گلوبلائزیشن وہی حیلے ہیں پرویزی امتیازعبدالقادر
گلوبلائزیشن یا ’’نیاعالمی نظام ‘‘ مغرب کی ایجادکردہ اصطلاح اورمغربی ذہن کی پیداوارہے۔اس میںبنیادی طورپراسلامی نظام حیات کی عالمگیریت کو نشانہ بناکراس کے بجائے اس نئے نظام کی افادیت اورتغیر پذیردنیا کے لئے اس کی ضرورت پرزوردیاگیاہے، یہ نظریہ منفی طرزفکر کاعلمبردارہے،اور اس کو اسلام کے بالمقابل لایاگیاہے۔ اہل مغرب نے اقوام متحدہ کے ذریعہ ساری دنیا پرتسلط قائم رکھنے کے لئے اقتصادی، اجتماعی اورسیاسی میدان میںجونظام وضع کیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اسلام کے خلاف ایک خطرناک سازش ہے بلکہ عقائد واخلاقیات کے تصور کوذہنوں سے مٹانے اورزندگی کی سرگرمیوں سے ان کو الگ تھلگ کرنے کی ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے۔اسلامی فلسفۂ حیات کوبدل کرمغرب کی مادی یہودی فکرکوغالب کرنے کی یہ ایک زبردست اسکیم ہے تاکہ امت مسلمہ کے افراد پوری طرح مغرب کے مادی لباس کواختیار کرلیں اورعقیدہ وعمل سے عملی طورپردست بردارہوجائیں اورہمارا وہ امتیازی منصب جوخیرامت کی حیثیت سے ہم کوعطاکیاگیاہے وہ ہمیشہ کے لئے ہم سے رخصت ہوجائے۔
یہ فتنے جوہرطرف اُٹھ رہے ہیں
وہی بیٹھا بیٹھا شرارت کرے ہے
(کلیم عاجزؔ)
گلوبلائزیشن کے معنی:
گلوبلائزیشن کاایک مطلب یہ ہے کہ سازوساما ن اورعملی وثقافتی افکاروخیالات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیرکسی شرط اورقید کے منتقل کرنایاہونا۔ اس لفظ کاسب سے پہلے استعمال امریکہ میںمالی وتجارتی نظام اوراقتصادی ڈھانچے کے لئے ہوا۔پھراس میںوسعت آتی گئی اوراب ہرچیز کوعالمی آئینہ میںدیکھاجانے گا۔ ثقافت ،تہذیب وتمدن،زبان وادب ،معاشی نظام، اخلاقیات اورتعلیمی نظام تک کو عالمی پیمانے پرناپاجانے لگا اوراب اسی کوایک ’’نیاعالمی نظام‘‘ نیوورلڈآرڈر اورگلوبلائزیشن سے تعبیرکیاجارہاہے۔
گلوبلائزیشن سامراجیت کانیاچہرہ:
تاریخ گواہ ہے کہ جوبھی قومیں سرمایہ داری میںسب سے آگے نظرآتی ہیں، انہوںنے ہردورمیں اپنے آپ کوفراعنہ ثابت کرنے کی کوشش کی اورضعیف وکمزور قوموں کونگل جانے کے منصوبے بناتی رہی ہیں۔ موجودہ گلوبلائزیشن کچھ ایسے ہی مقاصد کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے۔ مثلاً:
۱۔ دنیاکے مختلف نظام ہائے حکومت کوامریکی طرز حکومت اورطرزجمہوریت پرڈھالنا ۔
۲۔ دنیاسے تمام نظام ہائے معیشت کو ختم کرکے امریکی نظام ہائے معیشت کورواج دینا۔
۳۔ دنیاکے تمام نظام ہائے اتصالات ومواصلات کوامریکی نظام ہائے اتصالات ومواصلات سے ہم آہنگ کرنااورپابندکرنا ۔
۴۔ پوری دنیا کی مختلف رنگارنگ تہذیبوں اورثقافتوں کومٹاکر امریکی تہذیب وکلچر کوفروٖغ دینایاکم ازکم ان پرامریکی ثقافت کارنگ چڑھانا۔ گلوبلائزیشن کے مقاصد بظاہریہی نظرآتے ہیں ۔
جب بھی یوریی اورامریکی دماغ کسی چیز کوتیارکرناہے تواس کے پیش نظرسب سے پہلے اسلامی ثقافت،اسلامی دنیاہوتی ہے۔اس لئے کہ دنیابھرمیںاس کے چلینج کاجواب صرف ایک ہی ثقافت ،ایک ہی تہذیب اورایک ہی نظام کے پاس پایاجاتاہے اوروہ اسلامی تہذیب،اسلامی ثقافت اوراسلامی نظام ہی ہے۔
اصلی مقاصد
۱۔ قومیت اورنیشنلزم کی افیون دے کراسلامی وحدت اوریکتائی کوپاش پاش کرنا۔
۲۔ خدافراموشانہ صوفیت ،دہریت ،باطنیت اور وثنیت کے ذریعے توحید کی نفی کرنا۔
۳۔ نظریہ ڈارونؔفلسفہ ارتقاء اورمادی فلسفہ (Materialism) کے ذریعے اسلامی ثقافت اوراسلامی تشخص کوملیامیٹ کرنا ۔
۴۔ عقلیات کی دعوت دے کراسلامی شریعت کے مفہوم کو ہی بد ل ڈالنا۔
۵۔ وحدت ادیان کاپروپگنڈہ کرکے اسلامی شریعت کے مفہوم کوہی بدل ڈالنا۔
۶۔ تمام اسلامی دنیاکوتابع فرمان اورزیرنگین بنانا۔
۷۔عالم اسلام کے حکمرانوں اورصاحب اقتدار لوگوں کے درمیان انتشار واختلاف کوبرقرار رکھنا اوراس کوہوادیتے رہنا۔
۸۔ عالم اسلام میں رائج اسلامی اقداراور ملی روایات کوپامال کرنا اوران کے معانی ومفاہیم کوبدل ڈالنا ۔
۹۔ تحریک آزادیٔ نسواں کاشوروغوغاکرکے مسلم معاشرے میںعورتوںکے احساسات وجذبات کواُبھارکران کے حجاب کوتارتارکرنا۔
۱۰۔ہر جگہ اُٹھتی ہوئی اسلامی تحریک اوربڑھتی ہوئی اسلامی بیداری کومختلف حیلوں سے کچل دینا۔
۱۱ ۔ اسلامی اقتصادیات کویہودی سود خوروں کے شکنجوں میںکس دینا۔
۱۲۔ اسلام دشمن تحریکوںکو تحفظ دینااور ان کے ذریعہ ملت اسلامیہ کوٹکڑوں ٹکڑوں میںبا نٹ دینا ۔
۱۳۔ اسلام کے خلاف کھلنے والی ہرزبان کوآفرین کہنااوردریدہ دہن لوگوں کو مثلاًسلمان رشدی وغیرہ کوانسانی حقوق کے تحت تحفظ فراہم کرنا۔
۱۴۔ اسلامی ملکوں میںفتنۂ ارتداد کی مہم چلانا،اس کی بھرپورحمایت کرنااورانسانی حقو ق کے عنوان سے ایسی مہموں کوآزادی دلوانا ؎
کہاںتک لوگے ہم سے انتقام فتح ایوبیؔ
دکھاؤ گئے ہمیں جنگ صلیبی کاسماں کب تک!
(شبلیؔ)
گلوبلائزیشن کااراد ہ ہے کہ ہمارے جسموں سے ہماری کھالوں کواُتار کر ہماراتشخص اورہماری پہچان چھین لے، ہمارے درمیان اپنے اباحیت پسند اورتباہ کن افکارونظریات کورواج دے۔
کیابحیثیت مسلمان ہم ان نظریات کوقبول کرسکتے ہیںیاان کوسننے کے لئے ہمارے کان کھل سکتے ہیں؟ ان کے لئے ہماری آنکھیں اورہمارے دل واہوسکتے ہیں؟ نہیںہرگزنہیں! تواب ہمارافرض بنتاہے کہ ہم ہراس چیزکی تردید اور انکار کریں جو ہمارے نیک ارادوں،ہمارے تہواروں،ہمارے عقائد ، ہمار ی شریعت،ہمارے دین،اخلاق وعادات ،اعلیٰ اقدار، قومی اورملی سرمایہ ،موروثی ثقافت نیزہماری حقیقی مصلحت سے ٹکرائے اورہم اپنے دین وایمان کی حفاظت کریں اورصراط مستقیم پرگامزن ہوجائیں۔
عروج وزوال کا سفردائمی کسی قوم کے ساتھ خاص نہیںہے۔جس قوم نے اصولوںپرچلناسیکھا وہ ترقی سے ہمکنارہوئی اور جس قوم نے اصولوں سے انحراف کیاوہ تنزلی کاشکارہوئی۔فکری وحدت قوموں اورجماعتوں کی زندگی میںمرکزی اور کلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے ۔ قوموں کے عروج وزوال کارازاسی میںپنہاںہے۔ مسلمان جب تک وحدت فکرکے حامل اورتضامنِ افکارکے داعی رہے ترقی ان کے قدم چومتی رہی اورجب ان کے اندرعلاقائیت،قومیت ،نسلی اور لسانی غرور کے جراثیم پیداہونے لگے توان کی ترقی میںیکایک زوال شروع ہوا اورپھردیکھتے ہی دیکھتے دوسری قومیںان پرچڑھ دوڑیں۔
دنیائے یہود اوردنیائے صلیب کی تمام تنظیمیں ،پروگرام،نظریات اوربین الاقوامی ادارے پندرہ صدیوںسے صرف اسلا م کومٹانے کے لئے وجود میںآتے رہے ہیں لیکن اللہ رب العالمین کاوعدہ اپنی جگہ اٹل ہے:
ترجمہ: ’’وہ چاہتے ہیںکہ پھونکوںسے اللہ کے نورکوبجھادیں مگراللہ اتمام نورکرکے رہے گا خواہ کافروں کوکتناہی ناگوارہو‘‘۔ (الصّف)
اب ہم کودیکھناہے کہ آنے والے عظیم طوفان گلوبلائزیشن کامقابلہ ہم کیوں کرسکتے ہیں ؎
اللہ نے بخشی ہے جہانگیری اب ان کو
کہتے ہوئے سب آئے جنہیں امن کے دشمن
(جلیل سازؔ)
Courtesy: Kashmir Uzma Daily Srinagar
|
Search This Blog
Friday, 13 July 2012
گلوبلائزیشن وہی حیلے ہیں پرویزی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment