Search This Blog

Wednesday 25 July 2012

مطلوب ضبط ِ نفس نہ کہ ظا ہر پر ستی

مطلوب ضبط ِ نفس نہ کہ ظا ہر پر ستی
ہمارے روز وشب کار نگ و آ ہنگ بھی بد ل جا تا

 رمضان المبارک کا پُر نور اور عظمت والامہینہ اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ ہم پر ان دنوں سایہ فگن ہے۔یہ اللہ کا کرم ہے کہ ہم سب کو ایک بار پھر اِس مقدس وبا برکت مہینے کی عظمتیں، رفعتیں اور برکتیں نصیب ہو رہی ہیں۔ یہ پُر بہار مہینہ تقویٰ، پرہیز گاری اور تزکیہ نفس حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ اِس ماہ میں اللہ اپنے نیک بندوں پر خاص رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اِس عظیم ماہ میں عبادت کیلئے اجر کے معمول سے کئی گنا زیادہ درجات ملتے ہیں۔ اسی لئے ماہِ رمضا ن کے دوران مسلمان نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی دوڑ میں رہتے ہیں۔ روزوں کی پابندی ،نمازوں اور زکوٰۃکی ادائیگی، صدقات اور خیرات میں اضافہ،دھوکہ دہی سے اجتناب، جھوٹ و فحش گوئی سے پرہیز، نفسِ امارہ کو قابو میں رکھنا وغیرہ…یہ سب اِس پا ک ومعطر ماہ میں مسلمانوں کا معمول رہتا ہے۔ لوگ فرائض کے علاوہ سنتوں اور مستحبات کی ادائیگی میں بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وجہ صاف ہے کہ اِس ماہ کے دوران ربِ کائنات کی جانب سے خاص رحمتوں کا نزول جاری رہتا ہے اور عبادات کے عوض اجرِ عظیم ملتا ہے۔ لوگ اِس ماہ کے دوران زیادہ سے زیادہ مذہبی امورات میں دلچسپی دکھاتے ہیں تاکہ اپنے نامۂ اعمال میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں درج کرائیں۔ رمضان المبارک کے دوران لوگ اپنے معمولات میں کافی حد تک تبدیلیاں لاتے ہیں اور مساجد ، گھروں ، مجالس وغیرہ میں بیٹھ کر دینی معاملات پر بحث و مباحثے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
رمضان کے محترم مہینے کو مسلمانوں کے لئے اخلا قی وروحا نی تربیتی کورس کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اِس مہینے میں لوگ زیادہ تر دینی امورات کی انجام دہی میں مشغول رہتے ہیں اِس لئے ایسے مسلمانوں، جن کو یہ با وقار مہینہ نصیب ہوتا ہے، سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ باقیما ندہ زندگی اُ سی نقشِ قدم پر گزاریں گے جس پر وہ رمضان کے دوران چلتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا دین فقط ثواب کے حصول کا دین ہی نہیں بلکہ یہ دین زندگی گزارنے کے رہنما اصول بھی متعین کرتا ہے۔ مسلمان کی نجی ،سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور کاروباری زندگی اُس کے دین سے کسی بھی طور پر جدا نہیں ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زیست کے ساتھ وابستہ ہر سفر کیلئے موزون اور سیدھاراستہ دکھاتا ہے۔انسان کے وجود میں بشریت کا عنصر شامل ہے جو اُس کو غلط کام کی طرف راغب کر سکتا ہے۔ اسی لئے خالقِ کائنات نے انسان کیلئے یہ سہولیت دستیاب رکھی ہے کہ وہ دن میں پانچ بار اُس کے حضور سر بسجود ہو جا ئے تاکہ اگر کسی غلطی کا ارتکاب ہوا ہو تو اُس پر فوراً نادم ہوسکے۔ یہ رب کی جانب سے ہر فردبشر کیلئے ایک نعمت ہے جو اُس کو اپنے نامہ ٔ اعمال کی درستی میں کام آتی ہے۔اسی طرح ربِ کائنات نے انسان کوماہِ رمضان کی صورت میں ایک اور نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ہے۔ یہ مہینہ ہر سال ایک انسان کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کو تازہ کرے اور اپنی زندگی کے مجموعی معاملات کو درست کرے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عام مسلمان ایک ایسی ’’خوش فہمی‘‘ کاشکار ہے جو خدا نخوستہ جا نے انجا نے بربادی اور خسارے کا سبب بن سکتی ہے۔ عام مسلمان کا یہ خیال ہے کہ رمضان کا مہینہ فقط ثواب کمانے کا ذریعہ ہے ، اِس لئے صرف یہ مہینہ اللہ کی مرضی کے مطابق گزارا جائے اور باقی کے گیارہ مہینے اپنی مرضی کے مطابق۔ یہ کمزور سوچ اور لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ ہم رمضان کے دوران احکام الٰہی بجا لانے کے باوجود سال کے بقیہ ایام اللہ نہ کر ے خرافات میں گزاریں۔ اگر ہم اپنے سماج کی حالت پر ایک نظر دوڑائیں تو ایک بہت کم استثنیٰ کو چھو ڑ کر کم و بیش یہی صورتحال ملتی ہے۔
 مجھے قارئین کرام معاف فر مائیں گے کہ ہماری سماجی زندگی کا طرز عمل رمضان کی تعلیمات سے کوسوں دور ہے۔ ہم اپنے منصبی فرائض کی انجام دہی میں مخلص نہیں رہتے۔ یہاں کے سسٹم میں زیادہ تر رشوت خور اور کام چور ہی ملتے ہیں۔ کسی کا جائز کام نپٹانے کیلئے اُس سے غیر قانونی طور کسی رقم (جسے عرف عام میں چائے یا مٹھائی کہا جاتا ہے) کے مطالبے کو ہی رشوت خوری نہیں کہا جاسکتا، بلکہ کسی کا حق مارنایا مقررہ اجرت کے مقابلے میںکم کام کرنا بھی رشوت خوری کے زمرے میں آتا ہے۔ کئی ایک ملازمین کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اِس مہینے میں کام چوری اور رشوت خوری سے اجتناب کرتے ہیں لیکن رمضان کے وداع ہوتے ہی اپنی پا پی روش کو بحال کرتے ہیں۔ ہمارے کاروباری معاملات میںبھی بد دیانتی کی آلودگی پھیلی ہوئی ہے۔اگرچہ کچھ تاجر حضرات اِس مقدس مہینے کے دوران اپنے کاروبار کو پاکیزہ بنانے کی سعی کرتے ہیں لیکن غیرِ رمضان میں پھر وہی صورتحال دیکھ کر کلیجہ منہ کو آ تا ہے۔ رمضان کے دوران بھی ناجائز منافع خوروں کی کمی نہیں رہتی اور کئی تاجر اسی مہینے کو آمدن بڑھانے کا ذریعہ مانتے ہیں۔اسی طرح ہمارے روزمرہ کے تمام معاملات میں ہم اپنی مرضی سے کام لیتے ہیں جو رمضان کی تعلیمات کے منافی ہوتی ہے۔ ہماری شادیوں کا طریقہ، ہمارے رشتوں کاحال، ہماری خود غرضی کی انتہا، دنیا کی زندگی میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی اندھی دوڑ، اپنے فرضی مقام کی نمائش کر نے کی تمنائیں، نفس پرستی ،رسومات ، نمود و نمائش ، بغض، حسد ، کینہ ،ملال وغیرہ…ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک کے دوران مساجد نمازیوں سے بھری پڑی رہتی ہیں۔تاجر و دکاندار اپنا کاروبار اور ملازمین اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ حال یہ ہوتا ہے کہ مساجد میں جگہ نہیں ملتی۔ لوگ دینی عبادات میں اس قدر دلچسپی لیتے ہیں کہ مساجدمیں بحث چھڑ جاتی ہے اور کبھی کبھی اختلافات بھی پیدا ہوجاتے جو بیشتر اوقات گرم گفتاری کی صورت تک اختیار کرتے ہیں۔ یہ ہے ہماری حقیقت اور غیر رمضان میں زندگی گزارنے کا طریقہ۔ غرض ہم زندگی کے ہر پہلو میں رمضان اور اسلام کی تعلیمات کو یکسر پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اِس طرح ہم نہ صرف اپنی کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہیں بلکہ ماہ ِرمضان کے اصل مقصد اور تعلیمات کی روح کو مجروح کرنے کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔
رمضان میںاحکامات خداوندی بجا لانے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ ِاس مہینے میں ثواب کا کوٹا کما کر ذخیرہ کیا جائے اور پھر اگلے رمضان تک اسی سہارے جیا جائے۔ رمضان میں کثرتِ عبادت کی اصل روح یہ ہے کہ انسان باقی کا سال بھی اسی جذبے کے ساتھ گزارے۔ ہم ماہِ رمضان میں جس طرح اپنے معاملات سدھارتے ہیں ، ہمیں غیر رمضان میں بھی اسی طرح اخلا قی معنیٰ میںاپنی س سجی سنوری زندگی گزارنی چاہئے۔ رمضان المبارک کا پاک مہینہ ہر سال اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتا ہے لیکن ہم ہیں کہ اتنا ظرف اور اتنی وسعت قلبی سے تہی دامن ہیں کہ ان برکات کو اپنے دامن میں سمیٹ سکیں۔ اِس مقدس مہینے کی رحمتیں انتہائی وسیع ہیں لیکن آہ ہم کم نصیب ہیں کہ ان بے پا یا ں رحمتوں کواس قدر سمیٹ نہیں پاتے کہ ہم پر اُن کا اثر سال کے باقی مہینوں میں بھی رہے۔ ہم یاتو خرافات کو رمضان کی برکتوں پر ترجیح دیتے ہیں یا پھر ہمارا ہی دامان طلب اس قدر تنگ ہے کہ ہم رمضان کی برکتیں ان میں جمع ہی نہیں کر پاتے۔ہمیں چاہئے کہ جب تک رمضان کا مقدس مہینہ ہمیں نصیب ہوتا رہے، ہم تجدید عہد کرتے رہیں کہ ہم اپنی تمام تر زندگی اُن ہی رہنما اصولوں کے مطابق گزاریں گے جن کا تعین اسلام اور رمضان کا مقدس مہینہ کرتا ہے۔ اِس طرح ہم رمضان المبارک کے تمام تر تقاضے پوراکرنے کے اہل کہلائیں گے اور ہماری زندگی کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہوگی۔
قارئین کرام کالم نویس کے ساتھ ا س پتہ پر رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔
syedmmubashir@gmail.com

No comments:

Post a Comment