Search This Blog

Monday 9 July 2012

منشیا ت کاخا تمہ اصلا ح کے نشتر میں چھپا رازشفاکا

منشیا ت کاخا تمہ
اصلا ح کے نشتر میں چھپا رازشفاکا

سورۃ مائدہ میں اﷲ فرماتا ہے :شراب ، جوا،بُت اور پانسے کے تیر سب ناپاک اور شیطانی کام ہیں۔خمرشراب کے معنی میں آیا ہے ۔خمر کا لغوی معنی ڈھانپنا ہے ۔اسی سے خِمار بمعنی اوڑھنی مراد ہے۔ اوڑھنی یعنی دوپٹہ جس سے چہرہ وغیرہ ڈھانپا جاسکے ،شراب کو خمر اِس لئے کہتے ہیں کہ یہ عقل و حواس پر پردہ ڈال کر اُسے زائل کر دیتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے حرام ہے۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس مشروب سے عقل میں فتور آئے وہ خمر (شراب) ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر)

 حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ خمر سے مُراد ہر وہ چیز ہے جو عقل  میں فتور پیدا کرے ۔غور کیا جائے تو ہر وہ چیز جو نشہ پیدا کرے اور عقل کو بہکا دے تو علما ئے کرام کے مطا بق وہ خمر کے زمرے میں آجاتی ہے۔ اَدویات میں Codeine Phosphateچھاتی کے مرض کی اہم دوائی ہے، اسی طرح بے خوابی اور ڈِپریشن سے دو چار مریضوں کو ڈاکٹر صاحبانChlonazepam, Alprozolanm وغیرہ کی دوائیا لینے کی صلاح دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان کی صلاح پر یہ دوائیاں استعمال کی جائیں تو یہ اِن کا جائز اِستعمال ہے لیکن یہی دوائیاں اگر ڈاکٹر صاحبان کی صلاح کے بغیر اتنی مقدار میں استعمال کی جائیں جو حد نشہ کو پہنچا ئے کہ آدمی اپنی عقل اور ہوش کو کھو بیٹھے تو پھر ان دوائیوں کی اتنی مقدار خمر (شراب) کے زمرے میں آجاتی ہے جس کی حرمت کا حکم اوپر کی آیت میں آیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ آپ صلعم نے فرمایا ’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے‘‘(مسلم کتاب الاشربہ) لہٰذا جو چیز نشہ کے حد کو پہنچے یا نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے۔ غرض اسلام نے ہر قسم کی شراب نو شی اور نشہ آور چیزیں حرام قرار دیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام نے شراب اور نشہ آور چیزوں مثلاً ڈرگس،افیون،چرس ‘ شراب، فِکی ‘ ہیروئن، برائون شوگر وغیرہ یہ سب شراب اور نشہ آور چیزوں کے قبیل سے تعلق کی بنا پر قطعاً حرام ہیں۔اسلام نے نہ صرف نشہ آور چیزوں کا استعمالبلکہ ان کا کاروبار بھی ممنوع قرار دیا ہے۔لوگ ان نشیلی اَدویات کا غلط استعمال کیوں کرتے ہیں؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جو داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی۔ میرے خیال میں سماج کے اکثر لوگ ان وجوہات سے وا قف ہیں۔ یہاں ان وجوہات کا ذکر چھیڑنا موضوع کے طول کا سبب بن سکتا ہے۔ کچھ لوگ غیر شعوری طور پر اپنے گوناگوں مشکلات سے نجات پانے کیلئے نشیلی ادویات کا استعمال کرتے ہیں لیکن انہیں کیا پتہ کہ مشکلات سے نجات پانے کے بجائے وہ اپنے آپ کو مزید مشکلات  کے جا ل میں اس طرح پھنسا رہے ہیں کہ پھراُن کے لئے ان سے نجات پانا محال بن جا تا ہے۔ نشیلی ادویات جیسی خطرناک جانی دشمن سے چھٹکارا پانا بھی ان لوگوں کیلئے سب سے بڑا چلینج بن جاتا ہے۔ اس چلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے ایسے افراد کو سماج کے ہر فرد کا بہرحال تعاون ضرور چاہیئے۔ کچھ لوگ اپنی تھکان اور بے چینی دور کرنے کیلئے غیر شعوری طور پر نشیلی ادویات کا سہارا لیتے ہیں لیکن انہیں کیا پتہ کہ اِس سے نہ صرف ان کی زندگی اجیرن بن سکتی ہے بلکہ ان سے جُڑے بہت سارے لوگوں کی زندگی بھی اجیرن بن سکتی ہے۔ سماج میں منشیات کاکاروباراپنے عروج پر ہو تو ایسی قوم ترقی کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی۔ یہ قوم مُردہ قوم کہلاتی ہے کیو نکہ اس میں بھلے اور برے میں تمیز کرنے کی اہلیت سلب ہوتی ہے۔ہما رے یہا ںایسی اخلا قی برائیوں میں لَت پت ہونے کا اہم سبب یہی ہے کہ آج کا مسلمان اِسلام سے کوسوں دور ہے۔آج بھی اگر اِنسان اسلام کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں لائے تو ایک صالح  معاشرہ وجود میں لانے کی ضمانت برابر مو جود ہے۔

جب ہم حضرت محمد ؐکی نبوت سے قبل کے حالات کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو طرح طرح کی بُرائیوں کو عرب میں دیکھتے ہیں جو انسانی اقدار کے بالکل منافی تھیں۔ عرب سماج میں ہر سُو اخلاقی پستی کا مظاہرہ ہورہا تھا۔ یہاں تک کہ بیٹی کو  زندہ در گورکیا کرتا تھا۔ آپسی دشمنی، بغض، حسد، کینہ، شرارت، تعصُّب، لالچ، حرص،  ہَوس، تکبّر، ریا، جوا بازی، شراب، بے راہ روی، بے حیائی، فضول خرچی، خدا بیزاری، مادہ پرستی، زَر پرستی، زَن پرستی، بُت پرستی،جھوٹ ، عیاشی وفحا شی، خود غرضی، نا انصافی، مفاد پرستی، نسلی امتیاز جیسی اخلاق سوز اور انسانیت سوز برائیاں اور بیماریاں عام تھیں۔ ٹھیک یہی بُرائیاں اور بیماریاں آج کے ہمارے سماج میں بھی پائی جاتی ہیں۔ عرب کے اُس بگڑ ے سماج میں جہاں تقریباً گھر گھر میں شراب پینا روز مرّہ کا معمول تھا اور جہاں معاشرہ اور شراب کی حیثیت چولی دامن کا ساتھ رکھتی تھی ، اُسی سماج میں اچانک یہ ساری بُرائیاں کیسے ختم ہوگئیں؟ جواب یہی ہے کہ اس وقت کے عرب سماج نے اسلام کی آواز پر لبیک کہہ کر اِسلام کو اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی جگہ دی۔ خدا بیزاری کو چھوڑ کر انہوں نے اﷲ کے ساتھ تعلق جوڑا اور دن بہ دن اﷲ کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا۔ نتیجتاً ان کے اندر اسلام کا اسپرٹ پیدا ہوا۔ یہی وہ اسپرٹ ہے جس نے ان کو ان ساری بُرائیوںاور بیما ریو ں سے نجات دلائی۔ جو شخص کل تک شراب کا زبردست عادی تھا،اپنی زندگی میں اِسلام لانے کے بعد وہی شخص شراب کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ اس کو ہر قسم کی بُرائی سے نفرت پیدا ہوگئی۔ جس دِن بلکہ جس گھڑی شراب کی حُرمت کا حُکم نازل ہوا اور مئومنوں کو شراب سے دور رہنے کی تلقین کی گئی، تاریخ گواہ ہے کہ ٹھیک اُسی وقت جس کے پاس جتنی شراب موجود تھی ساری کی ساری مدینے کی گلی کوچوں میں بہا دی گئی، جو شخص ممانعت ِنشہ تک پانی کی طرح شراب  میں غرق رہتا تھا یہ حُکم سُنتے ہی وہ اس سے بالکل الگ ہوا جیسا کہ وہ شراب کا عادی ہی نہ تھا۔ اب اگر ہم اپنے سماج میں پھیلی مختلف بُرائیوں پر نظر دوڑائیں تو بالکل وہی برُائیاں اور خرابیاں ہمارے سماج میں بھی پائی جاتی ہیں جو عرب کے جاہلی دَور میں پائی جارہی تھیں۔ البتہ بعض لو گ ہما رے سماج میں آ ج بھی مو جو د ہیں جو ہر طرح کی بر ی عادتو ں اور بد کا ریو ں سے پا ک و مطہر ہیں، لیکن سما ج کا زیا دہ تر حصہ ان بیما ریو ں میں برُ ی طر ح  پھنسا ہو ا ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو اپنی انفرادی زندگی میں اور نہ ہی اجتماعی زندگی میں جگہ دی ہے جبکہ اسلام انسانی زندگی کے ہر گوشہ میں ہمیں بدرجہ اَتم رہنمائی کرتا ہے۔ ہم نے وہ رہنما اصول ترک کئے جن کی تعلیم ہمیں حضورؐ نے دی ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کو بھول گئے جس پر چلنے کی ترغیب ہمیں قرآن دیتا ہے۔

 یہا ںمجھے مصر کے ایک مشہور مفتی محمد عبدہ صاحب کی یہ بات یاد آتی ہے کہ جب وہ۱۹۲۰ء میں یورپین ممالک تشریف لے گئے تو واپس آنے کے بعدانہوںنے    مصرمیں ایک پریس کانفرنس میں فرمایا کہ میں نے یورپین ممالک میں مسلمان تو نہیں دیکھا لیکن میں نے وہاں اسلام دیکھا، جبکہ میں اپنے ملک میں مسلمان ہی مسلمان دیکھتا ہوں لیکن یہاں مجھے اسلام دِکھائی نہیں دیتا ہے۔ مِصر کے مفتی محمد عبدہ کی اس بات پر غور کیا جائے تو یہی حال ہمارے سماج کا ہے ،ہم ما شاء اللہ مسلمان تو ہیں لیکن اسلام کو ہم نے اپنی زندگی میںپوری جگہ نہیں دی۔ بہر صورت سماجی برا ئیو ں اور نشیلی ادویات کی لعنت اور دیگر بُرائیوں اور خرابیوں سے نجات چاہیے تو پھر اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس پُر آشوب دور میں ہم مسلکی منافرت سے با لا تر ہو کراسلام کو اپنی زندگی میں عملا ً جگہ دیں۔ اجتماعی سطح پر سماجی بُرائیوں کا ڈٹ کے مقابلہ کریں اور بصدقِ دِل قرآن و سُنّت کو اپنی زندگی کا معیار تسلیم کر لیں۔ حضور ؐ کے اُسوۃ حسنہ کے مطابق اپنی ساری زندگی گزاریں۔ جب ہی یہ ممکن ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک صالح معاشرہ کی صورت میں وجود میں آئے گا،جس میں ا منشیا ت سے لے کر رشوت تک پھیلی ہو ئی ساری بُرائیوں کا تصور بھی انسانوں کے اَذہان سے مَحو ہوگا۔
 Drug abuse & Illicit Traffickingکا دِن  1988ء سے ہر سال 26جون کو عالمی سطح پر نشیلی ادویات کے نا جائز استعمال اور منشیاتی کاروبار کے خلاف  عالمی دِن  کے طورمنایا جارہا ہے۔ اس دن ہر جگہ سیمناروںاور منشیا ت مخا لف ریلیو ں کا انعقاد کیا جاتاہے تاکہ لوگوں کو ان بُرائیوں کے خطر ناک اور مہلک نتائج سے متعلق آگاہی ہو۔ ان سیمناروں کی کامیابی کا دارومداران کے مثبت نتائج نکلنے پر موقوف ہے۔ اور ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا زمینی سطح پر ہر سال نشہ بازوں کا گراف کم ہوتا جارہا ہے یا زیادہ ؟ یہ ہمارے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اصل میں نشیلی اَدویات کا استعمال اور منشیاتی کاروبار کے خلاف ہماری یہ مہم سال میں صِرف ایک دن تک محدود نہ رہنی چاہیئے بلکہ یہ مہم سال کے ہر دن جاری و ساری رہنی چاہیئے ،جبھی یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ نَشہ بازوں کا  بڑھتا گراف کم ہوتا چلا جائے ۔نشہ باز مختلف قسم کے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں تاکہ وہ مزید نشہ آور چیزیں حاصل کر سکیں۔اِس طرح کے خطر ناک اور بھیانک جرائم کا ارتکاب جب کسی سوسائٹی میں ہورہے ہوں تو وہ غیر محفوظ ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایسا سوچنا عبث ہے کہ کوئی فرد اِس قسم کی سوسائٹی میں ان کے مُضر اثرات سے محفوظ رہ سکے۔ ایسی سوسائٹی ساری کی ساری غیر محفوظ ہے کیونکہ نشیلی ادویات کے ناجائز یا غلط استعمال اور منشیاتی کاروبار جیسی سماجی بُرائیاں اور ان کی وجہ سے سماج کے اندر وجود میں آنے والے بھیانک اور خطر ناک جرائم کے مُضر اثرات سے اِس سماج کے کسی فرد کا محفوظ رہنا نا ممکن ہے۔ اس سماج کا کوئی بھی فر دکسی نہ کسی طرح ان سے ضرور متاثر ہوکر رہے گا۔ لہٰذا ضرورت اِس بات کی ہے کہ انفرادی طور پر سماج کا ہر فرد ہر دن اپنے افرادخانہ کے حالات سے بے حسی اور غفلت برتنے کے بجائے مطلع رہے کہ کہیں اس کے افراد خانہ میں سے کسی سماجی بُرائی میں ملوث تو نہیں ہوا ہے تاکہ ابتداء پر ہی اِس کا تدارک کیا جائے ۔ اجتماعی طور پر بھی ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ محلہ سطح پر، حلقہ سطح پر، تحصیل سطح پر اور ضلع سطح پر بھی صالح تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل منشیا ت مخالف غیر سیا سی اصلاحی کمیٹیاں تشکیل دی جائیںجو عام لوگوں میں سماجی بُرائیوں اور اِن کے مُضر اثرات سے متعلق جانکاری فراہم کر سکیں۔ سماج کے اندر سب سے بڑی ذمہ داری علمائے کرام، مشائخ عظام، ائمہ حضرات، خطبائ، مقررین اور سماجی کارکنا ن کی ہے۔ اگر چہ ان میں سے چند ایک سماجی برائیوں کی نشاندہی اور اُس کے مُضر اثرات سے لوگوں کو بچنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن ا ن میں سے اکثر حضرات خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوئے ہیں گویا ان کے نزدیک یہ کوئی سنگین نوعیت کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ڈرگ ڈیپارٹمنٹ اور پولیس محکمہ پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ منشیاتی کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف موثر تا دیبی کاروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ ان سماجی بُرائیوں سے بچنے کا اصل ،مستقل اور دائمی علاج اسلامی زندگی میں ہی مضمر ہے ورنہ دنیا بھر میں سیمناروں کا انعقاد ہونے کے باوجود نشہ بازوں کا گراف اور منشیاتی کاروبار دن بہ دن نہ بڑھتا جارہا ہے۔ 

courtesy: Kashmiruzma

No comments:

Post a Comment