با پ نے بیٹی کو کن الفا ظ میں رخصتی کا پیغام دیا شاندارمجلس جا ندار نصا ئح
بعد خطبہ مسنونہ
حا ضرینِ مجلس
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کا تہ
آج سے کوئی چار ہزار برس قبل اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی زبردست تخلیقی قوت سے اپنے ایک برگزیدہ بندے اور پیغمبر حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو انتہائی کبر سنی کے عالم میں ایک فرزند عطا فرمایا۔انتہائی پرُ آشوب ادوار سے گزر کرجب یہ فرزندجوانی کے عالم کی طرف قدم بڑھانے لگتا ہے توشفیق والد کو منجا نب اللہ حکم ہوتا ہے کہ اس فرزند کووہ خود بارگاہِ الٰہی میں اپنے ہاتھوں سے ذبح فرمائیں۔نہ باپ کی شفقت ِپدری رُکاوٹ بنی، نہ والدہ نے ہا ہا کار مچائی اور نہ ہی کم سن فرزند نے اس دنیا میں کچھ اور دن گزارنے کی خواہش ظاہر فرمائی۔سبھی متعلقہ اصحاب حکم الٰہی کی تعمیل میں لگ گئے۔ کڑی آزمائش میں سرخ رو ہونے کے بعداللہ نے اس خانوادہ ٔ نبوت ورسالت پر ایسی رحمت عطافرمائی کہ نسل در نسل تمام انبیائے کرام علیہم السلام انہیں میںسے تولد ہوئے۔یہاں تک کہ از آدم ؑتا ابد پیدا ہونے والے اَربوں کھربوں لوگوں میں سب سے زیادہ مکرم و محترم حضرت سیدالمرسلین، محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہی کی اولاد میں سے جلوہ افروز ہوئے۔ الحمد للہ
اس طرح کی آزمائش کا بار سنبھالنا حضرت خلیل اللہ ؑ کاہی خاصہ ہوسکتا تھا۔گوعام انسان ایسی پیغمبرانہ ہمت و قوت سے عاری ہو تے ہیں لیکن رب العالمین تابع فرما ن ہو کرانہیں بھی اپنی لخت جگر بیٹی کو جوانی کی
دہلیز پر قدم رکھتے ہی اپنے سے جداکرکے نکاح کے وسیلے سے ’غیروں‘ کے سپرد کرنا ہوتاہے ۔ایک عرصہ بیت گیا لیکن میرے لئے جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔ مجھے کسی کام کے سلسلے میں سرینگر سے چندی گڈھ جانا پڑا۔ ان دنوںcommunication کے وسائل آج کی طرح لامحدود نہیں تھے کہ جہاز رکتے ہی فوراًاپنے گھر والو ں کوبخیریت اپنی منزل پر پہنچنے کی اطلاع کی جا تی۔بہر حال اسی دن شام کو جب میں نے گھر فون کیا تووالد ۂ مرحومہ نے میر ی تیسری دخترکی ولادت کی خوش خبری سنائی۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے گھر میں بیٹی کے تولد سے غم کا کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹتا تھا، نہ ہی ہم اس ’’حادثے‘ ‘ کی وجہ سے منہ چھپائے ہوئے ادھر ادھر بھٹکتے تھے۔
دھیرے دھیرے یہ بچی اپنے لیل و نہار طے کرتی گئی۔ کبھی ہنسی، کبھی روئی،کبھی روٹھی، کبھی ضد کی،کبھی اس کا دل بہلانے کے لئے ’دیوار سے انڈا برآمد‘کیا،اسے جھولا جھلایا،وہ سکول گئی، کالج گئی ،گھر کا کام کاج سیکھ لیا،والدہ کا ہاتھ بٹانے لگی،والدکا خیال رکھنے لگی۔حکم خدا وارد ہوا، امانت کی سپردگی کا! آج کی یہ مجلس ( نکا ح کی مجلس )اسی انتقالِ امانت کا پیش خیمہ ہے۔
اسلام فرد اور سماج دونوں کی نشو و نما کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ نہ فرد کو اس قدر آزاد اور بے قید چھوڑ دیتا ہے کہ سماج کی بیخ کنی ہوجائے۔نہ سماج کی طرف سے فرد پر ایسی قدغن لگاتا ہے کہ اس کی اصل فطرت ہی مسخ ہوجائے ۔
نکاح کے ذریعہ ایک مرد اور ایک عورت کا ازدواجی رشتے میں بندھ جانا اسلامی سوسائٹی کاسنگ میل ہے۔ یہیں سے ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد پڑجاتی ہے۔اسلام راہبانہ زندگی کا قطعی مخالف ہے کیوں کہ دین فطرت کا مقصدانسان کی فطرت کو صحیح سمت میں پروان چڑھاناہے،اسے کچلنا نہیں ۔اسی طرح مغرب کےFree Love ( ما در پدر آ زاد تہذیب و ثقافت )کے تصور کواسلام سختی کے ساتھ رد کرتا ہے تاکہ انسان اور حیوان میں امتیاز باقی رہے۔
اس مجلس نکا ح کے اختتام کے ساتھ ہی میری آنکھوں کی ٹھنڈک، میری قرۃٔ العین کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوگا۔اب تک کی لڑکی کہلانے والی میری لا ڈلی بیٹی اب عورت کہلائے گی۔اس کے صبح و شام نئے ، اس کے لیل و نہار نئے، اس کا گھر نیا، اس کے متعلقین نئے، اجنبی ماحول میں گزر بسر کرنا ہوگااور جو بھی ٹوٹی پھوٹی صلاحیتیں اللہ کے فضل سے اب تک یہاں پروان چڑھی ہیں، اُن کو اسی نئے گھر میںبروئے کار لانا اس کافرض منصبی بن رہا ہے۔ قوق و فرائض کی ایک نئی فہرست ہوگی جس پر اسے عمل پیرا ہونا ہوگا۔
میری یہ آواز اُن تک پہنچ رہی ہے۔ ( دلہن اس وقت گھراور خا ندان کی دوسری خو اتین کے ساتھ دوسرے کمر ے میںمو جو د تھیںاور خطبۂ نکا ح سماعت کر نے کے لئے ہمہ تن گو ش تھیں) اس لئے اب میں ان سے مخاطب ہوں، اپنی صاحبزادی سے!
میری جان و جگر! ہمارے لئے زندگی گزارنے کا جو کیمیائی نسخہ ہمارے محبوب پیغمبر ؐ نے عطا فرمایا ہے، ہمارا ایمان ہے کہ اس سے بہتر طرزحیا ت اور کہیں سے میسر نہیں ہو سکتا۔ اب غور کرو جب حضرت سرور کائنات ؐنے فرمایا۔’’اگر اللہ کے بغیر کسی اور کو سجدہ کرناجائز ہوتا تو میں اپنی اُمت کی خواتین کو اپنے شوہروں کوسجدہ کرنے کا حکم دیتا ‘‘ تو اس کا مطلب کیا ہوا؟ مکمل تابعداری! یہاں تک کہ شوہر اگر نفلی عبادت سے منع کرے تو بیوی کے لئے تعمیل حکم لازم ہے ۔تمہیں معلوم ہے کہ اسلامی شریعت میں اللہ کے سواکسی اور ذات کو سجدہ کرنا ایک مسلما ن کو دائرۂ اسلام سے خارج کردیتا ہے تو حضور پرنور ؐکا یہ فرمان اصل میں بیوی کو شوہر کی تابعداری کے معاملے میں Superlative degree کی حد تک emphasise کرتا ہے۔
ایک اور حدیث میں حضرت محسن انسانیت ؐ فرماتے ہیں’’یہ دنیا متاعِ قلیل ہے اور اس دنیا کا بہترین متاع وفا شعاربیوی ہے ‘‘ ۔ میں آج تمہیںاس دعا اور آرزو کے ساتھ رخصت کرتا ہوں کہ تم حقیقی معنوں میںبہترین متاع ثابت ہوجانا۔
میں ایک چھوٹی سی مثال کے ذریعہ تمہیں کل سے شروع ہونے والی زندگی کا لائحہ عمل بتادوں۔کسی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام ترصلاحیتوں کو اس ادارے کے بہبود کے لئے بروئے کار لائے۔ ایک دیانت دار آفیسر ہمہ وقت اپنے ڈیپارٹمنٹ کی خدمت میں مگن رہتا ہے لیکن جس دن اس کا تبادلہ کسی دوسرے محکمہ میںہوجاتا ہے تو وہاں join کرتے ہی وہ اب اُس محکمہ کی فلاح وبہبود کے لئے کمر بستہ ہو جاتا ہے جس میں اس کا تبادلہ ہوا ہو۔
اس نکاح کے ذریعہ تمہارا بھی تبادلہ ہوا ہے۔جس قدر تن دہی اور محنت سے آج تک تم اس گھر اور اس گھر کے واسیوں کے لئے کام کیا کرتی تھی، کل سے اس سے بڑھ کر تمہیںاس گھر کی زینت و بہبودی کے لئے کام کرنا ہوگا جس کی بہو بن کر تم یہاں سے جارہی ہو۔
یہ پند و نصائح اور یہ وعظ یک طرفہ نہیں ہیں۔میرے عزیز نوشہ! آپ بھی غور سے سن لیں۔ آپ پر ایک عظیم ذمہ داری آن پڑی ہے۔میں آپ کے علم و عرفان کا معترف ہوں ۔بس یاد دہانی کے طور پر عرض کروں کہ خطبہ نکاح میں حضور ؐ نے جن چیدہ چیدہ آیات کا انتخاب فرمایا ہے ان میں بار بار اتقواللہ، اتقواللہ، اتقواللہ کی تکرار ہے۔اتقواللہ کا مطلب عام طور پر’’ اللہ سے ڈرنا ‘‘کیا جاتا ہے ۔ڈرنا کس سے؟ ڈرنا کیسا؟ اس پہ ذرا غور فرمائیے۔
اس قدر شفیق اللہ کہ والدہ کی محبت اس کے سامنے ہیچ، اس قدر خیر خواہ کہ جہنم کے دہانے پر پہنچے ہوؤں کو واپس کھینچ لیتا ہے۔اس قدر سخی کہ ہمارے جنم سے قبل ہی ہمارے رزق کابھر پور انتظام فرمایا۔سیارگان فلک کو ہمارے تابع کر دیا ہے، کائنات کو مسخر کرنے کی ہم کو صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے اعضا’’اَحسن تقویم ‘‘کے ساتھ فٹ کردئے ہیں کہ ایک ایک عضولاکھوں کروڑوں مالیت کے عوض بھی نہ خریدنے پائیں۔ہے کوئی جو اپنا دماغ دولت کے انبار کے عوض فروخت کرنا چاہے؟ نہیں۔ہرگز نہیں۔تو ایسے اللہ رحمٰن ورحیم سے ڈرنے کا کیا مطلب؟ فی الحقیقت ایسے اللہ کی محبت ہماری تمام محبتوں پر غالب ہونی چاہئے، وہی ہمارا محبوب ہو، وہی ہمارا معشوق ہو اور اس کی عبادت، اطاعت اور تابعداری کا یہ اہتمام ہو کہ ہر قدم اس احتیاط کے ساتھ اُٹھے کہ کہیں میرا محبوب، میری کسی حرکت سے ناراض نہ ہوجائے۔اس بلند و بالا محسن کی ناراضگی سے بچناہی تقویٰ ہے۔ میری دانست میںانگریزی میں God Consciousness کی اصطلاح تقویٰ کے مطلب سے زیادہ قریب تر ہے۔
خطبۂ نکاح میں اتقواللہ کی تکرارکو اسی مفہوم میں سمجھنا ہوگا۔ شریکِ حیات پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے، اس کی کسی معمولی بھُول پر رد عمل میں زیادتی نہ ہو، اس پر جسمانی، نفسیا تی یا ذہنی طور پر اس قدر بوجھ نہ ڈالا جائے جو اس کی طاقت سے، استطاعت سے بعید ہو۔اس کے شب و روز اور صبح و شام کے ملن میں کوئی ایسا واقعہ سرزدنہ ہونے پائے جس سے ہمارا محبوب ، ہمارا خالق اللہ ہم سے ناراض ہوجائے۔
ہر آن اتقواللہ کا وظیفہ ورد زبان ہو، اوراعمال میں اسی کا پرتو جاری و ساری ہو( انشا ء اللہ)۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ بعض حضرات کی جا نب سے قرآن کی کچھ آیات کابے تحاشا استحصال ہوا ہے۔ مثلاً ہر نئی جماعت یا تنظیم کی تاسیس کے موقع پر ’’ اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبو طی سے پکڑو‘‘ کی تلاوت کرتے ہوئے ملت میں ایک اورنئی دراڑ ڈالی جاتی ہے ،اسی طرح ’’الرجال قوامون علی النسا ‘‘والی آیت بھی بے حد استحصال کا شکار ہوئی ہے۔ صنف ِنازک پر ہر دست درازی اور زیادتی کے لئے کچھ احبا ب کی طرف سے اس آیت کی من چا ہی تا ویل کاسہارا لیا جاتا ہے۔ قرآن کی بہترین تفسیراسوہ ٔرسول ؐ ہے ۔ آیئے اسی کے تناظر میں ہم دیکھیں کہ حضورؐکی خانگی اور نجی زندگی کے شعبے میں کیاتعلیمات و احکا مات ہیں!
حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے پوچھا گیا کہ حضور ؐ اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟
آپ ؓنے فرمایا ’’گھر کی صفائی کیا کرتے تھے، برتن دھوتے تھے، دیگر امورِ خانہ میں ہاتھ بٹاتے تھے، لیکن جب نماز کا وقت ہو جاتا توفوراً نمازکو دوڑ پڑتے۔‘‘
وہی ام المو منین حضرت عایشہؓ ایک بار گھڑ دوڑ کا نظارہ کرنا چاہتی ہیں تو حضور پر نور ؐ خود اپنے دست مبا رک سے چادر کھینچتے ہیں تاکہ اس کی اوٹ میں حضرت عائشہؓ اس تماشے سے محظوظ ہو جائیں۔
غار حرا کی خلوتوں میںجب ’اقر اء ‘ کی صدا حضو رؐ نے سنی اوربار نبوت سے سرفراز ہوئے تو پسینے میں شرابور، خاتم النبیین ؐاپنے کسی رفیق یاکسی دوست کے پاس نہیں جاتے بلکہ سیدھے اپنی زوجہ محترمہ ام المو منین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓسے اس کا ذکر کرتے ہیں۔اور جب اس عالم سے رخصت ہونے کا وقت آیا تو یہ شرف زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کو ہی ملاکہ سرور کائنات کا سرِ مبارک انہیں کے جسم اطہر پر آرام فرما ہوا۔ یہ ہے مودت و محبت کی معراج جو نکاح مسنونہ، صا حب ایما ن زن و مرد کو عطا فرماتا ہے۔
خود سرور کائنات صلعم فرماتے ہیں ’’ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے عیال کے لئے بہتر ہو۔ اور اپنے عیال کے لئے سب سے بہتر میں ہوں‘‘۔ہدایت ربانی کے تحت ایک بار حضور ؐ اپنی ازواج کے سامنے تجویز رکھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی عقد ازدواج سے جدا ہونا چاہے، تو ان کی یہ گزارش قبول فرمائی جائے گی لیکن ازواجِ مطہرات نے خود اس شفقت و محبت کا مشاہدہ کیا تھا جو رحمتہ اللعالمین ؐکی صحبت میں میسر تھی۔ اس لئے انہوں نے ظاہری عُسر کو ہی متاعِ بے بہا سمجھا اور رسول اللہ ؐ کے حرم مقدس میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔
خطبہ نکاح میں اتقواللہ کے حکم کے ساتھ ایک اور حکم صادر ہوا ہے ’’قولو قولاً سدیدا‘‘۔زبان کا زخم تیر کے زخم سے گہرا ہوتا ہے ۔سفر معراج میں حضور ؐ نے جومشاہدات فرمائے ان میں سے ایک یہ تھا کہ ایک بہت بڑے پتھر میںایک بہت چھوٹا سا سوراخ تھا جس میں سے ایک سانڈھ نکل آتاہے۔یہ سانڈھ پھر واپس اسی سوراخ میں جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اپنی ہر جست میں ناکام ہوجاتا ہے۔ حضور ؐ نے حضرت جبرئیل ؑ سے پوچھا کہ یہ کیاماجرا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ زبان سے نکلے ہوئے اُس قولِ بد کی مانند ہے جسے بول کر انسان پچھتاتا ہے اورکوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے الفاظ واپس لے لے لیکن زبان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہیں مڑتا۔
تین سو پینسٹھ دن اور چوبیس گھنٹے کا ساتھ! بشری تقا ضو ں کے تحت کبھی کبھار کسی چھوٹے بڑے معاملے میں ناگواری خلافِ فطرت نہیں ہے لیکن ایسے مواقع پر جس نے اپنے جذبات، احساسات اورزبان پر قابو رکھا اس کے لئے انعام ہے۔’’بڑی کا میا بی کی بشارت‘‘ !
چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوٹا ہی رہنے دیں تو اُن کا اثر خود بخود ذائل ہوجاتا ہے۔ ورنہ رائی کا پہاڑ بھی بن سکتا ہے۔ صالح منکوحہ جوڑا حسنات پر نظر رکھتا ہے اور کوتاہیوں سے درگزر کرتا ہے۔
خواتین کے مقام کو قرآن واضح کرتا ہے اور احادیث اس کی تصدیق کرتی ہیں۔سورہ لقمان میں ایک آیت میںاللہ فرماتا ہے۔’’اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھاکر اسے اپنے پیٹ میں رکھا۔اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔‘‘ رسولِ رحمتؐ کی ایک حدیث غالباً اس کی تفسیر ہے۔
ایک صحابی نے عرض کیا۔
’’یا رسول اللہ ؐ ! میرے اوپر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟‘‘
آپ ؐ نے فرمایا۔’’ماں کا‘‘۔ صحابی نے عرض کیا ۔ ’’اس کے بعد؟‘‘
حضور ؐ نے فرمایا۔’’ماں کا‘‘ ۔ صحابی نے تیسری بار عرض کیا۔ ’’اُس کے بعد؟‘‘ سرور کائنات ؐ نے پھر فرمایا۔ ’’ماں کا!‘‘
جسارت کرکے صحابی نے پھر عرض کیا۔’’اس کے بعد؟‘‘
حضور ؐ نے فرمایا۔’’ باپ کا!‘‘
اور ایک معروف حدیث آپ نے سنی ہوگی، یقینا سنی ہوگی کہ سرور کائنات ؐ نے فرمایا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ جس ماں کی اس قدرعظمت کا اعلان قرآن کرتا ہے اور جس کی تصدیق متعدداحادیثِ نبوی ؐ کرتی ہیں، اُس کے بارے میں خوب سمجھ لیں کہ وہ پہلے کسی کی بیوی بنی تب جاکر ماں بنی۔تو ایسی ہستی جس کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت رسولِ اُمی ؐنے دے دی، شوہر کے قدموں تلے روندھی جانے والی چیز نہیں ہو سکتی۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک شوہر کے لئے لازم ہے اور اللہ کے سامنے انتہائی پسندیدہ فعل ہے۔
اپنی مبارک زندگی میں ہمارے پیارے نبی ؐ نے جس سب سے بڑے اجتماع سے خطاب فرمایا ، وہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر ایک لاکھ سے زائد صحابیوں کے سامنے ہوا۔انسانی تاریخ میں عالم انسانیت کو امن و آشتی اور مودت و محبت کا اس قدر عظیم الشان چارٹر اس سے قبل کبھی میسر نہیں ہوا تھا،نہ اس کے بعد اس کا ثانی کوئی پیش کرسکا۔ اس خطبے میں میاں بیوی کے لئے جو ہدایات زبانِ نبوت ؐ سے صادر ہوئیں، اُن کے انگریزی ترجمہ کو آپ کے گوش گزار کرتے ہوئے میں اپنے ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا اختتام کرتا ہوں۔
O people! Fear Allah concerning women. Verily you have taken them on the security of Allah and have made their persons lawful unto you by words of Allah. Verily you have your rights over your wives and they have their's over you. It's incumbant upon them to honor their conjugal rights and not commit acts of impropriety, which if they do, you have the authority to discipline them, yet not severely.
If your wives refrain from impropriety and are faithful to you, cloth and feed them with fairness. Behold, apply the injunctions upon women but kindly. Behold, it's not permissible for a woman to give anything from the wealth of her husband to any one but with his consent.
اللہ کے فضل سے آج کی اس مجلس نکا ح میں ہم نے کوشش کی ہے کہ یہ تقریب حکم الٰہی اور فرمانِ نبوی ؐ کے قریب تر ہو۔میں یہ دعوی ٰ نہیں کرسکتاکہ یہاں سب کچھ شریعت کے مطابق ہورہا ہے لیکن دعا کرتا ہوں کہ ہماری یہ کوشش جو شریعت کے قریب ہونے کی ہے ،اللہ اسے قبول فرمائے۔اس بارے میں ہم سے جو خطائیں سرزد ہوئی ہوں ، اور بھی جو خطائیں جو ہماری زندگی میں ہوئی ہوں، اللہ اُن سے درگزر فرمائے۔اللہ اس رشتے کو مبارک فرمائے۔ دو خاندانوں کے درمیان مودت و محبت عطا فرمائے۔ آمین!
……………
نو ٹ: یہ خطبۂ نکا ح ۱۰ جو ن ۲۰۱۲ ء کی شام کوسر ی نگر میں شادی خا نہ آبا دی کے مو قع پر دولہے میا ں کے اصرار پر خود دلہن کے والد بزرگوار نے دیا۔ مو صوف نے اپنے جگر گو شے کا نکا ح پڑ ھنے سے قبل اپنے تحریر کردہ خطبے میں یہ زریں خیالات با بر کت مجلس میں مو جو د چنیدہ مدعو ین کے سامنے پیش کئے۔ اس مو قع پر اعلیٰ تعلیم یا فتہ دو لہے میا ں نے نماز عشاء کی اما مت فرما کر مجلس کی پا کیزہ رو نقیںدو با لا کیں۔ افادۂ عام کے پیش نظر اس متا ثر کن بیان کو من وعن شائع کیا جا رہا ہے۔ خطبۂ نکا ح کے با رے میں دانستہ طور یہ پہلو پردۂ اخفا میں رکھا گیا کہ خوش نصیب نو بیا ہتا جو ڑا کن گھرا نو ں سے تعلق رکھتا ہے مبادا کہ اس سارے نیک عمل میں دکھا وے کا عنصر داخل ہو۔ البتہ یہ کہنامو زو ں ہو گا کہ ماشاء اللہ شادی کی تقریب اول تا آ خر سادگی کی قابل تقلید مثال تھی۔
|
Search This Blog
Friday, 13 July 2012
با پ نے بیٹی کو کن الفا ظ میں رخصتی کا پیغام دیا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment