Search This Blog

Friday, 13 July 2012

اراکانی مسلمانوں کا قتل عام Massacre of Burmese Muslims

اراکانی مسلمانوں کا قتل عام

- ڈاکٹر ساجد خاکوانی

ایک اخباری اطلاع کے مطابق جون 2012ء میں برما کے وسطی علاقہ میں دس مسلمانوں کے ظالمانہ قتل کے خلاف جب مسلمانوں نے اپنے اکثریتی صوبے میں احتجاج کیا تو برما کی پولیس نے مسلمانوں پر اندھادھند فائرنگ کردی جس سے ہزاروں مظاہرین موقع پر ہی جاں بحق اور بے شمار زخمی ہوئے۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ’’ٹونگوپ‘‘ نامی شہر میں3 جون کو مسلمانوں کی بس پر بدھوں نے حملہ کیا جو نماز پڑھ کر واپس آرہے تھے، اور بعض اطلاعات کے مطابق بدھوں نے پرانا کوئی حساب چکانے کے لیے مذہبی عصبیت کی بنیاد پر بس کے مسافروں کو اس بے دردی سے زدوکوب کیا کہ دس مسلمان شہید ہوگئے۔ ردعمل میں مسلمانوں نے 8 جون کو ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا جس میں بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مقامی انتظامیہ سے آنکھ مچولی بھی ہوئی۔ معاملات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بجائے 10جون کو ریاست کے صدر کی طرف سے مسلمانوں کے علاقے شمالی اراکان میں زبردست قسم کی ہنگامی حالت نافذکرکے عسکری اداروں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ کسی قسم کی تحقیقات و دستاویزی ثبوت کے بغیر مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کریں۔ عسکری اداروں نے پوری بدمعاشی کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں پر دھاوا بولا، خوب پکڑ دھکڑ اور بازاروں میں لوٹ مار کے بعد عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سمیت پوری آبادی کو زدوکوب اور ماردھاڑ کا نشانہ بنایا۔ عینی شاہدین کے بیان کے مطابق ٹرکوں میں مسلمانوں کو بھربھر کر نامعلوم مقام کی طرف لے جایا گیا اور اب تک ان کا کوئی پتا نہیں۔ یہ ساری گرفتاریاں اور ماردھاڑ بغیر کسی قانونی کارروائی کے عمل میں آئی اور بعض آزاد ذرائع کی طرف سے ہزاروں افراد کے قتل اور بعض مقامات پر مسلمانوں کے زندہ نذرِآتش کرنے کی خبریں بھی آئیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں کسی بین الاقوامی ادارے کے صحافی کو جانے کی اجازت نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک ہزاروں مسلمان لاپتا ہیں اور اس تعداد میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ حالات کے مارے لٹے پٹے مسلمانوں نے جب ہزاروں کی تعداد میں بنگلہ دیش کی طرف رخ کیا تو وہاں کی ’’سیکولر‘‘ قیادت نے ان ’’انسانوں‘‘کو قبول کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ سیکولرازم صرف ان کو انسان مانتا ہے جو مغربی تہذیب کی گنگاجمنا میں نہائے ہوئے ہوں۔ فرزندانِ توحید، عاشقانِ مصطفی، غلامانِ اہلِ بیت اورداڑھی، ٹوپی، پگڑی اور مقامی لباسوں میں ملبوس لوگ سیکولرازم کے نزدیک انسان نہیں ہیں بلکہ یہ تو ان کے جانوروں کے برابر بھی ’’انسانی حقوق‘‘ نہیں رکھتے۔ پس اب تک وہاں مہاجرین کے خیموں کی لمبی لمبی بستیاں قائم ہوچکی ہیں جنہیں کوئی ریاست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، صرف اس لیے کہ وہ کلمہ گو ہیں۔ برما کے مسلمانوں پر یہ کوئی نیا شب خون نہیں ہے، یہاں کے مسلمان گزشتہ کئی نسلوں سے اپنی بقا کی سیاسی و نیم عسکری جنگ لڑرہے ہیں۔ 1050ء میں ’’بیاط وائی‘‘ نامی مسلمان سردار کا ذکر ملتا ہے جسے ’’مان‘‘خاندان کے بادشاہ نے اس لیے قتل کردیا تھاکہ وہ قوت جمع کررہا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن… سامراج کے جہاز کرۂ ارض کے سمندروں پر قابض رہیں اور ان کی ظالم افواج باراتوں اور جنازوں پر بمباری کرتی رہیں تو بھی وہ امنِ عالم کے ٹھیکیدار ہیں، جبکہ مسلمان اپنے گھر میں دفاعی جنگ لڑے تو بھی دہشت گرد اور عسکریت پسند ہے۔ برما کے مشہور تاریخی ہیرو بادشاہ ’’کیان سیتھا‘‘ نے اپنے وقت کے مسلمان سردار ’’رحمان خان‘‘ کو سیاسی و مذہبی اختلافات کی بنیاد پر قتل کرادیا تھا، اور اس مسلمان کے قتل کے لیے اس بادشاہ نے جلاد کو خصوصاً اپنی ذاتی تلوار دی تھی۔ 1652ء میں ہندوستان کے بادشاہ شہنشاہ خرم شاہجہاںکے دوسرے بیٹے شاہ شجاع کو اس کی بدقسمتی برما لے گئی، اس نے وہاں سے نکلنے کے لیے بھاری رقم برما کے بادشاہ ’’سانٹھا سدھاما‘‘ کو پیش کی اور کہاکہ اس رقم کے عوض اسے ایک بحری جہاز دے دیا جائے تاکہ وہ حج پر جاسکے، برما کے لالچی بادشاہ نے آدابِ سفارت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستانی شہزادے کو قتل کردیا، اس کی دولت پر قبضہ کرلیا اور اس کی عورتوں کو پس زنداں ڈال دیا جہاں وہ بھوک پیاس سے ہلاک ہوگئیں۔ اس ظالمانہ اقدام کے خلاف جب برما کے مسلمانوں نے بے چینی کا اظہارکیا تو ہر داڑھی والے کو مسلمان سمجھ کر تہہ تیغ کردیا گیا، جو بچ گئے وہ مجبوراً ہجرت کرکے ہندوستان آگئے۔ 1589ء میں برمی بادشاہ ’’بے انٹاؤنگ‘‘ نے ریاست کے بچے کھچے مسلمانوں کو زبردستی بدھ مذہب میں شامل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن پھر بھی کچھ مسلمان استقامت پذیر رہے اور انہوں نے برما میں شمع ایمان روشن رکھی۔ 1760ء میں ’’النگ پایا‘‘ نامی برمی بادشاہ نے ذبیحے پر پابندی لگاکر مسلمانوں کو حلال گوشت سے محروم کردیا۔ 1819ء میں برمی بادشاہ ’’بداوپایا‘‘ نے چار علمائے دین کو خنزیرکا گوشت کھانے پر مجبور کیا، انکار پر اس ظالم بادشاہ نے چاروں کو قتل کرادیا۔ مشہور ہے کہ ان ائمہ اربعہ کی شہادت کے بعد سات دن تک برما میں مکمل اندھیرا رہا جس کے باعث بادشاہ نے توبہ اور ندامت کا اظہارکیا تب اجالا نمودار ہوا۔ برطانوی دور حکومت میں 1921ء کے سروے کے مطابق برما میں نصف ملین سے زائد مسلمان آباد تھے لیکن انگریز کی ’’سیکولر جمہوریت‘‘ ہندوستان کی طرح وہاں بھی غیر مسلموں پر ہی مہربان رہی۔1945ء میں برما مسلم کانگریس (BMC) بنی، عبدالرزاق اس کے صدر منتخب ہوئے جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی بدھوں کی مذہبی کتاب کی قدیمی زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ مسلمانوں نے اس پلیٹ فارم سے برما کی آزادی میں بھی بھرپور کردار اداکیا لیکن آزادی کے بعد 1955میں مسلمانوں کی اس تنظیم کو ختم کردیا گیا۔ بعد کی حکومتوں نے محسن کش رویہ اختیارکرتے ہوئے برما کو بدھ ریاست قرار دے دیا اور ذبیحے تک پر پابندی لگادی اور حاجیوں کے راستے میں بھی روڑے اٹکائے جانے لگے۔ 1962ء میں ’’جنرل نی ون‘‘ کے دور کاآغاز ہوا جو مسلمانوں کے ابتلا و آزمائش کے ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ فوج سے مسلمانوں کو مکمل طور پر نکال باہر کیا گیا، انہیں جانوروں کا قاتل قرار دیا گیا اور معاشرے میں ان کے لیے’’کالا‘‘ کا لفظ بول کر ان کی معاشرتی تذلیل و تحقیرکی جانے لگی اور مسلمانوں کے لیے اپنی شریعت پر چلنا بھی دشوار تر کردیاگیا۔ افغانستان کے اندر ’’بامیان‘‘ کے مجسموں کے معاملے کے بعد برما میں بدھوں کے بلوے نے مسلمانوں کی مساجد اور کئی بستیاں نذر آتش کیں اور قتل و غارت گری کا بازارگرم کیے رکھا، حالانکہ اگر بامیان کا معاملہ غلط بھی تھا تو برما کے مسلمان تو اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔ اس بہت بڑے سانحے کے بعد بعض مسلمان نوجوانوں نے ریاست سے ٹکرانے کا عندیہ بھی ظاہر کیا کہ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘کے مصداق یہ ایک فطری معاملہ تھا، لیکن مسلمانوں کی بیدار مغز قیادت نے انہیں اس امر سے باز رکھا۔ 16مارچ 1997ء کو بدھوں کا ایک بہت بڑا گروہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور مسلمانوں کی مسجد کو آگ لگادی، اس کے بعد مسلمانوں کی مقدس کتب کو جمع کرکے نذرآتش کیا، پھر مسلمانوں کی املاک اور دکانوں میں لوٹ مار کی، کئی لوگوں کو قتل کیا اور بے شمار لوگ زخمی بھی ہوئے۔ اس سارے عمل میں ریاست تماشائی بنی رہی۔15مئی 2001ء کو ایک بار پھر بدھوں نے مسلمانوں کی گیارہ مساجد مسمار کیں، چار سو سے زائد گھروں کو آگ لگادی اور دوسو افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا جن میں سے بیس افراد وہ تھے جو مسجد میں نماز ادا کررہے تھے، انہیں اس قدر پیٹاگیاکہ وہ جان کی بازی ہار گئے۔ بدھوں کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کردیا جائے جسے حکومت نے تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مان لیا اور متعدد مساجد زمین بوس کردی گئیں اور بعض کو مقفل کردیا گیا۔ مسلمان اپنے گھروں پر عبادت کے لیے مجبور کیے گئے اور بعض نے ہجرت کرلی۔ اب تک لاکھوں برمی مسلمان ہجرت کرکے بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی سرحدوں پر خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔2009ء میں تھائی لینڈ کی فوج نے برمی مسلمان مہاجرین کو بے دردی سے مارا پیٹا اور پھر انہیں کشتیوں میں بٹھاکرکھلے سمندر میں دھکیل دیا جہاں بے رحم موجیں ان مسلمانوں کو نگل گئیں اور مشرق سے مغرب تک پوری دنیا خاموش رہی۔ اس دوران حکومت ِبرما اور بین الاقوامی اداروں کے بہت سے وعدے، مذاکرات، بیانات، رپورٹس، قراردادیں اور سروے مگرمچھ کے آنسوؤںسے زیادہ ثابت نہ ہوئے جس کی تفصیل کے لیے ایک علیحدہ دفتر درکار ہے۔ برمی مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ امتِ محمدیہ کا حصہ ہیں۔ اگر وہ عیسائی یا یہودی ہوتے یا کم از کم گوری رنگت کے ہی حامل ہوتے تو پوری دنیا کا میڈیاآسمان سر پر اٹھا لیتا، نیٹوکی افواج امنِ عالم کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پہنچ جاتیں، امریکی قیادت کے دورے ہی ختم نہ ہوتے، یورپی یونین فوراً سے پیشتر پابندیاں عائد کردیتی، ادارہ اقوام متحدہ حقوقِ انسانی کی پامالی پر قراردادیں منظور کرتا ہوا اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا، عرب شیوخ اتنی بڑی بڑی رقوم کے چیک پیش کرتے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں، عالمی اداروں کے نمائندے اپنے کارندوں کے ہمراہ مظلومین کے ایک ایک فرد کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویریں بنواتے، اور وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی این جی اوز ان کے حالات پر دستاویزی فلمیں اور ڈرامے بناکر عالمی ایوارڈ حاصل کرچکی ہوتیں، اور مسلمانوں کے حکمران ان کے غم میں ہلکان ہوچکے ہوتے۔ افسوس ہے ان سیکولرازم کے پیروکاروں پر جن کا قبلہ مغرب، جن کا خدا پیٹ اور جن کا مذہب پیٹ سے نیچے کی خواہش ہے۔ انہیں مملکت ِخداداد پاکستان کے کسی دور دراز گاؤں میں پٹتی ہوئی عورت تو نظر آتی ہے لیکن نسلوں سے خون میں نہاتے ہوئے، جمہوریت کے اس دور میں حقِ خودارادیت ومذہبی آزادی تک کے حق سے محروم برمی مسلمان نظر نہیں آتے۔ لیکن آخر کب تک…! ظلم کی رات کتنی ہی تاریک ہو، آخر اسے ختم ہونا ہے۔ پوری دنیا پر یورپ کی غلامی کے بعد آزادی کا سورج طلوع ہوا لیکن برمی مسلمانوں پر انگریزکی غلامی کے بعد اس سے بدتر غلامی مسلط کردی گئی، اور سیکولرازم کی لگی اندھی عینک سے دنیا کی قیادت کو صرف وہی نظر آتا ہے جو امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں ’’عالمی برادری‘‘کے نام پر ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سجھادیتی ہیں۔ امتِ مسلمہ کی عملی جدوجہد کے باعث گزشتہ صدی ہٹلر اور سرخ سویرے جیسے ہاتھیوں کو نگل گئی اور اِس صدی کا سورج امریکہ کے زوال کی خوشخبری لے کر طلوع ہوا ہے۔ سامراج اپنے استعماری نعروں سمیت غرقاب ہوگا اور پسِ دیوارِ افق فاران کی چوٹیوں سے پھوٹنے والی روشنی ایک بار پھر عالمِ انسانیت کو اپنی آسودگی و راحت بھری گود میں بھرلے گی، انشاء اﷲ تعالیٰ۔

No comments:

Post a Comment