکھا، پرانی ایرانی زبان اور سنسکرت میں” س “اور”ہ“  آپس میں بدلا کرتے ہیں، اس لیے اہلِ فارس نے اسے ”ہندہو“ کہ کر پکارا،جس سے ”ہند“ پڑگیا، عرب نے سندھ کو” سندھ“ ہی کہا، مگر دیگر علاقوں کو”ہند“ کہا۔

موجودہ سادات خاندانوں کا بڑا حصہ نواسہٴ رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے حضرت زین العابدینعلی بن حسینکی نسل سے ہے، حضرت زین العابدین کی ماں عرب نہ تھیں، بلکہ ایرانی یا سندھی تھیں۔

مسلمان کی برصغیر آمد
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بحرین کے گورنر کے حکم سے مسلمان بمبئی کی بندرگاہ پر 15ہجری(636ء) میں پہنچے اس کے بعد بہرچ (بروص) آئے۔ اسی زمانہ میں مغیرہ نامی مسلمان دیبل پر، جو سندھ کی بندرگاہ تھی اور ٹھٹھہ جو موجودہ کراچی کے قریب ہے لنگر انداز ہوا، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں چند مسلمان بھیجے گئے جو ان بندرگاہوں کی دیکھ بھال کر کے واپس چلے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں 39ہجری (660ء)سے مسلمانوں کی جانب سے باقاعدہ ان اطراف کی نگرانی ہونے لگی۔ ولید اموی کے دور میں جب حجاج عراق‘ ایران‘مکران‘ بلوچستان یعنی مشرقی علاقوں کا نگران مقرر ہواتو اس نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ بھیجا تاکہ یہاں کے ہندو راجہ سے مسلمان عورت کو رہائی دلوائی جائے۔ 93ہجری میں محمد بن قاسم سندھ پہنچے، تین برس کے عرصہ میں مسلمان چھوٹے کشمیر کی سرحد ملتان(عرب پنجاب کو چھوٹا کشمیر کہتے تھے) تک پہنچ چکے تھے۔

313ہجری (715ء)میں عرب میں مسلمانوں کی حکومت میں اندرونی تبدیلی آئی، امویوں کی جگہ عباسیوں نے لے لی اور شام کے بجائے عراق سلطنت کا اہم صوبہ بن گیا، اور حکومت کا مرکز دمشق سے ہٹ کر بغداد چلاگیا، اس انقلاب نے ہندوستان کو مرکز عرب کے زیادہ قریب کردیا۔

مسلمان سیاح
عربی زبان میں جغرافیہ کی سب سے پہلی کتاب، جس میں ہندوستان کا کچھ حال ملتا ہے ،وہ ابن خردازبہ کی کتاب ”کتاب المسالک والممالک“ ہے۔

سلمان تاجر: یہ ایک سوداگر تھا، جو عراق سے چین کی بندرگاہ تک پورے ساحل کا چکر لگاتا تھا، اس نے ایک کتاب 237ہجری میں لکھی۔ ابوزید حسن سیرافی 264ہجری: اس نے سلمان تاجر کا سفر نامہ پڑھا اور 30,25سال بعداس کا تکملہ لکھا۔ اسی طرح ابودلف مسعر بن مہلہل یزعومی 331ہجری، بزرگ بن شہریار300 ہجری، مسعودی 303ہجری، اسطخری 340ہجری، ابن حوقل، بشاری375ہجری، البیرونی400ہجری، ابن بطوطہ 779ہجری، وغیرہ نے اپنی تصانیف میں ہندوستان کا تذکرہ کیا اوراس کا جغرافیہ لکھا ہے۔

علاقائی وتجارتی تعلقات
حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں بھی تجارتی قافلے ہندستان سے گذرتے تھے، بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر لے جانے والے قافلے کا گذر بھی اسی جگہ ہوا تھا، حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ سے مارکوپولو اور واسکوڈی گاما کے زمانہ تک ہندستان کی تجارت پر عرب چھائے رہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرب سیاح سے ہندوستان کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا: ”بحرھا درر، وجبلھا یاقوت، وشجرھا عطر“ (اس کے دریا موتی ، پہاڑ یاقوت اور درخت عطر ہیں)۔ عراق کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو ابلہ کی بندرگاہ کی طرف جانے کا حکم دیا اور اسے تجارتی شہر بنانے کا کہا، لہٰذا اس وقت سے لیکر256ہجری تک یہ بندرگاہ قائم رہی۔ پہلی صدی ہجری کے آخر میں سندھ میں مسلمانوں کے پہنچ جانے کے سبب سے یہ ہندستان کی آمد ورفت کا مرکز بن گئی۔ کشتیوں اور جہازوں کا محصول اس قدر بڑھ گیا کہ وہ بغداد کا بڑا مالیہ ہوگیا، آخر میں 306ہجری میں مقتدرباللہ کے زمانے میں اس کی سالانہ میزان 22575 دینار رہ گئی تھی۔

عرب سے چلنے والے مسافروں کے لیے خلیج فارس کے بعد سب سے پہلے بلوچستان کی بندرگاہ تیز، پھر سندھ کی بندرگاہ دیبل اور گجرات میں تھانہ تھی۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں اور ہندوستان کے تجارتی تعلقات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے کم از کم 2ہزاربرس پہلے سے ہیں۔

عربی میں جہاز رانی کے بعض ہندی الفاظ
عربوں کی ہندوستانی سواحل پر دریائی آمد ورفت کا اثر یہ ہوا کہ عربی کے سفر ناموں اور جغرافیوں میں اور عرب وفارسی ملاحوں کی زبانوں پر جہاز اور متعلقات جہاز کے ہندی نام چڑھ گئے ، مثلا: بارجہ(بیڑہ، ہندی)،دونیج (ڈونگی، ہندی)، ہوری (ہوڑی، ہندی) وغیرہ۔

ہندوستانی پیداوار
ابن خردازبہ (220ہجری) یہ فہرست ظاہر کرتاہے: خوش بو، لکڑیاں، صندل، کافور، لونگ، جزبائے، ناریل، سراندیپ سے ہرقسم کے یاقوت، موتی، بلور اور سنباذج وغیرہ۔ ابن الفقیہ ہمدانی (330) نے مزید گینڈا، ہاتھی، عود، عنبر، لونگ، سنبل، دارچینی، توتیا، صندل، ساگوان اور سیاہ مرچ وغیرہ گنوائی ہیں۔چوں کہ ان اشیا کی عرب آمد اور ان کا تعارف عربوں کو اہل ہند سے ہوا تھا۔ اس لیے اہل عرب نے ہندی ناموں کو اپنے زبان کے موافق تبدیل کرکے استعمال کیا، ذیل میں ہندی الاصل چند الفاظ کی فہرست دی جاتی ہے۔
اردوہندیعربی نامصندلچندنصندلپان(تنبول)تامبولتنبوللونگکنک پھلقرنفلسپار، ڈلیکوبلفوفلالائچیایلھیلکیلاموشہموزآمآمانبجمشکموشکامسککافورکپورکافورگول مرچپیلی، پیلافلفلسونٹھ، ادرکزرنجابیرازنجبیلنیلوفرنیلوپھلنیلوفرناریلناریلنارجیللیمولیمولیمون
قرآن میں ہندی الفاظ
کیا قرآن میں غیر زبان(عربی کے علاوہ) کے الفاظ موجود ہیں؟ فیصلہ یہی ہے کہ ایسے الفاظ موجود ہیں جو عربوں کی زبان میں آکر مستعمل ہوگئے تھے اور وہ عربی زبان کے لفظ بن گئے تھے، چناچہ قرآن میں ہندی کے تین الفاظ ہیں۔ مسک (مشک، ہندی)، زنجبیل (ادرک، ہندی)، کافور (کپور، ہندی)۔

پان (تنبول)کا مفصل تعارف عربوں میں مسعودی نے کیا ہے، جوآج سے تقریباً نو سو برس پہلے کا ہے۔

علمی تعلقات
771ء میں سندھ کے ایک وفد کے ساتھہیئت اور ریاضیات کافاضل پنڈت سنسکرت کی سدھانت لے کر بغداد پہنچا اور خلیفہ کے حکم سے ابراھیم فرازی ریاضی دان کی مدد سے عربی میں ترجمہ کیا، اس کے بعد علم نجوم، ہیئت، طب اور ادب واخلاق کی کتابوں کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہوا۔

خلیفہ منصور اور ہارون الرشید کی فیاضی کی بدولت ہندستان کے بیسیوں پنڈت بغداد پہنچے اور سلطنت کے طبی اور علمی محکموں میں مصروف ہوئے اور حساب، نجوم، ہیئت، وید اور ادب واخلاق کی بہت سے کتابوں کا ترجمہ کیا۔

اہل عرب کا صریح بیان ہے کہ انہوں نے 1سے لے کر9تک کا ہندسہ لکھنے کا طریقہ اہل ہند سے سیکھا، اس لیے عرب اس کو” حساب ہندی“ یا ”ارقام ہندیہ“ کہتے ہیں، پھر اندلس کے راستہ یورپ نے یہ حساب سیکھا، وہ اس کو اعداد عربیہ (عربک فیگرز) کہتے ہیں۔

کلیلہ دمنہ (عربی ادب کی مشہور کتاب)اصل میں سنسکرت میں تھی، بیرونی کے مطابق اس کا نام” پنچ تنتر “ہے، یہ کتاب قبل از اسلام ایران کے ساسانی بادشاہوں کے زمانہ میں فارسی میں ترجمہ ہوئی، پھر عبداللہ بن مقفع نے دوسرے صدی ہجری کے وسط میں اس کا عربی ترجمہ کیا، پھر عربی زبان سے اس کے ترجمے دنیا بھر میں شائع ہوئے۔

حصول فنون کے لیے برصغیر میں آمد
دوایسے فاضل مسلمان گذرے ہیں جو ہندستان سیر وتفریح کرنے نہیں، مختلف فنون کی تحصیل کے لیے آئے اور اس میں کامیاب لوٹے۔ تنوخی: اس کا زمانہ تیسری صدی ہجری کا تھا، یہ نجوم و ہیئت کا ماہر تھا اور ہندوستان سے بہت سی نادر معلومات لے کرواپس گیا۔

ابوریحان البیرونی: 408ہجری میں ہندوستان آیا اور یہیں 423ہجری میں” کتاب الہند “ ختم کی۔ اس نے ہندوستان کے مذاہب، اعتقادات، رسوم، اقوام اور علوم وفنون کا تعارف کروایا۔ بیرونی کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ہندوٴوں اور مسلمانوں کے درمیان علمی سفارت کا کام انجام دیا ہے، اس نے عربوں اور ایرانیوں کو ہندوٴوں کے علوم سے اور ہندوٴوں کو عربوں اور ایرانیوں کی تحقیقات سے آگاہ کیا۔ اس نے عربی سے سنسکرت اور سنسکرت سے عربی میں ترجمہ کیا، اس کا عظیم کارنامہ زمین کا دور ناپنا ہے، بیرونی کو اس کا بڑا شوق تھا، ایسے موقع کا میدان اس کو ہندستان میں ملا، چناں چہ اس نے (پاکستان)ضلع جہلم کی تحصیل پنڈدادن خان کے ایک قصبے نندنا کے قلعے میں اپنے ہندی قاعدہ کے مطابق زمین کی پیمائش کی۔

برصغیر کی وقعت
جاحظ ( 255ہجری) لکھتا ہے: ”ہندستان کے باشندے حساب اور طب میں آگے ہیں اور طب کے بعض عجیب بھید ان کومعلوم ہیں، سخت بیماریوں کی دوائیں خاص طور پر ان کے پاس ہیں…رنگوں سے تصویر بنانے اور تعمیر میں ان کو کمال ہے…(عراق) میں جتنے صراف ہیں، سب کے ہاں خرانچی خاص سندھی ہو گا یا سندہی کا لڑکا ،کیوں کہ ان کو حساب وکتاب سے فطری مناسبت ہے اور یہ دیانت دار اور وفادار ملازم ہوتے ہیں۔

یعقوبی (احمد بن یعقوب جعفر‘ یہ عباسی دور میں دفتر انشاء کا افسر تھا)لکھتا ہے: ”ہندستان کے لوگ عقل وفکر والے ہوتے ہیں…طب میں ان کا فیصلہ سب سے آگے ہے“۔

متفقہ نشان
سراندیپ کی ایک پہاڑکی چٹان پر پاوٴں کا ایک نشان ہے، بعض مسلمان اپنی تحقیق کے مطابق اسے حضرت آدم علیہ السلام کا نقشِ قدم، بودھ اس کو شاکیہ مونی کے قدم کا نشان اور ہندو اسے شیر کے پاوٴں کا نشان سمجھتے ہیں اور سب اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اس کی تعظیم کرتے ہیں، یہ وہ چیز ہے جس کی دوسری مثال مشکل سے ملے گی۔

بہرحال ان مختلف تجارتی، معاشرتی اور سیاسی تعلقات کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھ، گجرات، مالدیپ، سراندیپ اور جاوہ وغیرہ میں اسلام نے اپنے قدم آہستہ آہستہ بڑھانا شروع کردیے، صدی بہ صدی کے جغرافیوں اور سفرناموں کے مطالعہ سے معلوم ہو تاہے کہ لڑائی بھڑائی کے بغیر پورے امن وچین کے ساتھ اسلام کے اثرات یہاں بڑھتے چلے گئے۔

No comments:

Post a Comment